• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اسماء و صفات از شیخ عبید اللہ باقی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :31
✍ عبيد الله الباقي
.....................................
توحید الأسماء والصفات كے باب میں فرق ضالہ- جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

¤ توحید الأسماء والصفات کے باب میں کلابیہ، اشاعرہ، اور ماتریدیہ کے بینادی اصول :

▪ دلیل حلول الحوادث
☆ معتزلہ کے اصولوں کی تفصیل گزر چکی ہے، ان ہی میں سے یہ اصل" حلول الحوادث " ماخوذ ہے، مگر معتزلہ اور کلابیہ و متقدمین اشاعرہ کے درمیان فرق یہ ہے کہ معتزلہ کہتے ہیں:" اللہ کی ذات میں نہ اعراض حلول کر سکتے ہیں اور نہ حوادث ".
¤ واضح رہے کہ معتزلہ کے نزدیک اعراض سے مراد صفات ہیں، جبکہ حوداث سے مراد افعال ہیں، اس بنا پر وہ تمام صفات ذاتیہ و صفات فعلیہ کا انکار کرتے ہیں.
جبکہ اشاعرہ نے اعراض و حوادث کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہا ہے کہ:" اللہ کے ساتھ صفات قائم ہوتی ہیں، مگر انہیں اعراض نہیں کہا جائے گا ".
چنانچہ ان کے نزدیک اعراض سے مراد صفات ہیں، مگر حوادث سے مراد وہ تمام امور ہیں جو اللہ کی مشیئت سے متعلق ہیں، اس بنا پر انہوں نے صفات ذاتیہ کو ثابت کیا ہے، مگر صفات فعلیہ کا انکار کیا ہے، جس پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ:" اگر اللہ کے ساتھ صفات فعلیہ قائم ہوں تو اللہ کی ذات محل حوادث قرار پائے گی ......."
(تفصیل کے لئے رجوع کریں:مجموع الفتاوی لابن تیمیہ:6/69، 6/520-525، و درء تعارض العقل و النقل :1/306).

☆ متاخرین اشاعرہ نے صرف سات صفات ( الحياة، العلم، القدرة، الإرادة، السمع، البصر، والكلام ) کو ثابت کیا ہے، جبکہ ماتریدیہ نے ان سات صفات کے ساتھ صفت" التكوين " کا اضافہ کر کے کل آٹھ صفات کو ثابت کیا ہے،کیونکہ ان کے نزدیک صرف ان ہی صفات پر عقل دلالت کرتی ہے (تفصیل کے لئے رجوع کریں:رساة إلى أهل الثغر،ص:121-124، الماتريدية دراسة وتقويم،ص:339، مجموع الفتاوى لابن تيمية:6/358-359).

☆ ان سات صفات کے علاوہ صفات خبریہ میں متاخرین اشاعرہ و ماتریدیہ نے فلاسفہ، جہمیہ، اور معتزلہ کے عقلی اصولوں ( ترکیب، تشبیہ، تعدد قدماء )کا سہارا لیا، اور تاویل یا تفویض کا طریقہ اپناتے ہوئے تمام صفات خبریہ کا انکار کیا.
¤ جہاں تک صفات فعلیہ کی بات ہے تو انہوں نے بھی اپنے اسلاف( کلابیہ ومتقدمین اشاعرہ ) کی اقتداء کرتے ہوئے اسی " دلیل حلول الحوادث " کی بنیاد پر صفات فعلیہ کا انکار کیا(تفصیل کے لئے رجوع کریں:مجموع الفتاوى لابن تيمية:2/113، الصفدية:2/278، منهاج السنة النبوية:3/295، والنفي صفات الله عز وجل بين أهل السنة والجماعة والمعطلة،ص:640-653).

▪ دلیل التجسیم
¤ " دلیل التجسیم " در اصل معتزلہ کی اصل " حدوث الأجسام " سے ماخوذ ہے، اشاعرہ و ماتریدیہ نے اس دلیل کی بنیاد اللہ تعالٰی کی صفات ذاتیہ جیسے: صفت علو، چہرہ، ہاتھ، و پیر وغیرہ کا انکار کیا ہے.
¤ ان کا دعوی ہے کہ یہ صفات یا تو جسم پر دلیل ہیں یا جسم کے خصائص میں سے ہیں، لہذا ان صفات کے اثبات سے اللہ تعالٰی کے لئے جسم لازم آئے گا، اور وہ نہ تو جسم ہے، نہ ہی اس کے ساتھ اجسام کے خصائص قائم ہو سکتے ہیں، بنا بریں انہوں نے صفات سبعہ کو چھوڑ کر تمام صفات ذاتیہ کا انکار کیا ہے (تفصیل کے لئے رجوع کریں:الإرشاد الجويني،ص:150، الاقتصاد في الاعتقاد للغزالي،ص:30، إلجاد العوام عن علم الكلام،ص:54،أساس التقديس للرازي،ص:15، أصول الدين للبزدوي،ص:25-26، والتمهيد للنسفي،ص:19).

(جاری ہے)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مبادئ توحید الأسماء والصفات
قسط :32
✍ عبيد الله الباقي
.....................................
توحید الأسماء والصفات كے باب میں فرق ضالہ- جہمیہ، معتزلہ، اشعریہ، اور ماتریدیہ- کے بنیادی اصول، اور ان کی تردید .

▪ دلیل حلول الحوادث، ودلیل التجسيم کی تردید .
• اشاعرہ و ماتریدیہ کا دعوی ہے کہ اثبات صفات سے اللہ تعالی کے لئے حدوث وجسم لازم آئے گا، جس کی تفصیل گذشتہ قسط (31) میں گزر چکی ہے، یقینا یہ محض ان کا شبہ ہے، جس کا کوئی ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا ہے.
• شبہ" دلیل حلول الحوادث ودليل التجسيم " چند اسباب کی بنا پر باطل ہے:

¤ أولا: دلیل حلول الحوادث کی تردید :
1- دلیل حلول الحوادث کا فکرہ در اصل فلاسفہ سے ماخوذ ہے؛ جن کا اللہ کے بارے میں دعوی ہے کہ" لا يتغير ولا يتحرك "، اسی فکرہ کو اشاعرہ وماتریدیہ نے " حلول الحوادث " کا نام دیا ہے.
یقنیا ان کا یہ دعوی باطل ہے، اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالٰی یا تو جماد ہے یا میت ہے - تعالی اللہ عما يقولون علوا كبيرا -، کیونکہ جماد یا کوئی میت ہی ہوگا جس میں کوئی حرکت نہ ہو، ورنہ ہر جاندار میں حرکت و فعل پایا جاتا ہے.
2- اللہ تعالٰی خالق، مالک، ومدبر ہے؛ اس میں کسی کو شک نہیں، اور خلق، ملک، تدبیر سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل سے افعال صدور ہوتے ہیں، وہ جب چاہتا ہے اپنی مشیئت کے تحت امور کو انجام دیتا ہے، لہذا اس کے افعال و مشیئت سے متعلق امور کو حوداث کا نام دے کر اگر صفات فعلیہ کا انکار کیا جائے تو اس سے اللہ سبحانہ و تعالٰی کے خلق، ملک، وتدبير کی نفی لازم آئے گی، جو صریح کفر ہے.
3- " حدوث تغیر کا نام ہے؛جو ذات الہی کے لئے محال ہے "، اشاعرہ و ماتریدیہ کا یہ دعوٰی باطل کے، بلکہ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ یہ ایک طرح کا الفاظ کے ساتھ کھلواڑ ہے؛ کیونکہ تغیر کا صحیح معنی یہ ہے کہ انسان کی ایک حالت دوسری حالت میں بدل جائے، جیسے:ایک انسان صحیح سالم ہے، وہ بیمار ہو جائے، ایک شخص صالح ونیک ہے، وہ بدکار وبدچلن بن جائے وغیرہ...، مگر کسی نے فجر کی نماز پڑھی، پھر نماز ظہر ادا کی تو اسے نہ تو لغت میں اور نہ ہی شریعت میں تغیر کہا جاتا ہے.
4- حوادث -افعال- کا انکار کرنا بدعت ہے؛ سلف صالحین نے اس کی سخت مخالفت کی ہے.
5- اشاعرہ وماتریدیہ بعض صفات الہیہ کو ثابت کرتے ہیں، اور بعض کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ اثبات صفات کے باب میں تمام صفات کا حکم ایک ہی ہے، چاہے وہ ذاتیہ ہوں یا فعلیہ، بنا بریں " حلول الحوادث " کو دلیل بنا کر صفات فعلیہ کا انکار کرنا شرعا وعقلا باطل ہے.

¤ ثانیا: دلیل التجسیم کی تردید :
1- " دلیل تجسیم " کتاب وسنت سے ثابت نہیں، لہذا اس لفظ کا استعمال اصلا بدعت ہے.
2- " نفی تجسیم " کا فکرہ بھی اصلا فلاسفہ سے ماخوذ ہے، جو اللہ کے بارے کہتے ہیں کہ وہ" عقل "ہے، جس کی کوئی ذات نہیں ہے، وہ محض ایک فکر یا ذہنی تصور ہے، جسے انسان غور و فکر سے حاصل کرتا ہے؛ اسی فلسفی فکرہ کو اشاعرہ وماتریدیہ نے" دلیل التجسیم " کا نام دیا ہے، اور نفی جسم کے لئے ایسا قاعدہ تصور کیا کہ گویا وہ منزل من اللہ ہے.
3- اللہ تعالٰی کے لئے لفظ" جسم " کا استعمال اثباتا ونفیا درست نہیں کیونکہ:
أ- وہ کتاب وسنت میں وارد نہیں.
ب- وہ لفظ مجمل ہے، جس کے اندر صحیح و باطل دونوں معانی کا احتمال ہے، لہذا:
• اگر جسم کا معنی " بدن " لیا جائے، تو اللہ تعالٰی کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں ہو سکتا ہے.
• اگر اس کا معنی وہ شئی ہے ہے؛ جو دوسروں سے مرکب ہو، تو یہ معنی بھی اللہ کے حق میں جائز نہیں ہو سکتا ہے.
• اگر اس کا معنی" موجود یا قائم بنفسہ " لیا جائے، تو یہ معنی صحیح ضرور ہے مگر ذات الہی کے حق میں اسے اس معنی میں استعمال کرنا بدعت ہے.
• اگر جسم مراد: وہ چیز ہے؛ جو ابعاد ثلاثہ (لمبا،چوڑا،اور گہرا) سے متصف ہو، تو یہ معنی بھی اللہ تعالٰی کے حق میں باطل ہے.
• اگر جسم سے مراد: وہ شئی ہے؛ جس کے ساتھ صفات قائم ہوتی ہیں، اور یہی معنی اشاعرہ و ماتریدیہ اور ان کے اسلاف معتزلہ و جہمیہ نے لیا ہے.
لہذا اگر واقعی " جسم " سے مراد: صفات سے متصف ذات ہے؛ تو یقینا اللہ تعالٰی کی ذات ایسی صفات سے متصفت ہے جو اس کے لائق ہیں، جو کسی بھی مخلوق کی صفات کے مماثل و مشابہ نہیں ہیں.
☆ اس تفصیل کی بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ:
أ- مجمل الفاظ کے استعمال کی نفی جائے گی.
ب- اگر کوئی شخص مجمل الفاظ اللہ سبحانہ و تعالی کے لئے ثابت کرتا ہے تو اس سے تفصیل طلب کی جائے گی، جو معنی حق سامنے آئے گا صرف اسے ہی اللہ کے لئے ثابت کیا جائے، ورنہ نہیں.
نوٹ :
توحید الأسماء والصفات کے باب میں یہ آخری قسط ہوگی، اب آگے" توحید الوہیت" کا نیا سلسلہ جلد ہی شروع کیا جائے گا -ان شاء الله-، اللہ تعالی حق کو ثابت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین .
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابھی تک تو نہیں ہیں۔
 
Top