- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
ثلث اللیل کا قیام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أَحَّبُّ الصَّلَاۃِ إِلَی اللّٰہِ صَلَاۃُ دَاوٗدَ علیہ السلام وَأَحَبُّ الصِّیَامِ إِلَی اللّٰہِ صِیَامُ دَاوٗدَ کَانَ یَنَامُ نِصْفُ اللَّیْلِ، وَیَقُوْمُ ثُلُثَہٗ، وَیَنَامُ سُدُسَہٗ وَیَصُوْمُ یَوْمًا وَیُفْطِرُ یَوْمًا۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب التہجد، باب: من نام عند السحر، رقم: ۱۱۳۱۔
داؤدی نماز…:’’اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی ہے۔ وہ نصف رات نیند کرتے اور تیسرا حصہ قیام کرتے تھے اور (پھر) رات کا چھٹا حصہ نیند کرتے اور وہ ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن چھوڑتے تھے (یعنی ایک دن روزہ کا ناغہ فرماتے)۔‘‘
داؤد علیہ السلام تازہ دم ہونے کے لیے رات کا ابتدائی حصہ سو کر گزارتے اور پھر اس وقت کھڑے ہوتے جب اللہ تعالیٰ پکارتا ہے: کوئی سائل ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ اور پھر رات کا بقیہ حصہ قیام کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے سوجاتے۔ اس کو سحری کے وقت نیند کرنا کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ طریقہ اس وجہ سے محبوب ہوا کہ اس میں نفس پر نرمی ہوتی ہے۔
(( عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم دَخَلَ عَلَیْھَا وَعِنْدَھَا امْرَأَۃٌ فَقَالَ مَنْ ھٰذِہِ؟ قَالَتْ فُـلَانَۃٌ، تَذْکُرُ مِنْ صَلَاتِھَا، قَالَ: (( مَہْ عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیْقُوْنَ ، فَوَاللّٰہِ لَا یَمَلُّ اللّٰہُ حَتّٰی تَمَلُّوْا وَکَانَ أَحَبُّ الدِّیْنِ إِلَیْہِ مَا دَاوَمَ اِلَیْہِ صَاحِبُہٗ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الإیمان، باب: أحب الدین إلی اللّٰہ أدومہ، رقم: ۴۳۔
’’اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ’’یہ عورت کون ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا فلاں عورت ہے، اور ساتھ اس کی نماز (تہجد ، لمبے قیام) کا ذکر فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے آپ کو (ایسی مشقت سے) باز رکھیے جس کی تمہیں طاقت ہی نہ ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ اس وقت تک نہیں اکتاتے جب تک تم نہ اکتا جاؤ اور اس (اللہ) کے ہاں محبوب ترین دین وہ ہے جس پر اس کا عامل ہمیشگی اختیار کئے رکھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتے ہیں کہ انسانوں پر اپنا فضل اور احسان ہمیشہ کرتے رہیں۔
مذکورہ طریقہ میں اس وجہ سے بھی نرمی ہے کہ قیام کے بعد نیند کرنے سے جسم راحت محسوس کرتا ہے اور رات کو بیدار رہنے کا ضرر اور جسم کا کملا جانا دور ہوجاتا ہے بخلاف صبح تک بیدار رہنے کے کہ اس میں یہ نہیں ہوتا۔
نیز اس میں یہ مصلحت بھی ہے کہ انسان صبح کی نماز اور اذکار چُستی اور ہوش مندی میں ادا کرتا ہے۔یہ طریقہ ریاکاری کے نہ پائے جانے پر بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ جب آدمی رات کا آخری چھٹا حصہ آرام کرتا ہے تو صبح اس کا رنگ و روپ درست ہوتا ہے جس کی وجہ سے دیکھنے والوں کو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس نے رات کو قیام بھی کیا تھا۔
فتح الباری: ۱۶؍۳۔
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند