• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تکوینی اور دینی اُمور میں فرق کی اہمیت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تکوینی اور دینی اُمور میں فرق کی اہمیت

اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس ''ارادہ''، ''امر'' ، ''قضاء'' ، ''اذن'' و ''تحریم'' ''بعث'' و ''ارسال''، ''کلام'' و''جعل'' میں جو تکوینی ہے اور جسے اس نے مقدر کیا اور اس کا فیصلہ فرمایا۔ اگرچہ اس کا حکم نہ دیا، نہ اس کو پسند کیا اور نہ اس کے کرنے والوں کو ثواب دیتا ہو اور نہ انہیں اپنے متقی اولیاء میں سے کرتا ہو۔ اور اس ارادہ، قضا، امر، اذن و تحریم، ارسال، کلام اور جعل میں فرق کیا ہے جو دینی ہے اور جس کا اس نے حکم دیا، اسے مشروع کیا اور پسند کیا۔ اس کی تعمیل کرنے والے سے محبت کرتا ہے انہیں ثواب عطا فرماتا ، انہیں عزت دیتا اور انہیں اپنے متقی اولیاء، کامران لشکر اور بامراد جماعت میں سے کرتا ہے۔
اور یہ فرق ان عظیم ترین امور میں سے ہے، جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے دوستوں اور اس کے دشمنوں میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس کو اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کی توفیق ارزاں کی جو کہ اسے محبوب وپسندیدہ ہوں اور وہ شخص اسی حالت میں مر جائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سے ہے اور جس کے کام ایسے ہوں، جن سے پروردگار ناراض ہو اور مرتے دم تک ایسے ہی افعال کا ارتکاب کرتا رہے تو وہ اس کے دشمنوں میں سے ہے۔
چنانچہ ارادۂ کونیہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیئت کا نام ہے جو اس کی مخلوق کے لیے ہوتی ہے اور تمام مخلوقات اس کی مشیئت اور اس کے ارادۂ کونیہ میں شامل ہے۔
جب کہ ارادہِ دینیہ اس کی محبت اور رضا کو شامل ہے۔ اور ان امور کو شامل ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور انہیں دین اور شریعت قرار دیا ہے۔ یہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَمَنْ يُّرِدِ اللہُ اَنْ يَّہْدِيَہ يَشْرَحْ صَدْرَہ لِلْاِسْلَامِ ۰ۚ وَمَنْ يُّرِدْ اَنْ يُّضِلَّہ يَجْعَلْ صَدْرَہ ضَيِّقًاحَرَجًاكَاَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاۗءِالانعام
''جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سینے کو وہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرنے کاارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو وہ تنگ اور بھچا ہوا کر دیتا ہے گویا اسے آسمان پر چڑھنا پڑھ رہا ہے۔''
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:
وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللہُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ۰ۭھود
''میری خیر خواہی تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، اگر اللہ تمہیں کرنے کا ارادہ کرتا ہو۔''
اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
وَاِذَآ اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَہ ۰ۚ وَمَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہ مِنْ وَّالٍالرعد
''جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کوئی مصیبت ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ ٹل نہیں سکتی اور اللہ کے سوا ان لوگوں کا کوئی حامی و مددگار بھی نہیں ۔''
اور دوسرے پارے میں فرمایا:
وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۰ۭ يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۰ۡالبقرہ
''اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پرہو تو دوسرے ایام میں سے اتنے ہی دن شمار کر کے روزہ رکھ لے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمہارے ساتھ سختی کا ارادہ نہیں رکھتا۔''
اور فرمایا:
مَا يُرِيْدُ اللہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْ حَرَج وَّلٰكِنْ يُّرِيْدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۶المائدہ
''اللہ تعالیٰ کا تم پر کسی طرح کی تنگی کرنے کا ارادہ نہیں بلکہ اس کا ارادہ ہے کہ تم پر اپنا احسان پورا کرے تاکہ تم شکر کرو۔''
نکاح کے حلال اور حرام امور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
يُرِيْدُ اللہُ لِيُـبَيِّنَ لَكُمْ وَيَہْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ۲۶ وَاللہُ يُرِيْدُ اَنْ يَّتُوْبَ عَلَيْكُمْ ۰ۣ وَيُرِيْدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِيْلُوْا مَيْلًا عَظِيْمًا ۲۷ يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ۲۸النساء
''اللہ کا ارادہ ہے کہ جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان کے طریقے تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرے اور تم کو انہی کے طریقوں پر چلائے اور تم پر مہر کی نظر رکھے اور جو لوگ نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے بھٹک کر بہت دور جا پڑو۔ اللہ کا ارادہ ہے کہ تم پر سے بوجھ ہلکا کرے اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو امر و نہی ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:
اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا ۳۳ۚالاحزاب
''اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ تم سے ہر طرح کی گندگی دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔''
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ایسی باتوں کا حکم دیا ہے۔ جن سے تمہاری گندگی دور ہوجائے اور تم صاف ستھرے ہوجائو۔ یعنی گندگی کو دور کرنے والے کاموں کا حکم دے دیا گیا ہے جس نے اس حکم کی اطاعت کی وہ پاک ہوجائے گا۔ اس سے گندگی دور ہوجائے گی اس کی نافرمانی کرنے والے کے برخلاف (کہ اس کی تطہیر نہ ہوگی)

الفرقان بین اولیاء الرحمان و اولیاء الشیطان- امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
 
Top