- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
تیسرا مرحلہ :
بیرون مکہ دعوتِ اسلام
(رسول اللہﷺ طائف میں )
شوال ۱۰ نبوت (اواخر مئی یا اوائل جون ۶۱۹ ء ) میں نبیﷺ طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکہ سے ایک سو تیس کلو میٹر سے زیادہ دور ہے۔ آپﷺ نے یہ مسافت آتے جاتے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپﷺ کے ہمراہ آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے۔ عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ، ان تینوں کے والد کا نام عمرو بن عُمیر ثَقَفی تھا۔آپﷺ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ 1دوسرے نے کہا : کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔ اگرتم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطر ناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہ جواب سن کر آپﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ، اور صرف اتنا فرمایا : تم لوگوں نے جوکچھ کیا کیا ، بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا۔
رسول اللہﷺ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔اس دوران آپﷺ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے ، اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی چلنے لگے۔ جس سے آپﷺ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہوگئے۔ ادھر حضرت زیدؓ بن حارثہ ڈھال بن کرچلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپ کو عتبہ اور شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ یہ باغ طائف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ اُردو کے اس محاوے سے ملتا جلتا ہوا ہے کہ ''اگر تم پیغمبر ہو تو اللہ مجھے غارت کرے۔'' مقصود اس یقین کا اظہار ہے کہ تمہارا پیغمبر ہونا ناممکن ہے جیسے کعبے کے پردے پر دست درازی کرنا ناممکن ہے۔