• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم تیسرا مرحلہ : بیرون مکہ دعوتِ اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

تیسرا مرحلہ :
بیرون مکہ دعوتِ اسلام


(رسول اللہﷺ طائف میں )
شوال ۱۰ نبوت (اواخر مئی یا اوائل جون ۶۱۹ ء ) میں نبیﷺ طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکہ سے ایک سو تیس کلو میٹر سے زیادہ دور ہے۔ آپﷺ نے یہ مسافت آتے جاتے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپﷺ کے ہمراہ آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی۔ جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے۔ عبدیالیل ، مسعود اور حبیب ، ان تینوں کے والد کا نام عمرو بن عُمیر ثَقَفی تھا۔آپﷺ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو۔ 1دوسرے نے کہا : کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا ؟ تیسرے نے کہا : میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔ اگرتم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطر ناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہ جواب سن کر آپﷺ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے ، اور صرف اتنا فرمایا : تم لوگوں نے جوکچھ کیا کیا ، بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا۔
رسول اللہﷺ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔اس دوران آپﷺ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ۔ بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے ، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے ، اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی چلنے لگے۔ جس سے آپﷺ کی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہوگئے۔ ادھر حضرت زیدؓ بن حارثہ ڈھال بن کرچلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے۔ جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپ کو عتبہ اور شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔ یہ باغ طائف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ اُردو کے اس محاوے سے ملتا جلتا ہوا ہے کہ ''اگر تم پیغمبر ہو تو اللہ مجھے غارت کرے۔'' مقصود اس یقین کا اظہار ہے کہ تمہارا پیغمبر ہونا ناممکن ہے جیسے کعبے کے پردے پر دست درازی کرنا ناممکن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سے تین میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب آپﷺ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی اور آپﷺ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کے بیل کے سائے میں بیٹھ گئے۔ قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک بھی شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپﷺ کس قدر دل فگا رتھے اور آپﷺ کے احساسات پر حزن والم اور غم وافسوس کا کس قدر غلبہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا :
(( اللّٰہم إلیک أشکو ضعف قوتی وقلۃ حیلتی وہوانی علی الناس یا أرحم الراحمین أنت رب المستضعفین وأنت ربی ٗ إلی من تکلنی؟ إلی بعید یتجہمني ؟ أم إلی عدو ملکتہ أمری۔ إن لم یکن بک علی غضب فلا أبالی ٗ ولکن عافیتک ہی أوسع لی ٗ أعوذبنور وجہک الذی أشرقت لہ الظلمات وصلح علیہ أمر الدنیا والآخرۃ من ان تنزل بی غضبک أو یحل علی سخطک ٗ لک العتبی حتی ترضی ٗ ولا حول ولا قوۃ إلا بک ۔))
''بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین۔ تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے ؟ کیا کسی بیگانے کے جومیرے ساتھ تندی سے پیش آئے ؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنادیا ہے ؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیر ے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پردنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے ، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو۔ تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔''
ادھر آپﷺ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالتِ زار میں دیکھا تو ان کے جذبۂ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو جس کا نام عداس تھا بلا کر کہا کہ اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آؤ۔ جب اس نے انگور آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپﷺ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔
عداس نے کہا: یہ جملہ توا س علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے ؟ اس نے کہا :میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا ! تم مرد صالح یونس بن متیٰ کی بستی کے رہنے والے ہو۔ اس نے کہا: آپ (ﷺ ) یونس بن متٰی کو کیسے جانتے ہیں ؟رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ میرے بھائی تھے، وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس رسول اللہﷺ پر جھک پڑا اور آپﷺ کے سر اور ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا۔
یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا: لو ! اس شخص نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا۔ اس کے بعد عداس واپس گیا تودونوں نے اس سے کہا: ا جی ! یہ کیا معاملہ تھا ؟ اس نے کہا: میرے آقا ! روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی ہے جسے نبی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان دونوں نے کہا : دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دے، کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔ 1
قدرے ٹھہر کر رسول اللہﷺ باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پر چل پڑے۔ غم والم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ قرنِ منازل پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ وہ آپﷺ سے یہ گزارش کر نے آیا تھا کہ آپﷺ حکم دیں تو وہ اہل مکہ کو دوپہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے۔
اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے، ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں !تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا ، جب میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل بن عبد ِ کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا، مگر اس نے میری بات منظور نہ کی تو میں غم والم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔ وہاں میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبریل علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے پکارکر کہا : آپ(ﷺ )کی قوم نے آپ سے جو بات کہی اللہ نے اسے سن لیا ہے۔ اب اس نے آپﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپﷺ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلا م کر نے کے بعد کہا : اے محمد (ﷺ ) ! بات یہی ہے۔ آپ (ﷺ ) جو چاہیں ...اگر چاہیں کہ میں انہیں دوپہاڑوں2 کے درمیان کچل دوں... تو ایسا ہی ہوگا... نبیﷺ نے فرمایا : (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کر ے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔ 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ملخص ازابن ہشام ۱/۴۱۹ -۴۲۱
2 اس موقع پر صحیح بخاری میں لفظ اخشبین استعمال کیا گیا ہے۔ جو مکہ کے دومشہور پہاڑوں ابو قبیس اور قعیقعان پر بولا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہاڑ علی الترتیب حرم کے جنوب وشمال میں آمنے سامنے واقع ہیں۔ اس وقت مکے کی عام آبادی انھی دوپہاڑوں کے نیچ میں تھی۔
3 صحیح بخاری کتاب بدء الخلق ۱/۴۵۸ مسلم باب مالقی النبیﷺمن اذی المشرکین والمنافقین۲/۱۰۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رسول اللہﷺ کے اس جواب میں آپ کی یگانۂ روز گا ر شخصیت اور ناقابلِ ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہر حال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپﷺ کا دل مطمئن ہوگیا اور غم والم کے بادل چھٹ گئے۔ چنانچہ آپﷺ نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی ٔ نخلہ میں جافروکش ہوئے۔ یہاں دوجگہیں قیام کے لائق ہیں ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ۔ کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے ، لیکن کسی ماخذ سے یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آپﷺ نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا تھا۔ وادیٔ نخلہمیں آپﷺ کا قیام چند دن رہا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی1جس کا ذکر قرآن مجید میں دوجگہ آیا ہے۔ ایک سورۃ الاحقاف میں ، دوسرے سورہ ٔ جن میں ، سورۃ الاحقاف کی آیات یہ ہیں :
وَإِذْ صَرَ‌فْنَا إِلَيْكَ نَفَرً‌ا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْ‌آنَ فَلَمَّا حَضَرُ‌وهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِ‌يقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٣٠﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْ‌كُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣١﴾ (۴۶: ۲۹ - ۳۱ )
'' اور جب کہ ہم نے آپ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیر اکہ وہ قرآن سنیں تو جب وہ( تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے توانہوں نے آپس میں کہا: چپ ہوجاؤ۔ پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جاچکی تووہ اپنی قوم کی طرف عذاب الٰہی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے۔ اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اے ہماری قوم ! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔''
سورۂ جن کی یہ آیات ہیں :
قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ‌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْ‌آنًا عَجَبًا ﴿١﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّ‌شْدِ فَآمَنَّا بِهِ ۖ وَلَن نُّشْرِ‌كَ بِرَ‌بِّنَا أَحَدًا ﴿٢﴾ (۷۲: ۱، ۲)
''آپ کہہ دیں : میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔ جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔'' (پندرہویں آیت تک )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح بخاری ، کتاب الصلاۃ ، باب الجہر بقراء صلاۃ الفجر ۱/۱۹۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ان کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو ابتدائً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع دی گئی تب آپ واقف ہوسکے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان کی آمد ورفت ہوتی رہی۔
جنوں کی آمد اور قبولِ اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی۔ جو اس نے اپنے غیب ِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبیﷺ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی، چنانچہ ارشاد ہے :
وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (۴۶: ۳۲)
''جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو ) بے بس نہیں کرسکتا ، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کار ساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔''
وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّـهَ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَ‌بًا ﴿١٢﴾ (۷۲:۱۲)
''ہماری سمجھ میں آگیا ہے کہ ہم اللہ کو زمین میں بے بس نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کرہی اسے (پکڑنے سے) عاجز کرسکتے ہیں۔''
اس نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم والم اور حزن ومایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپﷺ پر چھائے تھے۔ آپﷺ نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوتِ اسلام اور تبلیغ ِ رسالت کے کام میں چستی اور گرمجوشی کے ساتھ لگ جانا ہے۔ یہی موقع تھا جب حضرت زید بن حارثہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ آپ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں، یعنی قریش نے آپ کو نکال دیا ہے ؟ اور جواب میں آپﷺ نے فرمایا : اے زید ! تم جو حالت دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا۔ اللہ یقینا اپنے دین کی مدد کر ے گا اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔
آخر رسول اللہﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کر کوہِ حَرا کے دامن میں ٹھہر گئے، پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپﷺ کو پناہ دے دے۔ مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے بعد آپﷺ نے سہل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا، مگر اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کردی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنوکعب پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس کے بعد آپﷺ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا۔ مطعم نے کہا :ہاں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہوجا ؤ۔ کیونکہ میں نے محمد (ﷺ ) کو پناہ دے دی ہے، اس کے بعدمطعم نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر آجاؤ۔ آپﷺ پیغام پانے کے بعد حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے ، اور مسجد حرام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو ! میں نے محمد (ﷺ ) کو پناہ دے دی ہے۔ اب اسے کوئی نہ چھیڑے۔ ادھر رسول اللہﷺ سیدھے حجرِ اسود کے پاس پہنچے اسے چوما، پھر دورکعت نماز پڑھی ، اور اپنے گھر کو پلٹ آئے ، اس دوران مطعم بن عدی اور ان کے لڑکوں نے ہتھیار بند ہوکر آپﷺ کے ارد گرد حلقہ باندھے رکھاتا آنکہ آپﷺ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابو جہل نے مطعم سے پوچھا تھا کہ تم نے پناہ دی ہے یاپیروکار ... مسلمان ... بن گئے ہو؟ اور مطعم نے جواب دیا تھا کہ پناہ دی ہے اور اس جواب کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ 1
رسول اللہﷺ نے مطعم بن عدی کے اس حسنِ سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا، چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعمؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا :
((لوکان المطعم بن عدي حیاً ثم کلمني فی ھؤلاء النتنی لترکتھم لہ۔))2
''اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا ، پھر مجھ سے ان بدبودار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔''
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۳۸۱ مختصراً ، زاد المعاد ۲/۴۶ ، ۴۷
2 صحیح بخاری ۲/۵۷۳
 
Top