- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,038
- ری ایکشن اسکور
- 1,225
- پوائنٹ
- 425
محترم بھائی آپ نے بریلوی کی اوپر دو قسمیں کی ہیں جس پر میرا کوئی اعتراض نہیں اور جو مندرجہ ذیل ہیںیاد رہے ہمارے نزدیک بریلوی وہ ہیں جو احمد رضا خاں کواپناامام مانتےہیں اس میں وە بریلوی شامل نہیں جومحض بریلی شہرکیطرف اپنی نسبت کرتےہوۓاپنےآپکو بریلوی کہلواتےہیں جیسے سید احمد بریلوی وغیرہ
1-جو امام رضا بریلوی کی طرف منسوب ہیں
2-جو بریلی شہر کی طرف منسوب ہیں
مگر محترم بھائی میں نے آپ کی پہلی قسم کی پھر دو قسمیں اوپر کی تھیں کہ احمد رضا کی طرف منسوب بھی کچھ لوگ خالی معاشرے کی وجہ سے منسوب ہوتے ہیں اور کچھ ان کے عقائد کو جان کر انکی پیروی کر رہے ہوتے ہیں پہلوں کو میں نے چھوٹ دینے کی گزارش کی تھی
محترم بھائی پہلے یہ بتا دوں کہ بریلوی فرقہ متفق علیہ کافر میں نہیں آتا اور انکی تکفیر مطلق میں بھی شاہد علماء کا اختلاف ہے پس جو متفق علیہ کافر ہو اسکی تکفیر نہ کرنے والا تو خود کافر ہو جاتا ہے مگر غیر متفق کافر کا معاملہ ایسا نہیں- اسی طرح شاہد شیعہ اثنا عشریہ کی مطلق تکفیر پر شاہد علماء متفق ہوں مگر فرد معین کے اوپر لاگو کرنے میں ہمیں کچھ اور بھی دیکھنا پڑے گا اور جہاں تک قادیانیوں کا تعلق ہے تو میرے علم میں ان میں علماء کا اختلاف نہیں تھا اگر ہے تو پھر میں اس پر بغیر تحقیق کے ابھی کچھ نہیں کہ سکتااب ھم اگر شعیہ اور قادنیوں کی تکفیرمعین کرتےہیں حالانکہ شعیہ میں بھی بےشمار گروہ ہیں اسی طرح قادنیوں میں بھی گروہ ہونگے غالباََ تبھی تو شیخ ثناٴ اللە امرتسری رحمہ الله نے لاہوری قادنیوں کے پچھے نماز پڑھنے کو جائز کہا ہےبہرحال شیخ محترم میرا سوال یہی ہے کہ اگر ہم شعیہ اور قادنیوں کی تکفیر معین کر سکتےہیں توآخر وہ کونسی وجہ ایسی ہےجوہمیں انکی (بریلویوں) کی تکفیر معین کےمانع ہےجبکہ یہ واضح ہے کہ وہ شرک اکبرکےمرتکب ہیں اورکھلم کھلا اسکا ارتکاب بھی کرتےہیں
محترم بھائی میں ایک بات واضح کر دوں کہ ہمارا جب کسی بھی فرقے سے تعامل ہوتا ہے تو سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم نے اس کے ساتھ تعامل اس کے گروہ (فرقہ) کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا ہے یا پھر اس کی ذات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا ہے تو میرے خیال میں اس کا انحصار حالات اور تعامل کی ضرورت پر ہوتا ہے اگر ہمارے تعامل کی ضرورت ایک گروہ کے لحاظ سے ہے تو ہم اس کے ساتھ تعامل گروہ کو دیکھتے ہوئے کریں گے الا یہ کہ اس کی ذاتی بات ایسی مل جائے جس سے گروہ سے استثنا ثابت ہو جائے مثلا اسامہ رضی اللہ عنہ لڑائی میں ہر کافر سے گروہ کو دیکھتے ہوئے تعامل کر رہے تھے مگر جب ایک کافر نے اسلام قبول کر لیا تو پھر بھی اسامہ رضی اللہ عنہ نے انکے ساتھ تعامل گروہ کی لڑائی کو دیکھتے ہوئے کیا اور اسکے انفرادی عمل (جو اس کو گروہ سے منفرد کر رہا تھا) کی تاویل کی کہ یہ ڈر کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے جو غلط تاویل تھی
اسی طرح جب بریلوی اور اہل حدیث کی دین پر لڑائی ہو تو ہمارا تعامل گروہ کو دیکھ کر ہو گا واللہ اعلم
مگر جو ہمارے انفرادی معاملات ہیں مثلا شادی بیاہ وغیرہ تو ان میں ہمیں انسان کی ذات کا تعین کرنا ہو گا جس کے لئے تکفیر معین کی تحقیق کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن تکفیر سے پہلے تکفیر کے لئے نص کے صحیح مفہوم کی سمجھ اور پھر موانع تکفیر کا گہرائی سے علم بہت ضروری ہے جو علماء ہی کر سکتے ہیں
اب اگر اس پر کوئی اعتراض کرے کہ پھر جب سب کچھ علماء نے ہی کرنا ہے تو پھر تو ہم مقلد ہی ہو جائیں گے ہمیں دلیل کا کیسے پتا چلے گا تو اس پر میری مندرجہ ذیل وضاحتیں ہیں
1-کافر اور مسلمان کی تمیز کرنا اگرچہ ایک نہایت ضروری کام ہے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ غیر متفق کافر (جس کو کچھ صحیح العقیدہ علماء کسی جائز تاویل کی وجہ سے کافر نہ سمجھتے ہوں) کی تکفیر کرنا ایک پیچیدہ کام بھی ہے کیوں کہ اس میں نص کے صحیح مفہوم تک پہنچنے میں اور پھر بدلتے زمانے کے لحاظ سے موانع تکفیر کی اپنی پیچیدگیوں کے لحاظ سے کافی غلطیوں کا امکان ہوتا ہے پس اس کے لئے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے جو متفق علیہ کافر کی تکفیر کے لئے ضرورت شاہد نہ ہو
2-تکفیر میں کسی عالم کی بات پر بغیر دلیل کے عمل ہمیشہ تقلید میں نہیں آتا بلکہ تقلید وہاں ہوتی ہے جہاں آپکو دلائل کی مکمل سمجھ ہو اور پھر بھی کسی کی اطاعت کریں مگر جب دلائل اتنے پیچہدہ ہوں کہ مکمل سمجھ نہ آ رہے ہوں تو پھر فاسئلوا اھل الذکر کے تحت پوچھنا ضروری ہے جو تقلید میں نہیں آتا کیونکہ ولا تقف ما لیس لک بہ علم کے تحت اس معاملے میں بولنا بھی غلط ہے جس کا ہمیں علم نہ ہو
3-تکفیر معین اس وقت کی جاتی ہے جب اشد ضرورت ہو
3-پس جب ہمیں کسی کے کافر ہونے کا پتا چلانے کی اشد ضرورت ہو اور کچھ صحیح العقیدہ علماء اسکی تکفیر معین کر رہے ہوں اور کچھ نہ کر رہے ہوں تو ہم ان میں سے کسی کی بھی بات پر عمل کر سکتے ہیں اس میں اگر ہم ترجیح کے لئے دلائل دیکھنا چاہیں تو اپنی عقل کے مطابق دیکھ کر راجح موقف کو چن سکتے ہیں مگر خیال رہے کہ دوسرے موقف والے پر زیادہ سے زیادہ غلط اجتہاد کا الزام لگا سکتے ہیں گمراہ یا کافر یا خارجی یا مرجیہ نہیں کہ سکتے جب تک وہ کچھ صحیح العقیدہ علماء کی ایسے پیچیدہ معاملات میں پیروی کر رہے ہیں