• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تہذیب الکمال، سیر الاعلام، تہذیب التہذیب وغیرہ میں بے سند جرح و تعدیل

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
علم جرح و تعدیل کے اکابر علماء جیسے علامہ مزی، علامہ ذہبی، حافظ ابن حجر وغیرہ اپنی کتب میں بلا سند جرح و تعدیل ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ بہت ہی زیادہ ہے۔ سند کے ساتھ بہت نادر ہے۔
اس کا ہم کیا مطلب لیں کہ ان کے نزدیک ذکر کردہ قول اس حد تک ثابت تھا کہ انہوں نے اسے بلا سند ذکر کر دیا؟
اگر اس حد تک ثابت نہیں تھا تو اسے اس طرح ذکر کرنے کا مقصد؟؟ جب کہ ان کی کتب جرح و تعدیل میں مرجع خلائق ہیں اور یہ خود بھی اس فن میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے؟ خصوصاً مزی اور ذہبی رحمہما اللہ کہ یہ بہت زیادہ معتدل بھی ہیں؟

ائمہ جرح و تعدیل نے یہ بات تو کی ہے کہ اقوال جرح و تعدیل کے لیے بھی سند کو دیکھا جانا چاہیے اور یہ مختلف مقامات پر ان کے عمل سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ وہ قول کے کسی راوی پر جرح کرتے ہیں۔ لیکن کن اصولوں کے تحت؟؟ وہ کہیں مذکور نہیں۔ تو پھر ان کے ان اقوال کی صحت و ضعف کن اصولوں کے تحت سمجھا جائے گا؟؟
اس کی ایک مثال ذکر کرتا ہوں: ایک راوی ہیں موسی بن محمد البلقاوی۔ یہ کذاب اور وضاع راوی ہیں۔ امام مالکؒ سے روایت کرتے ہیں۔ انہیں ذہبیؒ نے خود دیوان ضعفاء میں کذاب کہا ہے۔
لیکن جب سیر الاعلام میں ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ان کی سند سے ایک روایت ذکر کی ہے تو اس کے بعد کہتے ہیں:
قال عثمان الدارمي: حدثنا موسى بن محمد البلقاوي: سمعت مالكا يقول:
حدث الزهري بمائة حديث، ثم التفت إلي، فقال: كم حفظت يا مالك؟
قلت: أربعين.
فوضع يده على جبهته، ثم قال: إنا لله! كيف نقص الحفظ.
موسى: ضعيف.
ضعیف اور کذاب کی جرح میں کافی فرق ہے۔ یہاں ضعیف کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ذہبی کے نزدیک حدیث میں کذاب اور اقوال الرجال میں ضعیف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو علم جرح و تعدیل میں تساہل برتا گیا ہے بنسبت علم حدیث کے چنانچہ بہت سی ضعیف اسناد کو بھی قبول کیا گیا ہے، اور یا پھر اس کے اصول الگ ہیں۔
از راہ کرم رہنمائی فرمائیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اسی طرح ایک راوی کدیمی ہیں جن پر کذب اور وضع کا الزام ہے۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے الہدی الساری میں ان کو ایک قول کی روایت میں ضعیف قرار دیا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علم جرح و تعدیل کے اکابر علماء جیسے علامہ مزی، علامہ ذہبی، حافظ ابن حجر وغیرہ اپنی کتب میں بلا سند جرح و تعدیل ذکر کرتے ہیں۔ اور یہ بہت ہی زیادہ ہے۔ سند کے ساتھ بہت نادر ہے۔
یہ متاخر علماء ناقل ہیں ، انہوں نے متقدمین علماء کی کتابوں سے یہ چیزیں نقل کی ہیں ، اور جن کتابوں سے انہوں نے نقل کیا ہے ، انہوں کو اقوال کو بالاسانید ذکر کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔
التاریخ الکبیر للبخاری ، الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم ، الطبقات لابن سعد ، تاریخ الدمشقی ، تاریخ الفسوی ، تواریخ ابن معین ، الکامل لابن عدی ، ابن حبان ، خطیب بغدادی حتی کہ حافظ ابن عساکر وغیرہ تک جتنی کتب ہیں ،سب کتب مسندہ ہیں ۔
اس کا ہم کیا مطلب لیں کہ ان کے نزدیک ذکر کردہ قول اس حد تک ثابت تھا کہ انہوں نے اسے بلا سند ذکر کر دیا؟
اگر اس حد تک ثابت نہیں تھا تو اسے اس طرح ذکر کرنے کا مقصد؟؟ جب کہ ان کی کتب جرح و تعدیل میں مرجع خلائق ہیں اور یہ خود بھی اس فن میں کمال تک پہنچے ہوئے تھے؟ خصوصاً مزی اور ذہبی رحمہما اللہ کہ یہ بہت زیادہ معتدل بھی ہیں؟
اسانید حذف کرنے کا مقصد زیادہ سے زیادہ راویوں اور اس سے متعلق اقوال کو ایک جگہ جمع کرنا تھا ۔ البتہ بعض مصنفین جیساکہ حافظ مزی نے صراحت کی ہے کہ جہاں میں سند ذکر نہ کروں تو اس کا مطلب ہے کہ میرے نزدیک وہ سند قابل اعتراض نہیں ۔
لیکن سب کتب میں اس منہج کا التزام کیا گیا ہو ، میرے علم میں نہیں ۔
اس لیے اس طرح کی کسی بھی کتاب سے نقل کردہ قول کی تحقیق کرنی چاہیے ، اور متقدم کتابوں سے اس کی اسانید وغیرہ چیک کرنی چاہیے ، جیساکہ محدثین کا منہج رہا اور اب بھی ہے ۔ اور بالخصوص جب اقوال میں تعارض نظر آرہا ہو پھر تو بلا سند یا ضعیف السند قول کا کوئی اعتبار نہیں ۔ جیسا کہ شیخ مشایخنا الشیخ عبد العزیز العبد اللطیف نے ضوابط الجرح و التعدیل میں اس بات کی صراحت کی ہے ۔
ائمہ جرح و تعدیل نے یہ بات تو کی ہے کہ اقوال جرح و تعدیل کے لیے بھی سند کو دیکھا جانا چاہیے اور یہ مختلف مقامات پر ان کے عمل سے ظاہر بھی ہوتا ہے کہ وہ قول کے کسی راوی پر جرح کرتے ہیں۔ لیکن کن اصولوں کے تحت؟؟ وہ کہیں مذکور نہیں۔ تو پھر ان کے ان اقوال کی صحت و ضعف کن اصولوں کے تحت سمجھا جائے گا؟؟
خبر کی تحقیق کے اصول ایک ہی طرح کے ہیں ، جو کہ اصول حدیث میں درج کردیے گئے ہیں ، جہاں بھی خبر کی تحقیق کی ضرورت پڑے گی ، یہی اصول لاگو ہوں گے ، اسی لیے محدثین سے ہٹ کر کسی نےاپنے الگ سے اصول مرتب نہیں کیے ۔
ہاں البتہ بعض جگہوں پر تساہل کیا جاتا ہے ، یا احادیث کی طرح تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، اس لیے وہاں یہ اصول لاگو نہیں کیے جاتے ۔
تاریخ ، علم جرح و تعدل اور رجال وغیرہ کا یہی معاملہ ہے ، ہاں البتہ یہاں بھی جب بھی خبر کی تحقیق ہوگی تو اصول حدیث کے مطابق ہی ، اور کسی فن میں ایسے اصول سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
اس کی ایک مثال ذکر کرتا ہوں: ایک راوی ہیں موسی بن محمد البلقاوی۔ یہ کذاب اور وضاع راوی ہیں۔ امام مالکؒ سے روایت کرتے ہیں۔ انہیں ذہبیؒ نے خود دیوان ضعفاء میں کذاب کہا ہے۔
لیکن جب سیر الاعلام میں ابن شہاب زہریؒ کے بارے میں ان کی سند سے ایک روایت ذکر کی ہے تو اس کے بعد کہتے ہیں:
قال عثمان الدارمي: حدثنا موسى بن محمد البلقاوي: سمعت مالكا يقول:
حدث الزهري بمائة حديث، ثم التفت إلي، فقال: كم حفظت يا مالك؟
قلت: أربعين.
فوضع يده على جبهته، ثم قال: إنا لله! كيف نقص الحفظ.
موسى: ضعيف.
ضعیف اور کذاب کی جرح میں کافی فرق ہے۔ یہاں ضعیف کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص ذہبی کے نزدیک حدیث میں کذاب اور اقوال الرجال میں ضعیف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو علم جرح و تعدیل میں تساہل برتا گیا ہے بنسبت علم حدیث کے چنانچہ بہت سی ضعیف اسناد کو بھی قبول کیا گیا ہے، اور یا پھر اس کے اصول الگ ہیں۔
از راہ کرم رہنمائی فرمائیے۔
جیسا کہ عرض کیا ، اصول ایک ہی ہیں ، البتہ ان اصولوں کی تطبیق میں فرق سمجھ لیجیے ۔
مزید تفصیل کے لیے یہاں دیکھ لیجیے ۔
علم جرح و تعدیل کی ضرورت احادیث سے زیادہ تاریخ کو ہے ۔
تہذیب الکمال میں حافظ مزی کا بالجزم روایت کرنا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا
آپ نے بہت عمدہ جواب دیا اور اشکال کو دور کر دیا.
مزید ایک دو چیزیں بتا دیجیے.
1. کیا تساہل میں جرح اور تعدیل کے درمیان فرق ہوگا؟ یعنی جرح میں تو ایک مسلمان کو مجروح کرنا ہوتا ہے تو وہاں تساہل نہ برتا جائے لیکن تعدیل میں برتا جائے؟
2. علامہ ذہبی رح نے صراحت نہیں کی کہ جہاں سند ذکر نہ کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سند میرے نزدیک بے غبار ہے. لیکن آپ کا طریقہ کار اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جہاں اعتراض ہو سند میں ان کے نزدیک تو وہاں ذکر کر دیتے ہیں. تو کیا ان کے اس طریقہ کار کا ہم اعتبار کریں گے؟
3. تساہل کا معیار کیا ہوگا؟ یعنی کتنا تساہل؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کذاب راوی تاریخ یا علم جرح و تعدیل میں ضعیف ہو جاتا ہے تو کیا اس کا کوئی معیار ہے؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قرآن کا مرتبہ الگ ہے، حدیث کا مرتبہ الگ ہے، بزرگان دین اورائمہ عظام کا مرتبہ الگ ہے، ہرایک کیلئے یکساں قسم کالحاظ وبرتائوکامطالبہ کرنا نہایت ناروا ہے، قرآن کیلئے خبر متواتر چاہئے،حدیث اس سے کم تر خبر مشہور اورخبر آحاد پر ٹکی ہوتی ہیں، پھر حدیث میں خود ایک باب فضائل ومناقب اور احکام شرعی کے درمیان فرق کا ہے،کسی میں صحیح حدیث کی ضرورت ہوتی ہے اورکسی میں اس سے کم تر پر کام چل جاتاہے۔
سیرت کے باب میں حدیث سے کم تر درجہ کے راویوں پر بھی گزاراکیاجاتاہے،صحابہ کی سیرت میں اس سے بھی کم تر اوربزرگان دین کی سیرت وسوانح میں اس سے بھی کم تر ۔بات واضح ہے کہ
گرفرق مراتب نہ کنی زندیقی
اس کی نہایت واضح مثالیں ہمیں حافظ ذہبی کے ہی یہاں ملتی ہیں کہ خود متعدد راویوں پر شدید جرح کرنے کے باوجود سیر اعلام النبلاء اوردیگر کتابوں میں بزرگان دین کے واقعات میں ان رایوں سے مروی حکایات وسوانح نقل کرتے چلے جاتے ہیں،الایہ کہ کسی کی سیرت وسوانح میں کوئی ایسی بات ہو جوخلاف شریعت ہو تواس پر تنبیہ ضرور کردیتے ہیں۔
جرح وتعدیل کی کتابیں بہت ساری وہ بھی ہیں جو ناپید ہوگئیں ،اب نہیں ملتی، حافظ ذہبی یامزی کے سامنے تک جو کتابیں تھیں وہ آج نہیں ہیں، ایسے میں وہ اقوال جن کا ثبوت موجودہ کتابوں میں نہیں ملتاہے،ہم ان بزرگوں پر اعتماد کرتے ہوئے قبول کرلیں گے۔جو اقوال سند کے ساتھ موجودہ دستیاب کتابوں میں ملتے ہیں تواس باب میں ہم ان اسانید کی جانب رجوع کریں گے اوردیکھیں گے کہ سند کیسی ہے؟جن بزرگوں نے اپنی کتاب میں صحت کا التزام کیاہے یامعتدبہ طورپر صحت کا التزام کیاہے، جیسے مزی،ذہبی، ابن حجر توان کے اقوال کوبھی ہم قبول کریں گے،تاوقتیکہ ہمیں دلیل اورپختہ دلیل سے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ یہاں پر ان سےواقعی غلطی ہوئی ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
کذاب اور وضاع راویوں کا حدیث میں کذب اور وضع کے خاص اسباب ہوتے ہیں جن کی بنا پر ان کی احادیث رد کی جاتی ہیں۔ لیکن اقوال جرح وتعدیل میں بعض اوقات وہ اسباب نہیں رہتے اس لئے بعض اوقات ان کی روایات کو بطور اعتبار لے لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کسی راوی کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ اس کے کذب اور وضع کے اسباب اقوال جرح وتعدیل میں بھی شامل ہیں تو ایسے شخص کی روایات ان میں بھی بطور اعتبار نہیں لی جائیں گی۔ مثلا محمد بن الصلت کے بارے میں مشہور ہے کے وہ خاص امام ابو حنیفہ کے مناقب میں اقوال گھڑا کرتا تھا تو اس بارے میں اس کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی کیونکہ اس کا کذب ان اقوال میں بھی ثابت ہو چکا ہے۔

مزید یہ کہ اقوال جرح وتعدیل میں تساہل جائز ہے لیکن اختلاف کی صورت میں سند سے رجوع کیا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ واضح غلطی کے ثبوت پر اسے محض ضعیف سمجھ کر قبول تو نہیں کیا جائے گا۔
البتہ چونکہ ان اقوال میں اتنے پختہ ضبط کی ضرورت نہیں ہوتی اس لئے ضعیف ومتروک رواۃ جو فی نفسہ صدوق ہوں، یا مجہول الحال رواۃ، یا مختلط ومدلس رواۃ وغیرہ کی روایات قبول کی جائیں گی جب تک ان میں غلطی یا اختلاف ثابت نہ ہوجائے۔
واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا
آپ نے بہت عمدہ جواب دیا اور اشکال کو دور کر دیا.
مزید ایک دو چیزیں بتا دیجیے.
1. کیا تساہل میں جرح اور تعدیل کے درمیان فرق ہوگا؟ یعنی جرح میں تو ایک مسلمان کو مجروح کرنا ہوتا ہے تو وہاں تساہل نہ برتا جائے لیکن تعدیل میں برتا جائے؟
2. علامہ ذہبی رح نے صراحت نہیں کی کہ جہاں سند ذکر نہ کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سند میرے نزدیک بے غبار ہے. لیکن آپ کا طریقہ کار اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جہاں اعتراض ہو سند میں ان کے نزدیک تو وہاں ذکر کر دیتے ہیں. تو کیا ان کے اس طریقہ کار کا ہم اعتبار کریں گے؟
3. تساہل کا معیار کیا ہوگا؟ یعنی کتنا تساہل؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کذاب راوی تاریخ یا علم جرح و تعدیل میں ضعیف ہو جاتا ہے تو کیا اس کا کوئی معیار ہے؟
جزاکما اللہ خیرا @رضا میاں بھائی اور @رحمانی بھائی.
لگے ہاتھوں ان تین سوالات کا بھی جواب دے دیجیے.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
1. کیا تساہل میں جرح اور تعدیل کے درمیان فرق ہوگا؟ یعنی جرح میں تو ایک مسلمان کو مجروح کرنا ہوتا ہے تو وہاں تساہل نہ برتا جائے لیکن تعدیل میں برتا جائے؟
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مطلوب و محمود چیز ’ اعتدال ‘ ہے ، ’ تساہل ‘ اور ’ تشدد ‘ ایسے رویے ہیں ، جو نوٹ کیے گئے ہیں ۔
لہذا کسی بھی معاملے میں تساہل و تشدد ہر دو چیزوں سے بچنا چاہیے ۔
البتہ جن علماء جرح و تعدیل میں تساہل و تشدد سامنے آیا ہے ، وہ دونوں طرح کا ہے ، بعض توثیق میں تساہل کرتے ہیں ، بعض تجریح میں ۔ بعض علماء توثیق میں متساہل اور تجریح میں متشدد ہوتے ہیں ۔
یعنی تساہل اور تشدد دونوں طرف ہوجاتاہے ۔ جبکہ دونوں طرف اعتدال ہی ہونا چاہیے ۔
رہی بات تاریخی روایات میں تساہل کی ، تو اس سے مراد حدیث اور جرح و تعدیل کے اصولوں کی تطبیق میں تساہل کرنا ہے ، ان کا تعلق جرح سے ہو یا تعدیل سے ، یا اس سے ہٹ کر دیگر مباحث سے ۔
2. علامہ ذہبی رح نے صراحت نہیں کی کہ جہاں سند ذکر نہ کروں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سند میرے نزدیک بے غبار ہے. لیکن آپ کا طریقہ کار اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جہاں اعتراض ہو سند میں ان کے نزدیک تو وہاں ذکر کر دیتے ہیں. تو کیا ان کے اس طریقہ کار کا ہم اعتبار کریں گے؟
اس طرح کی چیزوں کو قرائن کہتے ہیں، یہ اسی صورت میں قابل اعتبار ہیں ، جن ان سے قوی ان کے خلاف نہ ہوں ۔ مثال کے طور بر حافظ مزی کسی قول کو بلاسند ذکر کریں ، الجرح و التعدیل ابن ابی حاتم کی طرف رجوع کرنے سے اس کی سند میں کوئی کذاب و وضاع راوی مل جائے، تو ظاہر ہے حافظ مزی کا بلاسند نقل کرنا کوئی فائدہ مند نہیں ۔
3. تساہل کا معیار کیا ہوگا؟ یعنی کتنا تساہل؟ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کذاب راوی تاریخ یا علم جرح و تعدیل میں ضعیف ہو جاتا ہے تو کیا اس کا کوئی معیار ہے؟
آپ نے اس حوالے سے جو مثال پیش کی ہیں کہ حافظ ذہبی نے ایک ہی راوی کو ایک جگہ کذاب اور دوسری جگہ ضعیف کہا ۔ اور پھر اس سے نتیجہ اخذ کیا ، مجھے اس کو درست تسلیم کرنے میں تامل ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصول حدیث یا جرح و تعدیل کی اصطلاحیں ، قواعد اور قوانین ایک ہی رہیں گے ، ہاں البتہ روایت کی اہمیت کے پیش نظر ان قواعد کے اطلاق میں فرق ہوجائے گا ۔ یعنی وضاع بہتر ہو کر ضعیف اور ضعیف ثقہ نہیں ہوسکتا ، ہاں البتہ بعض جگہ میں ضعیف راوی کے ضعف کے باوجود اس کی روایت کو نقل کردوں گا ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مطلوب و محمود چیز ’ اعتدال ‘ ہے ، ’ تساہل ‘ اور ’ تشدد ‘ ایسے رویے ہیں ، جو نوٹ کیے گئے ہیں ۔
لہذا کسی بھی معاملے میں تساہل و تشدد ہر دو چیزوں سے بچنا چاہیے ۔
البتہ جن علماء جرح و تعدیل میں تساہل و تشدد سامنے آیا ہے ، وہ دونوں طرح کا ہے ، بعض توثیق میں تساہل کرتے ہیں ، بعض تجریح میں ۔ بعض علماء توثیق میں متساہل اور تجریح میں متشدد ہوتے ہیں ۔
یعنی تساہل اور تشدد دونوں طرف ہوجاتاہے ۔ جبکہ دونوں طرف اعتدال ہی ہونا چاہیے ۔
رہی بات تاریخی روایات میں تساہل کی ، تو اس سے مراد حدیث اور جرح و تعدیل کے اصولوں کی تطبیق میں تساہل کرنا ہے ، ان کا تعلق جرح سے ہو یا تعدیل سے ، یا اس سے ہٹ کر دیگر مباحث سے ۔

اس طرح کی چیزوں کو قرائن کہتے ہیں، یہ اسی صورت میں قابل اعتبار ہیں ، جن ان سے قوی ان کے خلاف نہ ہوں ۔ مثال کے طور بر حافظ مزی کسی قول کو بلاسند ذکر کریں ، الجرح و التعدیل ابن ابی حاتم کی طرف رجوع کرنے سے اس کی سند میں کوئی کذاب و وضاع راوی مل جائے، تو ظاہر ہے حافظ مزی کا بلاسند نقل کرنا کوئی فائدہ مند نہیں ۔

آپ نے اس حوالے سے جو مثال پیش کی ہیں کہ حافظ ذہبی نے ایک ہی راوی کو ایک جگہ کذاب اور دوسری جگہ ضعیف کہا ۔ اور پھر اس سے نتیجہ اخذ کیا ، مجھے اس کو درست تسلیم کرنے میں تامل ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصول حدیث یا جرح و تعدیل کی اصطلاحیں ، قواعد اور قوانین ایک ہی رہیں گے ، ہاں البتہ روایت کی اہمیت کے پیش نظر ان قواعد کے اطلاق میں فرق ہوجائے گا ۔ یعنی وضاع بہتر ہو کر ضعیف اور ضعیف ثقہ نہیں ہوسکتا ، ہاں البتہ بعض جگہ میں ضعیف راوی کے ضعف کے باوجود اس کی روایت کو نقل کردوں گا ۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top