• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جائزہ محمدی فی تردید دلائل کاظمی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

جائزہ محمدی فی تردید دلائل کاظمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سعیدی میلادی نے اپنے مرشد کاظمی کے رسالہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کا جہاں شوق دلایا تھا وہاں میں نے وعدہ کیا تھا کہ آخرمیں اس کا جائزہ بھی پیش خدمت کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
اب میں اس وعدہ کا ایفاء کرنے کیلئے کاظمی صاحب کے دلائل میلاد یہ کا جائزہ پیش کر رہا ہوں ، امید ہے کہ آپ کاظمی دلائل اور ان کے جوابات کو بغور مطالعہ فرمائیں گے۔
کاظمی: عالم اجسام میں جلوہ گر ہونے سے پہلے ذات پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عدم سے وجود میں جلوہ گر ہونا خلقت محمدی ہے اور اس دار دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدا ہونا ولادت محمدی ہے اور چالیس سال کی عمر شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وحی سے مشرف ہو کر لوگوں کو دین حق کی طرف بلانے پر مامور بعثت محمدی ہے… پہلے خلقت محمدی کا بیان قرآن اور حدیث کی روشنی میں سنئے۔


ولادت پر بھی خلق کا لفظ بولا گیا ہے
محمدی: اللہ تعالیٰ نے انسان کی خلقت کیلئے قرآنِ مجید میں یوں فرمایا ہے: خلقکم من نفس واحدۃ الخ پ:۹، اعراف :۱۸۹) کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو آدم علیہ السلام کی نسل سے پیدا فرمایا ہے۔
یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی ۔(حجرات پ:۲۶، آیت:۱۳) خزائن العرفان ف:۷۴۱ میں ہے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا اور تفسیر جلالین ص:۴۲۸ میں بھی آدم و حواء کو بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں ہے: ان خلق احدکم فی بطن امہ اربعین یوما الخ (بخاری ج:۱، ص:۴۶۹) کہ تحقیق ہر ایک آدمی کی خلقت اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک ہوتی ہے پھر چالیس دن خون کا لوتھڑا رہتا ہے پھر چالیس دن گوشت کا ٹکڑا الخ اور حدیث میں ہے: ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرہم الخ (مشکوٰۃ ص:۵۱۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے مخلوقات (جن و انس) کو پیدا فرمایا پھر مجھے ان کے افضل خلق میں بنایا، ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ولادت کے وقت کے متعلق بھی خلقت کا لفظ بولا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: اجسام سے قبل عالم امر میں ذوات علیہم السلام کا موجود ہونا نص قرآن سے ثابت ہے جس کا مقتضی یہ ہے کہ ذات محمدی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق اولی عالم ارواح میں موجود ہو، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
واذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم الخ (ال عمران :۸۱، ۸۲)

محمدی: اگر حضرات انبیاء علیہم السلام کا موجود ہونا قبل از عالم امر اس نص قرآنی سے ثابت ہے تو اس دوسری نص قرآنی :
واذ اخذ ربکم من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم واشھدہم علی انفسہم الست بربکم قالوا بلی الخ (اعراف ص:۱۷۲، پ:۹)
سے سب اولاد آدم نسل بعد نسل کا موجود ہونا بھی ثابت ہوتا ہے تو پھر تخصیص انبیاء اور خصوصاً ذات محمدی کی تخصیص تو نہ رہی کیونکہ یہ دونوں عہد و میثاق قبل از عالم امر کے ہیں اگرچہ انبیاء کرام کے عہدو میثاق اور اولاد آدم کے عہدو میثاق میں تفاوت ہے مگر موجودگی تو سب کی نص سے ثابت ہے جیسا کہ اگلی آیت میں خود کاظمی صاحب تسلیم کیا ہے۔


کاظمی: واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورہم ذریتہم الخ… تمام نفوس بنی آدم سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس قدسی نے بلی کہہ کر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار فرمایا اور باقی تمام نفوس بنی آدم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرار پر اقرار کیا، اس واقعہ کا مقتضا بھی یہی ہے کہ ذات مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء مخلوق ہو کر عدم سے وجود میں جلوہ گر ہو چکی تھی۔
محمدی:
اول:
تمام نفوس سے پہلے حضور علیہ السلام نے بلی کہہ کر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا، یہ کس نص کی بناء پر ہے۔
دوم:
کم از کم یہ تو مانا کہ اس جلوہ گری کے ساتھ تمام نفوس بنی آدم بھی جلوہ گر تھے گوقائد اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ باقی سب نفوس آپ کی ہاں میں ہانے ملانے والے اقراری تھے، جیسے اس کا مقتضی یہی ہے کہ ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق ہو کر عدم سے وجود میں جلوہ گر ہو چکی تھی، تو ٹھیک اسی طرح اس کا مقتضی بھی یہ ہے کہ ذات بنی آدم بھی مخلوق ہو کر عدم سےجود میں جلوہ گر ہو چکے تھے تو پھر تقدیم خلقت محمدی ثابت نہ ہوئی بلکہ قیادت محمدی ثابت ہوئی۔


کاظمی: نیز فرمایا :
واذ اخذنا من النبین میثاقہم ومنک ومن نوح وابراہیم موسیٰ وعیسی بن مریم(پ ۲۱:احزاب :۷)
اس آیت کریمہ میں جس عہد اور اقرار کا بیان ہے وہ تبلیغ رسالت پر یہ واقعہ بھی عالم ارواح کا ہے ظاہر ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت اس وقت نہ ہو گئی ہوتی تو اس عہد و اقرار کا ہونا کس طرح متصور ہوتا۔
محمدی:
یہ واقعہ بھی عالم ارواح کا ہے ظاہر ہے کہ اگر حضرات انبیاء کی خلقت اس وقت نہ ہو گئی ہوتی تو اس عہد اور اقرار کا ہونا کس طرح متصور ہوتا (بطرز کاظمی) تو پھر اس سے تقدیم خلقت محمدی کی تخصیص تونہ رہی کیوں کہ سب انبیاء سے عہد اقرار لیا گیا تھا اور بنی آدم سے بھی اس وقت قبل از عالم امر عہد و اقرار لیا گیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوا، اس آیت سے تو پھر تخصیص انبیاء کرام بھی نہ رہی، بلکہ سب اولاد آدم اس فضیلت (تقدیم خلقت) میں شریک ہو گئی کیونکہ یہ بھی اس وقت موجود تھی اور ان کے قائد اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جیسا کہ خود کاظمی نے تسلیم کیا ہے۔ کمامر ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: خلقت محمدی تمام کائنات اور خصوصاً جمیع انبیاء کرام علیہ السلام کی خلقت سے پہلے ہے، اس مضمون کی طرف قرآنِ کریم کی بعض آیات میں واضح ارشارات پائے جاتے ہیں… قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض منہم من کلم اللہ ورفع بعضہم درجات ۔(البقرہ :۲۵۳)
جن کے درجے بلند کئے وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درجوں کی بلندی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ درجات خلقت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ سب سے بلند ہے اور آپ سب سے پہلے مخلوق ہو کر سب کی اصل ہیں۔

محمدی: بلندی درجات سے خلقت میں تقدیم لازم نہیں ہے، اور نہ کوئی اس پر نص صریح و صحیح موجود ہے ایک بے حقیقت اور بے ثبوت روایت کو بنیاد بنا کر تقدیم خلقت محمدی کا عقیدہ گھڑ لیا گیا ہے۔
اگر اس سے خلقت محمدی کی تقدیم ثابت ہوتی ہے تو پہلے دو آیتوں سے خلقت انبیاء کرام کی تقدیم ثابت ہوتی ہے کمامر۔ لہٰذا اذا تعارضا تساقطا کا قانون و اصول حنفیہ ہے۔ تعارض کے بعد حدیث کی طرف لوٹنا پڑے گا اور حدیث اول ما خلق اللہ نوری وغیرہ موضوع اور غیر ثابت ہیں اور صحیح ثابت جو ہے وہ ہے۔ اول ما خلق اللہ القلم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔ (الانبیاء:۱۰۷، پ:۱۷) … یہ آیت کریمہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالموں کیلئے رحمت ہیں الخ۔
محمدی: جس دور کے آپ رسول بنائے گئے ہیں اس دور والوں (عالمین) کیلئے رحمت ہیں نہ کہ ما سبق والوں کیلئے اللہ تعالیٰ رب العلٰمین ہے سابقہ موجودہ آئندہ والوں کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ اور آئندہ زمانہ والوں کیلئے رحمت ہیں اور بنی اسرائیل کو فضیلت اپنے دور کے عالمین پر ہے: فضلتکم علی العالمین۔ (بقرہ :۴۷، پ:۱) کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں فضیلت دی (ترجمہ احمد رضا) اور خزائن العرفان ف:۱۰ میں ہے۔ العالمین کا استفراق حقیقی نہیں مراد یہ ہے کہ میں نے تمہارے آباء کو ان کے زمانہ والوں پر فضیلت دی، الخ ارشاد ہے: ولقد اخترناہم علی علم علی العالمین (دخان :۳۲، پ:۲۵) اور بیشک ہم نے انہیں دانستہ چن لیا اس زمانہ والوں سے(ترجمہ احمد رضا) خزائن العرفان میں ہے یعنی بنی اسرائیل کو، اور جلالین ص:۴۱۱ درسی میں ہے :علی العالمین ای علی عالمی زمانہم ای العقلا الخ کہ عالمین سے مراد بنی اسرائیل کے زمانہ والے عالمین پر فضیلت ہے۔ ارشاد ہے: وفضلناہم علی العالمین (جاثیہ:۱۶، پ:۲۶) اور انہیں ان کے زمانہ والوں پر فضیلت بخشی (ترجمہ احمد رضا) اور جلالین ص:۴۱۴ درسی میں ہے: فضلنا ہم علی العالمین عالمی زمانہم العقلا کہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ کے جہانوں (عالمین) پر فضیلت دی ہے۔ ارشاد ہے : واٰتاکم مالم یوت احدًا من العالمین (پ:۶، مائدہ :۲۰ ) اور تمہیں وہ دیا جو آج سارے جہاں میں کسی کو نہ دیا (ترجمہ احمد رضا) رحمۃ للعالمین کا معنی بھی یہی ہے کہ آپ اپنے دور نبوت کے عالمین کیلئے رحمت بنا دئیے گئے ہیں جو پہلے عالمین گزرے ہیں ان کیلئے کیسے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اور قرآن مجید میں للعالمین کا لفظ دیگر اشیاء اور اشخاص کے متعلق بھی آیا ہے۔
۱۔ ان ہو الا ذکری للعالمین ۔(انعام:۹۰)
۲۔ ان ہو الاذکر للعالمین ۔(یوسف:۱۰۴)
۳۔ ان ہو الا ذکر للعالمین ۔(تکویر:۲۷)
۴۔ ان ہو الاذکر للعالمین ۔(ص :۸۷)
ان چاروں مقامات میں مراد قرآن مجید ہے (جلالین) تو کیا قرآنِ مجید بھی سب اقوام ماضیہ کیلئے ذکر و عظ ہے؟ نہیں بلکہ اقوام حالیہ و مستقبلہ کیلئے ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی حالیہ و مستقبلہ عالمین کیلئے رحمت ہیں اور ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعالمین ۔(ال عمران:۹۶) اس آیت میں بیت اللہ شریف کو برکت للعالمین بیان کیا ہے اور آیت الی الارض التی بارکنا فیھا للعالمین ۔(الانبیاء:۷۱) میں شام اور بیت المقدس کو برکت للعالمین بیان کیا گیا ہے ، کیا دونوں مساجد بھی تعمیر سے پہلے عالمین کیلئے بھی برکت تھیں نہیں بلکہ تعمیر کے بعد کے عالمین کیلئے ہیں اور فانجیناہ واصحاب السفینۃ وجعلنھا آیۃ للعالمین (عنکبوت:۱۵) میں کشتی نوح علیہ السلام کو آیت و نشانی بتایا گیا ہے تو کیا یہ بھی قبل از تیاری سابقہ عالمین کیلئے آیت ونشان تھی ؟ نہیں بلکہ بعد والے عالمین کیلئے اور وجعلنھا وابنھا آیۃ للعالمین ۔(الانبیاء:۹۱) آیت میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آیت للعالمین بتایا گیا ہے تو کیا یہ بھی اپنی اپنی پیدائش سے پہلے والے عالمین کیلئے آیت و نشانی تھے، نہیں بلکہ اپنے زمانہ کے عالمین اور آئندہ زمانہ والے عالمین کیلئے نشانی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: تیسری آیت جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت خلقت کی طرف واضح اشارہ پایا جاتا ہے۔ آیت کریمہ وانا اول المسلمین ہے… اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام کی روح پاک اور جو ہر مقدس یجمیع کون یعنی تمام ماسوی اللہ پر مقدم ہے۔
محمدی: اس آیت کی تفسیر تفسیر جلالین ۱۲۹ انعام ۱۹۶درسی میں ہے : اول المسلمین : من ھذہ الامۃ کہ میں پہلا مسلمان ہوں، اس امت مسلمہ سے اور خزائن العرفان والے نے توجیہ اول کے طور پر اسی کو بیان کیا ہے ، اولیت یا تو اس اعتبار سے ہے کہ انبیاء کا اسلام ان کی امت پر مقدم ہوتا ہے(ص:۲۱۵، انعام:۱۶۳ تختی خورد)
اسی طرح کے الفاظ قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی موجود ہیں: قال سبحانک تبت الیک وانا اول المومنین۔(اعراف:۱۴۳) بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلے مسلمان ہوں (ترجمہ احمد رضا) تفسیر خزائن العرفان ص:۲۴۱ میں ہے بنی اسرائیل میں سے اور جادوگر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ کے بعد مسلمان ہو گئے تھے اور فرعون نے ان کو پھانسی کی دھمکی دی تھی تو اس وقت انہوں نے کہا تھا : ان کنا اول المومنین (الشعراء :۵۱، پ:۱۹) اور تفسیر خزائن العرفان:۵۲۹ تختی خورد میں ہے رعیت فرعون میں سے یا اس مجمع کے حاضرین میں سے تو جیسے یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور سابقہ جادوگران کے متعلق اپنے زمانہ کی اولیت مراد ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی آپ کے زمانہ کی اولیت مراد ہے ، بے سروپا روایات کی بنا پر اولیت خلقت محمدی کا عقیدہ گھڑ لینا اہل سنت عقائد کے بالکل خلاف ہے، اور تفسیر بالرای ہے اور تفسیر بالرای مذموم ہے۔

 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی: حدیث جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما حضرت امام عبد الرزاق صاحب مصنف… یہ حدیث مصنف عبد الرزاق سے امام قسطلانی ، امام زرقانی، امام ابن حجر مکی ، علامہ فارسی الخ۔
محمدی: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مصنف عبد الرزاق میں ہرگز نہیں ہے اور تفسیر عبد الرزاق میں بھی نہیں ہے بلکہ کتب احادیث اہل سنت میں سے کسی باسند کتاب حدیث میں یہ روایت موجود نہیں ہے جبکہ اس کے برخلاف صحاح ستہ میں سے ترمذی شریف میں روایت اول ما خلق اللہ القلم۔(مشکوٰۃ ص:۲۱) موجود ہے جس کا معنی ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم تقدیر کو پیدا فرمایا جس کو امام ابوبکر آجری شافعی متوفی ۳۶۰ھ سے سیدنا ابوہریرہ، عبادہ اور ابن عباس رضی اللہ عہنم سے باسند اپنی کتاب الشریعہ صفحہ ۱۸۲ ، ۱۸۳، ۱۸۴ میں نقل کیا ہے اور مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ:
خلق اللہ التربۃ یوم السبت وخلق فیھا الجبال یوم الاحد وخلق الشجر یوم الاثنین وخلق المکروہ یوم الثلثاء وخلق النور یوم الاربعاء وبث فیھا الدواب یوم الخمیس وخلق آدم بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق وآخر ساعۃ من النھار فیما بین العصر الی اللیل ۔(مسلم ، مشکواۃ ص:۵۱۰)
کہ اللہ تعالیٰ نےزمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور اس میں پہاڑ، اتوار کے دن پیدا فرمائے اور درخت سوموار کے دن اور مکروہ اشیاء کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور زمین کے اوپر جانوروں کو جمعرات کے دن پھیلایا اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بطور آخری مخلوق ، عصر تارات کے درمیانی وقت میں پیدا فرمایا اور حدیث میں ہے: لما خلق اللہ آدم وذریتہ قالت الملائکۃ یا رب خلقتہم یاکلون ویشربون الخ ۔(مشکوٰۃ ص:۵۱۰) کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد کو پیدا فرمایا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جو آپ کی اولاد میں سے ہیں) تو فرشتوں نے کہا الخ۔ حدیث میں ہے:
قلت یا رسول اللہ این کان ربنا قبل ان یخلق خلقہ قال کان فی عماء ما تحتہ ھواء وما فوقہ ھواء وخلق عرشہ علی المائ۔(ترمذی، مشکوٰۃ ص:۵۰۹)
صحابی کہتے ہیں میں نے کہا یا رسول اللہ : قبل از خلقت مخلوقات ہمارا رب کہاں تھا فرمایا (اللہ تعالیٰ) عماء میں تھے نیچے ہوا اوپر ہوا (یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی حاشیہ مشکوٰۃ) اور اس نے اپنا عرش پانی پر پیدا فرمایا اور حدیث میں ہے:
قال کان اللہ ولم یکن شیئی قبلہ وکان عرشہ علی الماء ثم خلق السموات والارض وکتب فی الذکر کل شیئی۔(بخاری ص:۱۱۰۲، ج:۲، مشکوٰۃ ص:۵۰۶)
فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی اس سے پہلے کوئی چیز موجود نہیں تھی (کیونکہ وہی سب چیز کا خالق ہے) پھر آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی۔ حدیث میں ہے:
یقول ان اللہ تعالیٰ کتب کتابا قبل ان یخلق الخلق ان رحمتی سبقت غضبی فہو مکتوب عندہ فوق العرش۔(بخاری ص:۱۱۲۷، مشکوٰۃ:۵۰۶)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کے پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب لکھی کہ بیشک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے گئی، پس یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے (بخاری ص:۱۱۲۷ ، ج:۲) حدیث میں ہے: قال مما خلق الخلق قال من الماء الخ (احمد ترمذی، دارمی، مشکوٰۃ ص:۴۹۷) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مخلوقات کس چیز سے پیدا ہوئی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی سے۔
ان احادیث میں ایک تو ان کی پیدائش پر بھی خلق کا لفظ بولا گیا ہے، آخری ذکر کر دہ حدیث میں صراحت ہے کہ سب چیز پانی سے بنی، روایت جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بنی اور پیدا ہوئی، یہ مشکوٰۃ والی روایت کتب احادیث میں موجود ہے مگر روایت جابر حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہے اور حدیث اول ما خلق اللہ القلم بھی کتب الاحادیث میں موجود ہے لہٰذا یہ دونوں روایتیں جابر والی روایت پر مقدم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: امام اشعری کا بیان: والروح النبویۃ القدسیۃ لمۃ من نورہ والملائکۃ شرر تلک الانوار وقال صلی اللہ علیہ وسلم اول ما خلق اللہ نوری ومن نوری خلق کل شی الخ۔ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدس اسی نور کی چمک ہے اور فرشتے انہی انوار سے جھڑے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا فرمایا اور میرے نور ہی سے ہر چیز پیدا فرمائی۔

محمدی: اگر تم یوں کہہ سکتے ہو تو کوئی دوسرا غالی یوں بھی کہہ سکتا ہے تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئی۔ جیسا کہ بالوضاحت کاظمی صاحب نے حدیث جابر کا معنی ص:۶۰، ۶۱ پر لکھا ہے کہ اے جابر بیشک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا… جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور (محمدی) کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا پہلے حصے سے قلم بنایا ، دوسرے حصے سے روح تیسرے حصے سے عرش اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصے سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے سے آسمان بنائے اور دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ اور پھر چوتھے حصے کو چار حصوں میں تقسیم کیا، پہلے سے مومنین کی آنکھوں کا نور بنایا اور دوسرےسے ان کے دلوں کا نور پیدا کیاجو معرفت الٰہی ہے اور تیسرے سے ان کا نور انس پیدا کیا اور وہ توحید ہے الخ ۔(مواھب لانیہ ج: اول ص:۹)(میلاد النبی کاظمی)
گویا اللہ تعالیٰ اپنے نور کے حصے در حصے سے یہ سب مخلوقات بنائی، یہ الفاظ روایت ایسے غالی کی تائید کرتے ہیں کیونکہ جیسے ایک چراغ سے چار چراغ جلائیں پھر چوتھے سے پھر چار چراغ جلائیں پھر اس کے چوتھے سے چار چراغ جلائیں (الی آخرہ ) تو جیسے یہ سب چراغ چراغ اول سے بنے ہیں اسی طرح گویا یہ سب چیزیں بھی اللہ تعالی کے نور سے بنیں ۔ نیز یہ روایت جابر، بخاری شریف ج:۲، ص:۱۱۰۲ کی صحیح روایت کے خلاف بھی ہے جس کے الفاظ ابھی نقل کئے ہیں: کان اللہ ولم یکن شئ قبلہ الخ۔ کیونکہ اس روایت بخاری سے معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا عرش باقی مخلوق کے پیدا ہونے سے پہلے موجود تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا پھر زمین و آسمان وغیرہ اشیاء پیدا فرمائیں کاظمی کی بیان کردہ روایت از جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نور محمد پیدا ہوا۔ عرش پھر بنا اور پہلے نور محمد پیدا ہوا قلم بعد میں پیدا ہوئی لہٰذا یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے ، لہٰذا من گھڑت اور بے سند روایت پر عقیدہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی اور حدیث اول ما خلق اللہ القلم مسند احمد ج:۵، ص:۳۱۷ سنن ابو دائود ، سنن ترمذی ج:۲، ص:۱۶۷ سنن کبریٰ بیہقی ج:۱، ص:۲۰۴میں ہے اور یہی روایت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے(مستدرک حاکم ج:۲، ص:۴۵۴، ۴۹۸) اور اس کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح کہا اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے امام حاکم کی تصحیح کو برقرار رکھا ایک دوسری روایت جو مسلم شریف ص:۳۳۵ ج:۲ میں ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل ان یخلق السموات والارض بخمسین الف سنۃ قال وعرشہ علی المائ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر لکھی جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا الخ تو واضح ہے خلق کے پیدا ہونے سے پہلے جو تقادیر خلق لکھی گئیں وہ قلم سے لکھی گئی ہوں گی اور ایک روایت جو پہلے ابھی نقل کی ہے: ان اللہ کتب کتابا قبل ان یخلق الخلق الخ (مشکوٰۃ ص:۵۰۶) جس سے واضح ہے کہ یہ تقدیر بھی قلم سے لکھی گئی ہو جیسا کہ پہلے بالوضاحت حدیث قلم لکھی جا چکی ہے لہٰذا قلم کا اول خلق ہونا ثابت ہوا نیز جابر کی روایت کے برخلاف ایک دوسری روایت میں یوں بھی مذکور ہے:
خلقنی اللہ من نورہ وخلق ابابکر من نوری وخلق عمر من نور ابی بکر وخلق امتی من نور عمر۔(ذیل اللالی ص:۵۰، طبع سانگلہ ھل پاکستان)
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے نور سے پیدا کیا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو میرے نور سے پیدا فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر کے نور سے پیدا فرمایا اور میری باقی امت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نور سے پیدا کیا ہے الخ اگرچہ یہ روایت بھی باطل ہے مگر اتنا تو ضرور ہے کہ باطل کے مقابلہ میں ایک دوسری باطل روایت مد مقابل ضرور موجود ہے اور ذیل اللالی والی روایت کے متعلق امام سیوطی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو امام ابو نعیم نے امالی میں روایت کیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ جابر والی روایت کسی کتاب میں موجود نہیں اور اللالی والی روایت ابو نعیم کی امالی میں ہے جس سے معلوم ہوا کہ ساری امت محمدیہ بواسطہ عمر عن ابی بکر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور سے پیدا ہوئی، دونوں کا مضمون ایک دوسرے کے خلاف ہے، اذا تعارضا تساقطا کے قانون کے مطابق یہ دونوں کالعدم ہوئیں، باقی رہے گی اول ما خلق اللہ القلم۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جابر بن یزید جعفی شیعی رافضی کہتا ہے کہ مجھے امام ابو جعفر نے کہا یاجابران اللہ اول ما خلق خلق محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم وعترتہ المھداۃ المھتدین فکانوا اشباح نور بین یدی اللہ الخ۔ (اصول کافی کتاب الحجۃ ج:اول ص:۴۴۲) کہ اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں سے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ہدایت یافتہ اولاد کو پیدا فرمایا پس ان کے نور (نورانی وجود) اللہ تعالیٰ کے سامنے تھے میں نے کہا اشباح کیا ہیں تو فرمایا کہ ظلی نور کے ابدان بلا ارواح الخ ایک اور روایت یوں موجود ہے کہ امام ابو عبد اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :
یا محمد انی خلقتک وعلیا نورا یعنی روحا بلا بدن قبل ان خلق سماواتی وعرشی وبحری فلم تزل تحللنی وتمجددنی ثم جمعت روحیکما فجعلتہما واحدۃ فکانت تمجدنی وتقدسنی وتھللنی ثم قسمتھا ثنتین وقسمت الثنتین ثنتین فصارت اربعۃ۔ محمد واحد وعلی واحد والحسن والحسین ثنتان ثم خلق اللہ فاطمۃ من نور ابتداھا روحا بلا بدن ثم مسحنا بیمینہ فافضی نورہ فینا (کافی کلینی کتاب الحجۃ ص:۴۴۰)
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں نے تجھے اور علی رضی اللہ عنہ کو نور پیدا کیا یعنی روح بلا بدن پہلے اس کے کہ میں اپنے آسمان و زمین، عرش، سمندر پیدا کرتا، پس تو میری تھلیل و تمجید کرتا رہا، پھر میں نے تمہارے (محمد وعلی) روحوں کو اکٹھا کر کے ایک بنا دیا پھر یہ میری تمجید و تقدیس و تھلیل کرتا رہا پھر میں نے اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا پھر دو دو کو دو دو بنا دیا تو یہ چار ہو گئے، محمد ایک، علی ایک ، حسن و حسین ایک ایک پھر اللہ تعالیٰ فاطمہ کو نور سے پیدا کیا، اس کی ابتدا روح بلا بدن سے کی پھر ہمیں اپنا دایاں ہاتھ لگایا تو اس کا نور ہمارے اندر پہنچا۔
ان دونوں روایات شیعہ سے ثابت ہوا کہ شیعوں کے نزدیک صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اول نور نہیں بلکہ بشمول حضرت علی، آپ کی عترت و اولاد بھی نور ہے اور مخلوقات سے پہلے ان کا نور پیدا ہوا پھر ایسی شیعی روایات کو مذہب شیعہ اور کتب شیعہ سے اسمگل کر کے تھوڑی تبدیلی کے ساتھ سنیوں میں پھیلا دیا گیا اور غلط فہمی سے جابر بن یزید جعفی رافضی شیعی سے جابر بن عبد اللہ صحابی بنا کر ان کے نام سے روایت مشہور کر دی گئی۔ جس کا حوالہ مصنف عبد الرزاق کے نام سے دیا جانے لگا کیونکہ مصنف عبد الرزاق کی طرف منسوب روایت بھی یا جابر۔ ان اللہ تعالیٰ خلق قبل الاشیاء الخ کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور کلینی کتاب الحجہ والی روایت بھی یا جابر ان اللہ اول ما خلق خلق محمد الخ سے شروع ہوتی ہے لیکن مصنف عبد الرزاق جواب طبع ہو چکی ہے اس کو جب دیکھا گیا تو اس میں یہ روایت بالکل نہ ملی اور نہ ملنی تھی۔ پھر کاظمی صاحب نے اول ما خلق اللہ نوری الخ کا حوالہ نہیں دیا اور اسی طرح شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے بھی یہ روایت نقل کی ہے لیکن اس سے بھی حوالہ نقل نہیں کیا، اور نہ کسی کتاب سے سند روایت نقل کی ہے فقط یہ لکھنا کہ کثیر التعداد جلیل القدر ائمہ کا اس حدیث کو نقل کرنا اس کی تصحیح فرمانا اس پر اعتماد کر کے اس کے مسائل کا استنباط کرنا اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے الخ اس سے کاظمی صاحب اپنے معتقدوں اور مریدوں کو تو مطمئن کر سکتے ہیں مگر تحقیق پسند لوگ ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک سند سامنے نہ ہو اور کسی معتبر محدث کی تصحیح سامنے نہ ہو بعد کے لوگوں کا صحیح کہ دینا اس وقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ الاسناد من الدین موجود ہے۔ جبکہ مصنف عبد الرزاق کی پوزیشن طبقہ ثالثہ (تیسرے درجہ) کی ہے جس میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، غریب، شاذ، منکر، خطا ، صواب، ثابت مقلوب سب روایات شامل ہیں (حجۃ اللہ البالغہ ج:۱، ص:۱۳۴، ۱۳۵) اس اندھیرے پے اندھیرا یہ کہ یہ روایت سرے سے مصنف عبد الرزاق میں ہے ہی نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

کاظمی: اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ذاتی تجلی فرمائی جو حسن الوھیت کا ظہور اول تھا الخ۔ بغیر اس کے کہ ذات خداوندی نور محمدی کا مادہ یا حصہ اور جز قرار پائے، یہ کیفیت متشابھات میں سے ہے جس کا سمجھنا ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا قرآن و حدیث کے دیگر متشابھات کا سمجھنا ۔
محمدی: گویا تسلیم کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے نور کی تجلی ہیں اور یہ نور تقسیم ہوا چار حصے بنے ، نور محمدی سے ایک قلم بنی، لوح بنا، عرش معلی بنا، گویا یہ سب ذاتیں نور محمدی کی تقسیم ہیں، چوتھے کو چار پر تقسیم کیا، نور محمد کے چوتھے حصہ سے حاملین عرش بنے، کرسی بنی، باقی فرشتے بنے گویا یہ نور محمد ی کی دوسری تقسیم ہے اور نور کی تقسیم نور ہی ہوتی ہے پھر چوتھے حصہ کو چار پر تقسیم کیا، آسمان بنا ، زمین بنی، جنت بنی، دوزخ بنی، گویا یہ بھی نور محمدی کی تقسیم در تقسیم ہے تو پھر نور محمد کی تقسیم سے دوزخ کی آگ کیسے بن گئی، نور نور کرتے کرتے کہتے کہتے نار پر نتیجہ آ نکلا، سبحان اللہ عما یصفون اگر کوئی دوسرا ایسی بات کہتا تو وہ گستاخ کب کا مشہور ہو چکا ہوتا۔
اصل بات تو یہ کرنی تھی کہ چونکہ یہ روایت ثابت نہیں لہٰذا اس کی تاویل کیا کرنی ہے، مگر قربان جائیے غزالی زمان رازی دوران پر کہ وہ بھی اس بے ثبوت روایت کو قرآن و حدیث کی دیگر متشابہات کی طرح متشابہات کہہ کر گویا وما یعلم تاویلہ الا اللہ کی طرف بات کو سپرد کر دیا ، جب ایک چیز ثابت ہی نہیں تو کیا اسے متشابہات سے بنانا ضروری ہے؟۔ اس لئے تو میں کہا تھا کہ بڑی دکان پھیکا پکوان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کاظمی : اس کے بعد یہ بات بھی سمجھنے کے قابل ہے کہ سورج کی شعاعیں ناپاک گندی چیزوں پر پڑنے سے ناپاک نہیں ہو سکتیں، تو انور محمدی کی شعاعیں عالم موجودات کی برائیوں اور نجاستوں سے معاذ اللہ کیونکر متاثر ہو سکتی ہیں۔
محمدی: کاظمی کی یہ مثال غیر مطابق اور لایعنی اور غلط ہے کیونکہ یہ اشیاء سورج کی تقسیم سے نہیں بنیں جبکہ بقول کاظمی صاحب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے یہ سب چیزیں بنی ہیں اور یہ مثال اس لئے بھی غلط ہے کہ گندی چیز پہلے ہوتی ہے پھر اس پر شعاع پڑتی ہے الخ لیکن روایت میں تو یہ ہے کہ یہ سب اشیاء بشمول گندی چیزیں بھی (من نوری خلق کل شئی) نور محمدی سے بنی اور پیدا ہوئیں۔ یعنی دوزخ اس نور سے بنی، جنات و شیاطین اسی نور سے بنے اور شیطان جنوں سے ہے (وکان من الجن۔القرآن) وہ بھی اسی نور سے بنا تو جب نعوذ باللہ جنات و شیاطین اور دوزخ بھی نبی کے نور سے بنیں اور دیگر گندی چیزیں بھی۔ تو کیا یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی نہیں۔ استغفر اللہ۔ جبکہ خود کاظمی اس سے ذرا پہلے لکھ آئے ہیں کہ اس لئے کل مخلوق کا نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود ہونا کسی اعتراض کا موجب نہیں۔ (ص:۶۶) حالانکہ اعتراض تو ہے آنکھ بند کر لینے سے اگر کچھ نظر نہ آئے تو یہ بات اور ہے۔
 
Top