حامد کمال الدین
ساٹھ کی دہائی کے دوران، مصر کی جیلوں میں ایک جماعت کی تشکیل ہوئی تھی(3)۔ اُس نے اپنا ایک نام رکھا، مگر مسلم داعیوں اور عامۃ الناس کی جانب سے اُس کو ایک اور نام دیا گیا۔ اُس نے اپنا جو نام رکھا وہ تھا ’جماعۃ المسلمین‘۔ لوگوں کے ہاں اُس کا ذکر جس نام سے ہوتا رہا وہ تھا ’جماعۃ التکفیر والہِجرۃ‘۔
’نظام‘ کے ساتھ اِس سے پہلے الاخوان المسلمون کی جنگ رہی تھی، مگر الاخوان کیلئے کسی نے ’تکفیری‘ کا لفظ نہیں بولا تھا۔ اِس نئی جماعت کو ’تکفیری‘ کہا گیا تو اِس لئے کہ اِس کی جنگ عامۃ المسلمین کے ساتھ تھی۔ عامۃ المسلمین اِن کی نظر میں ’مسلمان‘ کا حکم نہیں رکھتے تھے۔ معاشرے کے ایک عام فرد کے سلام تک کا جواب دینے کیلئے اُن کے ہاں جو شرط پائی جاتی تھی اُس کو وہ ’التَّوَقُّف وَالتَّیبَییُّن‘ کہتے تھے، یعنی: اُس شخص کی بابت ’توقف‘ یعنی ٹھہرا جائے گاجب تک کہ ’تبین‘ یعنی چھان بین نہ ہوجائے کہ یہ ’مسلم‘ ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اور ’مسلم‘ وہ تب ہوتا جب وہ اُن کی ’جماعت المسلمین‘ کا فرد نکلتا!
عامۃ المسلمین کی تکفیر اور اُن سے ہجرت (علیحدگی) اور مفارقت کے اِس نظریے تک وہ ’من لم یُکَفّر الکافر فہو کافر‘ والے قاعدے کی ایک نہایت غلط اور بچگانہ تفسیر(4) کے نتیجے میں پہنچتے تھے اور ان کا خیال تھا یہ علی الاطلاق لاگو ہونے والا کوئی اصول ہے! ہر شخص جو باطل نظام کا حصہ ہوتا وہ اُن کے نزدیک کافر ہوتا، حتیٰ کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا عام سرکاری ملازم بھی، یہاں تک کہ سکول کا ایک چپڑاسی بھی۔ باقی لوگ اِس وجہ سے کافر ہوجاتے کہ وہ اول الذکر کو کافر نہیں کہتے! لہٰذا اُن کے اپنے سوا ہر شخص ہی کسی نہ کسی مرحلے میں کافر ہو جاتا!
’کافر‘ کے ساتھ دشمنی تو ایمان کا حصہ ٹھہرا، مگر اِس ’دشمنی‘ کا بڑا حصہ انہی طبقوں کے حصے میں آسکتا تھا جو اُن کی گمراہی کے آڑے آتے! اِس لحاظ سے نہ تو ’نظام‘ اُن کے آڑے آتا، کیونکہ بہت دیر تک اُن کی قوت اتنی نہیں بڑھی تھی کہ وہ ’نظام‘ کیلئے کوئی خطرہ بنتے۔ جب تک وہ ’نظام‘ کیلئے خطرہ نہیں، ’نظام‘ کو اُن کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت(5) ہو سکتی تھی؟
لہٰذا ’نظام‘ کے ساتھ ابتدا میں اُن کی مڈھ بھیڑ ہی نہ ہوئی۔ اور نہ عوام الناس ہی اُن کے آڑے آتے، کیونکہ عوام الناس کو بھی اُن کی کیا پڑی تھی؟ لہٰذا ’کافر‘ قرار پانے سے بڑھ کر عوام پر بھی کچھ اتنی ’کرم فرمائی‘ نہ ہوتی! البتہ علماءاور دینی جماعتیں ضرور ان کی گمراہی بیان کرنے کو موجود تھیں۔
یہیں سے اُن لوگوں کی جہالت واضح ہوتی ہے جو ’تکفیریوں‘ کی بابت ’جاننے‘ کا زعم رکھتے ہیں! بلکہ ’تکفیریوں‘ کی بابت عوام الناس کی جہالت دور کرتے پھر رہے ہیں! جو جگہ جگہ اِس ’فتنہ‘ سے خبردار کرنے کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔۔ البتہ ’تکفیریوں‘ کے تعارف میں فرماتے ہیں: یہ ایک جماعت ہے جو مصر سے نکلی تھی اور اس نے غیر ما انزل اللہ کے مطابق حکم چلانے والے حکمرانوں کو کافر جاننے کے نظریہ کی ابتدا کی تھی!!!!!
سبحان اللہ!!! غیر ما اَنزل اللہ کو عباد اور بلاد پر (بطور شرع وقانون) جاری وساری کر دینے والے کو کافر جاننا ہی اگر ’تکفیری‘ ہونا ہے تو پھر ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کتنے بڑے بڑے ائمہء سنت صاف ’تکفیری‘ نکلتے ہیں! مگر اِس پر بات ذرا آگے چل کر۔
مصر کے علمائے سنت نے اِس گمراہ جماعت کو ’تکفیری‘ کے نام سے موسوم کیا، حتیٰ کہ ’تکفیری‘ ایک گالی بن گئی اور واقعتاً گالی بن جانی چاہیے تھی، تو وہ اِس لئے کہ یہ ضال اور مضل جماعت آج کے مسلم معاشروں پر ’کفار‘ کے احکام لاگو کر رہی تھی۔ نہ صرف آج کے مسلم معاشروں پر ’کفار‘ کے احکام لاگو کر رہی تھی، بلکہ اعتقاد رکھتی تھی اور باقاعدہ یہ اعتقاد پھیلا رہی تھی کہ یہ معاشرے تاریخِ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد ہی مرتد ہو گئے تھے،
حالانکہ کون ہے، علمائے سنت میں سے، جو غیر اللہ کی شریعت چلانے والے نظام کو باطل نظام نہیں سمجھتا؟؟؟
ساٹھ کی دہائی کے دوران، مصر کی جیلوں میں ایک جماعت کی تشکیل ہوئی تھی(3)۔ اُس نے اپنا ایک نام رکھا، مگر مسلم داعیوں اور عامۃ الناس کی جانب سے اُس کو ایک اور نام دیا گیا۔ اُس نے اپنا جو نام رکھا وہ تھا ’جماعۃ المسلمین‘۔ لوگوں کے ہاں اُس کا ذکر جس نام سے ہوتا رہا وہ تھا ’جماعۃ التکفیر والہِجرۃ‘۔
مراد یہ کہ اِن معاشروں کے اندر جسمانی طور پر رہنا بھی ہے تو ذہنی اور شعوری طور پر اپنے آپ کو ان سے علیحدہ ملت سمجھنا اور ان سے کھلی کھلی مفارقت اختیار کر جانا، بعینہ اُسی طر ح جس طرح کسی عیسائی یا یہودی یا ہندو معاشرے میں رہا جاتا ہے۔ بے شک اُن کی جنگ ’نظام‘ (یعنی حکومتِ وقت) کے ساتھ شروع ہوئی تھی مگر بات یہ ہے کہ ’نظام‘ کے ساتھ اُن سے پہلے اوروں کی بھی جنگ رہی تھی، محض اِس وجہ سے کسی نے، کم از کم علمائے اہلسنت میں سے کسی نے، اُن کو ’تکفیری‘ نہیں کہا تھا۔’جماعتِ تکفیر‘ کا نام اُن کو اس لئے دیا گیا کہ معاشرے میں قریب قریب وہ ہر شخص کی تکفیر کر دیتے تھے۔’ہجرۃ‘ کا نام اس لئے دیا گیا کہ وہ موجودہ معاشروں کو، جنہیں وہ ’جاہلی معاشرے‘ کہتے تھے اور جن کا ایک عام فرد ان کی نظر میں ’کافر‘ کا حکم رکھتا تھا، چھوڑ جانے کی دعوت دیتے تھے۔ اِس چھوڑ دینے (ہجرۃ) کو وہ اپنی اصطلاح میں ’عُزلَۃ شُعُو ´رِیَّۃ‘ کا نام دیتے تھے، یعنی ’شعوری لحاظ سے، اپنے آپ کو اِن معاشروں کا حصہ نہ سمجھنا‘۔
’نظام‘ کے ساتھ اِس سے پہلے الاخوان المسلمون کی جنگ رہی تھی، مگر الاخوان کیلئے کسی نے ’تکفیری‘ کا لفظ نہیں بولا تھا۔ اِس نئی جماعت کو ’تکفیری‘ کہا گیا تو اِس لئے کہ اِس کی جنگ عامۃ المسلمین کے ساتھ تھی۔ عامۃ المسلمین اِن کی نظر میں ’مسلمان‘ کا حکم نہیں رکھتے تھے۔ معاشرے کے ایک عام فرد کے سلام تک کا جواب دینے کیلئے اُن کے ہاں جو شرط پائی جاتی تھی اُس کو وہ ’التَّوَقُّف وَالتَّیبَییُّن‘ کہتے تھے، یعنی: اُس شخص کی بابت ’توقف‘ یعنی ٹھہرا جائے گاجب تک کہ ’تبین‘ یعنی چھان بین نہ ہوجائے کہ یہ ’مسلم‘ ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اور ’مسلم‘ وہ تب ہوتا جب وہ اُن کی ’جماعت المسلمین‘ کا فرد نکلتا!
عامۃ المسلمین کی تکفیر اور اُن سے ہجرت (علیحدگی) اور مفارقت کے اِس نظریے تک وہ ’من لم یُکَفّر الکافر فہو کافر‘ والے قاعدے کی ایک نہایت غلط اور بچگانہ تفسیر(4) کے نتیجے میں پہنچتے تھے اور ان کا خیال تھا یہ علی الاطلاق لاگو ہونے والا کوئی اصول ہے! ہر شخص جو باطل نظام کا حصہ ہوتا وہ اُن کے نزدیک کافر ہوتا، حتیٰ کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا عام سرکاری ملازم بھی، یہاں تک کہ سکول کا ایک چپڑاسی بھی۔ باقی لوگ اِس وجہ سے کافر ہوجاتے کہ وہ اول الذکر کو کافر نہیں کہتے! لہٰذا اُن کے اپنے سوا ہر شخص ہی کسی نہ کسی مرحلے میں کافر ہو جاتا!
’کافر‘ کے ساتھ دشمنی تو ایمان کا حصہ ٹھہرا، مگر اِس ’دشمنی‘ کا بڑا حصہ انہی طبقوں کے حصے میں آسکتا تھا جو اُن کی گمراہی کے آڑے آتے! اِس لحاظ سے نہ تو ’نظام‘ اُن کے آڑے آتا، کیونکہ بہت دیر تک اُن کی قوت اتنی نہیں بڑھی تھی کہ وہ ’نظام‘ کیلئے کوئی خطرہ بنتے۔ جب تک وہ ’نظام‘ کیلئے خطرہ نہیں، ’نظام‘ کو اُن کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت(5) ہو سکتی تھی؟
لہٰذا ’نظام‘ کے ساتھ ابتدا میں اُن کی مڈھ بھیڑ ہی نہ ہوئی۔ اور نہ عوام الناس ہی اُن کے آڑے آتے، کیونکہ عوام الناس کو بھی اُن کی کیا پڑی تھی؟ لہٰذا ’کافر‘ قرار پانے سے بڑھ کر عوام پر بھی کچھ اتنی ’کرم فرمائی‘ نہ ہوتی! البتہ علماءاور دینی جماعتیں ضرور ان کی گمراہی بیان کرنے کو موجود تھیں۔
چنانچہ ’التکفیر والہِجرۃ‘۔۔ سے اُن کی نسبت مسلم معاشروں پر حکم لگانے اور مسلم معاشروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے حوالے سے بنی، اور یہ تسمیہ اُن کو ’معاشروں‘ کے شرعی احکام متعین کرنے کے حوالے سے دیا گیا۔ یہ بات نوٹ ہو جانا بے انتہا اہم ہے۔ ’تکفیری‘ کا لفظ ”معاشروں کی تکفیر“ کے حوالے سے وجود میں آیا ہے نہ کہ غیر اللہ کی شریعت چلانے والے نظام کی تکفیر کے حوالے سے، کیونکہ غیر ما انزل اللہ کو شریعت (قانونِ عام) کا درجہ دے ڈالنے والے ایک شخص کو مسلمان نہ سمجھنا اہلسنت کا معروف عقیدہ ہے، جیساکہ آگے چل کر اِس پر ہم کچھ بات کریں گے۔ اللہ اور رسول کے حکم پر کسی کے حکم کو ترجیح دینا ایمان کے سراسر منافی ہے اور کفر اکبر میں شمار ہوتا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں، خصوصاً اصولِ اہلسنت میں، یہ بات ایک آئین کی طرح مسلم مانی جاتی ہے بلکہ آئین ہی یہ ہے، اور یہ بات ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے۔لہٰذا ”علماء“ اور ”جماعتیں“ ہی ان کی دشمنی کا بڑا ہدف بنتیں۔ ’نظام‘ کی تکفیر سے وہ بہت جلد فارغ ہوچکے تھے اب کل معرکے اسلام پسندوں کے ساتھ تھے! نتیجتاً۔۔ ’کافر ‘ گو اُن کے نزدیک ”علماء“ اور ”دینی جماعتوں وتحریکوں“ کے علاوہ اور بھی بہت تھے بلکہ پورا معاشرہ ہی ’کافر‘ تھا، مگر ’دشمنی اور مخاصمت‘ پر سب سے زیادہ حق اُن کے یہاں ”علمائے شریعت“ اور ”کارکنان وداعیانِ اسلام“ ہی کا رہا! اِنہی کے ساتھ الجھنا اور اِنہی کے ساتھ مناظرہ بازی، اِنہی سے براءت، اور اِنہی کے ’شر‘ سے خبردار کرنا تکفیریوں کا معمول بنا! اِس لحاظ سے جتنا کوئی اسلام سے قریب ہوتا اتنا اُسے تکفیریوں کی دشمنی سے زیادہ بڑا حصہ ملتا ۔۔۔۔ یوں اِس پہلو سے ان پر خوارج والا وہ وصف بہت بڑی حد تک صادق آتا کہ: یترکون اہل الاوثان، ویقتلون اہل ال اسلام یعنی ’وہ اہل اوثان (بت پرستوں) کو چھوڑ دیا کریں گے اور اہل اسلام کو قتل کیا کریں گے‘۔
یہیں سے اُن لوگوں کی جہالت واضح ہوتی ہے جو ’تکفیریوں‘ کی بابت ’جاننے‘ کا زعم رکھتے ہیں! بلکہ ’تکفیریوں‘ کی بابت عوام الناس کی جہالت دور کرتے پھر رہے ہیں! جو جگہ جگہ اِس ’فتنہ‘ سے خبردار کرنے کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔۔ البتہ ’تکفیریوں‘ کے تعارف میں فرماتے ہیں: یہ ایک جماعت ہے جو مصر سے نکلی تھی اور اس نے غیر ما انزل اللہ کے مطابق حکم چلانے والے حکمرانوں کو کافر جاننے کے نظریہ کی ابتدا کی تھی!!!!!
سبحان اللہ!!! غیر ما اَنزل اللہ کو عباد اور بلاد پر (بطور شرع وقانون) جاری وساری کر دینے والے کو کافر جاننا ہی اگر ’تکفیری‘ ہونا ہے تو پھر ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کتنے بڑے بڑے ائمہء سنت صاف ’تکفیری‘ نکلتے ہیں! مگر اِس پر بات ذرا آگے چل کر۔
مصر کے علمائے سنت نے اِس گمراہ جماعت کو ’تکفیری‘ کے نام سے موسوم کیا، حتیٰ کہ ’تکفیری‘ ایک گالی بن گئی اور واقعتاً گالی بن جانی چاہیے تھی، تو وہ اِس لئے کہ یہ ضال اور مضل جماعت آج کے مسلم معاشروں پر ’کفار‘ کے احکام لاگو کر رہی تھی۔ نہ صرف آج کے مسلم معاشروں پر ’کفار‘ کے احکام لاگو کر رہی تھی، بلکہ اعتقاد رکھتی تھی اور باقاعدہ یہ اعتقاد پھیلا رہی تھی کہ یہ معاشرے تاریخِ اسلام کی پہلی تین صدیوں کے بعد ہی مرتد ہو گئے تھے،
گویا اس ’گمراہی‘ سے نکل آنا اور اِس ’ضلالت‘ سے ’تائب‘ ہو جانا یہ ہوا کہ اِس نظام پر ’اسلامی نظام‘ کے احکام لاگو کر دیے جائیں، جس میں کہ اِس کی بیعت کرنا بھی آتا ہے! سبحان اللہ! علمائے سنت کو مسلم معاشروں کے دفاع کی فکر دامن گیر ہے اور وہ اِس وجہ سے اُن گمراہوں کا نام ’تکفیری‘ رکھتے ہیں جو اِن معاشروں کو کفر کے معاشرے سمجھتے ہیں، جبکہ اِن لوگوں کو آج کے اِن نظاموں کے دفاع کی پڑی ہے اور یہ اِن نظاموں کی دشمنی کو ہی ’تکفیری ہونا‘ سمجھتے ہیں اور اِن نظاموں کو کفر اور باطل کے نظام قرار دینا ہی گمراہی خیال کرتے ہیں!!!جہالت کی انتہا دیکھئے، مصر کے علمائے اہلسنت نے اِس جماعت کو موجودہ معاشروں پر کفر کے احکام لاگو کرنے کی بنا پر گمراہ قرار دیا تھا مگر ہمارے یہ مدعیانِ علم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس جماعت کو موجودہ نظاموں پر کفر کے احکام لاگو کرنے کی بنا پر گمراہ قرار دیا گیا تھا!!!
حالانکہ کون ہے، علمائے سنت میں سے، جو غیر اللہ کی شریعت چلانے والے نظام کو باطل نظام نہیں سمجھتا؟؟؟