• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین طلاق پر اجماع۔۔۔

سہیل سلفی

مبتدی
شمولیت
اپریل 30، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
السلام علیکم،
مقلدین کہتے ہیں کہ تین طلاق کے مسئلہ میں صحابہ کے دور میں اجماع ہوا تھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
برائے مہربانی اسکی وضاحت کریں۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مقلدین کہتے ہیں کہ تین طلاق کے مسئلہ میں صحابہ کے دور میں اجماع ہوا تھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
برائے مہربانی اسکی وضاحت کریں۔
اکٹھی تین طلاق کے مسئلہ میں صحابہ کے دور میں اجماع تو یہ تھا کہ ان میں ایک طلاق واقع ہوگی۔۔جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہے ؛
’‘ أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا «كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ»؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ»
طلاق 1.jpg


اجماع الطلاق4.gif
 

سہیل سلفی

مبتدی
شمولیت
اپریل 30، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
2
معذرت کے ساتھ، ایک اور سوال کہ اگر حضرت عمر (رضہ) سے پہلے اس چیز پر اجماع تھا، تو حضرت عمر (رضہ) کے اس فیصلے کے بارے میں کیا کہ سکتے ہیں؟

یہ اجماع کے خلاف فیصلا نہیں؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
تین طلاقوں کے تین شمار ہونے پر اجماع کا دعویٰ تو بالکل خلافِ حقیقت ہے ،
لیکن اس کے برعکس تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے والے حضرات کا اپنے موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنا بالکل برمحل اور برحق ہے، کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی مذکور حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے ابتدائی دو یا تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔ مسلم شریف کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ 15ہجری تک صحابہ کرامؓ میں ایک صحابیؓ بھی ایسا نہ تھا جس نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہو، تمام صحابہ کرامؓ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق شمار کرتے تھے۔ اس لئے طلاقِ ثلاثہ کو ایک طلاق قراردینے والے اپنے اس موقف پر اجماع کا دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
''فنحن أحق بدعوی الإجماع منکم لأنه لایعرف في عھد الصدیق أحد ردّ ذلك ولا خالفه فإن کان إجماع فھومن جانبنا أظھر ممن یدعیه من نصف خلافة عمر وھلمّ جرا فإنه لم یزل الاختلاف فیھا قائما''
'' طلاق ثلاثہ کو ایک بنانے والے حضرات تین بنانے والوں سے بڑھ کر اجماع کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں او ر ہمارے موقف پر اجماع کا پایا جانا زیادہ واضح ہے، جبکہ حضرت عمرؓ کے نصف دور میں تین طلاقوں کو تین قرار دینے سے لے کر اب تک اس مسئلہ مں اختلاف چلا آرہا ہے۔''(.إغاثة اللھفان:1؍289 )

رابعاً ... اجماع کا دعویٰ کرنے والوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ جب سے حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا حکم دیاہے، تب سے اس پر اتفاق ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔جبکہ صورتِ حال یہ ہے کہ خود حضرت عمرؓ نے اپنے اس فیصلے کو ترک کردیاتھا اور ایک مجلس میں تین طلاق کے وقوع کا جو حکم انہوں نے جاری کیا تھا، اس سے رجوع فرما لیا اور اس پر ندامت کا اظہار کیاتھا، جیسا کہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ إغاثة اللھفان میں فرماتے ہیں :
''قال الحافظ أبوبکر الإسماعیلي في مسند عمر أخبرنا أبو یعلی حدثنا صالح بن مالك حدثنا خالد بن یزید بن أبي مالك عن أبیه قال قال عمر بن الخطاب: ما ندمت علی شيء ندامتي علی ثلاث أن لا أکون حرمت الطلاق وعلی أن لا أکون أنکحت الموالي وعلی أن لا أکون قتلت النوائح'' (.إغاثة اللھفان: ج1؍ ص336 )
''حضرت عمرؓ نے فرمایا جو ندامت مجھے تین کاموں پر ہوئی ہے وہ کسی او رکام پر نہیں ہوئی: ایک یہ کہ میں تین طلاقوں کو طلاقِ تحریم نہ بناتا، دوسرا یہ کہ غلاموں کو نکاح کرنے کا حکم صادر نہ کرتا، اور تیسرا یہ کہ نوحہ کرنے والیوں کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتا۔''

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جو تین طلاقوں کے تین ہونے کا حکم دیا تھا، وہ شرعی حکم نہ تھا بلکہ تعزیری اور وقتی آرڈیننس تھا، جو یکبار تین طلاقیں دینے والوں کے لئے سزا کے طور پر نافذ کیا تھا۔ جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں کا یکبارگی طلاقیں دینے کا فساد اوربڑھا ہے تو آپؓ نے اس ذاتی فیصلے سے رجوع فرما لیا، اور اس پر ندامت کا اظہار بھی کیا۔ تو دیکھئے جب حضرت عمرؓ ہی اپنے اس فیصلے پر ندامت کااظہار فرماچکے ہیں تو اب اسے بنیاد بنا کر اجماع کا دعویٰ کیسے کیاجاسکتا ہے؟ بعض لوگوں نے مسند ِعمرؓ کے اس اثر پر یہ اعتراض کیاہے کہ اس کی سند میں خالد بن یزید بن ابی مالک راوی ضعیف ہے، اس لئے یہ ناقابل اعتبار ہے۔

اگرچہ بعض علما نے اس راوی پر جرح کی ہے لیکن کبارائمہ مثلاً ولیدبن مسلم، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن عبدالرحمن، ہشام بن عمار، ہشام بن خالد، سوید بن سعید، ابوزرعہ اور ابن صالح وغیرہ نے اس راوی کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اسے فقہاے شام میں شمار کیا ہے او ریہ بھی کہاہے کہ یہ صدوق في الروایة ہے۔ عجلی نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔ ( تهذیب التهذیب: ج3 ص126)

i. زیر نظر بحث اور مذکورہ حدیث کی تفصیل کے لیے دیکھئے: تطلیقاتِ ثلاثة از مولانا عبد الرحمن کیلانی
شائع شدہ ماہنامہ 'محدث' لاہور، بابت اپریل ١٩٩٢ء ... ص ٥٢ تا ٧٩
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
صحیح مسلم میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ "
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔

اس روایت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں :فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ ۔تو اگر اس کو ہم ان (عجلت کرنے والوں) پر نافذ کردیں ۔۔یعنی :: فلو أمضيناه عليهم لما فعلوا ذلك الاستعجال‘‘
ان الفاظ سے واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور انتظامی نوعیت کا تھا ،نہ کہ شرعی حکم کا ناسخ ،
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

قرآن کریم کی آیت :

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ سوره البقّرہ ٢٩
طلاق دو مرتبہ ہے -

لفظ مَرَّتَانِ سے مراد ہے کہ طلاق "دو مرتبہ" میں وقفہ حائل ہے جو ایک طہر سے دوسرے طہر تک ہوتا ہے- طلاق اسی معین وقت میں ہی دی جا سکتی ہے - (اکھٹی نہیں)-

مثال کے طور پرقرآن میں ایک اور جگہ الله کا فرمان ہے -

سنعذبھم مرّتین سوره توبہ ١٠١
عنقریب انکو دو مرتبہ عذاب ہوگا -

اس آیت سے ظاہر ہے کہ الله کی طرف سے فاسق و فاجروں کے لئے ایک وقت میں ایک ہی عذاب ہو سکتا ہے دو عذاب نہیں- یعنی جن دو عذابوں کا وعدہ کیا جا رہا ہے اس میں وقفہ ہو گا - ورنہ اگر ایک ہی وقت میں دو طرح کے عذاب ہوتے تو ان کو ایک عذاب کے طور پر ہی ذکر کیا جاتا- بلکل اسی طرح {مرّتان} کا مطلب ہے کہ دونوں طلاقوں میں وقفہ ہونا ضروری ہے - ایک وقت میں اگر خاوند کی طرف سے ١٠٠ مرتبہ بھی طلاق دی جائے تو وہ ایک ہی گنی جائے گی-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہيں کہ ''رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں جب کوئی شخص اکٹھی تین طلاقیں دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ پھر حضرت عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے اس کام میں جلدی کرنا شروع کردی، جس میں اُنہیں مہلت ملی تھی۔
تو اگر اس کو ہم نافذ کردیں (تو از راہ تعزیر مناسب ہے)۔ پھر اُنہوں نے اسے جاری کردیا۔
السلام علیکم۔
بھائی ایک اعتراض میں نے یہ بھی سنا تھا کہ یہ ”یہ غیر مدخولا“ کے لیئے تھا، مطلب کے جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو۔
حضرت عمر (رضہ) نے اس پر یہ نافذ کیا تھا کہ ایک نہیں بلکہ تین ہونگی۔ باقی اگر ہمبستری ہوئی ہو تو پہر تین طلاق تین ہی مانی جاتی تھی، شروع سے ایسا ہی تھا۔
اسکی کوئی حقیقت ہے یا صرف کہنے والے نے کہ دیا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم رحمت الله -

حضرت عمر رضی الله کا اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کے فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں : اہل علم سے درخواست کا جواب دیں :

١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟
کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
٣-اگر ایسا کوئی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آیا تھا اورکسی نے بیک وقت اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دی تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شرعی نہیں تعزیری طور پر ہی اس شخص پر اس کا نافذ کیا تھا تو اس انسان کا کیا نام تھا اور یہ واقعی واقعہ کب پیش آیا ؟؟ جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ صحابہ کرام کے طلاق سے متعلق کچھ واقعات بمع ان کے نام کے احادیث کی کتب میں موجود ہیں - جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے-- لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں اس طرح کے واقعہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی -کے کسی معین شخص پر خلیفہ وقت نے حد لگائی ہو-؟؟
٤-کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر یہ نفاذ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ تعزیری تھا (شرعی نہیں تھا) تواس پر عمر رضی الله عنہ کو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ خلیفہ وقت صاحب اقتدار ہوتا ہے جب چاہے جو چاہے تعزیری سزا کا نفاذ کرلے ؟؟

جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله ھوا خیر -

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
@محمد عامر یونس
@lovely all time
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم رحمت الله -

حضرت عمر رضی الله کا اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کے فیصلے پر کچھ تحفظات ہیں : اہل علم سے درخواست کا جواب دیں :

١-ان روایات کی کیا حقیقت ہے جن میں یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله نے اپنی خلافت کے تیسرے سال بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے نفاذ کا حکم دیا ؟؟؟
کیا یہ روایت صحیح ہے ، ضعیف ہے، موضوع یا من گھڑت ہیں - علم رجال کی روشنی میں بیان کریں؟؟
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
٣-اگر ایسا کوئی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آیا تھا اورکسی نے بیک وقت اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دی تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شرعی نہیں تعزیری طور پر ہی اس شخص پر اس کا نافذ کیا تھا تو اس انسان کا کیا نام تھا اور یہ واقعی واقعہ کب پیش آیا ؟؟ جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ صحابہ کرام کے طلاق سے متعلق کچھ واقعات بمع ان کے نام کے احادیث کی کتب میں موجود ہیں - جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے-- لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں اس طرح کے واقعہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی -کے کسی معین شخص پر خلیفہ وقت نے حد لگائی ہو-؟؟
٤-کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ بعد میں اپنے اس فیصلے پر پشیمان ہوے تھے - اگر یہ نفاذ طلاق ثلاثہ کا فیصلہ تعزیری تھا (شرعی نہیں تھا) تواس پر عمر رضی الله عنہ کو پشیمان ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟؟ خلیفہ وقت صاحب اقتدار ہوتا ہے جب چاہے جو چاہے تعزیری سزا کا نفاذ کرلے ؟؟

جواب کا انتظار رہے گا -جزاک الله ھوا خیر -

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
@محمد عامر یونس
@lovely all time
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم رحمت الله -
٢-اس قانون کے نفاذ کے باوجود دور فاروقی میں کوئی ایک بھی واقعہ سننے میں نہیں آیا کہ جس میں حضرت عمر رضی الله عنہ نے کسی معین شخص پر اس طرح کی حد نافذ کی ہو؟؟
٣-اگر ایسا کوئی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آیا تھا اورکسی نے بیک وقت اپنی بیوی کو طلاق ثلاثہ دی تھی اور حضرت عمر رضی الله عنہ نے شرعی نہیں تعزیری طور پر ہی اس شخص پر اس کا نافذ کیا تھا تو اس انسان کا کیا نام تھا اور یہ واقعی واقعہ کب پیش آیا ؟؟ جیسا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ صحابہ کرام کے طلاق سے متعلق کچھ واقعات بمع ان کے نام کے احادیث کی کتب میں موجود ہیں - جیسے حضرت رکانہ رضی الله عنہ کا واقعہ جس میں نبی کریم نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ میرے ہوتے ہوے کتاب الله سے مذاق کیا جا رہا ہے-- لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں اس طرح کے واقعہ کی کوئی تفصیل نہیں ملتی -کے کسی معین شخص پر خلیفہ وقت نے حد لگائی ہو-؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!
محترم بھائی آپ کے سوالوں کے جواب تو اہلِ علم ہی دیں گے، لیکن آپ سے ایک سوال پوچھنا تھا کہ
کیا آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کی زندگی کے سبھی شب و روز کا مطالعہ کرلیا ہے؟
یا کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کی زندگی کے تمام واقعات قلمبند ہوگئے ہیں؟

کیونکہ (ہوسکتا ہے میں غلط ہوں لیکن) میرے خیال میں "دین کی تعلیمات" تو "دستیاب علم" سے ہی اخذ کی جاتی ہیں، اور یہ سوال میرے ذہن میں اس لیے پیدا ہوا کہ اکثر آپ کی پوسٹس میں یہ اعتراض بڑی شدومد کے ساتھ اٹھایا جاتا ہے کہ
"فلاں واقعہ کی صداقت میں اس لیے شک ہے کہ یہ فلاں، فلاں نے بیان نہیں کیا یا فلاں، فلاں جگہ بیان نہیں ہوا"۔
مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے اور سوال پوچھنے کامقصد بھی یہی ہے تاکہ سیکھ سکوں کہ"تحقیق" کی یہ کونسی قسم ہے جس سے بندہ اسلام کی تعلیمات صحیح طور پر سیکھ کر اللہ کا قرب حاصل کرسکے اور یہ بھی کہ آپ نے یہ "طریقہ تحقیق" کہاں سے سیکھا ہے؟

جزاک اللہ۔
 
Top