• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ثابت کیجیئے اک منکر ین حدیث کا سوال

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
اس قسم کے سوالات منکرین حدیث اٹهستے رہتے ہیں . ایک عرصے سے میرا یہ خیال ہے کہ منکرین حدیث شیعوں کے ایجنٹ ہیں. حالاں کہ یہ لوگ شیعیت کی بیخ کنی کے لیے اپنے افکار کو ضروری قرار دیتے ہیں لیکن یہ محض دهوکا ہے. بهلا احادیث انکار اور شیعیت کی بیخ کنی بڑی مضحکہ خیز بات ہے. یہ تو شیعیت ہی کو تقویت پہچانے کا عمل ہے.
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
اس قسم کے سوالات منکرین حدیث اٹهستے رہتے ہیں . ایک عرصے سے میرا یہ خیال ہے کہ منکرین حدیث شیعوں کے ایجنٹ ہیں. حالاں کہ یہ لوگ شیعیت کی بیخ کنی کے لیے اپنے افکار کو ضروری قرار دیتے ہیں لیکن یہ محض دهوکا ہے. بهلا احادیث انکار اور شیعیت کی بیخ کنی بڑی مضحکہ خیز بات ہے. یہ تو شیعیت ہی کو تقویت پہچانے کا عمل ہے.
1....حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا:۔

یہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ اعلانِ نبوت سے دس سال قبل جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمرشریف تیس سال کی تھی .....

2.....حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:۔

یہ اعلان نبوت سے سات برس پہلے جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا پیدا ہوئیں اور ابتداء اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہوگئیں۔ پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے ” عتبہ ” سے ہوا تھا لیکن ابھی ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ “سورہ تبت یدا” نازل ہوگئی۔ ابو لہب قرآن میں اپنی اس دائمی رسوائی کا بیان سن کر غصہ میں آگ بگولا ہوگیا اور اپنے بیٹے عتبہ کو مجبور کردیا کہ وہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دے۔ چنانچہ عتبہ نے طلاق دے دی۔


3....ام کلثوم رضی اللہ عنہا

حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اعلانِ نبوت سے چھ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتیبہ سے کیا گیا جس نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد اپنے باپ کے حکم پر حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا:۔

ِ یہ نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اورلاڈلی شہزادی ہیں۔ ان کا نام ” فاطمہ ” اور لقب ” زہرا ” اور ” بتول ” ہے۔ ان کی پیدائش کے سال میں علماء مؤرخین کا اختلاف ہے۔ ابو عمر کا قول ہے کہ اعلان نبوت کے پہلے سال جب کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی عمر شریف اکتالیس برس کی تھی یہ پیدا ہوئیں اور بعض نے لکھا ہے کہ اعلان نبوت سے ایک سال قبل ان کی ولادت ہوئی اور علامہ ابن الجوزی نے یہ تحریر فرمایا کہ اعلان نبوت سے پانچ سال قبل ان کی پیدائش ہوئی۔واﷲ تعالیٰ اعلم۔(زرقانی جلد ۳ ص۲۰۲ تا ۲۰۳)

حضرات مجھے یہ کچھ مواد ملا ہے انٹر نیٹ سے۔۔۔
اور نوٹ بنائی ہے۔۔

اب اس کا اعتراض کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کے بعد 5 سال تک کسی اولاد کی پیدائیش نہیں ہوئی ۔۔ ان الفاظ سے مجھے کچھ بھی روایت یا قول نہیں ملا۔۔

اب اعتراض کا یہ حصہ کہ بڑی کیسے ہو گئی اور شادی بھی ہو گئی۔۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں کا نکاح ہوا تھا اور رخصتی نہیں ہوئی تھی۔۔ اعلان نبوت سے پہلے۔۔ اس طرح بھی اعتراض میں کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی میں نے یہ جو پوسٹ بنائی ہے اوپر والی کیا میں اس اعتراض کرنے والے کو ارسال کر دو آپ سب اک بار دیکھ لیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

السلام علیکم بھائی یہ اک سوال میرے سے کسی نے پوچھا ہے لیکن کہیں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔۔ اب میں اتنا علم نہیں رکھتا لیکن میرے اندازے کے مطابق اس سوال کا مقصد تاریخ۔ حدیث سے متنفر کرنا ہے۔
25 saal ki umr mai shadi ar nbwt bqool ap k 40 sal ki umr mai to 40-25=15 PHLAY 5 SAAL ulad nai hyee 15 se 5 nikaly to 10 ..phr baita paida hua prda kr gya 10 se 1 nikala to 9,,,phr baita paida hua prda kr gya...9 se aik nkala to 8 phr bibi pak tasreef layain......8 se aik nikala to 7...ar bqool ap k nbwat se 3 saal phlay 2 btyoo ki shadi o chuki the,,,,ab swal ye hai 4 SAALU MAI 2 BTYA PAIDA HYYE BREE HYYE AR UN KI SHADI B HYYE

25سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور 40 سال بقول آپ کے۔
40_15=15
15 سال
اور پہلے 5 سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اولاد نہیں ہوئی
15-5=10
10 سال
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا پیدا ہوا جو کہ وفات پا گئے
10-1=9
9 سال
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا اور ان کی وفات ہوئئ
9-1=8


اور پھر بی بی صاحبہ کو پیدائش ہوئی
8-1=7
7سال
اور بقول آپ کے کہ نبوت سے 3 سال

7-3=4

پہلے 2 بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی۔

4 سال
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ 4 سال میں 2 بیٹیاں پیدا ہوئیں اور ان کی شادی بھی ہو گئی۔۔۔؟؟؟؟؟

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
السلام علیکم

سب سے پہلے یہاں آپ کو ممبران نے جو مشورہ دیا ہے وہ بہتر ہے، اس کے بعد آپکا سوال کیا ہے وہ واضع نہیں کہ آپ اس پر کیا جاننا چاہتے ہیں؟ اور جو نیومیریسی آپ نے پیش کی ہے اس کی الٹی ترتیب بھی سمجھ سے باہر ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (عمر 40 سال) سے شادی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال
پہلے 5 سال کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ 25+5 =30 سال عمر
اس کے بعد آپ اس کی ترتیب اسطرح لکھیں مگر پہلے اپنا سوال واضع کریں


والسلام

 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
السلام علیکم


السلام علیکم

سب سے پہلے یہاں آپ کو ممبران نے جو مشورہ دیا ہے وہ بہتر ہے، اس کے بعد آپکا سوال کیا ہے وہ واضع نہیں کہ آپ اس پر کیا جاننا چاہتے ہیں؟ اور جو نیومیریسی آپ نے پیش کی ہے اس کی الٹی ترتیب بھی سمجھ سے باہر ہے۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا (عمر 40 سال) سے شادی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال
پہلے 5 سال کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ 25+5 =30 سال عمر
اس کے بعد آپ اس کی ترتیب اسطرح لکھیں مگر پہلے اپنا سوال واضع کریں


والسلام

و علیکم السلام جی اس مشورہ پے ہی عمل کر رہا ہو جو آپ سب لو گوں نے دیا۔۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
درست مشورہ هے محترم کنعان بهائی کا ۔ جب تک سوالات واضح نا ہوں کیوں جواب دیا جائے!
اللہ ہم سب کو نیک ہدایتیں دے اور ہر شر سے محفوظ رکهے ۔
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
نعیم مختار بهائی آپ کی تلاش و جستجو کی لگن کی داد دیتا ہوں. آپ نے کافی محنت کی اور جو معلومات درج کی وہ عام طور پر اکثر کتب میں ملتی ہیں. اور آپ نے مرتب بجی خوب کیا ہے. لیکن بهائی جواب دینے سے پہلے یہی بہتر ہے کہ آپ سائل کو اچهی طرح ٹتول لیں یہاں تک کہ اس کا منشا اور نیت واضح ہوجائے تب کہیں جا کر جواب تیار ہوگا جو صحیح معنوں میں جواب ہوگا.
 

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
نعیم مختار بهائی آپ کی تلاش و جستجو کی لگن کی داد دیتا ہوں. آپ نے کافی محنت کی اور جو معلومات درج کی وہ عام طور پر اکثر کتب میں ملتی ہیں. اور آپ نے مرتب بجی خوب کیا ہے. لیکن بهائی جواب دینے سے پہلے یہی بہتر ہے کہ آپ سائل کو اچهی طرح ٹتول لیں یہاں تک کہ اس کا منشا اور نیت واضح ہوجائے تب کہیں جا کر جواب تیار ہوگا جو صحیح معنوں میں جواب ہوگا.
بھائی اس کی میں نے ساری معلومات کی ہے ۔ وہ اہل تشیع میں سے ہے اور نیت اس کی ہدایت لینا نہیں بلکے صرف تنقید کرنا ہے۔ اس کی تنقید سے لیکن برحال اتنا فائدہ ہوا کہ کچھ سیکھنے کا
مو قع ملا۔ امام بخاری رحمت اللہ علیہ کا سخت مخالف ہے۔ صیح بخاری اسے اک آنکھ نہیں بھاتی۔
اب میں نے اسے جواب کا اردہ ترک کر دیا ہے۔۔
لكم دينكم ولي دين ۔۔۔۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
بھائی اس کی میں نے ساری معلومات کی ہے ۔ وہ اہل تشیع میں سے ہے اور نیت اس کی ہدایت لینا نہیں بلکے صرف تنقید کرنا ہے۔ اس کی تنقید سے لیکن برحال اتنا فائدہ ہوا کہ کچھ سیکھنے کا
مو قع ملا۔ امام بخاری رحمت اللہ علیہ کا سخت مخالف ہے۔ صیح بخاری اسے اک آنکھ نہیں بھاتی۔
اب میں نے اسے جواب کا اردہ ترک کر دیا ہے۔۔
لكم دينكم ولي دين ۔۔۔۔
اصل بات اب بتائی آپ نے ۔ ۔ ۔ جب کوئی شعائر اسلام، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، اور صحیحین یا صحاح ستہ کی صحیح احادیث پر اعتراض کرے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایسا کرنے والا ملحد ہے، قادیانی ہے،یا اہل تشیع میں سے ہے، تو ہمیں بحث کے دوران کبھی بھی ”دفاعی پوزیشن“ میں رہتے ہوئے ان کے نام نہاد ”اعتراضات“ کے جوابات تلاش کرنے میں سر کھپانے کی بجائے ”جارحانہ“ اقدام کرتے ہوئے اُن پر جوابی وار، جوابی اعتراضات کرکے انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہئے۔

ابھی محرم کی آمد آمد ہے۔ ایسے تمام شیعہ افراد جو آپ کے ”بے تکلف دوست“ ہوں، ان پر حکمت کے ساتھ سوالات، اعتراضات کیجئے اور ان سے پوچھئے کہ کہ ان دس ایام میں آپ لوگ جو کام کیا کرتے ہیں کیا اہل بیت (جن کی محبت کا آپ لوگ دم بھرتے ہیں)، ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ کیا شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قبل شہادتیں نہیں ہوئی تھیں۔ ان سب کی شہادتوں پر بھی اہل بیت کے مرد اور خواتین اسی طرح سڑکوں پر ماتم کیا کرتے تھے۔ ان تین اقسام کے معترضین کے ساتھ آپ جب تک ”جارحانہ انداز گفتگو“ نہیں اپنائیں گے، آپ کبھی بھی ان سے بحث نہیں کر پائیں گے۔

میں اپنی ایک چھوٹی سے مثال پیش کرتا ہوں۔ میں غالباً انٹر کا طالب علم تھا کہ ہماری مسجد کے قریب ایک میرے ہی ہم عمر نے ایک چھوٹی سی پارٹ ٹائم دکان کھولی۔ وہ صاحب پنجاب سے ملازمت کے سلسلہ میں کراچی اکیلے آئے تھے۔ اور شام کے فارغ وقت میں یہ دکان چلا رہے تھے۔ کبھی کبھار ان سے سودا سلف لیتے ہوئے گپ شپ ہونے لگی تو ان سے ”دوستی“ ہوگئی اور پھر اکثر و بیشتر عصر مغرب کا درمیانی وقت انہی کی دکان پر گذرنے لگا۔ ایک دن انہون نے بتلایا کہ وہ احمدی ہیں اور باتوں باتوں میں مختلف ”اعتراضات“ کرنے لگے، جن کا مجھے کوئی جواب معلوم نہ تھا۔ پھر انہوں نے مختلف کتابچے دینے شروع کردئے جو میں چھپا کر گھر لاکر پڑھنے لگا۔ مجھے تب صرف اتنا معلوم تھا کہ احمدی ”غلط“ ہیں اور ہم ”صحیح“۔ لیکن کیسے؟ یہ معلوم نہ تھا اور نہ ہی احمدیت کے بارے میں کچھ معلوم تھا۔ ان کے اعتراضات کے جوابات کا نہ تو علم تھا اور نہ ہی کسی سے پوچھ سکتا تھا۔ جس سے بھی پوچھتا، وہ کہتے کہ تم احمدی کے ساتھ ملتے جلتے ہی کیوں ہو۔ ادھر وہ ہر نشست میں کوئی نہ کوئی اعتراض اور سوال کرکے ”خوش“ ہوتا رہتا کہ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ میں صرف یہ جواب دیتا کہ میرے پاس آپکے سوالوں اور اعتراضات کا کوئی جواب تو نہیں ہے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ غلط ہو وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی ساتھ میں احمدیت کے بارے میں ”لٹریچر“ کی تلاش میں رہا۔ واضح رہے کہ یہ کوئی آج سے چار دہائی قبل کا زمانہ تھا۔ میں ایک عام سا طالب علم تھا اور عام اسلامک لٹریچر یا علمائے کرام کی صحبت سے بھی بہت دور تھا۔ اور تب نیٹ وغیرہ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ خیر اسی تلاش میں مجھے مولانا مودودی رح کی تفہیم القرآن کی ایک جلد مل گئی جس میں سورۃ الاحزاب کی آیت۔40 میں لفظ ”خَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَۗ “ کے سلسلہ میں بہت تفصیلی تفسیر موجود ہے۔ اسی میں ”قادیانیت کی رد“ پر بھی بہت تفصیل سے مواد موجود ہے۔ واضح رہے کہ ختم نبوت ہی پر ایک کتابچہ لکھنے کے ”جرم“ میں مولانا کو ایوب خان کی فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ خیر میں نے اپنی ڈائری میں اسی تفسیر سے قادیانیت پر ”نوٹس“ بنانے شروع کردئے اور جب نوٹس تیار ہوگئے تو ڈائری لے کر اسی احمدی کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ پوچھو جو پوچھنا ہے۔ اب میں تمہارے ہر سوال، ہر اعتراض کا جواب بھی دوں گا اور تم سے بھی سوال کروں گا اور تمہیں احمدیت کی سچائی کو ثابت کرنا ہوگا۔ کہنے لگا یہ تمہارے پاس یہ کون سی ڈائری ہے، مجھے دکھلاؤ۔ میں نے کہا کہ اسی سے تو تم سے بات کرنی ہے۔ ڈائری تمہیں کیوں دکھلاؤں۔ بس میرا یہی ”جارحانہ“ رویہ دیکھ کر اس نے آگے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے ہی انکار کردیا۔
 
Last edited:

Naeem Mukhtar

رکن
شمولیت
اپریل 13، 2016
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
32
اصل بات اب بتائی آپ نے ۔ ۔ ۔ جب کوئی شعائر اسلام، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم، اور صحیحین یا صحاح ستہ کی صحیح احادیث پر اعتراض کرے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایسا کرنے والا ملحد ہے، قادیانی ہے،یا اہل تشیع میں سے ہے، تو ہمیں بحث کے دوران کبھی بھی ”دفاعی پوزیشن“ میں رہتے ہوئے ان کے نام نہاد ”اعتراضات“ کے جوابات تلاش کرنے میں سر کھپانے کی بجائے ”جارحانہ“ اقدام کرتے ہوئے اُن پر جوابی وار، جوابی اعتراضات کرکے انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہئے۔

ابھی محرم کی آمد آمد ہے۔ ایسے تمام شیعہ افراد جو آپ کے ”بے تکلف دوست“ ہوں، ان پر حکمت کے ساتھ سوالات، اعتراضات کیجئے اور ان سے پوچھئے کہ کہ ان دس ایام میں آپ لوگ جو کام کیا کرتے ہیں کیا اہل بیت (جن کی محبت کا آپ لوگ دم بھرتے ہیں)، ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ کیا شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قبل شہادتیں نہیں ہوئی تھیں۔ ان سب کی شہادتوں پر بھی اہل بیت کے مرد اور خواتین اسی طرح سڑکوں پر ماتم کیا کرتے تھے۔ ان تین اقسام کے معترضین کے ساتھ آپ جب تک ”جارحانہ انداز گفتگو“ نہیں اپنائیں گے، آپ کبھی بھی ان سے بحث نہیں کر پائیں گے۔

میں اپنی ایک چھوٹی سے مثال پیش کرتا ہوں۔ میں غالباً انٹر کا طالب علم تھا کہ ہماری مسجد کے قریب ایک میرے ہی ہم عمر نے ایک چھوٹی سی پارٹ ٹائم دکان کھولی۔ وہ صاحب پنجاب سے ملازمت کے سلسلہ میں کراچی اکیلے آئے تھے۔ اور شام کے فارغ وقت میں یہ دکان چلا رہے تھے۔ کبھی کبھار ان سے سودا سلف لیتے ہوئے گپ شپ ہونے لگی تو ان سے ”دوستی“ ہوگئی اور پھر اکثر و بیشتر عصر مغرب کا درمیانی وقت انہی کی دکان پر گذرنے لگا۔ ایک دن انہون نے بتلایا کہ وہ احمدی ہیں اور باتوں باتوں میں مختلف ”اعتراضات“ کرنے لگے، جن کا مجھے کوئی جواب معلوم نہ تھا۔ پھر انہوں نے مختلف کتابچے دینے شروع کردئے جو میں چھپا کر گھر لاکر پڑھنے لگا۔ مجھے تب صرف اتنا معلوم تھا کہ احمدی ”غلط“ ہیں اور ہم ”صحیح“۔ لیکن کیسے؟ یہ معلوم نہ تھا اور نہ ہی احمدیت کے بارے میں کچھ معلوم تھا۔ ان کے اعتراضات کے جوابات کا نہ تو علم تھا اور نہ ہی کسی سے پوچھ سکتا تھا۔ جس سے بھی پوچھتا، وہ کہتے کہ تم احمدی کے ساتھ ملتے جلتے ہی کیوں ہو۔ ادھر وہ ہر نشست میں کوئی نہ کوئی اعتراض اور سوال کرکے ”خوش“ ہوتا رہتا کہ میرے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ میں صرف یہ جواب دیتا کہ میرے پاس آپکے سوالوں اور اعتراضات کا کوئی جواب تو نہیں ہے، لیکن مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ غلط ہو وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ہی ساتھ میں احمدیت کے بارے میں ”لٹریچر“ کی تلاش میں رہا۔ واضح رہے کہ یہ کوئی آج سے چار دہائی قبل کا زمانہ تھا۔ میں ایک عام سا طالب علم تھا اور عام اسلامک لٹریچر یا علمائے کرام کی صحبت سے بھی بہت دور تھا۔ اور تب نیٹ وغیرہ بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔ خیر اسی تلاش میں مجھے مولانا مودودی رح کی تفہیم القرآن کی ایک جلد مل گئی جس میں سورۃ الاحزاب کی آیت۔40 میں لفظ ”خَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَۗ “ کے سلسلہ میں بہت تفصیلی تفسیر موجود ہے۔ اسی میں ”قادیانیت کی رد“ پر بھی بہت تفصیل سے مواد موجود ہے۔ واضح رہے کہ ختم نبوت ہی پر ایک کتابچہ لکھنے کے ”جرم“ میں مولانا کو ایوب خان کی فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ خیر میں نے اپنی ڈائری میں اسی تفسیر سے قادیانیت پر ”نوٹس“ بنانے شروع کردئے اور جب نوٹس تیار ہوگئے تو ڈائری لے کر اسی احمدی کے پاس پہنچ گیا اور اس سے کہا کہ پوچھو جو پوچھنا ہے۔ اب میں تمہارے ہر سوال، ہر اعتراض کا جواب بھی دوں گا اور تم سے بھی سوال کروں گا اور تمہیں احمدیت کی سچائی کو ثابت کرنا ہوگا۔ کہنے لگا یہ تمہارے پاس یہ کون سی ڈائری ہے، مجھے دکھلاؤ۔ میں نے کہا کہ اسی سے تو تم سے بات کرنی ہے۔ ڈائری تمہیں کیوں دکھلاؤں۔ بس میرا یہی ”جارحانہ“ رویہ دیکھ کر اس نے آگے کسی بھی قسم کی بات کرنے سے ہی انکار کردیا۔
شکریہ بھائی آگاہی کیلئے۔۔ اور نقطہ سمجھانے کیلئے۔۔
اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں اخلاص و برکت عطا کرے آمیں
 
Top