• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تين طلاق كي حقيقت

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
طلاق کو تلاک کہنے والے معذود ہیں کیونکہ ان کا لہجہ ہی ایسا ہے ، کیا آپ کے نزدیک تلاک کہنا بدعت ہے اور اگر بدعت ہے تو اس کے بدعت ہونے کی دلیل نقل فرما دیں۔ایسے بدعت نہیں بنتی اگر ایسے بدعت بنتی تو پھر طلاق کے لیے طلقت کا صیغہ اور قبول کے لیے قبلت کا صیغہ بولنا ہی لازم ہوتا جبکہ فی زمانہ بلکہ ہر زبان میں ان الفاظ کی عربی میں ادائیگی کی بجائے ان کا قریبی ترجمہ ادا کیا جاتا ہے ۔
لیکن ایک وقت میں تین طلاقیں دینے والا معذور نہیں ہے اور اس کے اس عمل کو آپ بھی بدعت مانتے ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
طلاق کو تلاک کہنے والے معذود ہیں کیونکہ ان کا لہجہ ہی ایسا ہے ، کیا آپ کے نزدیک تلاک کہنا بدعت ہے اور اگر بدعت ہے تو اس کے بدعت ہونے کی دلیل نقل فرما دیں۔ایسے بدعت نہیں بنتی اگر ایسے بدعت بنتی تو پھر طلاق کے لیے طلقت کا صیغہ اور قبول کے لیے قبلت کا صیغہ بولنا ہی لازم ہوتا جبکہ فی زمانہ بلکہ ہر زبان میں ان الفاظ کی عربی میں ادائیگی کی بجائے ان کا قریبی ترجمہ ادا کیا جاتا ہے ۔
لیکن ایک وقت میں تین طلاقیں دینے والا معذور نہیں ہے اور اس کے اس عمل کو آپ بھی بدعت مانتے ہیں۔
یہ خط کشیدہ جملے ذراعجیب سے ہیں۔کیاسنت کی مخالفت کرنے والالازمابدعتی ہوتاہے۔یامحض گنہگارہوتاہے۔
کوئی کام بدعت اس وقت ہوتاہے جب اس کو نیک اورثواب کاکام سمجھ کرکیاجائے لیکن اگرکوئی شخص غلط کام کررہاہے اوراس کی غلطی کو وہ بھی جان رہاہے اوراس کوصحیح بھی نہیں ٹھہرارہاہے تو وہ بدعت کیسے ہے۔
مثلانماز نہ پڑھنا،گناہ کبیرہ ہےلیکن بدعت نہیں ہے۔
روزہ نہ رکھناگناہ کبیرہ ہے لیکن بدعت نہیں ہے۔
نمازمیں سنتوں کاترک گناہ ہے لیکن بدعت نہیں ہے۔
اسی طرح اگرکوئی شخص ایک وقت میں تین طلاق دیتاہے تویہ حضورپاک کے ارشاد کے خلاف عمل ہے اس لئے اس کامرتکب عاصی آثم اورخاطی توہوسکتاہے لیکن بدعتی ہو یہ بات ذراہضم نہیں ہورہی ہے۔اگرکسی دلیل کی چورن سے ہضم کرادیں تومہربانی ہوگی۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
اسی طرح اگرکوئی شخص ایک وقت میں تین طلاق دیتاہے تویہ حضورپاک کے ارشاد کے خلاف عمل ہے اس لئے اس کامرتکب عاصی آثم اورخاطی توہوسکتاہے لیکن بدعتی ہو یہ بات ذراہضم نہیں ہورہی ہے۔اگرکسی دلیل کی چورن سے ہضم کرادیں تومہربانی ہوگی۔
ابن ہمام الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
( قَوْلُهُ وَطَلَاقُ الْبِدْعَةِ ) مَا خَالَفَ قِسْمَيْ السُّنَّةِ ، وَذَلِكَ بِإِنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ أَوْ مُفَرَّقَةً فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ أَوْ ثِنْتَيْنِ كَذَلِكَ أَوْ وَاحِدَةً فِي الْحَيْضِ أَوْ فِي طُهْرٍ قَدْ جَامَعَهَا فِيهِ أَوْ جَامَعَهَا فِي الْحَيْضِ الَّذِي يَلِيهِ هُوَ ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِكَ وَقَعَ الطَّلَاقُ وَكَانَ عَاصِيًا ، وَفِي كُلٍّ مِنْ وُقُوعِهِ وَعَدَدِهِ وَكَوْنِهِ مَعْصِيَةً خِلَافٌ ، فَعَنْ الْإِمَامِيَّةِ لَا يَقَعُ بِلَفْظِ الثَّلَاثِ وَلَا فِي حَالَةِ الْحَيْضِ ؛ لِأَنَّهُ بِدْعَةٌ مُحَرَّمَةٌ ، وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ } وَفِي أَمْرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَ عُمَرَ أَنْ يُرَاجِعَهَا حِينَ طَلَّقَهَا وَهِيَ حَائِضٌ دَلِيلٌ عَلَى بُطْلَانِ قَوْلِهِمْ فِي الْحَيْضِ ، وَأَمَّا بُطْلَانُهُ فِي الثَّلَاثِ فَيَنْتَظِمُهُ مَا سَيَأْتِي مِنْ دَفْعِ كَلَامِ الْإِمَامِيَّةِ . فتح القدیر، باب طلاق السنة

ابن نجیم الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَوْلُهُ : ( وَثَلَاثًا فِي طُهْرٍ أَوْ بِكَلِمَةٍ بِدْعِيٌّ ) أَيْ تَطْلِيقُهَا ثَلَاثًا مُتَفَرِّقَةً فِي طُهْرٍ وَاحِد أَوْ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ بِدْعِيٌّ أَيْ مَنْسُوبٌ إلَى الْبِدْعَةِ ، وَالْمُرَادُ بِهَا هُنَا الْمُحَرَّمَةُ لِأَنَّهُمْ صَرَّحُوا بِعِصْيَانِهِ۔ البحر الرائق، کتاب الطلاق

علامہ کاسانی الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
( فَصْلٌ ) : وَأَمَّا طَلَاقُ الْبِدْعَةِ فَالْكَلَامُ فِيهِ فِي ثَلَاثَةِ مَوَاضِعَ : فِي تَفْسِيرِهِ وَفِي بَيَانِ الْأَلْفَاظِ الَّتِي يَقَعُ بِهَا طَلَاقُ الْبِدْعَةِ وَفِي بَيَانِ حُكْمِهِ أَمَّا الْأَوَّلُ فَطَلَاقُ الْبِدْعَةِ نَوْعَانِ أَيْضًا : نَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْوَقْتِ وَنَوْعٌ يَرْجِعُ إلَى الْعَدَدِ ۔۔۔وَأَمَّا الَّذِي يَرْجِعُ إلَى الْعَدَدِ فَهُوَ إيقَاعُ الثَّلَاثِ أَوْ الثِّنْتَيْنِ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ لَا جِمَاعَ فِيهِ سَوَاءٌ كَانَ عَلَى الْجَمْعِ بِأَنْ أَوْقَعَ الثَّلَاثَ جُمْلَةً وَاحِدَةً أَوْ عَلَى التَّفَارِيقِ وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ بَعْدَ أَنْ كَانَ الْكُلُّ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ وَهَذَا قَوْلُ أَصْحَابِنَا .
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ : " لَا أَعْرِفُ فِي عَدَدِ الطَّلَاقِ سُنَّةً وَلَا بِدْعَةً بَلْ هُوَ مُبَاحٌ وَإِنَّمَا السُّنَّةُ وَالْبِدْعَةُ فِي الْوَقْتِ فَقَطْ احْتَجَّ بِعُمُومَاتِ الطَّلَاقِ مِنْ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ أَمَّا الْكِتَابُ فَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : { فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ } وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : { الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ } وَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : { لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إنْ طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ } شَرَعَ الطَّلَاقَ مِنْ غَيْرِ فَصْلٍ بَيْنَ الْفَرْدِ وَالْعَدَدِ وَالْمُفْتَرِقِ وَالْمُجْتَمِعِ وَأَمَّا السُّنَّةُ فَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { كُلُّ طَلَاقٍ جَائِزٌ إلَّا طَلَاقَ الْمَعْتُوهِ وَالصَّبِيِّ } وَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ عَدَدَ الطَّلَاقِ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ مَشْرُوعٌ أَنَّهُ مُعْتَبَرٌ فِي حَقِّ الْحُكْمِ بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ الْفُقَهَاءِ ، وَغَيْرُ الْمَشْرُوعِ لَا يَكُونُ مُعْتَبَرًا فِي حَقِّ الْحُكْمِ أَلَا تَرَى أَنَّ بَيْعَ الْخَلِّ وَالصُّفْرِ وَنِكَاحَ الْأَجَانِبِ لَمَّا كَانَ مَشْرُوعًا كَانَ مُعْتَبَرًا فِي حَقِّ الْحُكْمِ ، وَبَيْعُ الْمَيْتَةِ وَالدَّمِ وَالْخَمْرِ وَالْخِنْزِيرِ وَنِكَاحُ الْمَحَارِمِ لَمَّا لَمْ يَكُنْ مَشْرُوعًا لَمْ يَكُنْ مُعْتَبَرًا فِي حَقِّ الْحُكْمِ وَهَهُنَا لَمَّا اُعْتُبِرَ فِي حَقِّ الْحُكْمِ دَلَّ أَنَّهُمَشْرُوعٌ وَبِهَذَا عُرِفَتْ شَرْعِيَّةُ الطَّلْقَةِ الْوَاحِدَةِ فِي طُهْرٍ وَاحِدٍ وَالثَّلَاثِ فِي ثَلَاثَةِ أَطْهَارٍ كَذَا الْمُجْتَمِعُ .
( وَلَنَا ) الْكِتَابُ وَالسُّنَّةُ وَالْمَعْقُولُ أَمَّا الْكِتَابُ فَقَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ : { فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ } أَيْ فِي أَطْهَارِ عِدَّتِهِنَّ وَهُوَ الثَّلَاثُ فِي ثَلَاثَةِ أَطْهَارٍ كَذَا فَسَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا ذَكَرْنَا فِيمَا تَقَدَّمَ ؛ أَمَرَ بِالتَّفْرِيقِ وَالْأَمْرُ بِالتَّفْرِيقِ يَكُونُ نَهْيًا عَنْ الْجَمْعِ ثُمَّ إنْ كَانَ الْأَمْرُ أَمْرَ إيجَابٍ كَانَ نَهْيًا عَنْ ضِدِّهِ وَهُوَ الْجَمْعُ نَهْيَ تَحْرِيمٍ وَإِنْ كَانَ أَمْرَ نَدْبٍ كَانَ نَهْيًا عَنْ ضِدِّهِ وَهُوَ الْجَمْعُ نَهْيَ نَدْبٍ .
وَكُلُّ ذَلِكَ حُجَّةٌ عَلَى الْمُخَالِفِ لِأَنَّ الْأَوَّلَ يَدُلُّ عَلَى التَّحْرِيمِ وَالْآخَرَ يَدُلُّ عَلَى الْكَرَاهَةِ وَهُوَ لَا يَقُولُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وقَوْله تَعَالَى : { الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ } أَيْ دَفْعَتَانِ أَلَا تَرَى أَنَّ مَنْ أَعْطَى آخَرَ دِرْهَمَيْنِ لَمْ يَجُزْ أَنْ يُقَالَ أَعْطَاهُ مَرَّتَيْنِ حَتَّى يُعْطِيَهُ دَفْعَتَيْنِ .
وَجْهُ الِاسْتِدْلَالِ أَنَّ هَذَا وَإِنْ كَانَ ظَاهِرُهُ الْخَبَرَ فَإِنَّ مَعْنَاهُ الْأَمْرُ لِأَنَّ الْحَمْلَ عَلَى ظَاهِرِهِ يُؤَدِّي إلَى الْخُلْفِ فِي خَبَرِ مَنْ لَا يَحْتَمِلُ خَبَرُهُ الْخُلْفَ لِأَنَّ الطَّلَاقَ عَلَى سَبِيلِ الْجَمْعِ قَدْ يُوجَدُ وَقَدْ يَخْرُجُ اللَّفْظُ مَخْرَجَ الْخَبَرِ عَلَى إرَادَةِ الْجَمْعِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : { وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ } أَيْ لِيَتَرَبَّصْنَ .

وَقَالَ تَعَالَى : { وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ } أَيْ لَيُرْضِعْنَ وَنَحْوُ ذَلِكَ كَذَا هَذَا ، فَصَارَ كَأَنَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى قَالَ طَلِّقُوهُنَّ مَرَّتَيْنِ إذَا أَرَدْتُمْ الطَّلَاقَ وَالْأَمْرُ بِالتَّفْرِيقِ نَهْيٌ عَنْ الْجَمْعِ لِأَنَّهُ ضِدُّهُ فَيَدُلُّ عَلَى كَوْنِ الْجَمْعِ حَرَامًا أَوْ مَكْرُوهًا عَلَى مَا بَيَّنَّا ، فَإِنْ قِيلَ هَذِهِ الْآيَةُ حُجَّةٌ عَلَيْكُمْ لِأَنَّهُ ذَكَرَ جِنْسَ الطَّلَاقِ ، وَجِنْسُ الطَّلَاقِ ثَلَاثٌ وَالثَّلَاثُإذَا وَقَعَ دَفْعَتَيْنِ كَانَ الْوَاقِعُ فِي دَفْعَةٍ طَلْقَتَيْنِ فَيَدُلُّ عَلَى كَوْنِ الطَّلْقَتَيْنِ فِي دَفْعَةٍ مَسْنُونَتَيْنِ فَالْجَوَابُ أَنَّ هَذَا أَمْرٌ بِتَفْرِيقِ الطَّلَاقَيْنِ مِنْ الثَّلَاثِ لَا بِتَفْرِيقِ الثَّلَاثِ لِأَنَّهُ أَمْرٌ بِالرَّجْعَةِ عَقِيبَ الطَّلَاقِ مَرَّتَيْنِ أَيْ دَفْعَتَيْنِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى : { فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ } أَيْ وَهُوَ الرَّجْعَةُ ، وَتَفْرِيقُ الطَّلَاقِ وَهُوَ إيقَاعُهُ دَفْعَتَيْنِ لَا يَتَعَقَّبُ الرَّجْعَةَ فَكَانَ هَذَا أَمْرًا بِتَفْرِيقِ الطَّلَاقَيْنِ مِنْ الثَّلَاثِ لَا بِتَفْرِيقِ كُلِّ جِنْسِ الطَّلَاقِ وَهُوَ الثَّلَاثُ ، وَالْأَمْرُ بِتَفْرِيقِ طَلَاقَيْنِ مِنْ الثَّلَاثِ يَكُونُ نَهْيًا عَنْ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا فَوَضَحَ وَجْهُ الِاحْتِجَاجِ بِالْآيَةِ بِحَمْدِ اللَّهِ تَعَالَى .بدائع الصنائع، فصل فی طلاق البدعة
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
یہ خط کشیدہ جملے ذراعجیب سے ہیں۔کیاسنت کی مخالفت کرنے والالازمابدعتی ہوتاہے۔یامحض گنہگارہوتاہے۔
کوئی کام بدعت اس وقت ہوتاہے جب اس کو نیک اورثواب کاکام سمجھ کرکیاجائے لیکن اگرکوئی شخص غلط کام کررہاہے اوراس کی غلطی کو وہ بھی جان رہاہے اوراس کوصحیح بھی نہیں ٹھہرارہاہے تو وہ بدعت کیسے ہے۔
مثلانماز نہ پڑھنا،گناہ کبیرہ ہےلیکن بدعت نہیں ہے۔
روزہ نہ رکھناگناہ کبیرہ ہے لیکن بدعت نہیں ہے۔
نمازمیں سنتوں کاترک گناہ ہے لیکن بدعت نہیں ہے۔
اسی طرح اگرکوئی شخص ایک وقت میں تین طلاق دیتاہے تویہ حضورپاک کے ارشاد کے خلاف عمل ہے اس لئے اس کامرتکب عاصی آثم اورخاطی توہوسکتاہے لیکن بدعتی ہو یہ بات ذراہضم نہیں ہورہی ہے۔اگرکسی دلیل کی چورن سے ہضم کرادیں تومہربانی ہوگی۔
عموماً ایک ہی وقت میں تین طلاق دینے والے عوام الناس اس کو سنت ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر ایک ساتھ تین طلاقیں نہ دی جائیں تو طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے ایسے جہلاء کے لحاظ سے تو بہرحال یہ عمل بدعت ہی ٹھہرے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ تلاک اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک جیسی بدعت یا سنت کی ایک جیسی مخالفت باور کروانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ سے کھیلنا قرار دیا، شدید غصہ ہوئے حتیٰ کہ ایک صحابی نے کہا کہ میں اسے قتل نہ کر دوں؟ کہاں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مخالفت، اور کہاں لب و لہجہ کا اختلاف۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ "طلاق" سے طلاق دینا ہمیں سمجھایا ہے۔ لیکن لب و لہجہ کے اختلاف سے بالکل درست تجوید اور قراءت سے اس لفظ کے ادا کرنے کا حکم نہیں فرمایا۔ جبکہ دوسری جانب ایک مجلس کی تین طلاق کو کتاب اللہ سے کھیلنا قرار دے کر سخت وعید کی خبر سنائی ہے۔ لہٰذا ایک ساتھ تین طلاق دینا بصراحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سختی سے منع ہے، جبکہ لفظ طلاق کو بالکل اسی تلفظ اور لہجہ سے ادا کرنے کا بھی کوئی حکم نہیں اور نہ ہی طلاق کے علاوہ اس کا متبادل کوئی اور لفظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر منع کیا گیا ہے تو دلیل عنایت کیجئے۔

یقین مانئے کہ اگر انہی مثالوں کو دلیل قرار دے کر ، آپ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ کوئی شخص تین طلاق یکجا دے کر چاہے کتاب اللہ سے کھیلتا رہے، لیکن پھر بھی شرعی حکم ادا ہو جائے گا (طلاق واقع ہو جائے گی)، تو شریعت ایک کھلونا بن کر ہی رہ جائے گی۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
دوسری بات یہ ہے کہ تلاک اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک جیسی بدعت یا سنت کی ایک جیسی مخالفت باور کروانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ سے کھیلنا قرار دیا، شدید غصہ ہوئے حتیٰ کہ ایک صحابی نے کہا کہ میں اسے قتل نہ کر دوں؟ کہاں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مخالفت، اور کہاں لب و لہجہ کا اختلاف۔
نفس طلاق ہی اللہ کی نگاہ میں ابغض الحلال ہے۔اس منطق کے لحاظ سے تونفس طلاق پر زد پڑتی ہے۔
کسی چیز کاگناہ ہوناالگ شے ہے لیکن کسی چیز کا وقوع ہونادوسری بات ہے۔اس کی شریعت میں اتنی ساری نظیریں ہیں جس کے بیان کرنے کیلئے بھی بڑاوقت چاہئے۔
خود نفس طلاق کے مسئلہ پر غورکرلیجئے ایک شخص محض شرارت اوربیوی کے اقرباء کو دکھ پہنچانے کی نیت سے ایک طلاق دیتاہے توکیااس کی طلاق واقع نہ ہوگی اورکیاایساکرنے والاشخص آثم وعاصی نہ ہوگا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ندوی صاحب، گویا آپ کو تسلیم ہے کہ واقعی ایک ساتھ تین طلاق دینا بدعت ہے؟ اور یہ بھی کہ تلاک کے الفاظ سے طلاق دینا فقط لب و لہجہ کا اختلاف ہے اور بدعت نہیں ہے؟ اس پر اتفاق کر لیں اور پھر آگے بات کریں۔

نفس طلاق ہی اللہ کی نگاہ میں ابغض الحلال ہے۔اس منطق کے لحاظ سے تونفس طلاق پر زد پڑتی ہے۔
محترم، ابغض الحلال ہونے سے نفس طلاق کا حلال ہونا ہی ثابت ہوتا ہے، ہاں حلال ہوتے ہوئے ناپسندیدہ ہونا، عوام الناس کو اس سے ممکن حد تک بچنے کی ترغیب کے لئے ہے اور بالکل علیحدہ بات ہے۔ جبکہ ایک وقت میں تین طلاق دینا نہ حلال ہے اور نا ہی طلاق دینے کا درست طریقہ۔
کسی چیز کاگناہ ہوناالگ شے ہے لیکن کسی چیز کا وقوع ہونادوسری بات ہے۔اس کی شریعت میں اتنی ساری نظیریں ہیں جس کے بیان کرنے کیلئے بھی بڑاوقت چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرتے ہوئے اور وہ بھی ایسی مخالفت جس کی نکیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہوں، پھر ایسے فعل کا شریعت میں قبول ہو جانا تو بہت ہی حیرت انگیز ہے۔
آپ نے کئی نظائر کی بات کی ہے۔ کوئی ایک نظیر پیش کر دیجئے کہ جس میں فاعل کوئی ایسا کام کرے، جو سنت سے ہٹا ہوا ہو، اور اس فعل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بھی سنائی ہو، اور پھر وہ فعل اللہ کے ہاں قبول بھی ہو جائے۔
خود نفس طلاق کے مسئلہ پر غورکرلیجئے ایک شخص محض شرارت اوربیوی کے اقرباء کو دکھ پہنچانے کی نیت سے ایک طلاق دیتاہے توکیااس کی طلاق واقع نہ ہوگی اورکیاایساکرنے والاشخص آثم وعاصی نہ ہوگا۔
محترم، ایسے شخص کا ایک طلاق دینے کا طریقہ وہی ہے جو سنت سے ثابت ہے۔ لہٰذا طلاق سنت کے مطابق ہونے کی وجہ سے تو واقع ہو جائے گی۔ لیکن اس کی نیت غلط ہے، لہٰذا نیت کی بنا پر ایسا شخص گناہ گار ٹھہرے گا۔ اس کا زیر بحث بات سے کیسے تعلق بنتا ہے، آپ وضاحت کر دیجئے۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
پہلے کچھ باتیں ابوالحسن علوی صاحب کی خدمت میں پیش کردوں
انہوں نے طلاق بدعی ہونے پر کتب فقہ سے کچھ نصوص پیش کئے ہیں۔
شاید وہ میراسوال نہیں سمجھے۔
اس طلاق کا نام اصطلاح میں ؎"طلاق بدعت" پڑگیاہے لیکن کیااس طریقہ سے طلاق دینابدعت ہے؟اورکیاجواس طریقہ سے طلاق دے گااس کو ہم بدعتی کہیں گے؟اس سوال کی جانب محترم ابوالحسن علوی صاحب نے توجہ نہیں دی حالانکہ اصل بات یہی ہے۔ائمہ اربعہ اس طرح سے طلاق کےواقع ہونے کے قائل ہیں اب اگرابوالحسن علوی صاحب کی منطق استعمال کی جائے توان تمام حضرات کوبدعتی ٹھہراناپڑے گا۔دوسری بات بدعت میں ثواب کی امید شامل رہتی ہے۔اب بتایاجائے کہ کون ساشخص ایساہے جو طلاق دے کر ثواب کی نیت رکھتاہے؟امید ہے کہ وہ میرے سوال پر غورکریں گے اوراسی اعتبار سے جواب دینے کی زحمت کریں گے۔

محترم، ابغض الحلال ہونے سے نفس طلاق کا حلال ہونا ہی ثابت ہوتا ہے، ہاں حلال ہوتے ہوئے ناپسندیدہ ہونا، عوام الناس کو اس سے ممکن حد تک بچنے کی ترغیب کے لئے ہے اور بالکل علیحدہ بات ہے۔ جبکہ ایک وقت میں تین طلاق دینا نہ حلال ہے اور نا ہی طلاق دینے کا درست طریقہ۔
محترم وہی توہم بھی کہہ رہے ہیں بس صرف آپ وفکر ونظرکے دریچہ کو کشادہ کرنے پر تیارنہیں ہیں۔ایک چیز اللہ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے لیکن حلال ہے اوراس کا جواز ہے۔اسی طرح ایک امر اگرچہ گناہ ہو لیکن اگرکوئی کرلے تو وہ ہوجائے گااس نے طریقہ کار غلط اختیار کیااس کا اسے گناہ ملے گا۔کسی چیز کے ہونے سے مطلب یہ ہے کہ دنیاوی احکام میں وہ چیز واقع مانی جائے گی۔
تلاک کے الفاظ سے طلاق دینا فقط لب و لہجہ کا اختلاف ہے اور بدعت نہیں ہے؟ اس پر اتفاق کر لیں اور پھر آگے بات کریں۔
میں نے کب تلاق اورطلاق کی بحث چھیڑی ہے جواس کو آپ میرے ذمہ لگارہے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرتے ہوئے اور وہ بھی ایسی مخالفت جس کی نکیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہوں، پھر ایسے فعل کا شریعت میں قبول ہو جانا تو بہت ہی حیرت انگیز ہے۔آپ نے کئی نظائر کی بات کی ہے۔ کوئی ایک نظیر پیش کر دیجئے کہ جس میں فاعل کوئی ایسا کام کرے، جو سنت سے ہٹا ہوا ہو، اور اس فعل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بھی سنائی ہو، اور پھر وہ فعل اللہ کے ہاں قبول بھی ہو جائے۔
یاتوآپ شایدجلدبازی میں غورکرنے کی زحمت گوارانہیں کرتے اورلکھنے پہلے بیٹھ جاتے ہیں۔
آپ نے ایک شق یہ شامل کی ہے
اس فعل کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بھی سنائی ہو، اور پھر وہ فعل اللہ کے ہاں قبول بھی ہو جائے
محترم جب ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ شخص عاصی آثم اورگناہ گارہوگا تواس کاکیامطلب ہواس پرغورکرنے کی زحمت کیوں نہیں فرمائی اوراس کے بدلے میں یہ شق اورشرط شامل کردی۔جب اس طرح کی کوئی بات ہوتی ہے تواس میں دنیاوی احکام کے لحاظ سے دیکھاجاتاہے اوردنیاوی لحاظ سے اس پر احکام مرتب ہوتے ہیں فیمابینہ وبین اللہ کیاہے اس سے غض نظرکیاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیاوی احکام کے لحاظ سے منافقین کی زبانی شہادت کوقبول کیاگیااورانہیں تمام وہی مراعات دی گئیں جوسچے پکے مسلمانوں کیلئے مخصوص تھیں ۔ہاں وہ اپنے نفاق کی وجہ سے جہنم کے آخری اورنچلے طبقہ میں رہیں گے وہ دوسری بات ہے وہ احکام آخرت ہے۔امید ہے کہ ہمارے موقف اوراپنے موقف پر غورکرلیں گے اوراگراپنے موقف کی صحت پراصرار ہو کہ نہیں دنیاوی احکام بھی وہی مانے جائیں گے جو عنداللہ مقبول ہوں توپہلے اس پر بحث کرلیں کہ کیاکسی شرعی حکم کے دنیاوی الحاظ سے اثرانداز ہونے کیلئے اس کاعنداللہ مقبول ہوناضروری ہے؟
ہماراموقف اگرآپ کی سمجھ میں آگیاہوتوکچھ نظیریں پیش کردیتاہوں
آپ نے ایک نظیر پیش کرنے کی بات کی ہے اوریہاں اتنی ساری نظیریں ہیں کہ کسے چھوڑوں اورکسے بیان کروں
نمازتاخیر سے اداکرنے پر رسول اللہ نے وعید بیان کی ہے لیکن اگرکوئی شخص تاخیر سے نماز اداکرے تواس کی نماز ہوگی یانہیں؟
ایک شخص بغیر کسی عذرکے جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرتاہے اس کی نماز ہوگی یانہیں؟ حالانکہ جماعت کی بڑی تاکید آئی ہے
ایک شخص پر کسی کا قرض ہے لیکن وہ پہلے حج اداکرتاہے قرض ادانہیں کرتا حالانکہ اسے قرض اداکرناچاہئے توکیااس کاحج ہوگایانہیں اوراس کے ذمہ سے جب کہ وہ مالدار ہوجائے بعد میں توحج کافریضہ ساقط ہوگیایانہیں؟

طلاق نکاح ایسی چیزیں ہیں جوہرحال میں واقع ہوجائیں گی غلط طریقہ سے دینے کی بات توالگ رہی اگرکوئی شخص بغیرکسی نیت کے بھی طلاق دے دیتاہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
دیکھئے اللہ کے رسول کا فرمان ذیشان ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ ": «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ» ، «وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ» .: «وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ المَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ»
مزید اپ کی تشفی کیلئے عرض کردوں کہ البانی صاحب نے اس حدیث کو "حسن" کہاہے۔
اس حدیث پر اچھی طرح غورکیجئے گاکسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے توانشاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اوربہت سےعقدے واہوجائیں گے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس طلاق کا نام اصطلاح میں "طلاق بدعت" پڑگیاہے لیکن کیااس طریقہ سے طلاق دینابدعت ہے؟اورکیاجواس طریقہ سے طلاق دے گااس کو ہم بدعتی کہیں گے؟اس سوال کی جانب محترم ابوالحسن علوی صاحب نے توجہ نہیں دی حالانکہ اصل بات یہی ہے۔ائمہ اربعہ اس طرح سے طلاق کےواقع ہونے کے قائل ہیں اب اگرابوالحسن علوی صاحب کی منطق استعمال کی جائے توان تمام حضرات کوبدعتی ٹھہراناپڑے گا۔
اگر آپ تھوڑی روشنی اس پر بھی ڈال دیتے کہ یہ غلطی کہاں سے درآئی ہے اور یہ بدعی طلاق کی اصطلاح کس عجمی سازش کے تحت مسلمانوں میں اس حد تک رائج کر دی گئی کہ کیا کتب حدیث اور کیا کتب فقہ، متاخرین اور متقدمین، اسے طلاق بدعت ہی قرار دینے پر مصر ہیں اور آپ کے لئے مشکل کھڑی کر رہے ہیں کہ اسے کوئی نام بھی نہیں دے سکتے۔ تھوڑی دیر کو تسلیم کر لیجئے کہ یہ طلاق بدعی نہیں ہے تو کیا یہ آپ کے نزدیک سنت طریقہ طلاق ہے؟ وضاحت کر دیں گے تو آپ کی گفتگو سمجھنے میں کچھ آسانی رہے گی۔

دوسری بات بدعت میں ثواب کی امید شامل رہتی ہے۔اب بتایاجائے کہ کون ساشخص ایساہے جو طلاق دے کر ثواب کی نیت رکھتاہے؟امید ہے کہ وہ میرے سوال پر غورکریں گے اوراسی اعتبار سے جواب دینے کی زحمت کریں گے۔
جی بالکل ایسے بدعی طریقہ سے طلاق دینے والا شخص ثواب کی نیت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بھی تو فرمائیے کہ سنت طریقے سے طلاق دینے والا بھی کب بھلا ثواب کی نیت رکھتے ہوئے طلاق دیتا ہے؟؟ جب ثواب کی نیت سنت پر عمل کرتے ہوئے نہیں ہوتی، تو بدعت پر عمل کرتے ہوئے بھی نہیں ہوتی۔ جن معاملات میں سنت کی پیروی میں ثواب کی نیت شامل ہوتی ہے، وہاں بدعت میں بھی ثواب کی نیت رکھی جاتی ہے۔

جب اس طرح کی کوئی بات ہوتی ہے تواس میں دنیاوی احکام کے لحاظ سے دیکھاجاتاہے اوردنیاوی لحاظ سے اس پر احکام مرتب ہوتے ہیں فیمابینہ وبین اللہ کیاہے اس سے غض نظرکیاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیاوی احکام کے لحاظ سے منافقین کی زبانی شہادت کوقبول کیاگیااورانہیں تمام وہی مراعات دی گئیں جوسچے پکے مسلمانوں کیلئے مخصوص تھیں ۔ہاں وہ اپنے نفاق کی وجہ سے جہنم کے آخری اورنچلے طبقہ میں رہیں گے وہ دوسری بات ہے وہ احکام آخرت ہے۔
یا تو آپ کو یہاں مغالطہ ہوا ہے اور یا مجھے ہی ابھی تک آپ کی بات درست طریقے سے سمجھ نہیں آ سکی ہے۔
منافقین کی زبانی شہادت کو اس لئے تسلیم کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے تسلیم کرنے کو کہا ہے۔ اور اس میں مجبوری بھی داخل ہے کہ کسی کے دل تک ہمیں رسائی ہی نہیں کہ ہم دل پر احکامات لاگو کر سکیں۔
سنت و بدعت میں بدعت کے بھی وقوع پذیر ہونے کی گفتگو میں، ظاہر اور باطن کے احکام، یا دنیا و آخرت کے احکام کو لانے کی وجہ سمجھ نہیں آ سکی۔
ظاہر اور باطن یا دنیا و آخرت کے احکام کے حوالے سے یہ دیکھئے کہ زکوٰۃ بے شک سنت طریقے سے پوری پوری تول کر دی جائے، لیکن دل میں دکھاوا ہو، نمود و نمائش مقصود ہو، تو دنیاوی لحاظ سے تو فرض ادا ہو گیا ، لیکن آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا ظاہر اور باطن کے احکام کی بحث، سنت پر بھی اسی طرح لاگو ہوتی ہے، جیسے آپ بدعت پر لاگو کر رہے ہیں۔ تو وجہ تفریق کیا ہے وہ آپ بیان کر دیں۔ فیما بینہ و بین اللہ تو سنت میں بھی نہیں دیکھا جا سکتا تو بدعت میں کیونکر دیکھیں؟

امید ہے کہ ہمارے موقف اوراپنے موقف پر غورکرلیں گے اوراگراپنے موقف کی صحت پراصرار ہو کہ نہیں دنیاوی احکام بھی وہی مانے جائیں گے جو عنداللہ مقبول ہوں توپہلے اس پر بحث کرلیں کہ کیاکسی شرعی حکم کے دنیاوی الحاظ سے اثرانداز ہونے کیلئے اس کاعنداللہ مقبول ہوناضروری ہے؟
آپ کا موقف تو مجھے اپنی کوتاہ علمی کی وجہ سے سمجھ نہیں آ رہا۔ اور نہ یہ سمجھ آ رہا ہے کہ سنت طریقہ کے مطابق عمل کرنا ایسا ہی غیر اہم ہے، کہ چاہے سنت کو فالو کریں یا اپنا طریقہ وضع کر کے اس پر عمل پیرا ہو جائیں، حکم کی بجاآوری دونوں صورتوں میں ہی ہو جائے گی؟ پھر یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ فریضہ کی ادائیگی کا ثواب زیادہ ہوگا یا بدعی طریقہ پر عمل کا گناہ زیادہ ہوگا۔
پہلے آپ ظاہر و باطن اور دنیوی و اخروی احکام کی بحث لے بیٹھے۔ اور اب آپ عنداللہ قبولیت کو دنیاوی لحاظ سے وقوع پذیر ہونے کی ضد کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ میرے بھائی، عنداللہ مقبولیت کی گارنٹی تو سنت طریقے پر عمل کر کے بھی نہیں دی جا سکتی تو بدعت کے لئے ایک ایسی چیز کو معیار بنانا کیونکر درست ہوگا؟ ہاں آپ درج بالا سوال کو یوں پیش کر سکتے ہیں:
کیا کسی شرعی حکم کے دنیاوی لحاظ سے اثرانداز ہونے کے لئے اس کا سنت طریقہ کے مطابق قائم کیا جانا ضروری ہے؟
ہمارا جواب تو ہاں میں ہے۔ ۔ آپ اپنا جواب پیش کر دیں۔

ہماراموقف اگرآپ کی سمجھ میں آگیاہوتوکچھ نظیریں پیش کردیتاہوں
آپ نے ایک نظیر پیش کرنے کی بات کی ہے اوریہاں اتنی ساری نظیریں ہیں کہ کسے چھوڑوں اورکسے بیان کروں
نمازتاخیر سے اداکرنے پر رسول اللہ نے وعید بیان کی ہے لیکن اگرکوئی شخص تاخیر سے نماز اداکرے تواس کی نماز ہوگی یانہیں؟
ایک شخص بغیر کسی عذرکے جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرتاہے اس کی نماز ہوگی یانہیں؟ حالانکہ جماعت کی بڑی تاکید آئی ہے
ایک شخص پر کسی کا قرض ہے لیکن وہ پہلے حج اداکرتاہے قرض ادانہیں کرتا حالانکہ اسے قرض اداکرناچاہئے توکیااس کاحج ہوگایانہیں اوراس کے ذمہ سے جب کہ وہ مالدار ہوجائے بعد میں توحج کافریضہ ساقط ہوگیایانہیں؟
آپ کے موقف کی طرح آپ کے پیش کردہ نظائر بھی زیر بحث گفتگو سے دور دور ہی گھوم رہے ہیں۔ ویسے آپ کے ان نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو پچھلی پوسٹ میں پیش کردہ نظیر پر ہمارے جواب کے بعد اعتماد نہیں رہا۔ واللہ اعلم۔
تاخیر سے نماز ادا کرنے میں وعید تاخیر سے متعلق ہے۔ اگر نماز سنت طریقہ پر پڑھی ہے تو نماز ادا ہو جائے گی۔ تاخیر سے پڑھنے کا گناہ الگ ہوگا۔ یہاں آپ دو الگ چیزوں کو مکس کر رہے ہیں۔ درست نظیر یوں ہوتی کہ نماز سنت طریقے سے نہ پڑھی، تو پھر بھی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ ہمارے نزدیک نہیں ہوگی۔ آپ کے موقف کے مطابق ہو جائے گی۔ جس کا بطلان واضح ہے۔

بلاعذر ،جماعت کے ساتھ نماز چھوڑنے سے، گناہ دراصل جماعت کو چھوڑنے کا ہے۔ نماز اگر اس نے سنت طریقہ سے پڑھی ہے تو اس لئے نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ آپ کے موقف کے مطابق یہ نظیر یوں بنتی ہے کہ بلا عذر جماعت چھوڑنے کے باوجود انفرادی نماز پڑھنے سے بھی، جماعت کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ مثال دیتے وقت آپ جماعت چھڑواتے ہیں اور قبول آپ نماز کرواتے ہیں۔ اس کی بھی درست نظیر یہ بنتی ہے کہ نماز باجماعت سنت طریقے سے نہ پڑھی جائے تب بھی باجماعت نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا یا نہیں؟ مثلاً رکوع بعد میں کر لیں، سجدہ پہلے کر لیں۔ یہ بدعی طریقہ نماز ہے۔ اب بتائیے کہ ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی؟ یا کوئی نماز پہلے پڑھ لے اور وضو بعد میں کر لے تو، سنت کی مخالفت کی وجہ سے ایسے شخص کی نماز ادا ہو جائے گی کہ نہیں؟ یا رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کوئی شخص جان بوجھ کر رکوع و سجود میں قرآن کی تلاوت شروع کر دے تو اس کی نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر ان سوالات کا جواب آپ کے نزدیک ہاں میں ہے، تب آپ اپنے موقف پر قائم رہئیے اور بدعی طلاق کو بھی ممکن الوقوع مان لیجئے۔ اگر ان سوالات کا جواب نہیں میں ہے، تو پھر وجہ تفریق بیان کیجئے کہ نماز غلط طریقہ سے پڑھی جائے تو نہیں ہوتی، تو طلاق غلط طریقے سے دی جائے تو کیسے واقع ہو جائے گی؟

یہی مسئلہ آپ کی حج والی نظیر کے ساتھ بھی ہے۔ آپ حج اور قرض کے دو احکام کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ اللہ کے بندے یہ بتا دیں کہ حج میں اگر سنت طریقہ کو فالو نہ کیا جائے تو حج ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر طواف الٹا کر لیا جائے؟ میقات سے احرام نہ باندھیں؟ ننگے ہو کر طواف کر لیں؟ کتنے نظائر پیش کئے جائیں جو آپ تک ہمارا موقف درست ٹون میں پہنچا سکیں؟

طلاق نکاح ایسی چیزیں ہیں جوہرحال میں واقع ہوجائیں گی غلط طریقہ سے دینے کی بات توالگ رہی اگرکوئی شخص بغیرکسی نیت کے بھی طلاق دے دیتاہے تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
دیکھئے اللہ کے رسول کا فرمان ذیشان ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَرْدَكَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ مَاهَكَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ ": «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ» ، «وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ» .: «وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَرْدَكَ المَدَنِيُّ، وَابْنُ مَاهَكَ هُوَ عِنْدِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَكَ»
مزید اپ کی تشفی کیلئے عرض کردوں کہ البانی صاحب نے اس حدیث کو "حسن" کہاہے۔
اس حدیث پر اچھی طرح غورکیجئے گاکسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے توانشاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اوربہت سےعقدے واہوجائیں گے۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ حدیث بھی آپ نے بالکل غلط موقع پر پیش کی ہے۔
احکام کے ساتھ نیت کے تعلق کا انکار کس نے کیا ہے جو آپ اس کی تردید پیش کر رہے ہیں۔
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ ارادہ کیا ہو یا مذاق ہو، نکاح و طلاق تو بہرحال واقع ہو جائیں گے۔
بغیر نیت کے بھی طلاق دی تو اس لئے واقع ہو جائے گی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر نہیں کی، بلکہ اس کا اثبات کیا ہے۔ یہ موقف تو آپ کا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لاکھ کسی فعل پر غصہ ہوتے رہیں، اس کو کتاب اللہ سے کھیلنا قرار دیتے رہیں، وہ گناہ گار تو ہوگا لیکن وہ حکم بہرحال ادا ہو جائے گا۔
اصل اختلاف تو اس بات پر ہے کہ نیت طلاق دینے کی ہو، لیکن طریقہ سنت نہ ہو تو طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟
چلیں اب آپ کی مثال کے تحت اسی ایک بات پر فیصلہ کر لیں۔
کیا نکاح کی درست نیت کے ساتھ، نکاح کا طریقہ سنت نہ ہو، تو نکاح واقع ہو جائے گا؟
آپ راہ چلتے کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیں کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا، تو کیا آپ کا نکاح واقع ہو گیا؟ (اگرچہ سنت کی مخالفت پر آپ کو آثم و عاصی بھی مان لیا جائے)
زیر بحث بدعی طلاق کے ضمن میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح نکیر کے باوجود آپ اسے دنیاوی لحاظ سے وقوع پذیر مان رہے ہیں۔ تو یہ فرمائیے کہ ابدی حرام رشتے داروں سے نکاح کی بھی ممانعت ہے۔ اب آپ کے موقف کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے نکاح کر لے تو اگرچہ حکم کی مخالفت کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لیکن اس کا نکاح واقع ہو جائے گا؟

اس حدیث پر اچھی طرح غورکیجئے گاکسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے توانشاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اوربہت سےعقدے واہوجائیں گے۔
جی ان شاء اللہ۔ ہم تو خود اسی کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ بھی کسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے کتاب و سنت پر غور کریں، تاکہ ان شاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اور بہت سے عقدے وا ہو جائیں۔

آخر میں عرض ہے کہ ہمیں ہمارے موقف پر غور کرنے کی ضرور نصیحت کیجئے ، لیکن ساتھ ہی خود بھی اپنے موقف پر توجہ کیجئے اور اس کے دور رس اثرات کو بھی نظر میں رکھیں۔ شاید آپ ہی جلد بازی میں غور کئے بغیر لکھنے بیٹھ گئے ہوں۔ ممکن ہے آپ ہی کا دریچہ فکر و نظر ابھی مناسب حد تک وا نہ ہو سکا ہو۔ واللہ اعلم!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اوپر والی پوسٹ کے ساتھ ابو الحسن علوی بھائی کی یہ وضاحت بھی ملا لیجئے۔ شاید کسی گرہ کو کھولنے میں کام آ سکے۔

اگر اصول فقہ سے آپ کو کچھ شغف ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حکم وضعی کی بحث میں ایک بحث ’سبب‘ کی بھی ہے یعنی سبب حکم شرعی کی ایک قسم ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ سورج کے ڈھلنے کو ظہر کی نماز کا سبب بنایا گیاہے یا آسان الفاظ میں فجر ، ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات متعین ہیں۔ اگر کوئی شخص فجر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھ لے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہر نماز کی ادائیگی اس کے شریعت کی طرف سے طے کردہ وقت میں ضروری ہے۔ پس تین طلاقوں کے لیے تین اوقات مثل سبب کے ہیں اور جب سبب موجود ہو گا تو مسبب ہو گا یعنی شرعی حکم ہو گا۔ سبب کی عدم موجودگی میں مسبب بھی نہیں ہو گا کیونکہ سبب کی تعریف ہی یہی ہے کہ جس کے وجود سے حکم کا وجود اور جس کے عدم سےحکم کا عدم لازم آئے۔جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے لیے کسی دوسرے طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب دوسری طلاق کا وقت نہیں آیا ہے یعنی دوسرا طہر تو وہ طلاق کیسے واقع ہو جائے گی ۔ یا تو یہ مانا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے کسی دوسری طہر کو بطور وقت مقرر نہیں کیا ہے تو پھر ایک مجلس کی تین طلاقوں کا نتیجہ نکالنا درست معلوم ہوتا ہے۔

کسی شرعی حکم کی تفہیم کے لیے بعض حضرات دنیاوی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ دنیا کے احکام کو دین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ پس شرعی حکم کی تفہیم کے لیے کسی دوسرے شرعی حکم ہی کی مثال دی جائے اور دوسرا شرعی حکم بھی ایسا ہو جو اسی ضابطہ کے تحت ہو جس ضابطہ کے تحت پہلا حکم بیان ہو رہا ہے۔ ہم نے مذکورہ بالا مثال میں یہ بات واضح کی ہے کہ ایک وقت میں تین نمازوں کو جمع کرنا اور ایک وقت میں تین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے جسے ہم سبب ومسبب یا حکم وضعی کی بحث کہتے ہیں۔ اگر کسی کو اس مثال سےاختلاف ہو تو اصول فقہ کے اس ضابطہ اور اس کی تعریف کی روشنی میں ان دونوں مثالوں کے مابین فرق کی وضاحت کرے۔

پہلی طلاق کا وقت یا سبب طہر ہے جبکہ دوسری طلاق کا وقت یا سبب دوسرا طہر ہے اور تیسری طلاق کا وقت یا سبب تیسرا طہر ہے لہذا جب آپ نے یہ مان لیا کہ شریعت نے تین طلاقوں کے لیے متفرق تین طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب وہ طہر یعنی سبب موجود ہو گا تو طلاق واقع ہو گی اور اگر تو آپ یہ نہ مانتے ہوں کہ تین طلاق کے لیے تین متفرق طہر کو وقت یا سبب بنایا گیا ہے تو پھر آپ اس نتیجے میں حق بجانب ہیں جو آپ نکال رہے ہیں۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
جب بات کو ضد اورنفسانیت کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے تواسی طرح کی کج بحثی اورمرغے کی ایک ٹانگ والی بات رونماہوتی ہے کہ "پنچوں کی بات سرآنکھوں پر لیکن پرنالہ وہیں گڑے گا"
آپ یہ مانتے ہیں کہ جماعت کو چھوڑ نے انسان گناہ گار ہوگا اورسنت کی خلاف ورزی کامرتکب ہوگا لیکن نماز ہوجائے گی
بلاعذر ،جماعت کے ساتھ نماز چھوڑنے سے، گناہ دراصل جماعت کو چھوڑنے کا ہے۔ نماز اگر اس نے سنت طریقہ سے پڑھی ہے تو اس لئے نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا
آخر جس طرح رسول پاک نے تین طلاق کو بیک وقت دینا تلاعب بکتاب اللہ قراردیاہے اسی طرح جماعت چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھنے والوں کے گھروں کو جلاڈالنے کی منشاء بھی توظاہر کی ہے دونوں میں حضور پاک کی ناراضگی کے لحاظ سے توکوئی کلام نہیں ہے۔
یہاں تک شاید آنجناب متفق ہوں
اس کے بعد آپ وہی پرانی کج بحثی شروع کردیتے ہیں۔ایک میں تو مان لیتے ہیں کہ نماز ہوجائے گی لیکن جماعت چھوڑنے کا گناہ ہوگا اسی طرح تاخیر سے کوئی نماز پڑھے تو نماز ہوجائے گی لیکن تاخیر سے پڑھنے کا گناہ الگ ہوگا۔
آپ کو بس اس پر اعتراض ہے کہ اگرکوئی کہے کہ کوئی شادی شدہ شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتاہے لیکن سنت طریقے سے نہیں دیتا تو طلاق ہوجائے گی البتہ سنت طریقے سے نہ دینے کا گناہ گار ہوگا۔مجھ کو توماقبل اورمابعد کی مثال میں کوئی وجہ فرق نظرنہیں آتا ۔طلاق کی سنت اگر یہ ہے کہ وہ تین طہر میں تین مرتبہ دی جائے تواسی طرح نماز کی سنت یہ ہے کہ وہ جماعت اوروقت پر اداکی جائے جیساکہ حضور کا طریقہ کار تھا اورجس کی حضور نے تاکید کی تھی۔
لیکن آپ دومیں راضی اورتیسرے میں ناراض ہوجاتے ہیں اوراس ناراضگی کی منشاء سوائے مسلکی عصبیت کے اورکچھ نظرنہیں آتی ۔
اس کے بعد جومزید گلفشانی کی ہے اس نے تودیگر اہل حدیث حضرات کی طرح آپ کی فقاہت کا بھی سکہ دل پر جماناشروع کردیاہے(ابتسامہ)ملاحظہ فرمائیں۔

آپ کے موقف کے مطابق یہ نظیر یوں بنتی ہے کہ بلا عذر جماعت چھوڑنے کے باوجود انفرادی نماز پڑھنے سے بھی، جماعت کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ مثال دیتے وقت آپ جماعت چھڑواتے ہیں اور قبول آپ نماز کرواتے ہیں۔ اس کی بھی درست نظیر یہ بنتی ہے کہ نماز باجماعت سنت طریقے سے نہ پڑھی جائے تب بھی باجماعت نماز کا فریضہ ادا ہو جائے گا یا نہیں؟

مہربان من!جواعتراض آپ نے کیاہے اس پر ذرا سنجیدگی سے غورکرتے تو سمجھتے کہ احناف کا بھی موقف وہی ہے جو آپ نے اپنے اعتراض میں بوجہ لاعلمی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔آپ جس طرح یہ کہتے ہیں کہ جماعت کی سنت چھوڑنے کے باوجود نماز اداہوجائے گی ۔جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا فریضہ ادانہ ہوگا ۔

اسی طرح احناف بھی تویہی کہتے ہیں کہ طلاق دینے سے طلاق کا حکم واقع ہوجائے گا اورمسنون طریقے سے طلاق دینے کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔

یہ کس حنفی عالم نے کہاکہ اگرکوئی غیرمسنون طریقہ سے طلاق دے توبھی مسنون طریقہ سے طلاق دینے کا فریضہ اداہوجائے گا۔اگرکسی نے کہاکہ تواس کا نام وپتہ ہمیں بھی ایڈریس کریں تاکہ ہم بھی توجانیں۔
اب خود غورکریں کہ احناف کے موقف میں اورآپ کے موقف میں کیافرق بنتاہے۔

آپ کہتے ہیں کہ اگرکسی نے جماعت کے بغیر بلاعذر نمازپڑھی تونماز ہوجائے گی نماز باجماعت کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔
احناف کہتے ہیں کہ اگرکسی نے غیرمسنون طریقہ سے طلاق دی تو طلاق واقع ہوجائے گی طلاق مسنون طریقے سے دینے کا فریضہ ادانہیں ہوگا۔
اگراس پر سنجیدگی سے غورکریں گے توشاید اپنے موف کی غیرمعقولیت خود سمجھ میں آجائے اورسمجھانے کی زیادہ کاوش سے ہمیں بھی نجات مل جائے گا۔
بہت مشکل ہے سمجھاناکسی کا
سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے​

مثلاً رکوع بعد میں کر لیں، سجدہ پہلے کر لیں۔ یہ بدعی طریقہ نماز ہے۔ اب بتائیے کہ ایسے شخص کی نماز ہو جائے گی؟ یا کوئی نماز پہلے پڑھ لے اور وضو بعد میں کر لے تو، سنت کی مخالفت کی وجہ سے ایسے شخص کی نماز ادا ہو جائے گی کہ نہیں؟
محترم اگربحث کو یوں ہی مناظرہ کی بھینٹ چڑھانی ہے تو پی ایم کرکے واقفیت کرادیں راقم الحروف دست بردار ہوجائے گا اورچاہیں تواپنے کچھ ہم مسلکوں کی طرح اس کو اپنی فتح اورمیری شکست مان لیں۔مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
مثال دیتے وقت کچھ سنجیدگی توبرتئے ۔رکوع اورسجدہ میں ترتیب سنت ہے واجب ہے یافرض ہے اس پر غورکیاہے جورکوع اورسجدہ کی مثال پیش کردی ہے۔اسی طرح وضو اورنماز کی مثال پیش کرنے سے پہلے اس پر غورکیاہے کہ وضو کی حیثیت نماز کیلئے کیاہے اورکمال لاعلمی سے اس کو محض سنت کی مخالفت قراردے دیاہے۔

یہی مسئلہ آپ کی حج والی نظیر کے ساتھ بھی ہے۔ آپ حج اور قرض کے دو احکام کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ اللہ کے بندے یہ بتا دیں کہ حج میں اگر سنت طریقہ کو فالو نہ کیا جائے تو حج ہو جائے گا یا نہیں؟ اگر طواف الٹا کر لیا جائے؟ میقات سے احرام نہ باندھیں؟ ننگے ہو کر طواف کر لیں؟ کتنے نظائر پیش کئے جائیں جو آپ تک ہمارا موقف درست ٹون میں پہنچا سکیں؟
آپ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ کسی عبادت کے فرائض ارکان شروط واجبات اورسنن میں کوئی امتیاز نہیں کرتے جب کہ دیگر لوگ امتیاز کرتے ہیں اورآپ سبھی کو ایک طرف سے مسنونیت کا لباس پہنادیتے ہیں۔ آپ سے ہی ایک سوال ہے کہ ایک شخص کوئی سنت چھوڑدیتاہے یاد رہے سنت تو اس کاحج اداہوگایانہیں ہوگا؟

کیا نکاح کی درست نیت کے ساتھ، نکاح کا طریقہ سنت نہ ہو، تو نکاح واقع ہو جائے گا؟آپ راہ چلتے کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کہہ دیں کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا، تو کیا آپ کا نکاح واقع ہو گیا؟ (اگرچہ سنت کی مخالفت پر آپ کو آثم و عاصی بھی مان لیا جائے)
پھرایک بار اہل حدیثی فقاہت کا سکہ دل پر جم رہاہے۔بندہ خدا نکاح کی مثال پیش کرنے سے پہلے یہ بھی توسوچ لیتے کہ نکاح میں فریقین کے ایجاب وقبول کو اصل حیثیت ہے ۔آپ لاکھ کسی سے کہتے ہیں کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا اوردوسراقبول نہ کرے تونکاح کس طرح منعقد ہوسکتاہے آپ نکاح کی کوئی ایک سنت لیں، یاد رہے سنت ہو فرض ،رکن اورشرط نہ ہو ۔توکیااس سنت کے ترک سے نکاح کا انعقاد نہیں ہوگا؟مثلاحضور کاارشاد ہے کہ نکاح میں لڑکی کی دینداری کامدنظررکھاکرو،ایک شخص اس حکم کاخیال نہیں رکتھا اورمال ومنال کی بناء پر کسی سے نکاح کرتاہے اس کا نکاح ہوگایانہیں؟
یر بحث بدعی طلاق کے ضمن میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح نکیر کے باوجود آپ اسے دنیاوی لحاظ سے وقوع پذیر مان رہے ہیں۔ تو یہ فرمائیے کہ ابدی حرام رشتے داروں سے نکاح کی بھی ممانعت ہے۔ اب آپ کے موقف کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے نکاح کر لے تو اگرچہ حکم کی مخالفت کی وجہ سے گناہ گار ہوگا، لیکن اس کا نکاح واقع ہو جائے گا؟
ضد اوراناانسان کوبحث میں ایسے ہی مقام تک پہنچادیتے ہیں جہاں عقل وہوش بھی رخصت ہوجاتے ہیں۔ بات سنت کی ہورہی ہے اورموصوف مثال میں ایسی چیزیں پیش کررہے ہیں جوفرض اورحرام کے درجے کی ہیں ۔محرمات سے نکاح حرام ہے اس کی حرمت پر قرآن شاہد ہے لیکن موصوف کولگتاہے کہ یہ ازقبیل مسنون ہے۔
ویسے آپ کاکیاخیال ہے کہ امام شافعی جوبقول اہل حدیث حضرات اہل حدیث کے امام ہیں وہ تو زیر بحث مسئلہ میں کسی گناہ کے بھی قائل نہیں کیاآپ ان پر بھی محرمات ابدیہ کی مثال منطبق کرناچاہیں گے؟ویسے آپ حضرات کی جسارت سے یہ بعید بھی نہیں ہے ۔
ویسے آنجناب سے یہ ضرور جانناچاہوں گاکہ کیامحرمات سے نکاح نہ کرنا آپ کے نزدیک حرام عمل ہے یاغیرمسنون عمل ہے؟یاآپ کے نزدیک فرض ،حرام اورسنت سبھی ایک درجے کے ہیں کسی میں کوئی فرق نہیں ؟
ہم اس کے قائل ہیں کہ نماز میں اگرکوئی شخص کسی سنت کو چھوڑدیتاہے تواس کی نماز ہوجائے گی سنت کا ثواب نہیں ملے گا۔ فرض کو چھوڑے گاتونماز نہیں ہوگی۔ واجب کو چھوڑے گا توسجدہ سہو سے اس کی تلافی کرنی ہوگی۔ویسے آپ کاکیاخیال ہے کہ نماز میں اگرکوئی مسنون عمل چھوڑدے تواس کی نماز نہیں ہوگی ۔

جی ان شاء اللہ۔ ہم تو خود اسی کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ بھی کسی کی تقلید نہ کرتے ہوئے کتاب و سنت پر غور کریں، تاکہ ان شاء اللہ بہت سی گرہیں کھل جائیں اور بہت سے عقدے وا ہو جائیں۔
اسی کا توروناہےاوریہ روناصرف ہمارانہیں ہے آپ کے اکابر حضرات بھی یہ رونا روچکے ہیں ۔

اگر اصول فقہ سے آپ کو کچھ شغف ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حکم وضعی کی بحث میں ایک بحث ’سبب‘ کی بھی ہے یعنی سبب حکم شرعی کی ایک قسم ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ سورج کے ڈھلنے کو ظہر کی نماز کا سبب بنایا گیاہے یا آسان الفاظ میں فجر ، ظہر اور عصر کی نمازوں کے اوقات متعین ہیں۔ اگر کوئی شخص فجر کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھ لے تو اسے یہی کہا جائے گا کہ تمہاری نماز نہیں ہوئی ہے کیونکہ ہر نماز کی ادائیگی اس کے شریعت کی طرف سے طے کردہ وقت میں ضروری ہے۔ پس تین طلاقوں کے لیے تین اوقات مثل سبب کے ہیں اور جب سبب موجود ہو گا تو مسبب ہو گا یعنی شرعی حکم ہو گا۔ سبب کی عدم موجودگی میں مسبب بھی نہیں ہو گا کیونکہ سبب کی تعریف ہی یہی ہے کہ جس کے وجود سے حکم کا وجود اور جس کے عدم سےحکم کا عدم لازم آئے۔جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے لیے کسی دوسرے طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب دوسری طلاق کا وقت نہیں آیا ہے یعنی دوسرا طہر تو وہ طلاق کیسے واقع ہو جائے گی ۔ یا تو یہ مانا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے کسی دوسری طہر کو بطور وقت مقرر نہیں کیا ہے تو پھر ایک مجلس کی تین طلاقوں کا نتیجہ نکالنا درست معلوم ہوتا ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب مثال پیش کرتے وقت ایک بات بھول گئے کہ نماز کیلئے وقت کا سبب تو فرض کے درجے میں کیونکہ قرآن میں کہاگیاان الصلوۃ کانت علی المومنین کتاباموقوتا۔ لیکن کیاطلاق کیلئے طہر کاسبب بھی حالت فرض کے درجے میں ہے؟اس پر شاید انہوں نے غورنہیں کیا۔
بیشتر علماء اورجمہور علماء اس کے قائل ہیں کہ طلاق کا سبب ایک عاقل بالغ مسلمان شادی شدہ مرد کا اپنی زبان سے طلاق کالفظ نکالناہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ یہ تومانتے ہیں کہ طلاق مسنون طورپر نہ دینے کاگناہ ہوگا امام شافعی اس گناہ کے بھی قائل نہیں ہیں لیکن طلاق ہوجائے گی کیونکہ فاعل پایاگیا ہے یعنی طلاق دینے والا۔مفعول موجود ہے جس پر طلاق واقع ہورہی ہے یعنی اس کی بیوی اور طلاق کا سبب یعنی شوہر کااپنی بیوی کو طلاق دیناپایاگیاتوطلاق واقع ہوجائے گی۔ وقت کی قید جمہورعلماء کے نزدیک فرض اورواجب کے درجے میں نہیں ہے صرف مسنون طورپر ہے تو جیساکہ عرض کیاگیاکہ وہ سنت کی مخالفت کاقصوروار ہوگا لیکن طلاق ہوجائے گی جیساکہ جمہورعلماء کامسلک ہے۔

کسی شرعی حکم کی تفہیم کے لیے بعض حضرات دنیاوی مثالیں دینا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ دنیا کے احکام کو دین پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ پس شرعی حکم کی تفہیم کے لیے کسی دوسرے شرعی حکم ہی کی مثال دی جائے اور دوسرا شرعی حکم بھی ایسا ہو جو اسی ضابطہ کے تحت ہو جس ضابطہ کے تحت پہلا حکم بیان ہو رہا ہے۔ ہم نے مذکورہ بالا مثال میں یہ بات واضح کی ہے کہ ایک وقت میں تین نمازوں کو جمع کرنا اور ایک وقت میں تین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے جسے ہم سبب ومسبب یا حکم وضعی کی بحث کہتے ہیں۔ اگر کسی کو اس مثال سےاختلاف ہو تو اصول فقہ کے اس ضابطہ اور اس کی تعریف کی روشنی میں ان دونوں مثالوں کے مابین فرق کی وضاحت کرے۔
اگراس پیراگراف کی کچھ باتوں سے اتفاق کربھی لیاجائے کہ شرعی حکم کی تفہیم کیلئے دنیاوی مثالیں دینادرست نہیں حالانکہ دنیاوی مثال صرف ایک ہی تھی یعنی قرض اورحج کی بات اوربھی بہرحال شرعی مثال ہی تھی غیرشرعی بات تونہیں تھی ۔کمال یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں تین نمازوں کی مثال دے رہے ہیں تین کی شرط کیوں رکھی حضرت دوکی شرط کیوں نہ رکھی۔کیاآپ حضرات کے یہاں بیک وقت دوطلاق بیک وقت دیناجائز ہے۔ اگروقت کو سبب مانیں توایک وقت میں دوطلاق بھی دیناجائز نہیں ہوناچاہئے ۔
آپ بڑی آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ تین نمازوں کوجمع کرنا اورتین طلاقوں کو جمع کرنا ایک ہی شرعی ضابطہ کے تحت داخل ہے لیکن دوسرے اس سے قطعامتفق نہیں ہیں ۔وہ وقت یاطہر کو طلاق کیلئے سبب اورشرط نہیں مانتے اورجب اسی بنیادی بات پر اتفاق نہیں ہے توپھر آگے کی تمام باتیں بے نتیجہ ہوجاتی ہیں۔
آپ آگے کہتے ہیں کہ کسی کواختلاف ہے تو واضح کرے۔

1اختلاف کی باتیں کئی ہیں نماز کیلئے وقت کا سبب یاشرط فرض کے درجے میں ہے۔کیاطلاق کیلئے بھی طہر یاوقت کی قید فرض کے درجے میں ہے؟
2نماز کے بارے میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں مطلقا وقت کی قید سے آزاد ہوکر نمازپرھی گئی ہو اوراسے کسی نے درست مانا ہو۔جب کہ طلاق کے بارے میں ہمیں کئی حدیثیں ایسی ملتی ہیں صحابہ کرام کے اقوال ملتے ہیں کہ تین طلاق بیک وقت دی گئی اوراس کودرست ماناگیا۔
3نماز میں جمع بین الصلواتین سفر میں جائز ہے عندالاکثر اورعندالاحناف جمع بین الصلواتین صوری ہے نہ کہ حقیقی ۔کیاآپ کے نزدیک طلاق میں کوئی شق ایسی ہے جس میں کسی حالت میں بغیر طہر کے بھی اوراکٹھے طلاق دی جاسکتی ہے ۔

پہلی طلاق کا وقت یا سبب طہر ہے جبکہ دوسری طلاق کا وقت یا سبب دوسرا طہر ہے اور تیسری طلاق کا وقت یا سبب تیسرا طہر ہے لہذا جب آپ نے یہ مان لیا کہ شریعت نے تین طلاقوں کے لیے متفرق تین طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب وہ طہر یعنی سبب موجود ہو گا تو طلاق واقع ہو گی اور اگر تو آپ یہ نہ مانتے ہوں کہ تین طلاق کے لیے تین متفرق طہر کو وقت یا سبب بنایا گیا ہے تو پھر آپ اس نتیجے میں حق بجانب ہیں جو آپ نکال رہے ہیں۔
طلاق کا وقت یاسبب طہر آپ مان رہے ہیں اورکچھ اسی طرح دوسرے مان رہے ہیں ۔تمام لوگ بلکہ اکثر لوگ طلاق کا وقت یاسبب طہر کو نہیں مانتے ۔پہلے تویہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ طلاق کا وقت یاسبب طہر ہے اوریہ صرف مسنون نہیں بلکہ شرط کے درجے میں ہے کہ اس کے بغیر اس کا تحقق نہیں ہوگا ۔
اس کیلئے محض کسی روایت میں تلاعب بکتاب اللہ کا لفظ ناکافی ہے کیونکہ جماعت چھوڑنے والوں کے گھروں کو جلاڈالنے کا منشاء حضور نے ظاہر کیاتھا وہ بھی کچھ کم نہیں لیکن اس کے بغیر اگرنمازہوسکتی ہے اور وہ صرف مسنون عمل رہ سکتاہے تو ظاہر سی بات ہے کہ تلاعب بکتاب اللہ کے شدید الفاظ کے باوجود یہ محض مسنون عمل قرارپاسکتاہے اوراس کے بغیر بھی طلاق واقع ہوسکتی ہے اگرچہ ایساکرنے والاسنت کی مخالفت کاقصوروار ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
 
Top