• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جائز و ناجائز کو معمول بنا لینا۔۔۔ایک بڑھتا ہوا رجحان !

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں ، ان کو تھام لو گے تو تم بھی گمراہ نہ ہو گے
ایک کتاب اللہ اور دوسری میری سنت ،!!
سیرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرنے سے ہمیں احکامات ، نیکی ، بدی ، حرام ، جائز و ناجائز ، متشبھات ، غرض تمام معاملات زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ان میں کچھ امور ایسے ہیں ، جو کہ "جائز" صورت اختیار کیئے ہوئے ہیں ، مثال کے طور پر نا محرم خاتون کو سلام کرنا ۔۔۔اسی طرح مرد کے لیے چار شادیوں کا" جائز" ہونا۔۔۔اور ایسے متعدد مسائل ہیں ، جن میں اگر چہ جائز کی صورت نکلتی ہے ، مگر آج لوگوں کی اکثریت انھیں "معمول " بنانے پر مصر ہے ، اور یہ ایسا جواز ہے جو آج شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔۔۔نبی کریم صلہ اللہ علیہ وسلم نے بعض کام تمام زندگی سر انجام دئیے ، جن میں’’ تو حید کی دعوت ، شرک و بدعات کی بیخ کنی اور جہاد ‘‘ سب سے اوپر ہیں ، !
اور بعض کام ایسے ہیں ، جو اگر چہ ثابت ہیں اور جائز ہیں ۔۔۔لیکن "معمول " میں نہیں آتے !
اب لوگوں کا کسی "جائز" حکم کو پکڑ کے معمول بنائے رکھنا اور لازمی طور پر سر انجام دیتے رہنا ۔۔۔
کیا یہ معتدل اور متوازن اسلامی معیار زندگی ہے ؟؟
کیا ہمیں ان کاموں کی طرف زیادہ توجہ اور محنت کرنی چاہیئے ، جن احکامات کے متعلق متعدد احادیث ، صحابہ کرام و سلف صالحین کے اقوال کثرت سے موجود ہوں؟؟؟
رد عمل ، نتائج۔۔۔نٖقصانات!!!
بظاہر تو دونوں صورتیں مجموعی طور پر جواز پر مبنی ہیں۔۔۔لیکن آ جو نتائج نکل رہے ہیں ، وہ ہمیں دین میں شامل کرنے کے بجائے دوری کا سبب بن رہے ہیں۔جائز کی یہ صورتیں لوگوں نے " ہتھیار " بنا لی ، کفار سے کاروباری میل جول ہوا تو " جواز" ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی معاملات کیئے تھے ، جو ایک بیوی کے ساتھ توازن نہیں رکھ پاتے ، نہ دین کے باقی مسائل سے واقف ، لیکن شادی چار کرنی ہے وہ بھی کنواری سے۔۔۔"جواز" ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز ہے۔۔۔ویسٹ جا کر پڑھنا بہت ضروری ہے ، "جواز" ہے کہ ایک صحابی رسول نے یہودی سے لکھنا بھی تو سیکھا تھا۔۔۔ قطع نظر اس سے کہ آپ کیا سیکھ رہے ہیں ، مقصد کیا ہے اور لاگو کہاں ہو گا ، لیکن "جواز " موجود ہے !
مگر اسلام متوازن زندگی کے لیے ایک خوبصورت پہلو دیتا ہے۔۔۔اور وہ ہے، ’’ ضرورت ‘‘ کی پالیسی کا استعمال کرنا۔۔۔۔شاید یہی بہتر صورت ہے معتدل رہنے کی!

کوئی اور مناسب حل ہو تو ضرور شئیر کریں !
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اگر کوئی کسی جائز یا مباح امر کو اپنا ”معمول“ بناتا ہے تو ہم انہیں ایسا کرنے سے ”کس بنیاد“ پر روک سکتے ہیں ؟ ہم انہیں روک بھی سکتے ہیں یا نہیں ؟

اصل میں یہ معاملہ ترجیحات کا ہے کہ کسی فرد کی ”ترجیح“ کیا ہے؟ گو ہر ہر فرد کی ترجیح الگ الگ ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اُن میں یہ بات ”مشترک“ ہوتی ہے کہ بالعموم ہر فرد اپنے اپنے ”دائرہ علم“ کے اندر موجود اوامر (جائز یا ناجائز) ہی کی ترجیحی فہرست مرتب کرتا ہے۔

اگر ہم ہر مسلمان کے ”دائرہ علم“ میں اسلام کے بنیادی ”اوامر و نواہی“ کو شامل کروادیں تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ بھاری اکثریت کی ”ترجیحی فہرست“ ایک جیسی ہوجائے گی، جو اسلامی تعلیمات سے قریب قریب ہوگی۔ دوسرے الفاط میں ہمارا ” معمول “ انہی عوامل پر مشتمل ہوجائے گا، جس کی بار بار تلقین قرآن و سنت میں موجود ہے۔

اس کے لئے ہمیں مسلم سوسائٹی کے بنیادی نظام تعلیم میں قرآن و حدیث کے اوامر و نواہی کو اس طرح شامل کرنا ہوگا کہ فرد جس شعبہ تعلیم میں بھی جائے، وہ ان بنیادی اوامر و نواہی سے لازماً آگہی حاصل کرلے۔

مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات ع​
1۔ مثال کے طور پر نا محرم خاتون کو سلام کرنا
(×) بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کیا اگر نا محرم خواتین و حضرات کو ایک دوسرے سے رابطہ یا واسطہ پڑجائے تو وہ پہلے ایک دوسرے کو سلام نہ کریں ؟

2۔ کفار سے کاروباری میل جول ہوا تو " جواز" ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی معاملات کیئے تھے۔
(×) آج دنیا ایک گلوبل ولیج ہے۔ کچھ افراد تو شاید کفار سے کاروباری میل جول کے بغیر زندگی کے ایام گزار لیں لیکن سب کے لئے ممکن نہیں۔ پھر مسلم ریاستوں کا غیر مسلم ریاستوں سے کاروباری میل جول نہ رکھنا، کیا آج یہ ممکن ہے ؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہم مسلم ممالک کے شہری آج بھی سو سال پیچھے والی زندگی گزار رہے ہوتے کہ آج جملہ جدید ٹیکنالوجی ”کفار ہی دین ہے“۔

3۔ لیکن شادی چار کرنی ہے وہ بھی کنواری سے۔۔۔"جواز" ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جائز ہے۔
(×) حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ دین فطرت سے بے بہرہ خواتین تو مغربی تعلیم و تہذیب سے متاثر ہوکر تعدد ازدواج سے الرجک ہیں ہی، المیہ یہ ہے کہ دیندار خواتین بھی ایسا ہی سوچتی ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مرد کے ایک سے زائد شادی کرنے کا ”آفٹر آل فائدہ“ خواتین ہی کو ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ریاستوں میں خواتین کی آبادی مردوں سے زائد ہے۔ اگر ہر فرد ایک ہی خاتون سے شادی کرے تو بقیہ غیر شادی شدہ خواتین اپنی فطری ضرورت کو کیسے پورا کریں گی۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تو وہ کسی نہ کسی کی گرل فرینڈ بن جائے گی، کال گرل بن جائے گی۔ لیکن اگر مسلم ہے تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ بھی اسی نقش قدم پر چلے ؟ (چلے کیا چل پڑی ہے )
خواتین کی طرف سے یہ اکثر طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہر مرد چار شادی کرنا چاہتا ہے۔ کیا عملاً ایسا ممکن ہے ؟ ہر ملک میں خواتین کی صرف چند فیصد آبادی زائد ہے۔ جیسے پاکستان میں 52 فیصد خواتین ہیں گویا مردوں سے صرف 4 فیصد زائد۔ گویا ہر 100 مردوں میں سے (اوسطاً) صرف 4 مرد دو دو شادی کرسکتا ہے یا صرف ایک مرد چار شادی کرسکتا ہے۔ انگریزوں اور ہندوؤں کے زیر اثر رہنے والے برصغیر کے مسلم مرد بالعموم ایک ہی شادی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی لئے اس ریجن میں لاکھوں خواتین شوہر کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہی خواتین جب اپنی معاشی اور جنسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو معاشرہ جس جنسی کرپشن کا شکار ہوتا ہے، وہ آج ہمیں اپنے گرد و پیش میں بھی اور خبروں میں بھی تواتر سے نظر آتا ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اصل میں معاشرہ بہ حیثیت مجموعی دین و مذہب سے دور ہے؛تربیت کا نظام بالکل ختم ہو چکا ہے؛ایسے میں اسی طرح کے رویے سامنے آتے ہیں؛جب تک تربیت و تزکیہ کا ایک بھرپور اور فعال نظام نہیں ہو گا ،

صورت احوال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی؛اعاذنااللہ منہ
آج ہماری حالت بنی اسرائیل جیسی ہو چکی ہے جو احکام کے ظاہر پر تو عمل کرتے تھے لیکن ان کی روح و مقصد کو نظر انداز کر دیتے تھے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے کہ آپ نے بات سمجھنے کے لیے آسانی کر دی۔

(×) بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ کیا اگر نا محرم خواتین و حضرات کو ایک دوسرے سے رابطہ یا واسطہ پڑجائے تو وہ پہلے ایک دوسرے کو سلام نہ کریں ؟
کیا سلام کرنا "فرض " ہے؟دوسری بات کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہمیشہ اتنی تلقین کرتے رہے ، جتنی اس حدیث کو حجت بنانے والے اپنے عمل سے کرتے ہیں؟ جو دین اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہم ترین معاملات میں بھی سنت اختیار نہیں کر رہے ہوتے ، وہ کسی "جائز" کام کو لازما کیوں کرتے ہیں !!

(×) آج دنیا ایک گلوبل ولیج ہے۔ کچھ افراد تو شاید کفار سے کاروباری میل جول کے بغیر زندگی کے ایام گزار لیں لیکن سب کے لئے ممکن نہیں۔ پھر مسلم ریاستوں کا غیر مسلم ریاستوں سے کاروباری میل جول نہ رکھنا، کیا آج یہ ممکن ہے ؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ہم مسلم ممالک کے شہری آج بھی سو سال پیچھے والی زندگی گزار رہے ہوتے کہ آج جملہ جدید ٹیکنالوجی ”کفار ہی دین ہے“۔
یوسف بھائی ، یہی تو میرا سوال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی ، گلوبل ویلیج ، یہ کیسے مسلمانوں پر فرض ہوئے ، جبکہ اسلام اپنے بندوں کو ہر چیز میں متوازن راہ اختیار کرنے کی اور ضرورت کے تحت معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتا ہے ، جن کاروباری معاملات میں اللہ تعالی نے ہمیں اجازت دی اور جائز کیئے ، وہ تو آسانی کے لیے تھے، مقصد تھا کہ بندہ اللہ تعالی کا ہی بن کر رہے۔ہم نے "ضرورت" کو اگنور کر کے انھیں لازم و ملزوم بنا لیا۔کیونکہ گلوبل ویلیج نے ہمیں بھی اپنے ساتھ دوڑنے میں شامل کر لیا ہے۔آج جو اس دوڑ میں شامل نہیں ہوتا ، دنیا اسے ترقی یافتہ نہیں سمجھتی !

(×) حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ دین فطرت سے بے بہرہ خواتین تو مغربی تعلیم و تہذیب سے متاثر ہوکر تعدد ازدواج سے الرجک ہیں ہی، المیہ یہ ہے کہ دیندار خواتین بھی ایسا ہی سوچتی ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ مرد کے ایک سے زائد شادی کرنے کا ”آفٹر آل فائدہ“ خواتین ہی کو ہوتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ریاستوں میں خواتین کی آبادی مردوں سے زائد ہے۔ اگر ہر فرد ایک ہی خاتون سے شادی کرے تو بقیہ غیر شادی شدہ خواتین اپنی فطری ضرورت کو کیسے پورا کریں گی۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تو وہ کسی نہ کسی کی گرل فرینڈ بن جائے گی، کال گرل بن جائے گی۔ لیکن اگر مسلم ہے تو وہ کیا کرے؟ کیا وہ بھی اسی نقش قدم پر چلے ؟ (چلے کیا چل پڑی ہے )
غالب گمان ہے کہ آپ سمجھے نہیں ، اور معاشرے میں دین دار خواتین سے متعلق رائے کو ہی ثبت کر دیا۔عموما دوسری تیسری شادی سے رکنے میں خواتین کو مورود الزام ٹھہرایا جاتا ہے ، اگر چہ یہ کسی حد تک درست تو ہے ، لیکن مرد حضرات کے رجحانات اس "نظریہ" کی آڑ میں دب جاتے ہیں۔مسلمان گھرانوں میں مردکی شادی 30 سال تک یا اس سے پہلے ہو جاتی ہے، اگر محض 35 سال تک اسے دوسری شادی کا موقعہ ملے ، تو مجھے معاشرے میں دور دور تک ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ وہ مرد اپنے سے بڑی ، یا بچوں والی ، یا کسی بھی سہارے کی طلب گار عورت سے شادی کرے۔لیکن اللہ کے نبی کی سنت اختیار کرنے والوں! انھوں نے 25 سال کی عمر میں 40 سال کی خاتون سے شادی بھی تو کی۔جائز کو لازم سمجھنے والے آج کب ایسا کرتے ہیں !
اور مسلم خواتین جس نقش قدم پر چل پڑی ہیں، اس میں تو بہت سارے فیکٹس ہیں بھائی۔بلکہ محتاط انداز کے مطابق کنواری لڑکیوں کی نسبت شادی شدہ گرل فرینڈز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

دراصل آج مسلمانوں کی وہ تربیت ہی نہیں ہے ، جو ان کے ایما ن پختہ کرے ، جو اسلام کو "استعمال" نہ کریں ، بلکہ لاگو کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ، صحیح مسلم کی حدیث کا مفہوم۔۔۔اللہ تعالی کی ناپسند جگہیں بازار ہیں ، مگر ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار نہیں گئے ، کیونکہ ضرورت کے تحت گنجائش تھی۔
یہی راہ اعتدال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
کیا سلام کرنا "فرض " ہے؟
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘
مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ یارسول اللہﷺ! آپﷺنے فرمایا: جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہیے، جب وہ دعوت دے تو قبول کیجیے، جب وہ نصیحت طلب کرے تو اسےنصیحت کیجئے، جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اسےچھینک کا جواب دیجیے، جب وہ بیمار ہو تواس کی عیادت کیجیے اور جب وہ فوت ہو تو اس کےجنازے کے پیچھے چلیے۔‘‘ (صحیح مسلم:2162)۔

یہی تو میرا سوال ہے کہ جدید ٹیکنالوجی ، گلوبل ویلیج ، یہ کیسے مسلمانوں پر فرض ہوئے
سورة الاٴنفَال۔60:
اور ان کافروں کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے قوت (ہتھیار) سے اور پَلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو اور اس کے ذریعہ سے تم (رعب) جمائے رکھو ان پر جوکہ (کفر کی وجہ سے) الله کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم (بالیقین) نہیں جانتے ان کو الله ہی جانتا ہے۔اور الله کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کروگے وہ تم کو پورا پورا دے دیا جاوے گااور تمھارے لیے کچھ کمی نہ ہوگی۔ (۶۰)
آج کے عہد کے ”ہتھیار“ تلوار اور گھوڑے نہیں بلکہ یہی جدید ٹیکنالوجی،کمپیوٹر، ایٹم بم، اقتصادی قوت ہیں۔ کیا نہیں ہیں ؟
  1. عموما دوسری تیسری شادی سے رکنے میں خواتین کو مورود الزام ٹھہرایا جاتا ہے ، اگر چہ یہ کسی حد تک درست تو ہے ، لیکن مرد حضرات کے رجحانات اس "نظریہ" کی آڑ میں دب جاتے ہیں۔
  2. محتاط انداز کے مطابق کنواری لڑکیوں کی نسبت شادی شدہ گرل فرینڈز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
  1. اگر خواتین اس بات پر دل سے ”ایمان“ لے آئیں کہ اللہ نے ان کے شوہروں کو دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کی اجازت (حکم نہیں) دے رکھی ہے اور اللہ کی یہ اجازت پہلی بیوی کی مرضی اور خوشی سے مشروط نہیں ہے اور وہ خود اپنے شوہروں کی اگلی شادی کرانے مین اسی طرح دلچسپی لیں، جیسا آج کل ان کی دوسری شادی کو ”روکنے“ میں دلچسپی رکھتی ہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ بیویاں اپنے خاندان، عزیز و اقارب، پڑوس یا سہیلیوں میں موجود غیر خوبرو لڑکیوں، بڑی عم کی خواتین، مطلقہ اور بیوہ وغیرہ سے اپنے شوہر کو شادی کرنے پر ”مجبور“ نہ کرسکیں۔ یہ ان کے لئے بھی ”کار ثواب“ ہوگا اور ان کے شوہر کے لئے بھی۔ اس طرح معاشرہ میں موجود بے سہارہ خواتین کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا اور معاشرہ جنسی کرپشن سے بھی خاصی حد تک پاک ہوجائے گا۔
  2. یہ محتاط اندازہ بالکل درست ہے، اگر غیر مسلم معاشرے بالخصوص مغربی اقوام سے متعلق ہو ۔ لیکن اندازہ انتہائی غیر محتاط اور غلط ہے، اگر یہ مشرقی اقوام یا مسلم سوسائٹی سے متعلق لگایا گیا ہو۔ یہاں ایسا بہت کم ہوتاہے۔یہاں کی شادی شدہ خواتین کو اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ بوائے فرینڈز پال سکیں۔ انتہائی اپر کلاس کی چند فیصد خواتیں شاید ایسا کرتی ہوں لیکن بھاری اکثریت ایسا کرنا ”افورڈ“ ہی نہیں کرسکتیں۔
انوکھی بیوی
 
  • پسند
Reactions: Dua

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ سِتٌّ قِيلَ مَا هُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِذَا لَقِيتَهُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ وَإِذَا دَعَاكَ فَأَجِبْهُ وَإِذَا اسْتَنْصَحَكَ فَانْصَحْ لَهُ وَإِذَا عَطَسَ فَحَمِدَ اللَّهَ فَسَمِّتْهُ وَإِذَا مَرِضَ فَعُدْهُ وَإِذَا مَاتَ فَاتَّبِعْهُ‘‘
مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں، پوچھا گیا وہ کیا ہے؟ یارسول اللہﷺ! آپﷺنے فرمایا: جب تو اسے ملے تو اسے سلام کہیے، جب وہ دعوت دے تو قبول کیجیے، جب وہ نصیحت طلب کرے تو اسےنصیحت کیجئے، جب وہ چھینکے اور الحمدللہ کہے تو اسےچھینک کا جواب دیجیے، جب وہ بیمار ہو تواس کی عیادت کیجیے اور جب وہ فوت ہو تو اس کےجنازے کے پیچھے چلیے۔‘‘ (صحیح مسلم:2162)۔
محترم بھائی ! موضوع پر واپس آ جائیں ۔میں نامحرم خاتون سے لازم سلام کی بات کر رہی ہوں۔اس حدیث کو نامحرم خاتون سے منسلک کریں ، تو نامحرم مرد عورتیں ایک دوسرے کو دعوت دی بھی اور قبول بھی کریں۔

اور ان کافروں کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے قوت (ہتھیار) سے اور پَلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو اور اس کے ذریعہ سے تم (رعب) جمائے رکھو ان پر جوکہ (کفر کی وجہ سے) الله کے دشمن ہیں اور تمھارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی جن کو تم (بالیقین) نہیں جانتے ان کو الله ہی جانتا ہے۔اور الله کی راہ میں جو چیز بھی خرچ کروگے وہ تم کو پورا پورا دے دیا جاوے گااور تمھارے لیے کچھ کمی نہ ہوگی۔ (۶۰)
آج کے عہد کے ”ہتھیار“ تلوار اور گھوڑے نہیں بلکہ یہی جدید ٹیکنالوجی،کمپیوٹر، ایٹم بم، اقتصادی قوت ہیں۔ کیا نہیں ہیں ؟
آیت کی تفسیر ملاحظہ کریں۔
۔١ فُوَّۃِ کی تفسیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے وَاضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ) 8۔ الانفال:60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل،ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔ تفسیر مکی ۔احسن البیان!
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ "تیاری " جہاد اور جنگ کے لیے ہے۔کیا ہمارے اکثریت مسلمان جنگ کی تیاری اور جہاد جیسے جذبے کے لیے کفار سے کاروباری میل جول رکھتے ہیں؟
اگر ایسا ہو تو رزلٹ نکلتا۔بڑے اخلاص کے ساتھ آپ سمیت ہر پڑھنے والوں کو لکھ رہی ہوں کہ یہ "لیبلز" ہیں ۔یماری نیتیں کچھ اور ہیں اور عمل کچھ اور ، اس پر ہم "اتھینٹک" کرنے کے لیے اسلام کی خوبصورت تصویر لگا دیتے ہیں۔جب کوئی اسلام کو پڑھتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ یہ تو جائز ہے ، مگر شرائط ، تقاضے ، نیت ، مقصد ، ضرورت نظر انداز کر دیتا ہے۔الا ماشاء اللہ !

مغربی اقوام سے متعلق تو یہ بہت عرصے سے چلا آ رہا ہے۔میں تو مسلم گھرانوں کی صورتحال کا تذکرہ کر رہی ہوں۔ا ن خواتین کے تعلق نوجوان سے نہیں ، بلکہ اپنے جیسے شادی شدہ مردوں سے ہی ہیں۔اس پر ایک پروگرام بھی ٹی وی پر نشر ہوا تھا۔یہ اس تھریڈ کا موضوع نہیں ہے۔اس پر مزید بات مناسب نہیں۔اللہ تعالی ہمیں ان فتنوں سے بچائے۔آمین

موضوع اور مسئلہ سے متعلق کوئی مناسب حل پائیں تو ضرور دیجیئے۔
 
Top