• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تھجد کی اذان کیا بدعت ھے؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@خضر حیات بھائی! @nasim بھائی کا سوال آپ کی لالٹین کا منتظر ہے!
(لالٹین اس لئے کہ سنا ہے پاکستان میں لوڈشیڈنگ ہے)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم
ایک عمرہ زائر کے مطابق مسجد نبوی میں اس اذان کے بعد دو رکعت کی جماعت بھی ہوتی ہے ۔ وہ کس زمرے میں آئی گی۔؟
@مظاہر امیر
@محمد طارق عبداللہ
چار یا پانچ بار عمرے کے سفر کی سعادت حاصل ہوئی ہے لیکن دو رکعت کی جماعت کبھی نہیں دیکھی.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کیا تھجد کے لئے اذان دینا بدعت ھے یا اسکی کوئی دلیل قران و سنت میں ھے ایک بھائی نے کھا ھے کہ مکہ ومدینہ میں تھجد کی نماز کے لئے اذان دی جاتی ھے اوریہ ایک بدعت ھے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے خیال سے محدث فتوی پر اس کا جواب موجود هے ۔ کوئی بهائی رہنمائی فرما دیں ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس مسئلہ میں استاذ الاساتذہ حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا فتوی بہترین ہے
ملاحظہ فرمائیں :
تہجد کی اذان ثابت ہے یا نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تہجد کی اذان ثابت ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں فجر کی دو اذانیں ہوتی تھیں ، ایک طلوعِ فجر سے پہلے اور دوسری طلوع فجر کے بعد چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے اپنی کتاب ’الجامع الصحیح‘ میں دو ہی باب باندھے ہیں۔ پہلا باب ہے بَابُ الْاَذَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ اور دوسرا باب ہے ۔ بَابُ الْاَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ اور دوہی حدیثیں بھی ذکر فرمائی ہیں پہلی حدیث ہے:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ : «لَا یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَوْ اَحَدًا مِّنْکُمْ۔ اَذَانُ بِلَالٍ مِنْ سَحُوْرِہٖ فَإِنَّہُ یُؤَذِّنُ اَوْ یُنَادِیْ بِلَیْلٍ لِیَرْجِعَ قَائِمَکُمْ ، وَلِیُنَبِّہَ نَائِمکُمْ… الخ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بلال رضی الله عنہ کی اذان سن کر سحری کھانا ترک نہ کرے کیونکہ وہ رات کو اذان کہہ دیتا ہے تاکہ تہجد پڑھنے والا(آرام کے لیے ) لوٹ جائے اورجو ابھی سویا ہوا ہے اسے بیدار کر دے۔

اور دوسری حدیث ہے:
عَنْ عَائِشَة وَابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُؤَذِّنَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم (روزہ کے لیے ) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔
نوٹ:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے ہی سحری کی اذان کہنے کا دستور چلا آرہا ہے۔ جو لوگ اس اذان اول کی مخالفت کرتے ہیں ان کا مؤقف صحیح نہیں ہے ۔ البتہ اسے اذانِ تہجد نہیں خیال کرنا چاہیے کیونکہ اس کا مقصد یوں بیان ہوا ہے کہ تہجد گزار گھر واپس چلا جائے اور سونے والا بیدار ہو کر نماز کی تیاری کر لے اور نہ ہی اسے اذانِ فجر سے بہت پہلے کہنا چاہیے۔​
فتاوی احکام ومسائل​


محدث فتویٰ​
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الاسلام سوال و جواب میں ایک فتوی موجود ہے ، وہ بھی دیکھ لیں :

ليس للنوافل أذان ولا إقامة
صلاة التطوع كصلاة الضحى وصلاة الليل ، هل لها من أذان وإقامة أم لا ؟
تم النشر بتاريخ: 2000-08-03
الحمد لله
لا ليس لها أذان ولا إقامة بل إذا توضأت تُصلي ما تيسر لك كصلاة الضحى أو بعد الظهر وآخر الليل أو في أي وقت كان غير أوقات النهي ، فهذه تُصلي بدون أذان ولا إقامة ، لأن رسول الله صلى الله إذا قام يصلي لم ينقل أنه كان يؤذن أو يقيم ، إنما الأذان والإقامة مخصوصان في الفرائض فقط ، أما التراويح والوتر وصلاة التطوع فليس لها أذان ولا إقامة ، كما قرره أهل العلم ، وكما هي سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه الراشدين .
والله أعلم .
من كتاب سماحة الشيخ عبد الله بن حميد ص 114

https://islamqa.info/ar/9360
_________________________
ترجمہ :
عنوان فتوی :
نوافل كے ليے نہ تو اذان ہے اور نہ ہى اقامت
سوال :
كيا نفلى نماز مثلا چاشت اور رات كى نماز كے ليے اذان اور اقامت ہے يا نہيں ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب

الحمد للہ :

نہ تو اس كے ليے اذان ہے اور نہ ہى اقامت، بلكہ جب آپ وضوء كر كے جتنا ميسر ہو نماز ادا كريں، مثلا چاشت كى نماز، يا ظہر كے بعد يا رات كے آخر ميں، يا ممنوعہ اوقات كے علاوہ كسى بھى وقت، تو يہ بغير كسى اقامت اور اذن كے ادا كى جائينگى.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب نماز ادا كى تو ان سے منقول نہيں كہ وہ اذان ديتے يا اقامت كہتے، بلكہ اذان اور اقامت تو فرضى نمازوں كے ساتھ مخصوص ہے.
ليكن تراويح اور وتر اور نفلى نماز كے ليے نہ تو اذان ہے اور نہ ہى اقامت جيسا كہ اہل علم كا فيصلہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور خلفاء راشدين كى سنت بھى يہى ہے.
واللہ تعالى اعلم.

ماخوذ از كتاب: فضيلۃالشيخ عبد اللہ بن حميد ( 114 ).
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تہجد کی اذان کا حکم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فجر کی اذان سے پہلے جو اذان پڑھی جاتی ہے کیا یہ سارا سال پڑھنی چاہیے اور فجر کی اذان سے کتنی دیر پہلے پڑھنی چاہیے اور اس اذان کا مقصد کیا ہے؟ ہمارے ہاں اس مسئلہ پر تین گروہ ہیں:
۱…یہ صرف رمضان المبارک کے مہینے میں اذان پڑھتے ہیں اور فجر کی اذان سے تقریباً ڈھائی گھنٹے پہلے اذان پڑھتے ہیں جب ان سے کہا جائے کہ فجر کی اذان سے اتنی دیر پہلے یہ اذان پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ثابت نہیں تو کہتے ہیں کہ ہم یہ اذان اس لیے پڑھتے ہیں کہ یہ لوگ اُٹھ کر سحری کے لیے کھانا تیار کر لیں۔
۲…یہ سارا سال اذان پڑھتے رہتے ہیں اور فجر کی اذن سے تقریباً پون گھنٹہ (۴۵منٹ) پہلے پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں اس اذان کا مقصد ہے جو لوگ قیام کر رہے ہیں ان کو لوٹایا جائے اور جو سو رہے ہیں ان کو جگایا جائے تاکہ فجر کی نماز کی تیاری کر سکیں۔
۳… یہ کہتے ہیں کہ ۴۵ منٹ کا وقفہ بھی زیادہ ہے صرف اتنا وقفہ ہونا چاہیے کہ ایک مؤذن اذان پوری کر لے تو دوسرا مؤذن اذان شروع کر دے اور استدلال کرتے ہیں بخاری کی اس روایت سے ’’قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا بلال اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دونوں کی اذان میں اتنا ہی فرق ہوتا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑھتا۔
ان تینوں گروہوں میں سے حق پر کون ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس اذان کے رمضان کے ساتھ مخصوص ہونے کی کوئی دلیل نہیں ، یہ رات والی اذان فجر کی اذان سے تھوڑی دیر پہلے کہی جاتی تھی۔ منٹوں ، گھنٹوں میں اس وقفے کی تعیین کہیں وارد نہیں ہوئی۔ اس اذان کا مقصد ہے قیام کرنے والوں کو لوٹایا جائے اور سوئے ہووؤں کو جگایا جائے۔ (بخاري،کتاب الاذان)
فتاوی احکام ومسائل

کتاب الصلاۃ ج 2 ص 170۔171

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
خزاک اللہ خیرا
جزاکم اللہ تعالی خیراً وزادکم اللہ علماً و فضلاً
مجھے دعاء دیتے آپ سے خطا ہوگئی ، بجائے جزاک اللہ لکھنے کے ۔۔ خزاک اللہ ، لکھ دیا جولفظاً بد دعاء بن گئی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ معاف فرمائے اس خطاء کو ۔

ولکن
الله تعالی دلوں کے احوال سے واقف هے ، اللہ سبحانہ وتعالی سے دعاء ہیکہ هماری قلبی دعاوں کو آپکے حق میں قبول فرمائے ۔

جزاک اللہ خیرا
 
Top