السلام علیکم
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِّیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَیَّادِ الْقَطَّانُ نَااِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْھَیْثَمِ صَاحِبُ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ نَا سَلْمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ عَمْرِوبْنِ أبِیْ قَیْسٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالْأعْلٰی عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِب وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ ۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927)
ترجمہ: حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماکے نکاح میں تھیں(جب حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس موقع پر )انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کوکہا : ’’اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہواس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہارکر رہی ہے ؟ جا!تجھے تین طلاقیں ہیں۔ عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کوبقیہ مہر اور مزیددس ہزار دیے تو وہ جواب میں کہنے لگی کہ طلاق دینے والی جیب سے یہ مال کم ملاہے اس پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ رو دیے) اور فرمایاکہ اگر میں نے اپنے نانا جان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یاتین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ تو میں ضروراس کی طرف رجوع کرلیتا۔‘‘
کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ عَلِّیُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِیُّ نَاأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَیَّادِ الْقَطَّانُ نَااِبْرَاہِیْمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْھَیْثَمِ صَاحِبُ الطَّعَامِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَیْدٍ نَا سَلْمَۃُ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ عَمْرِوبْنِ أبِیْ قَیْسٍ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالْأعْلٰی عَنْ سُوَیْدِ بْنِ غَفْلَۃَ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ الْخَثْعَمِیَّۃُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ أَبِیْ طَالِب وَقَالَ لَوْلَاأَنِیْ سَمِعْتُ جَدِّیْ أوْحَدَّثَنِیْ أَبِیْ أَنَّہُ سَمِعَ جَدِّیْ یَقُوْلُ أَیُّمَا رَجُلٍ طَلَّقَ اِمْرَأَتَہُ ثَلاَثاً مُبْھَمَۃً أَوْثَلاَثاً عِنْدَ الْاِقْرَائِ لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ ۔
(سنن دارقطنی ج4ص20 حدیث نمبر3927)
ترجمہ: حضرت سوید بن غفلہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت عائشہ خثعمیہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماکے نکاح میں تھیں(جب حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرکے ان کو اپنا خلیفہ منتخب کرلیا اس موقع پر )انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کوکہا : ’’اے امیر المؤمنین! آپ کو خلافت مبارک ہواس پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیا یہ مبارک باد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ہے؟ تو اس پر خوشی کا اظہارکر رہی ہے ؟ جا!تجھے تین طلاقیں ہیں۔ عدت گزرنے پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کوبقیہ مہر اور مزیددس ہزار دیے تو وہ جواب میں کہنے لگی کہ طلاق دینے والی جیب سے یہ مال کم ملاہے اس پرحضرت حسن رضی اللہ عنہ رو دیے) اور فرمایاکہ اگر میں نے اپنے نانا جان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا یا یہ فرمایا کہ مجھے میرے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرے نانا جان کی یہ حدیث اگر نہ سنائی ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اپنی بیوی کو ایک دفعہ تین طلاقیں دے دے یاتین طہروں میں تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔ تو میں ضروراس کی طرف رجوع کرلیتا۔‘‘
کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟