• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تین مساجد کے علاوہ ثواب کی نیت سے سفر کرنا :

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
تبرک حاصل کرنا ۔اور۔ ثواب حاصل کرنا دونوں میں بڑا فرق ہے اسلئے مذکورہ حدیث میں ۔۔ثواب حاصل کرنے کی نیت سے۔۔ ترجمہ کرنا صحیح ہے لیکن۔۔ تبرک کیلئے ۔ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ۔ حدیث میں ثواب کا ذکر ہے نہ کہ تبرک کا کہ حرم مکی میں ایک نماز کا ثواب دیگر مساجد میں ایک لاکھ نمازکا ثواب ہے۔فافھم جیدا ۔وجزاک اللہ خیر الجزاء
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
تین مساجد کے علاوہ ثواب کی نیت سے سفر کرنا :
فتاویٰ جات: تحقیق حدیث
فتویٰ نمبر : 12595

تین مساجد کی طرف رخت سفر نہ باندھنے والی حدیث کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت ابوہریرہ ؓ کے متعلق کتب احادیث میں آیا ہے کہ انہوں نے کوطورپر سفر کیا تھا ان کا سفر اس حدیث کے خلاف نہیں ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ‘‘تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہ باندھا جائے۔’’ نیز کچھ لوگ زیارت طور سے زیارت مزارات کا سفرثابت کرتے ہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں بیا ن ہے کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ تقرب الی اللہ اور حصول ثواب کی نیت سے کسی دوسری جگہ سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے۔ (صحیح بخاری ،فضل الصلوٰۃ:۱۱۸۹)

جب ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا جائز نہیں ،تو مزارات اور صالحین کے آثار کی زیارت کےلئے سفر کیونکہ جائز ہوسکتا ہے؟ ائمہ اربعہ اور دیگر فقہا کے نزدیک تو مسجد قبا کی زیارت کے لئے دور دراز سے سفر کرکے جانا بھی جائزنہیں ہے۔ہاں مدینہ منورہ سے مسجد قبا کی طرف ارادہ کرکے جانا اور وہاں نماز پڑھنا مستحب ہے،جیسا کہ حدیث میں بیان ہے کہ ‘‘رسول اللہﷺ ہر ہفتہ کے دن پیدل یا سوا رہوکر مسجد قبا تشریف لے جاتے اور وہاں نماز ادا کرتے تھے۔’’ (صحیح بخاری،فضل الصلوٰۃ :۱۱۹۳)

رسول اللہﷺ کی اس سنت پر عمل کرنےکے لئے حضرت عبدا للہ بن عمرؓ بھی مسجد قبا جایا کرتے تھے۔(صحیح بخاری ،فضل الصلوۃ:۱۱۹۴)

مذکورہ حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سفر کےمتعلق امتناعی حکم صرف مساجد سے متعلق ہے ،مزار یا بزرگوں کے آثار اس کے حکم کے تحت نہیں آتے،کیونکہ نزول شریعت کے چشم دید گواہ حضرات صحابہ کرامؓ نے اس امتناعی حکم کو مساجد اور غیر مساجد کےلئے عام رکھا ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔

٭حضرت ابو بصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ جب کوہ طور سے واپس آئے تو وہ ان سےملے اور انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتایا کہ کوہ طور پر گیا تھا وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں،حضرت ابو بصرہؓ نے کہا اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہوجاتا تو آپ وہاں نہ جاتے ،کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے وہ یہ ہیں مسجد حرام،مسجد نبوی اورمسجد اقصیٰ (مسند امام احمد،ص:۷ج۶)

سوال میں حضرت ابو ہریرہؓ کے متعلق کوہ طور پر جانے کا تذکرہ نامکمل ہے، اس حدیث کی روشنی میں اسے دیکھا جائے،یہ حدیث سننے کے بعد حضرت ابوہریرہؓ اسے بیان کیا کرتے تھے،جیسا کہ بخاری کے حوالہ سے پہلے ذکر ہوچکا ہے۔

٭شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ کوہ طور پر جانے کا ارادہ کئے ہوئے تھے، اس دوران ہماری حضرت ابوسعید ؓ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے آ پ نے اپنے ارادہ کا اظہار کیاتو آ پ نے ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کی ایک حدیث بایں الفاظ بیان فرمائی:‘‘ تین مساجد کے علاوہ کسی طرف(تقرب الہٰی کی نیت سے)سواری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے ، ان میں سے ایک مسجدحرام ،دوسری مسجد مدینہ اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے’’ (مسند امام احمد،ص۹۳،ج ۳)

٭حضرت قزعہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ سے فرمایاکہ میں جبل طور پر جانا چاہتا ہوں،آپ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کا ذکر کیا کہ مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی جگہ کا (تقرب الہٰی کی نیت)سے قصداًسفر کرنا منع ہے،لہٰذا تم جبل طور پر جانے کا ارادہ ترک کردو۔(مجمع الزوائد ،ص:۴،ج ۴)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت یا زیارت کی نیت سے جانا منع ہے،لہٰذ ا اس حکم امتناعی کو صرف مسجد سے خاص کرنا صحیح نہیں ،کیونکہ مذکورہ صحابہ کرام ؓ سے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت یا زیارت کی نیت سے سفر کرنا منع ہے اور جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ ایک مقدس مقام ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت موسیٰ ؑ نے رب کائنات سے گفتگو کی تھی،اس بنا پر حضرت ابوہریرہ ؓ کے کوہ طور کے سفر سےزیارت مزارات کا استدلال محل نظر ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص495

محدث فتویٰ
 
Top