اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,684
- ری ایکشن اسکور
- 751
- پوائنٹ
- 290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
علم جرح و تعدیل کے اکابر علماء جیسے علامہ مزی، علامہ ذہبی، حافظ ابن حجر وغیرہ اپنی کتب میں بلا سند جرح و تعدیل ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ بہت ہی زیادہ ہے۔ سند کے ساتھ بہت نادر ہے۔
اس کا ہم کیا مطلب لیں کہ ان کے نزدیک ذکر کردہ قول اس حد تک ثابت تھا کہ انہوں نے اسے بلا سند ذکر کر دیا؟
اگر اس حد تک ثابت نہیں تھا تو اسے اس طرح ذکر کرنے کا مقصد؟؟ جب کہ ان کی کتب جرح و تعدیل میں مرجع خلائق ہیں اور یہ خود بھی اس فن میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے؟ خصوصاً مزی اور ذہبی رحمہما اللہ کہ یہ بہت زیادہ معتدل بھی ہیں؟
ائمہ جرح و تعدیل نے یہ بات تو کی ہے کہ اقوال جرح و تعدیل کے لیے بھی سند کو دیکھا جانا چاہیے اور یہ مختلف مقامات پر ان کے عمل سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ وہ قول کے کسی راوی پر جرح کرتے ہیں۔ لیکن کن اصولوں کے تحت؟؟ وہ کہیں مذکور نہیں۔ تو پھر ان کے ان اقوال کی صحت و ضعف کن اصولوں کے تحت سمجھا جائے گا؟؟
اس کی ایک مثال ذکر کرتا ہوں: ایک راوی ہیں موسی بن محمد البلقاوی۔ یہ کذاب اور وضاع راوی ہیں۔ امام مالکؒ سے روایت کرتے ہیں۔ انہیں ذہبیؒ نے خود دیوان ضعفاء میں کذاب کہا ہے۔
لیکن جب سیر الاعلام میں ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ان کی سند سے ایک روایت ذکر کی ہے تو اس کے بعد کہتے ہیں:
قال عثمان الدارمي: حدثنا موسى بن محمد البلقاوي: سمعت مالكا يقول:
حدث الزهري بمائة حديث، ثم التفت إلي، فقال: كم حفظت يا مالك؟
قلت: أربعين.
فوضع يده على جبهته، ثم قال: إنا لله! كيف نقص الحفظ.
موسى: ضعيف.
ضعیف اور کذاب کی جرح میں کافی فرق ہے۔ یہاں ضعیف کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ذہبی کے نزدیک حدیث میں کذاب اور اقوال الرجال میں ضعیف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو علم جرح و تعدیل میں تساہل برتا گیا ہے بنسبت علم حدیث کے چنانچہ بہت سی ضعیف اسناد کو بھی قبول کیا گیا ہے، اور یا پھر اس کے اصول الگ ہیں۔
از راہ کرم رہنمائی فرمائیے۔
علم جرح و تعدیل کے اکابر علماء جیسے علامہ مزی، علامہ ذہبی، حافظ ابن حجر وغیرہ اپنی کتب میں بلا سند جرح و تعدیل ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ بہت ہی زیادہ ہے۔ سند کے ساتھ بہت نادر ہے۔
اس کا ہم کیا مطلب لیں کہ ان کے نزدیک ذکر کردہ قول اس حد تک ثابت تھا کہ انہوں نے اسے بلا سند ذکر کر دیا؟
اگر اس حد تک ثابت نہیں تھا تو اسے اس طرح ذکر کرنے کا مقصد؟؟ جب کہ ان کی کتب جرح و تعدیل میں مرجع خلائق ہیں اور یہ خود بھی اس فن میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے؟ خصوصاً مزی اور ذہبی رحمہما اللہ کہ یہ بہت زیادہ معتدل بھی ہیں؟
ائمہ جرح و تعدیل نے یہ بات تو کی ہے کہ اقوال جرح و تعدیل کے لیے بھی سند کو دیکھا جانا چاہیے اور یہ مختلف مقامات پر ان کے عمل سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ وہ قول کے کسی راوی پر جرح کرتے ہیں۔ لیکن کن اصولوں کے تحت؟؟ وہ کہیں مذکور نہیں۔ تو پھر ان کے ان اقوال کی صحت و ضعف کن اصولوں کے تحت سمجھا جائے گا؟؟
اس کی ایک مثال ذکر کرتا ہوں: ایک راوی ہیں موسی بن محمد البلقاوی۔ یہ کذاب اور وضاع راوی ہیں۔ امام مالکؒ سے روایت کرتے ہیں۔ انہیں ذہبیؒ نے خود دیوان ضعفاء میں کذاب کہا ہے۔
لیکن جب سیر الاعلام میں ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ان کی سند سے ایک روایت ذکر کی ہے تو اس کے بعد کہتے ہیں:
قال عثمان الدارمي: حدثنا موسى بن محمد البلقاوي: سمعت مالكا يقول:
حدث الزهري بمائة حديث، ثم التفت إلي، فقال: كم حفظت يا مالك؟
قلت: أربعين.
فوضع يده على جبهته، ثم قال: إنا لله! كيف نقص الحفظ.
موسى: ضعيف.
ضعیف اور کذاب کی جرح میں کافی فرق ہے۔ یہاں ضعیف کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ذہبی کے نزدیک حدیث میں کذاب اور اقوال الرجال میں ضعیف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو علم جرح و تعدیل میں تساہل برتا گیا ہے بنسبت علم حدیث کے چنانچہ بہت سی ضعیف اسناد کو بھی قبول کیا گیا ہے، اور یا پھر اس کے اصول الگ ہیں۔
از راہ کرم رہنمائی فرمائیے۔