• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکبیر تحریمہ ، اونچی یا آہستہ آواز میں اور دلیل ؟

شمولیت
مئی 09، 2014
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
18
شاہد نزیر صاحب بندہ نے ایک سوال جناب سے پوچھا تھا ""نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
جناب نے اسکے جواب میں لکھا تھا "اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
فہم سلف والے دھاگہ میں جناب نے ایک انتہاہی خوبصور ت بات لکھی ہے
"میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے"
اب میں جناب کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ اپنی اس بات کہ "میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے" کو سامنے رکھتے اس آیت کریمہ کا مطلب و مفہوم جو جناب نے بیان کیا ہے اسے سلف صالحین سے ثابت کر دیں کہ انہوں نے اس آیت کریمہ سے ( نماز باجماعت میں امام کے تکبیر بلند کہنے اور مقتدی کے آئستہ کہنے پر استدلال کیا ہو؟)ورنہ جناب صرط مستقیم پر قائم نہ رہ سکیں گےاور فلاح ونجات کا راستہ بھی جناب سے چھوٹ جائیگا
امید کرونگا کہ اب ادھر اُدھر کی بات کرنے کی بجائے آپ اپنی اس بات پر قائم رہیں گے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ نے شاکر بھائی کی جس بات کو اعتراضات کی بنیاد بنایا ہے میں اس سے متفق نہیں ہوں۔
میرا کہنا اور ماننا یہ ہے کہ سورہ الاسراء کی آیت نمبر110 میں بیان کردہ حکم یا اصول عمومی نہیں بلکہ ایک وقتی اور مخصوص حکم ہے۔ جو خاص حالات میں مسلمانوں کو دیا گیا تھا لیکن جب وہ خاص حالات تبدیل ہوئے تو حکم بھی تبدیل ہوگیا۔
اسی تبدیلی حکم کی دلیل چاہئیے ؟؟

علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اس آیت کے نزول کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پوشیدہ تھے جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قراءت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو اللہ تعالیٰ کے رسول کو گالیاں دیتے اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں۔ ہاں ایسا آہستہ بھی نہ پڑھنا کہ آپ کے ساتھی بھی نہ سن سکیں بلکہ درمیانہ آواز سے قراءت کیا کرو، پھر جب آپ ہجرت کرکے مدینے پہنچے تو یہ تکلیف جاتی رہی اب جس طرح چاہیں پڑھیں۔(تفسیرابن کثیر،جلد سوم، صفحہ 231)
اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف فجر، مغرب اور عشاء کی نماز سے متعلق تھا کیونکہ انہی نمازوں میں امام جہری قراءت کرتا ہے۔ اگر آج بھی کسی علاقے کے مسلمان ان خاص حالات سے دوچار ہوجائیں جن حالات میں جہری نمازوں کے لئے یہ مخصوص حکم نازل ہوا تھا تو وہ عمومی عمل اور حکم کو چھوڑ کر اس خاص حکم پر عمل کریں گے۔
ابن کثیر کی رائے کس طرح آپ کی دلیل بن گئی وہ تو ایک امتی ہیں
ابن کثیر کی سند صحابہ رضی اللہ عنبم اجمعین تک دکھائيں تاکہ شان نزول ثابت ہوسکے

دیکھیں محترم آپ لوگ ہم سے اس بات کی خواہش بلکہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے اصولوں میں رہتے ہوئے سوالات کے جوابات دیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خود پر اپنے کسی اصول کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے۔ میرے بھائی حنفیوں کا عقیدہ ہے کہ چار میں سے صرف کسی ایک امام کی تقلید واجب ہے جبکہ حنفیوں نے خود پر صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب کی ہے۔ جب تقلید آپ ابوحنیفہ کی کرتے ہیں تو صاحب ہدایہ، امام طحاوی اور صاحب در مختار وغیرہ ھم کی رائے یا اقوال کیونکر آپ لوگوں کی دلیل بن سکتے ہیں؟ آپ صاحب ہدایہ، طحاوی یا صاحب درمختار کے مقلد تو نہیں ہیں ناں؟ برائے مہربانی آپ اپنے مستند شدہ اصولوں میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کا صرف ابوحنیفہ کے قول سے جواب دیں۔
ہم مسلک حنفی کی مقلد ہیں چوں کہ حنفی مسلک کی تدوین امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے شروع ہوئی تو عرفا مسلک حنفی کی تقلید کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کہا جاتا ہے ۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یہ فقاہت ہے حنفی فقہاء کی؟!!!
اس فقاہت کا پوسٹ مارٹم پیش خدمت ہے۔
اللہ تبارک و تعالی ہمیں علماء اسلام سے بدگمانی سے بچائے

حنفی فقہاء کے مطابق پہلے مسلمان تمام نمازیں جہراٌ پڑھتے تھے لیکن اس پر مشرکین گالیاں دیتے تھے اس مسئلہ کے حل کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر110 کے تحت یہ حکم دیا کہ فجر اور عشاء کی نماز جہراٌ پڑھیں کیونکہ اس وقت مشرکین سو رہے ہوتے ہیں مغرب میں وہ کھانے کھاتے ہیں اسلئے ان سے کوئی خطرہ نہیں لیکن چونکہ عصر اور ظہر میں وہ فارغ ہوتے ہیں اس لئے ان کی ایذا سے بچنے کے لئے ان نمازوں میں سراٌ قراءت کریں۔
چلیں ہم نے یہ بلادلیل بات مان لی لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں مشرکین موجود نہیں تھے اس لئے ان سے نہ تو کوئی خطرہ تھا اور نہ ہی انکی ایذا رسانی کا ڈر۔ تو جن خاص حالات کے تحت اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو فجر،مغرب اور عشاء میں جہراٌ اور عصر اور ظہر میں سراٌ نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا تو جب وہ حالات ہی نہ رہے جن حالات کی وجہ سے بطور حل یہ حکم دیا گیا تھا تو حالات بدلنے پر حکم تبدیل کیوں نہ ہوا اور کیوں مسلمانوں کو حکم نہیں دیا گیا کہ اب مشرکین کی ایذا رسانی کا ڈر ختم ہوچکا ہے لہٰذا پہلی حالت پر لوٹ جاؤ اور دوبارہ تمام نمازیں جہراٌ پڑھو؟ اس کا معقول سبب بیان کریں۔
حضرت ھاجرہ علیہا السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئيے پانی کی تلاش کے لئیے صفا و مروہ کی سعی کی لیکن آج ہمیں پانی کی تلاش کی کوئي ضرورت نہیں لیکن اس کے باوجود ہم صفا و مروہ کی سعی کرتے ہیں ۔
اسلام میں کئی احکام کسی ضرورت کے تحت نازل ہوئے لیکن ضرورت تو ختم ہو گئی لیکن حکم کی تبدیلی من جانب اللہ نہیں ہوئي اس لئيے وہ حکم بھی باقی رہا ۔ ایک مثال تو اوپر ذکر ہوئی ۔ طواف میں رمل بھی اس کی ایک مثال ہے
اسکے علاوہ ابتداء میں جب نماز فرض نہیں ہوئی تھی تو مکہ میں مسلمان صرف دو یا تین نمازیں ہی پڑھتے تھے۔ نماز پنجگانہ تو مدینہ میں جاکر شب معراج پر مقرر اور فرض ہوئی تھیں۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر110 مکہ میں نماز پنجگانہ کی فرضیت سے پہلے نازل ہوئی تھی تو ایسی صورت میں تو حنفی فقہاء کی یہ فقاہت کسی کام کی نہیں رہی۔ نماز پنجگانہ کی فرضیت کے حکم سے پہلے نازل شدہ آیت کو حنفی فقہاء نے کس دلیل کی بنیاد پر پنجگانہ نمازوں کے متعلق سمجھ لیا؟؟؟
پانچ نماز کی تعداد معراج کو مقرر ہوئي تھی اور معراج مکی دور کا واقعہ ہے
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیّاد آگیا
شاہد نزیر صاحب بندہ نے سوال پوچھا تھا کہ "نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
میرے سوال میں نماز باجماعت اور صریح دلیل کا مطالبہ موجود ہے
جناب نے اس کے جواب میں لکھا
لیجئے ہمارے دعویٰ اور دلیل کے عین مطابق جواب حاضر ہے:
اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
یہاں جناب نے تسلیم کیا کہ ہمارے دعویٰ(اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ) اور دلیل کے عین مطابق ہے اور مزید لکھا کہ اسکا جواب ( یعنی میرے سوال کا جواب) قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی۔۔۔صرف قرآنی دلیل پر اکتفا کرتے ہیں(میرا سوال ذہن میں رہے)
جناب نے دلیل پیش کی
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس کے جواب میں بندہ نے لکھا تھا کہ"محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جناب نے جو دلیل پیش کی ہے کیا اس میں امام مقتدی کا ذکر ہے؟یقینا" نہیں! تو ثابت ہوا کہ جناب کی یہ دلیل اس مسئلہ کو ثابت کرنے پر "صریح "نہیں۔
ہمت کریں ایسی کوئی صریح دلیل پیش کریں جس میں امام کو بلند آواز سے تکبیر کہنے کا حکم ہو اور مقتدی کو آئستہ کہنے کا؟
اب جناب نے خود مان لیا ہے کہ "اگرچہ قرآنی آیت میں نماز اور امام و مقتدی کا ذکر نہیں ہے "
جناب نے جب خود تسلیم کر لیا کہ اس آیت میں نماز کا ذکر نہیں ،امام مقتدی کا ذکر نہیں تو امام مقتدی کی تکبیرات کے اونچا یا آئستہ کہنا کیسےثابت ہوگیا؟؟؟
اسے کہتے ہیں "جادو وہ جو سر چھڑ کر بولے"
اب جناب درمیان میں لٹک گئے ہیں "نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے "ایک مثل مشہور ہے کہ "دھوبی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جناب ہمت کریں اور اپنے ایک اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نص کے ذریعہ اس آیت میں نماز ، امام ومقتدی ،اور تکبیرات کا بلند یا آئستہ کہنا ثابت کریں تو یہ جناب کی دلیل بن سکتی ہے ورنہ نہیں۔
جناب نے لکھا تھا کہ"اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔"
قرآن مجید سے تو جناب میرے سوال کا جواب ثابت نہ کر سکے ،ہمت کریں اور وہ حدیث پیش کر دیں جس میں اس سوال("نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے"صریح طور پر موجود ہو ۔ورنہ رسول اللہ ﷺ پر بہتان نہ باندھیں
ہم نے دعویٰ کیا تھا کہ قرآن و حدیث سے سوال کا جواب دینگے اور اللہ کے فضل سے ہم نے جواب دے دیا۔ جہاں تک صریح اور غیر صریح کی بحث ہے تو عرض ہے کہ قرآن وحدیث میں بعض اوقات بعض مسائل صراحتاٌ بیان ہوتے ہیں بعض اوقات اشارتاٌ اور بعض اوقات کچھ اصول اور قواعد بیان کئے جاتے ہیں جن کو مسائل پر اپلائی کرکے مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔ ہم نے الحمدللہ قرآن سے وہ دلیل بیان کی ہے جس میں اشارتاٌ مقتدی کے آہستہ تکبیر کہنے کی دلیل موجود ہے جبکہ امام کی بلند آواز سے تکبیر کہنا احادیث سے ثابت ہے۔ اس لئے آپ کا صراحت کا مطالبہ کرنا بے کار کی بات ہے کیونکہ ہم نے کبھی دین کے ہرمسئلہ کا قرآن وحدیث سے صراحتاٌ ثابت ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اور نہ ہی یہ دعویٰ آج تک کسی مسلمان عالم یا امام وغیرہ نے کیا ہے اس لئے یہ مطالبہ ہی سرے سے باطل ہے۔ ہاں البتہ اگر آپ اپنے امام کا قول پیش کردیں کہ دین کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث سے صراحتاٌ ثابت ہے تو پھر ہم آپ کا صراحت والا مطالبہ پورا کرنے پر تیار ہیں۔ان شاء اللہ

ہم نے آپ کے امام کے قول کا مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ خود آپکا عقیدہ یہ ہے کہ ابوحنیفہ نے تمام مسائل قرآن وحدیث ہی سے مستنبط کئے ہیں۔جس سے پتا چلتا ہے کہ آپکے نزدیک بھی ابوحنیفہ کی دلیل صرف قرآن و حدیث ہی تھی۔ اور خود ابوحنیفہ سے اس طرح کا قول منقول ہے کہ ہم مسائل وہیں سے لیں گے جہاں سے صحابہ نے لئے۔ اور ظاہر ہے صحابہ نے مسائل صرف قرآن وحدیث ہی سے لئے تھے۔ تو کیا آپ ابوحنیفہ کے تمام مسائل قرآن وحدیث سے صراحتاٌ دکھا سکتے ہیں؟؟؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد نزیر صاحب بندہ نے ایک سوال جناب سے پوچھا تھا ""نماز باجماعت میں امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہتے ہیں ، اس کی صریح دلیل اپنے ایک اُصول کی روشنی میں لکھ دیں ؟"
جناب نے اسکے جواب میں لکھا تھا "اسکا جواب تو قرآن میں بھی موجود ہے اور حدیث شریف میں بھی ۔ ہم صرف قرآنی دلیل پر ہی اکتفاء کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان ہے :
واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
فہم سلف والے دھاگہ میں جناب نے ایک انتہاہی خوبصور ت بات لکھی ہے
"میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے"
اب میں جناب کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ اپنی اس بات کہ "میں سمجھتا ہوں کہ فہم سلف صالحین قرآن وحدیث سمجھنے کے لئے چابی ہے اور یہ فلاح اور نجات کی اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی کلید بھی ہے" کو سامنے رکھتے اس آیت کریمہ کا مطلب و مفہوم جو جناب نے بیان کیا ہے اسے سلف صالحین سے ثابت کر دیں کہ انہوں نے اس آیت کریمہ سے ( نماز باجماعت میں امام کے تکبیر بلند کہنے اور مقتدی کے آئستہ کہنے پر استدلال کیا ہو؟)ورنہ جناب صرط مستقیم پر قائم نہ رہ سکیں گےاور فلاح ونجات کا راستہ بھی جناب سے چھوٹ جائیگا
امید کرونگا کہ اب ادھر اُدھر کی بات کرنے کی بجائے آپ اپنی اس بات پر قائم رہیں گے
میں پہلے بھی آپ کی اس بات کا جواب دے چکا ہوں۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرمائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی عملی تفسیر اس طرح پیش فرمائی کہ خود بطور امام تکبیر بلند آواز سے کہتے تھے اور صحابہ بطور مقتدی پست آواز تکبیر کہتے تھے۔ یعنی مقتدی کا پست آواز سے تکبیر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث سے ثابت ہے اور امام کا بلند آواز سے تکبیر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی حدیث سے ثابت ہے۔الحمدللہ

ہم نے جو آیت پیش کی ہے اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ نے یہی سمجھا جو ہم بتارہے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ مانا جائے تو صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت قرآنی کی مخالفت کا الزام آتاہے۔(نعوذباللہ من ذالک) اس لئے اگر یہ آیت مقتدی کے پست آواز سے تکبیر کہنے اور امام کے بلند آواز سے تکبیر کہنے کے خلاف ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عمل بھی کچھ اور ہوتا لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عمل مقتدی کے آہستہ اور امام کے اونچی آواز سے تکبیر کہنے کا ہے تو ثابت ہوا کہ اس آیت کی یہی تفسیر ہے جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ عملی طور پر عامل تھے۔ اگر آپ کو اس بات سے اختلاف ہے تو دلیل کے طور پر اپنے امام کا قول پیش فرمائیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
میں پہلے بھی آپ کی اس بات کا جواب دے چکا ہوں۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی تشریح و تفسیر کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرمائی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی عملی تفسیر اس طرح پیش فرمائی کہ خود بطور امام تکبیر بلند آواز سے کہتے تھے اور صحابہ بطور مقتدی پست آواز تکبیر کہتے تھے۔ یعنی مقتدی کا پست آواز سے تکبیر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث سے ثابت ہے اور امام کا بلند آواز سے تکبیر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی حدیث سے ثابت ہے۔الحمدللہ
تقریری حدیث ؟؟؟
فعلی حدیث ؟؟؟
ذرا مجھے بھی یہ احادیث بتادیں ، تاکہ میرے علم میں کچھ اضافہ ہوجائے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
محترم میرے سوال پر غور کریں پھر اس کا جواب لکھیں ،پہلی بات میں نے لکھی تھی کہ" امام تکبیر بلند آواز سے اور مقتدی آئستہ آواز سے کہے " اس پر "صریح " دلیل دیں،
جہاں تک میں سمجھاہوں عابدین صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام کا بلند آواز سے تکبیر اور مقتدی کا آہستہ کہنا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کہیں صراحتاؐ ثابت نہیں ہے ۔ اور یہ کام آئمہ صاحبان نے سرانجام دیا ہے ۔
اسی طرح بھینس بھی انھیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے عوام آج خوش ہیں ۔
 
Top