• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکفیر کے اصول : شیخ احمد ابن عمر الحازمی فک اللہ اسرہ

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
تکفیر المعین کے اصول:
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
۔ اسلام علیکم۔ آج ہم ایک دفعہ پھر دین کی اصل اور دین کے بنیادی اصول کے حوالے سے جہالت کے دور سے گزر رہے ہیں۔ چنانچہ دین میں سب سے بڑی عبادت (بوگی مین) بن گئی ہے اور علما کی اکثریت اس کی تعلیم نہین دیتی اور جو لوگ اس کی تعلیم دیتے ہیں وہ اس کی غلط انداز میں تعلیم دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے عام لوگ گمراہ ہو رہے ہیں۔ تکفیر ایک عبادت ہے اور یہ دین کی اصل ہے اور کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو مکمل کرنے کے لئے ہر کسی کے لئے مشرکین اور طواغیت کی تکفیر کرنا لازم ہے۔ اس مسئلہ پر کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ تکفیر کے چار(4) موانع ہیں:
(ا) جہل (علم کا نہ ہونا)
(2) غلطیاں
(3) اکراہ (دباؤ)
(4) تاویل
تکفیر کے چار(4) موانع ہیں اور ہر شخص کو ان کا درست استعمال سیکھنا چاہیئے۔ تکفیر المعین کے اصول تفصیل کے ساتھ درج ذیل ہیں۔ یہاں پر ایک عالم دین کا تکفیر کے اصول کے متعلق فتوی درج کیا جاتا ہے۔ "تکفیر کے مسئلہ کوشیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب (رحمہ اللہ) کے فرمودات کی روشنی میں تین(3) زاویوں سے دیکھا جاتا یے۔۔
1- کیا یہ شرک اکبر یا ایسے کسی مسئلہ کے ساتھ منسلک ہے ؟
2- کیا اس کا کا تعلق واضح مسائل کے ساتھ ہے یعنی اسے مسائل کے ساتھ جن کو جاننا دین میں ضروری ہے؟
3- یا اسکا تعلق پوشیدہ یا غیر واضح مسائل سے ہے؟
ا- جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے تو جو کوئی شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی اور اس پر تکفیر کے اصول( شرائط پوری کرنا اور موانع ختم کرنا) لاگو نہیں کئے جاتے۔ اس کا مطلب ہے جو کئی شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے اس کے مطعلق یہ دعوی نہیں کیا جاتا کہ ہم اس کو کافر تب تک نہیں کہہ سکتے جب تک تکفیر کے اصول ( شرائط پوری کرنا اور موانع ختم کرنا) لاگو نہ کئے جایئں۔ بلکہ جو بھی شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے وہ اللہ سبحان وتعلی کے ساتھ ایک شریک کھڑا کرتا ہے اور کفر اکبر کا ارتکاب کرتے ہوئے دین سے خارج ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کا حکم یہ ہے۔ اور جہاں تک اس قسم کو سمجھنے کے لئےمثالوں کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں : مثلا عبادت کی اقسام میں سے کوئی سی بھی قسم کسی غیر اللہ لے لئے وقف کرنا جیسے غیر اللہ کے لئے ذبیحۃ کرنے والا اپنے عمل کے اعتبار سے شرک اکبر کا ارتکاب کرتا ہے چاہے اس کی نیت شرک کرنے کی نہ ہو۔ اور جو کوئی کسی مجسمہ یا بت کو سجدہ کرتا ہے وہ کفر اکبر کا مرتکب ہوتا ہے اور دین سے خارج ہو جاتا ہے چاہے اس کی نیت دین چھوڑنے کی نہ ہو۔ اور جو کوئی غیر اللہ سے مدد مانگے جیسے کہ اللہ کے نبی محمد ﷺ سے مدد مانگنا یا زینببٗ سے مدد مانگنا یا البداوی سے مداد مابگنا یا حسینٗ سے مدد مانگنا یا علیٗ سے مدد مانگنا اور ایسے ہی کسی فوت شدہ سے مدد مانگنا۔ یعنی ایسے شخص سے مدد مانگنا جو وفات پا چکا ہو یا غیرحاضر ہو تو ہم ایسے شخص کو دین سے خارج قرار دیں گے اور ہم اس بات کا دعوی نہیں کریں گے کہ اس پر تکفیر تبھی لاگو کی جاسکتی ہے جب تب شرائظ نہ پوری ہو جایئں اور موانع نہ ختم ہو جایئں۔ بلکہ ایسی رائے رکھنا بدعت ہے اور اہل السنہ اس سے مکمل طور پربری ہیں۔
2- دوسری قسم کا تعلق مسائل الظاہریہ (واضح مسائل) سے ہے جو کے ایسے مسائل ہیں جن کے جاننا دین میں ضروری ہے۔ جیسا کہ دن میں پانچ نمازیں، سود کا حرام ہونا، زنا کا حرام ہونا یا اس طرح کے دوسرے مسائل۔ اور والدین کی ساتھ حسن سلوک اور صلح رحمی کا فرض ہونا۔ اس طرح کے مسائل کے بارے میں ہم کہتے ہیں : ان فرائض کاجاننا دین میں ضروری ہے اور جو کوئی بھی ان کو ادا نہیں کرتا اور اس کا انکار کرتا ہے (یعنی ایسے مسائل جن کا جاننا دین میں ضروری ہے) چاہے وہ فرائض ہوں یا ممنوعات، وہ کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور ہم اس پر تکفیر کے اصول ( شرائط پوری کرنا اور موانع ختم کرنا) لاگو نہیں کریں گے۔
اہل علم نے اس قسم میں سے دو (2) طرح کے لوگوں کو خارج کیا ہے :
نوٹ: ن میں وہ لوگ شامل نہٰں جو شرک اکبر کا ارتکاب کرتے ہیں جیسے کے پہلی قسم کے لوگ ہیں۔
الف: پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں یا اس کو ایسا کہا جا ساکتا ہے جنہوں نے نیا نیا کفر چھوڑا ہو۔ چاہے وہ اسلام میں بالکل نئے ہوں یا وہ اسلام میں حال ہی میں داخل ہوئے ہوں جیسے کہ اسلام میں داخل ہوئے انہیں کچھ ہی دن ہوئے ہوں۔ اگر اس قسم سے متعلق شخص اگر کسی ایسی چیز کا انکا کرتا ہے جس کا جاننا دین میں ضروری ہے تو اس پر کفر کا حکم تب تک نہیں لگایا جائے گا جب تک شرائط پوری نہ کی جایئں اور موانع ختم نہ کئے جایئں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کو ان مسائل کی تعلیم جائے گی اور اگر پھر بھی وہ انکار کرتا ہے تو وہ شخص کافر ہے۔ چنانچہ اگر وہ دن میں پانچ نمازوں کا انکار کرتا ہے یعنی کہتا ہے : ”یہ فرض نہیں ہیں اور ہمارے لئے کوئی نماز نہیں ہے۔ یا ہمارے لئے رمضان میں روزے نہیں ہیں یا ہمارے لئے زکوۃ نہیں یا ہمارے لئے کوئی حج نہیں ہے“ تو اس معاملے میں ہم اس کو کتاب و سنت کے ثبوت کی روشنی میں احکامات واضح کریں گے۔ اگر پھر بھی وہ انکار کرتا ہے یا اپنی پرانی روش پر قائم رہتا ہے تو وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا۔ چنانچہ اس قسم کے شخص پر ہم فورا حکم نہیں لگایئں گے بلکہ ہم کہتے ہیں : اس نے یقینا کفریہ الفاظ استعمال کئے ہیں اس لئے اس نے کفر کا رتکاب کیا ہے لیکن اس پر تکفیر کا حکم تب تک نہٰں لگایا جا سکتا جب تک جب تک شرائط پوری نہ کی جایئں اور موانع ختم نہ کئے جایئں۔ تو ہم کہتے ہیں یہ اس کے لئے جواسلام میں نیا نیا داخل ہوا ہو۔
ب- دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو کسی دور دراز صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے اور پرورش پائی اور عام مسلمانوں تک جن کی رسائی نہ ہو کہ وہ اللہ کے دین کو سیکھ سکتے۔ اس طرح کی صورتحال میں اگر ان میں سے کوئی کسی ایسی چیز کا انکار کردے جن کا جاننا دین میں لازم ہے (ہاں اگر شرک اکبر کرے تو اس کا حکم پہلے قسم کی طرح ہوگا یعنی اس کی تکفیر کی جائے گی بغیر تکفیر کی شرائط پوری کئے اور موانع ختم کئے)۔ لیکن اگر ایسا شخص مواحد ہے تو اس پر تکفیر کا حکم نہیں لگیا جائے گا جب تک شرائط پوری نہ کی جایئں اور موانع ختم نہ کئے جایئں۔
چنانچہ اوپر بتائی گئی دو اقسام کو رخصت دی جائے گی یعنی ان پر تب تک تکفیر کا حکم نہیں لگایا جائے گا جب تک شرائط پوری نہ کی جایئں اور موانع ختم نہ کئے جایئں اور اللہ کی حجت نہ قائم کی جائے۔
3- تیسری قسم کا تعلق مسائل الخفیہ (غیر واضح) سے ہے جن میں عالم کا کا علم اور عام آدمی کا علم برابر نہیں ہوتا۔ یہ وہ مسائل ہییں جن کے لئے تکفیر کے اصول بنائے گئے یعنی شرائط کو پورا کرنا اور موانع ختم کرنا۔ اس قسم سے مراد اگر کوئی شخص ایسی کسی چیز کا انکار کرتا ہے جن کے بارے میں صرف ایک عالم دین ہی جانتا ہے جیسا کہ وراثت کے مسائل اور اس کے حصے کرنے کا طریقہ کار۔ تو اگر ایک عام آدمی جو مسلمانوں میں رہ رہا ہو ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے تو اس کے بارے میں یم کہتے ہیں: یہ ایک پوشیدہ مسئلہ ہے جو کہ علما اور طلبا علم کو تو ہوتا ہےلیکن اوسط درجے کے مسلمان کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہ مسائل نہیں جن کا جاننا دین میں لازم ہو۔ کیونکہ ایسے مسائل جن کا جاننا دین میں لازم ہے ان کا علم عالم اور اور ایک آدمی پرابر ہوتا ہے یعنی عام آدمی اس سے جاہل نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں تک وراثت کے مسائل کا تعلق ہے اس بارے میں ایک عالم اور ایک آدمی کا علم برابر نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس صورتحال کے متعلق ہم کہتے ہیں : جو بھی مسائل الخفیہ کا انکار کرے اگرچہ وہ کفر کا مرتکب ہوا ہے لیکن اس پر تکفیر کا حکم تب تک نہیں لگایا جائے گا جب تک شارائط پوری نہ کی جایئں اور موانع ختم نہ کئے جایئں۔
(شرح مفید المستفید فی الحکم تارک التوحید: فتوی نمبر 2)
شارح فتوی : الشیخ احمد ابن عمر الحازمی حفظۃاللہ
شاتگردوں کا تبصرہ:
پہلی قسم کا تعلق کفر اکبر اور شرک اکبر اور ان جیسے اعمال سے ہے۔یعنی دین کی اصل توحید، کفر ا شرک اکبر (اللہ کے پقابلے میں شارع کھڑا کرنا)، جادو (کالا جادو)، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا مذاق اڑانا اور ان جیسے اعمال سے ہے۔چنانچہ جو شخص ان میں سے کسی بھی عمل کا مرتکب ہوا تو دین سے خارج ہے سوائے ان لوگوں پر جن کے پاس اکراہ کا عزر ہے یعنی ان پر زبردستی کی گئی۔
چنانچہ تمام قسم کی معاملات میں ہم میار کو بنیاد بنا کر فیصلہ کریں گے۔ اور دس (10) نواقض اسلام اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ توحید العبادۃکے معمالے میں کوئی عزر نہیں دیا جائے گا کیونکہ یہ دین کی اصل ہے اور تمام انبیا کا دین ہے جیسا کہ غیر اللہ سے دعا کرنا، غیر اللہ کے نام پر ذبیحہ کرنا ، اور کسی دیوتا (غیر اللہ) کے لئے خود کو وقف کرنا یا اس جیسے دوسرے اعمال۔
جاہل کی 2 اقسام ہیں:
(1) ایک وہ جاہل جس کو دنیا میں عزر دیا جائے گا نہ آخرت میں۔ یعنی وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا (ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس عمل سے)۔ اور اس جاہل پر اللہ کی حجت پہلے سے ہی قائم تھی جیسا کہ اس کے پاس رسالت پہنچی۔ اب چاہے اس نے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کو سمجھ نہ سکا یا اس نے مخالفت کی یا اس نے تلاش کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی۔
(2) دوسرا وہ جاہل جس کو آخرت مین عزر دیا جاتا ہے لیکن اس دنیا میں نہیں۔ اور وہ ہے جس پر حجت قئم نہ کی گئی جیسے وہ شخص جو جس نے دور دراز صحراہ یا کیس بلندوبالا پہاڑ پر پرورش پائی یا وہ لوگ جو اہل الفطرۃ میں سے ہیں یا اس جیسے لوگ تو ان لوگوں کو اس دنیا میں مشرک کہا جائے گا لیکن آخرت میں ان کے ساتھ کیا ہوتا وہ ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں اور سب سے بیترین رائے یہ ہے کہ ان کو آخرت میں امتحان میں سے گزار جائے گا ۔ واللہ اعلم
چنانچہ اس قسم کے اشخاص پر تکفیر کا حکم لگانے کے لئے اصول تکفیر کا اطلاق کرنا یا حجت قائم نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ وہ کلمہ گوہ شخص جو اوپر بتائے گئے نواقض میں سے کسی کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو لئے کوئی عزر نیں ہے سوائے اکراہ کے۔
باقی دونوں(2) اقسام کی پہلے ہہی کافی مفصل تشریح کی جاچکی ہے اس لئے ہم ان پر مزید تبصرہ ںہین کریں گے۔
تحریر : ابو مشکوۃ المالدیفی​
 
Last edited by a moderator:
Top