• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بے خبر مسلمانوں کا شرک ..... بزرگانِ دین کی تصریحات

بالکل یہی شرک ان مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جو قبر پرست ہیں اور جن کی وکالت ان کے علماء فرماتے ہیں۔ ذرا بتلایا جائے کہ مشرکین عرب اور موجودہ قبر پرست مسلمانوں کے شرک میں کیا فرق ہے؟ اگر اب بھی کسی کو شک ہو تو ان اکابر علماء کی تصریحات ملاحظہ فرمالیں جن کو وہ بھی قابلِ اعتماد گردانتے ہیں، ان حنفی علماء اور بزرگوں نے بھی وضاحت کی ہے کہ مسلمان جاہل عوام قبروں کے ساتھ جو کچھ کرتے ہیں وہ صریحا مشرکانہ اعمال و اعتقادات ہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ
چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی لکھتے ہیں: "وحیوانات راکہ نذر مشائخ می کنند و برسر قبر ہائے ایشاں رفتہ آں حیوانات ذبح می نمایند در روایات فقیہ ایں عمل را نیز داخل شرک ساختہ اندو دریں باب مبالغہ نمودہ ایں ذبح را از جنس ذبائح جن انگاشتہ اندکہ ممنوع شرعی است و داخل دائرہ شرک" (مکتوب امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب : 41) "اور یہ لوگ بزرگوں کے لئے جو حیوانات (مرغوں، بکروں وغیرہ) کی نذر مانتے ہیں اور پھر ان کی قبروں پر لے جا کر ان کو ذبح کرتے ہیں تو فقہی روایات میں اس فعل کو بھی شرک میں داخل کیا گیا ہے اور فقہاء نے اس باب میں پوری سختی سے کام لیا ہے اور ان قربانیوں کو جنوں (دیوتاؤں اور دیویوں) کی قربانی کے قَبِیل سے ٹھہرایا ہے جو شرعا ممنوع اور داخلِ شرک ہے۔"
اسی مکتوب میں آگے چل کر وہ اُن جاہل مسلمان عورتوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو پیروں اور بیبیوں کو راضی کرنے کی نیت سے ان کے نام کے روزے رکھتی ہیں اور ان روزوں کے تُوسل سے ان پیروں اور بیبیوں سے اپنی حاجتیں طلب کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ وہ ہماری حاجتیں پوری کریں گے۔ ان کے بارے میں حضرت مجدد فرماتے ہیں: ایں شرکت در عبادت است" کہ ان جاہل عورتوں کا یہ عمل شرک فی العبادت ہے۔"
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ:

شاہ ولی اللہ مُحدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اگر در تصویر حال مشرکین و اعمال ایشاں توقف داری احوالِ محترفانِ اہل زمانہ خصوصا آناں کہ بہ اطرافِ دار الاسلام سکونت دارند ملاحظہ کُن کہ ۔۔۔ بہ قبور و آستانہامی روند و انواعِ شرک بہ عمل می آرند۔" (الفوز الکبیر فی اصول التفسیر: 11)
"اگر عرب کے مشرکین کے احوال و اعمال کا صحیح تصور تمہارے لیے مشکل ہو اور اس میں کچھ توقف ہو تو اپنے زمانے کے پیشہ ور عوام خصوصا وہ جو دارالاسلام کے اطراف میں رہتے ہیں ان کا حال دیکھ لو، وہ قبروں، آستانوں اور درگاہوں پر جاتے ہیں اور طرح طرح کے شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔"
اور "حُجۃ اللہ البالغہ" میں شرک کی مختلف شکلیں بیان کر کے لکھتے ہیں:
(وهذا مرض همهور اليهود والنصاري والمشركين وبعض الغلاة من منافقي دين محمد صلي الله عليه وسلم يومنا هذا) (حجة الله البالغة' باب في حقيقة الشرك' ص:61)
"اور شرک کی یہ وہ بیماری ہے جس میں یہود، و نصاریٰ اور مشرکین بالعموم اور ہمارے اس زمانے میں مسلمانوں میں سے بعض غالی منافقین مبتلا ہیں۔"

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سورہ مزمل کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ شان صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے کہ جو اس کو جب اور جہاں سے یاد کرے، اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہو جائے اور یہ شان بھی اسی کی ہے کہ وہ اس بندے کی قوتِ مدرکہ میں آجائے جس کو شریعت کی خاص زبان میں دُنُو ، تدلی اور قرب و نزول کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: "ایں ہر دو صفتِ خاصہ ذاتِ پاک او تعالیٰ است ہیچ مخلوق را حاصل نیست آرے بعض کفرہ در حق بعضے از معبودانِ خود و بعضے پیر پرستان از زمرہ مسلمین در حق پیرانِ خود امر اول را ثابت می کنند و در وقتِ احتیاج بہ ہمیں اعتقاد بآنہا استعانت می نمایند۔" (تفسیر عزیزی پارہ تبارک الذی، سورہ مزمل، صفحہ: 181)
"اور یہ دونوں صفتیں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا خاصہ ہیں، یہ کسی مخلوق کو حاصل نہیں ہیں۔ ہاں بعض کفار اپنے بعض معبودوں اور دیوتاؤں کے بارے میں، اور مسلمانوں میں سے بعض پیر پرست اپنے پیروں کے بارے میں ان میں سے پہلی چیز ثابت کرتے ہیں اور اپنی حاجتوں کے وقت اسی اعتقاد کی بناء پر ان سے مدد چاہتے ہیں اور مدد کے لئے ان کو پکارتے ہیں۔"
اپنے فتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں ہندوستان کے ہندوؤں کے شرک کا حال یوں بیان کر کے آخر میں فرماتے ہیں: "ہمیں است حال فرقہ ہائے بسیار از مسلمین مثلِ تعزیہ سازان و مجاورانِ قبور و جلالیان و مداریان۔" (فتایوی عزیزی: 1/134، طبع مجتبائی دہلی)
"یہی حال ہے بہت سے مسلمان فرقوں کا مثلا تعزیہ بنانے والوں، قبروں کے مجاوروں، جلالیوں اور مداریوں کا۔"
اور اسی فتاویٰ میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: "در بابِ استعانت بہ ارواحِ طیبہ دریں اُمت افراطِ بسیار بہ وقوع آمدہ آنچہ جہال و عوام ایں ہامی کنند وایشاں را در ہر عمل مستقل دانستہ اند بلاشبہ شرک جلی است۔" (حوالہ مذکورہ: 121)
"ارواحِ طیبہ (نیک لوگوں کی روحوں) سے استعانت (مدد طلب کرنے) کے معاملے میں اس اُمت کے جہال و عوام جو کچھ کرتے ہیں اور ہر کام میں بُزرگان دین کو مستقل مختار سمجھتے ہیں۔ یہ بلاشبہ شرک جلی ہے۔"(خلاصہ)
اسی طرح اور بھی کئی بزرگوں نے اس کی صراحتیں کی ہیں کہ قبر پرست مسلمانوں کے اعمال و عقائد صریحا مشرکانہ ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
فقہ حنفی کی صراحت (قبروں پر کیے جانے والے کام حرام ہیں)

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تمام قبر پرست اپنے آپ کو فقہ حنفی کا پیروکار کہتے ہیں حالانکہ فقہ حنفی میں بھی اُن اُمور کو جن کا ارتکاب قبر پرست کرتے ہیں، حرام و باطل اور کفر و شرک بتلایا گیا ہے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب "دُرمختار" میں ہے:
(واعلم ان النذر الذي يقع للاموات من اكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها الي ضرائح الاولياء الكرام تقربا اليهم فهو بالاجماع باطل و حرام ) (الدر المختار: 2/439)
"معلوم ہونا چاہئے کہ اکثر عوام، مُردوں کے نام پر جو نذریں اور نیازیں دیتے ہیں۔ چڑھاوے چڑھاتے ہیں، اولیاء کرام کا تقرب حاصل کرنے کے لئے مالی نذرانے پیش کرتے ہیں اور ان کی قبروں پر چراغ اور تیل جلاتے ہیں، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔"
دُرِ مختار کی مشہور شرح رد المختار (المعروف فتاویٰ شامی) میں اس کی شرح یُوں کی گئی ہے:
(قوله باطل و حرام لوجوه منها انه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لانه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق ومنها ان المنذور له ميت والميت لا يملك ومنها انه ظن ان الميت يتصرف في الامور دون الله تعاليٰ واعرتقاده ذلك كفر) (رد المختار: 2/439)
"اس نذر لغیراللہ کے باطل اور حرام ہونے کے کئی وجوہ ہیں جن میں سے یہ ہے کہ ٭یہ قبروں پر چڑھاوے وغیرہ مخلوق کے نام کی نذریں ہیں اور مخلوق کے نام کی نذر جائز ہی نہیں اس لیے کہ یہ (نذر بھی) عبادت ہے اور عبادت کسی مخلوق کی جائز نہیں۔ ٭اور ایک وجہ یہ ہے کہ منذور لہ (جس کے نام کی نذر دی جاتی ہے) مُردہ ہے اور مُردہ کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ ٭اور ایک وجہ یہ ہے کہ نذر دینے والا شخص مُردوں کے متعلق یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کائنات میں تُصرف کرنے کا اختیار رکھتے ہیں حالانکہ ایسا عقیدہ رکھنا بھی کفر ہے۔"

فتاویٰ عالمگیری کا فتویٰ:
اسی طرح فتاویٰ عالمگیری جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پانچ سو حنفی علماء نے مرتب کیا ہے، اس میں لکھا ہے کہ:
(والنذر الذي يقع من اكثر العوام بان ياتي الي قبر بعض الصلحاء ويرفع ستره قائلا : يا سيدي فلان! ان قضيت حاجتي فلك مني من الذهب مثلا كذا باطل اجماعا)
"اکثر عوام میں یہ رواج ہے کہ وہ کسی نیک آدمی کی قبر پر جا کر نذر مانتے ہیں کہ اے فلاں بزرگ! اگر میری حاجت پوری ہو گئی تو اتنا سونا (یا کوئی اور چیز) تمہاری قبر پر چڑھاؤں گا۔ یہ نذر بالاجماع باطل ہے۔"
پھر لکھا ہے:
(فما يؤخذ من الدراهم ونحوها ويتقل الي ضرائح الاولياء الكرام تقربا اليهم فحرام بالاجماع) (الفتاوي الهندية (المعروف) فتاوي عالمگیری : 1/216' باب الاعتكاف' طبع مصر)
"پس جو دینار و درہم یا اور چیزیں اولیاء کرام کی قبروں پر اُن کا قرب حاصل کرنے (اور ان کو راضی کرنے) کے لئے لی جاتی ہیں وہ بالاجماع حرام ہیں۔"
 
Top