• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جادو

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
جادو

جادوکی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ رسومات کے ذریعے مافوق الفطرت وسیلوں کاملاکرقدرتی عوامل پربظاہراختیارحاصل کرنایاان کی پیش بینی کرناہے ۔علاوہ ازیں یہ یقین کہ لوگ کچھ رسومات ‘ترکیبوں اورعملوں کے ذریعے قدرت کومجبورکرسکتے ہیں ۔(Reader's Digest Great Encyclopedic Dictionary'(New York:Fund&Wagnalls Publishing Co;10th ed.1975)p.813)
مظاہرقدرت کے مطالعے کوروایتی طورپرسفیدجادومیاقدرتی جادوکہاجاتاتھا‘جونشوونما پاکرمغربی معاشرے میں اب جدیدقدرتی سائنس کہلاتاہے ۔اس سے مختلف ’’کالاجادو‘‘یاسحرہے جواپنے ذاتی کاموں کے لیے یادوسرے برے کاموں کے لیے مافوق الفطرت قوتوں کواستعمال کرنے یاان کوبلانے کی کوشش کانام ہے۔جادوگرنیوں کاعلم ‘غیب کاحال بتانا اورمردوں کی روحوں سے باتیں کرنااوراس طرح کی دوسری اصطلاحات ہیں جوجادواورجادوکرنے والوں کے متعلق استعمال کی جاتی ہیں ۔جادوگرنیوں کے علم کی تعریف یہ تھی کہ یہ جادووہ عورت کرتی تھی جس پرجن کاآسیب ہو۔غیب کاحال بتانااس کوشش کوکہاجاتاتھاجس میں ’مافوق الفطرت باطنی نظر‘سے مستقبل کے حالات کوجاننے کی کوشش کی جاتی ہے ‘جبکہ مردوں کی روحوں سے باتیں کرنابھی غیب کاحال بتانے والے طریقوں میں سے ایک ہے ۔
تاہم عربی میں ایک ہی اصطلاح ’’سحر‘‘ہرقسم کےجادوکے لیے استعمال ہوتی ہے ۔لہذااس میں جنترمنتر‘جادوگرنیوں کاعلم ‘غیب کاحال بتانا‘اورمردوں کی روحوں سے رابطہ شامل ہیں۔’سحر‘عربی زبان میں ہراس عمل کوکہتےہیں جوخفیہ کاروائی یاہوشیاری اورچالاکی کے عوامل کانتیجہ ہو۔(''Arabic-Englisg Lexicon.''vol.1.pp 1316-1317)مثلا اللہ کے پیغمبرﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے :’’یقیناً کچھ بیان جادوہوتے ہیں ۔‘‘ایک عمدہ جادوبیان مقررلوگوں کوغلط کوصحیح اورصحیح کوغلط سمجھنے پرقائل کرسکتاہے ۔اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کچھ پہلووں کوجادوسے تعبیرکیا۔روزہ رکھنے کے لیے طلوع آفتاب سے پہلے جوکھاناکھایاجاتاہے اس کو’’سحور‘‘(جس کامادہ سحرہے)کہتے ہیں وہ اس لیے کہ اس کھانے کاوقت رات کے آخری حصے میں یعنی اندھیرے میں ہوتاہے ۔
جادوکی حقیقت
آجکل کےزمانے میں یہ مقبول رواج ہے کہ اس سے انکارکیاجائےکہ جادوکی بھی کوئی حقیقت ہے ۔عوام میں مقبول جادوکی کہانیوں کویہ کہہ کرردکردیاجاتاہے کہ یہ سب نفسیاتی بیماریوں جیسے ہسٹیریاوغیرہ کانتیجہ ہے اوریہ کہاجاتاہے کہ جادوصرف ان لوگوں پراثرکرتاہے جواس پریقین رکھتے ہیں ۔جادوکے تمام کرتبوں کوسلسلہ وارنظرکے قریب اورہاتھ کی صفائی پرمبنی دھوکے بتایاجاتاہے ۔
باوجوداس حقیقت کے کہ اسلام طلسمات اورتعویذوں کے بدقسمتی سے بچانے اورخوش قسمتی حاصل کرنے پراثرات کوردکرتاہے ‘یہ جادوکے کچھ پہلوؤں کوصحیح تسلیم کرتاہے ۔یہ سچ ہے کہ آجکل کازیادہ ترجادوکل پرزوں کی مددسے کی جانے والی شعبدہ بازی کی پیداوارہے جوہوشیاری سے سامعین کودھوکے دینے کے لیے بنائےجاتے ہیں ۔لیکن جیساکہ قسمت کاحال بتانے والے کے معاملے میں تھا‘دنیامیں کچھ لوگ ہیں جن کارابطہ شیاطین(برے جنوں)کے ساتھ ہوتاہے اوروہ سچ مچ کاجادوکرتے ہیں ۔جنوں اوران کی صلاحیتوں کوجاننے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ قرآن اورسنت رسول ﷺ میں وہ شہادت دیکھیں جواس موقف کی حمایت میں استعمال کی جاتی ہے کہ اسلام جادوکے کچھ مظاہرکی حقیقت کوتسلیم کرتاہے ۔اس موضوع پراس طریقے سے غورکرنالازمی ہے کیونکہ اسلام میں حق اورباطل کوپرکھنے کی آخری کسوٹی یہ دوذرائع ہی ہیں جواللہ نے وحی کے ذریعے انسان پرمنکشف کیے ہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن میں جادوکے متعلق اسلام کابنیادی نظریہ ان آیات میں بیان فرمایا ہے :
﴿وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾(سورة البقرة 2: 101)
’’اورجب آیاان کے پاس رسول ‘اللہ کی طرف سے تصدیق کرتاہواان (کتابوں)کی جوان کے پاس موجودتھیں (یعنی نبی اکرم ﷺ کے متعلق تورات میں پشیین گوئیاں)توپھینک دیاایک گروہ نے ان میں سے جنہیں دی گئی تھی کتاب‘اللہ ہی کی کتاب کوپس پشت اس طرح گویاوہ (اسے )جانتےہی نہیں ۔‘‘
یہودیوں کی طرف بھیجے گئے پیغمبروں کے ساتھ ان کی منافقت کوظاہرکرنے کےبعداللہ نے اس جھوٹ کونمایاں طورپربیان کیاہے جوانہوں نے پیغمبرحضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق گھڑلیاتھا:
﴿وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾(سورة البقرة 2: 102)
’’اورپیچھے لگ گئے ان (خرافات )کے جنہیں پڑھتے پڑھاتے تھے شیاطین سلیمان کے عہدحکومت میں اورنہیں کفرکیاسلیمان نے بلکہ ان شیاطین نے کفرکیا‘سکھاتے تھے لوگوں کوجادواورجو(علم )نازل کیاگیادوفرشتوں پربابل میں ہاروت اورماروت پر۔اوروہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی کو(وہ علم)جب تک نہ کہہ لیں یہ کہ ’یقیناً ہم تومحض ایک آزمائش ہیں پس توکفرمیں مبتلانہ ہو۔‘پھربھی وہ سیکھتے تھے ان دونوں سے ایسی چیز کوکہ جدائی ڈال دیں اس سے مرداوراس کی بیوی کے درمیان ‘حالانکہ نہیں پہنچاسکتے نقصان اس سے کسی کومگراللہ کے اذن سے اورسیکھتے تھے یہ لوگ(ان سے )ایسی باتیں جونقصان پہنچائیں انہیں اورانہیں نفع بالکل نہ دیں حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ بے شک جواس کاخریداربنا‘نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ اوریقیناً بہت بری تھی وہ چیز کہ بیچ ڈالا تھاانہوں نے اس کے عوض اپنی جانوں کو‘کاش وہ جانتے ۔‘‘
جہنم کی آگ میں ہمیشہ کی زندگی کسی بہت بڑے حرام کام کی سزاہی ہوسکتی ہے ۔یہ آیت بھی ثابت کرتی ہے کہ جادوگراورجوکوئی بھی جادوسیکھتاہے اوردوسروں کوسکھاتاہے کافرہیں۔آیت کے اسے حصے میں ’’جوکوئی بھی اسے خریدتاہے ‘‘کامطلب عام ہے یعنی وہ جادوسکھانے سے دولت کمانایااس کے سیکھنے کے لیے رقم اداکرنا‘یاصرف اس کاعلم رکھناسب کچھ شامل ہے ۔اللہ تعالی نے آیت کے اس حصےمیں بھی جادوکوکفرکہاہے :’’یقیناً ہم امتحان اورآزمائشیں ہیں پس تم کفرنہ کرو‘‘اوریہ کہ ’’سلیمان (علیہ السلام)نے کفرنہیں کیاتھابلکہ یہ شیاطین تھے جنہوں نے کفرکیالوگوں کوجادوسکھاکر۔‘‘(سورة البقرة 2: 102)
پہلے ذکرکی گئی آیت میں اس بات کاواضح ثبوت ہے کہ کچھ جادوواقعی حقیقت رکھتے ہیں ۔’’صحیح البخاری ‘‘میں ایک حدیث ہے جودوسری حدیث کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ بھی جادوکے اثرمیں رہے ۔حضرت زیدبن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لبیب ابن اعصم نے نبی اکرم ﷺ پرجادوکیاتھااورجب نبی اکرم ﷺ نے اس کے اثرات کواپنے اوپرمحسوس کیاتوجبریل علیہ السلام تشریف لائے اورسورہ الفلق اورسورہ الناس جن کو’’معوذتان‘‘کہتےہیں وحی کی گئیں ۔پھرجبریل علیہ السلام نے آپ ﷺ سے کہا:’’یقیناً ایک یہودی نے آپ ﷺ پرجادوکیاہے اوراس کاطلسم فلاں کنویں میں رکھاہواہے ۔‘‘نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب کوبھیجاکہ وہاں سے طلم لے آئیں ۔جب وہ اسے لے کرواپس آئے توآپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہاکہ اس کی گرہوں کوایک ایک کرکے کھولیں اورہرگرہ کے ساتھ ان سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھیں ۔جب انہوں نے ایساکیاتوآپ ﷺ یوں اٹھ کھڑے ہوئے گویاوہ پہلے بندھے ہوئے تھے۔(صحیح بخاری کتاب الطب باب السحر: 5433)
دنیاکی ہرقوم میں کسی نہ کسی قسم کاجادوکرنے والوں کاریکارڈموجودہے ۔اگرچہ اس میں کچھ جھوٹ بھی ہوسکتاہے ‘مگرپھربھی یہ ممکن نہیں کہ تمام دنیاکے انسان اس بات پرمتفق ہوجائیں کہ وہ جادواورمافوق الفطرت واقعات کے متعلق ایک جیسی کہانیاں بنالیں ۔جوکوئی بھی تمام دنیامیں پھیلی ہوئی ریکارڈشدہ مافوق الفطرت عوامل کے واقعات پرسنجیدگی سے غورکرے گاوہ اس نتیجے پرپہنچے گاکہ ان سب کے درمیان کوئی مشترکہ حققت ضرورہے۔’آسیب زدہ‘مکان‘روحوں کوبلانے کی مجلس ‘جوتش کاتختہ‘سفلی جادو‘آسیب زدہ شخص‘مختلف زبانوں میں بولنااورروحانی قوت کے اڑناوغیرہ یہ سب گورکھ دھندے ہیں ان لوگوں کے لیے جوجنوں کی دنیاسے ناواقف ہیں ۔ان تمام واقعات کے اپنے اپنے مظاہردنیاکےمختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں ۔اسلامی دنیامیں بھی یہ مرض موجودہے۔خاص طورپران شیوخ میں جومختلف انتہاپسندصوفی سلسلوں سےتعلق رکھتےہیں ۔ان میں سے بہت سے ہوامیں اڑتےمعلوم ہوتے ہیں ‘آن واحدمیں لمبے سفرطے کرتے ہیں ‘کہیں سے خوراک اورروپے پیسے مہیاکرتےہیں وغیرہ وغیرہ ۔ان کے ناسمجھ پیروکاران جادوئی کرتبوں کوخدائی کرامات سمجھتے ہیں اورخوشی خوشی اپنی دولت اورزندگیاں اپنے شیوخ کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں ۔مگران سارے معاملات کے پیچھے جنوں کی پوشیدہ اورمنحوس دنیاموجودہے۔
جن بنیادی طورپرنظرنہ آنے والی مخلوق ہے ۔سوائے ان کےجوسانپ اورکتے کے روپ میں ہوتے ہیں ۔تاہم کچھ جن کوئی بھی شکل اختیارکرنےکے اہل ہوتےہیں ‘بشمول انسانی روپ کے ۔مثال کے طورپرحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’اللہ کے نبیﷺ نے رمضان میں جمع ہونے والی زکوۃ کی حفاظت کے لیے مجھے مقررفرمایا۔جب میں یہ فرض اداکررہاتھاتوایک شخص آیااوراس نے خوراک کے ڈھیرمیں سے خوراک اٹھاناشروع کردی ۔میں نے اسے پکڑلیااورکہا:’خداکی قسم میں تم کواللہ کے رسول ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔‘اس آدمی نے منت سماجت شروع کردی اورکہا:’میں بہت غریب ہوں اورمیرے ہاں بچے بھی ہیں اورمجھے خوراک کی بہت ضرورت ہے ۔‘میں نے اسے چھوڑدیا۔اگلی صبح اللہ کے پیغمبرﷺ نے کہا:’ابوہریرہ‘کل رات جس کوتم نے پکڑاتھااس نے کیاکیا؟‘میں نےکہا:’اس نے شکایت کی تھی کہ اس کاکنبہ ہے اوراسے خوراک کی سخت ضرورت ہے لہذامیں نے اسے چھوڑدیا۔‘اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا:’یقیناً اس نے تم سے جھوٹ بولااوروہ پھرآئے گا۔‘چونکہ مجھے پتہ تھاکہ وہ ضرورآئے گااس لیے میں اس کاانتظارکرنے لگا۔جب وہ آیااورکھانااٹھانے لگاتومیں نے اسے پکڑلیااورکہا:’آج میں تمہیں ضروراللہ کے رسول ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔‘اس نے التجاکی :’مجھے چھوڑدو‘میں واقعی غیریب ہوں اورمیراکنبہ بھی ہے۔میں اب پھرنہیں آؤں گا۔‘مجھے اس پرترس آگیااورمیں نے اسے چھوڑدیا۔اگلی صبح پھراللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا:’اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !کا رات تمہارے قیدی نے کیاکیا؟‘میں نےکہا:’اس نے پھرشکایت کی کہ اسے کھانے کی بہت ضرورت ہے اوراس کاکنبہ بھی ہےاس لیے میں نے اسے چھوڑدیا۔‘اللہ کے رسول ﷺ نےجواب دیا:’یقیناً اس نے جھوٹ بولا‘اوروہ پھرآئے گأ۔‘چنانچھ میں انتظارمیں تھااورجب وہ پھرآیااورخوراک بکھیرنے لگاتومیں نے اسے پکڑلیااورکہا:’اللہ کی قسم میں تم کواللہ کے رسول ﷺ کے پاس ضرورلے جاؤں گا۔یہ تیسری بارہے اورتم نے وعدہ کیاتھاکہ تم پھرنہیں آؤگے۔مگرتم پھرآگئے۔‘اس نے کہا:’میں تمہیں کچھ ایسے الفاظ بتاتاہوں جس سے اللہ تمہیں بہت فائدہ دے گا۔‘میں نےپوچھا:’وہ کیاہیں؟‘اس نے جواب دیا:’جب تم سونے لگوتوآیت الکرسی شروع سے آخرتک پڑھاکرو۔اگرتم ایساکروگے تواللہ کی طرف سے ایک محافظ مقررکردیاجائے گااورشیطان اگلی صبح تک تمہارے پاس نہیں آئے گا۔‘پھرمیں نےاسے چھوڑدیا۔اگلے دن صبح اللہ کے رسول ﷺ نے پوچھا:’تمہارے قیدی نے پچھلی رات کیاکیا؟‘میں نے جواب بتایا کہ اس نے کہامیں تم کوایسےالفاظ بتاتاہوں جس سے اللہ مجھے بہت فائدہ دے گا۔اس لیے میں نے اسے چھوڑٖدیا۔جب نبی اکرم ﷺ نے پوچھاکہ وہ الفاظ کیاہیں تومیں نےکہاسونے سے پہلے آیت الکرسی کی تلاوت کرنا۔میں نے یہ بھی بتایاکہ اس نے کہاتھاکہ ایک محافظ اللہ کی طرف سے مجھ پرمقررکیاجائےگااورشیطان میرے صبح اٹھنے تک میرے قریب نہیں آئے گا۔اللہ کے پیغمبر ﷺ نے فرمایا :’یقیناً اس نے سچ بولا اگرچہ وہ پکاجھوٹاہے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ !کیاتم جانتے ہوکہ تم پچھلی تین راتوں میں کس کے ساتھ باتیں کرتے رہے ہو؟‘میں نےجواب دیا:’نہیں۔‘اس پرنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’وہ ایک شیطان تھا‘۔‘‘
جن بہت لمبے فاصلے آن واحدمیں طے کرلیتے ہیں اوران انسانی جسموں میں داخل ہوجاتےہیں جوان کے داخلے کے لیے تیارہوتے ہیں ۔اللہ تعالی نے ان کوایسی غیرمعمولی صلاحیتیں دینامناسب جاناجس طرح اس نے دورسری مخلوقات کوانسانی صلاحیتوں سےبالا دوسری صلاحیتیں دی ہوئی ہیں ۔مگرپھربھی اللہ تعالی نے انسان کوہی اپنی تمام مخلوق سے اونچے مرتبے کے لیے منتخب کیاہے۔
جنوں کی صلاحیتوں کےمتعلق ان بنیادی حقیقتوں کواگرذہن میں رکھاجائے توتمام مافوق الفطرت اورجادوئی واقعات جوجھوٹے نہیں ہوتے‘کی اصلیت کی آسانی سے توضیح کی جاسکتی ہے ۔مثال کے طورپر’’آسیب زدہ‘‘گھرجہاں بجلی خودبخودجلتی بجھتی رہتی ہے ‘دیواروں سے تصویریں گرتی ہیں‘چیزیں ہوامیں اڑتی ہوئی نظرآتی ہیں ،فرشوں سےچرچراہٹ کی آوازیں نکلتی ہیں وغیرہ ‘یہ جنوں کی حرکات ہیں جوخودپوشیدہ رہ کرمادی چیزوں پراس طرح کے عمل کرتے ہیں ۔مردہ لوگوں کی روحوں سے باتیں کرنے والی محفلوں میں بھی یہی جن ہوتے ہیں ‘جہاں یوں لگتاہے جیسے روحیں زندہ لوگوں سے رابطہ کررہی ہوں ۔جولوگ اپنے فوت شدہ رشتے داروں کی آواز پہچانتے ہیں وہ ان سے زندگی کے گزرے ہوئے واقعات کے متعلق باتیں سنتے ہیں ۔یہ عمل رابطہ کرنے والے لوگ کرتے ہیں جوفوت شدہ شخص کے متعلقہ قرین جن کوبلاکرحاضرکرتے ہیں ۔یہی جن ہے جومردے کی آوازکی نقل میں اس کی زندگی کےواقعات بتاتاہے ۔یہی طریقہ جوتش کے تختے کاہے جوبظاہرسوالوں کاجواب دیتامعلوم ہوتاہے ۔جن سے جب خاموشی سے رابطہ کرکے چھیڑچھاڑکی جاتی ہے توآسانی سے عجیب وغریب نتائج حاصل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ مناسب ماحول موجودہو۔وہ لوگ جوخودہوامیں اڑتے نظرآتے ہیں یاچیزوں کوبغیرہاتھ لگائے ہوامیں معلق کرتے ہیں ‘وہ جن کاغیرمرئی ہاتھ ہوتاہے جواصل میں ان کوہوامیں اٹھادیتاہے ۔اسی طرح وہ لوگ جوآن واحدمیں دوردرازکاسفرکرتے نظرآتے ہیں اوردومختلف مقامات پرتقریبا ایک ہی وقت میں موجودہوتے ہیں ان کوبھی ان کے قرین جن ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتےہیں یابعض اوقات ان کاقرین جن خودان کی شکل اختیارکئے ہوتاہے ۔ان ہی کی طرح وہ لوگ جوہوامیں خوراک یاروپے پیسے پکڑکردکھاتے ہیں وہ بھی یہ عمل تیز رفتاراورنظرنہ آنے والے جن کی مددسے کرتے ہیں ۔بظاہردوبارہ جنم لینے کے حیران کن واقعات میں بھی جیسے ہندوستان کی ایک سات سالہ لڑکی شانتی دیوی کاذکرہے کہ اس نے اپنے پہلے جنم کی بالکل صاف اورصحیح باتیں بیان کیں۔اس نے پہلا جنم والا گھرمتھراشہرمیں بتایا جواسکے گھرسے بہت دوردوسرے صوبے میں تھا۔جب لوگوں نے وہاں جاکراس کی تحقیق کی تووہاں کے لوگوں نے اس کی تصدیق کی کہ واقعی اس جگہ کبھی اس قسم کاگھرموجودتھااورانہوں نے اس کی بتائی ہوئی زندگی کی بعض تفصیلات کی بھی تصدیق کی ۔( Colin Wilson, 'The Occult(New York:Random House.1971) pp.514-515)صاف ظاہرہے کہ یہ سب باتیں اس لڑکی کے تحت الشعورمیں جن ہی نے ڈالی تھیں ۔نبی اکرم ﷺ نےایسے واقعات کی تصدیق یوں فرمائی ہے :
’’بے شک نیندمیں انسان تین قسم کےخواب دیکھتاہے :ایک تووہ خواب جوالرحمن (اللہ سبحانہ وتعالی)کی طرف سے ہوتاہے ‘دوسراوہ غمگین خواب جوشیطان دکھاتاہے اورتیسراوہ جوتحت الشعوردکھاتاہے ۔‘‘( اس میں کوئی شک نہیں کہ جن انسانی جسم میں اس طرح داخل ہوسکتاہے جس طرح وہ دماغ میں داخل ہوتاہے ۔جن کے جسم میں داخل ہوجانے کےواقعات اتنے زیادہ ہیں کہ شمارنہیں کیےجاسکتے۔یہ عارضی طورپربھی ہوسکتاہے جیساکہ بہت سے عیسائی اورکافرفرقے جن میں لوگ جسمانی اورروحانی طورپرجوش میں آکراپنے اوپروجدکی کیفیت طاری کرلیتے ہیں اوربے ہوشی میں اجنبی زبان میں باتیں کرنے لگتےہیں ۔اسم کمزورحالت میں جن بہت آسانی سے ان کےجسم میں داخل ہوکران کے ہونٹوں سے بک بک کرنے لگتاہے ۔کچھ صوفیاءسلسلوں نے بھی اپنی ذکرکی محفلوں کے دوران ایسے مظاہرکوبیان کیاہے ۔یاپھریہ لمبے عرصے کاواقعہ بھی ہوسکتاہے جس میں شخصیت نمایاں تبدیلیاں رونماہوتی ہیں ۔آسیب زدہ آدمی غیرمعقول حرکات کرتےہیں اورمافوق البشرری طاقت کامظاہرہ کرتے نظرآتے ہیں یاممکن ہے جن خودآسیب زدہ انسانوں کے ذریعے باقاعدہ طورپرگفتگوبھی کریں۔
قرون وسطی میں یورپ میں جن نکالنے کافن(بدروحوں یاجنوں کوانسانوں یامقامات سےنکالنا) ہرطرف پھیلاہواتھا۔عیسایئوں میں جن نکالنے کاطریقہ بائبل میں دیئےہوئے ان بے شمارواقعات پرمبنی ہے جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کاآسیب زدہ لوگوں میں سے جن نکالنے کےبارے میں تذکرہ ہے ۔ایسے ہی ایک واقعے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کےساتھ جیراسینزکے قصبے میں آئے اوران کووہاں ایک آسیب زدہ آدمی ملا۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جنوں کوحکم دیاکہ وہ اس شخص میں سے نکل جائیں ‘جن اس آدمی کوچھوڑکرپاس ہی ایک ٹیلے پرچرنے والے سوروں میں گھس گئے ۔سؤروں کایہ ریوڑاترائی والے کنارے پرتیز دوڑتے ہوئے سیدھاجھیل میں اترگیااورسب سوّرڈوب گئے۔(See Matthew 8:28-34,Mark 5:1-20 and Luka 8:26-39)جن نکالنے کے عمل کوستّرکی دہائی کے آخراوراسّی کی دہائی میں فلموں کاموضوع بھی بنایا گیا(مثلا ’’Exorcist‘‘اور’’Rosemary's Baby‘‘وغیرہ)۔مغربی مادہ پرست دنیامیں عام طورپرمافوق الفطرت عوامل کوردکیاجاتاہے ۔لہذامغرب والوں کے نزدیک جن نکالنے کے عمل کی کوئی عقلی بنیادنہیں اوراسے توہم پرستی کانتیجہ سمجھاجاتاہے ۔یہ رویہ یورپ میں زمانہ قدیم اورازمنہ وسطی میں بہت بڑے پیمانے پرجن نکالنے والوں اورجادوگرنیوں کوپکڑکرجلادیاجانے کاردعمل ہے ۔بہرحال اسلام میں جن نکالنے کے عمل کوحقیقی آسیب زدہ لوگوں اوراس سے پیداشدہ دوسری بیماریوں کےعلاج کادرست ذریعہ تسلیم کیاجاتاہے ‘مگراس عمل کےلیے ضروری ہے کہ وہ قرآن اورسنت رسول ﷺ کے عین مطابق ہو۔
آسیب زدہ شخص سے جن نکالنے کے بنیادی طورتین طریقے ہیں :
پہلا......ایک جن کونکالنے کے لیے دوسرے جن کوبلایاجائے ۔یہ طریقہ اسلام میں منع ہے کیونکہ جن کوبلانے والے عملیات دینی بے حرمتی پرمبنی ہوتےہیں جن کی وجہ سے اسلام کے اصولوں کی بے ادبی کاامکان ہوتاہے ۔یہ وہ طریقہ ہے جوجادوگریاجادوگرنی کسی ہم پیشہ کے گئے ہوئے جادوکے اثرکوختم کرنے کے لیے کرتے ہیں ۔
دوسرا......اسے طریقے سے جن نکالنے کےلیے ضروری ہے کہ جن کےسامنے کوئی شرک کیاجائے ۔جب جن عامل کوکفرکرتے دیکھتاہے توخوش ہوکرنکل جاتاہے ۔اس طرح وہ عامل کویقین کرادیتاہے کہ اس کاطریقہ اورعقیدہ صحیح ہیں ۔یہ عیسائی پادریوں کاطریقہ ہے جوجن کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کاواسطہ دے کراورصلیب دکھاکرنکل جانے کوکہتے ہیں اورکافرلوگوں کےگردوں کابھی جواپنے اپنے جھوٹے دیوتاؤں کاواسطہ دے کرجنوں کونکالتے ہیں ۔
تیسرا......جن کوقرآن کی تلاوت اوراللہ سے پناہ طلب کرنے والی دعاؤں سے بھی نکالا جاسکتاہے ۔ان روحانی کلمات اورطریقوں سے آسیب زدہ کے اردگردماحول تبدیل ہونے میں مددملتی ہے ۔پھرجن کوحکم دے کرجسم سےنکالا جاسکتاہے ‘اورممکن ہے اس کے ساتھ ضربیں بھی لگائی جائیں ۔تاہم یہ طریقے اس وقت تک بے کارہیں ۔جب تک ان عملوں کوکرنے والے کااپناایمان پکانہ ہواوراپنے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ کے ساتھ اچھاتعلق نہ ہو۔
آج کل کے زمانے کے کچھ مسلمان مغربی سیکولرماحول سےمتاثرہوکرآسیب کاانکارکرتے ہیں بلکہ کچھ توجنوں کے وجودکے ہی منکرہیں ‘جبکہ قرآن اورسنت رسول ﷺ اس کے برعکس کہتے ہیں ۔کئی مصدقہ احادیث موجودہیں جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے آسیب زدہ لوگوں کے جن نکالے تھے۔دیگرروایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ کےصحابہ نے بھی آپ ﷺ کی اجازت سے ایساکیاتھا۔مندرجہ ذیل تین احادیث میں تین مختلف طریقے بیان کئےگئےہیں ۔
حضرت یعلی ابن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ایک دفعہ میں اللہ کے رسول ﷺ کے ہمراہ سفرکررہاتھا۔راستے میں ایک عورت ملی جوگودمیں اپنابچہ لیے بیٹھی تھی۔ اس نے نبی اکرم ﷺ سے کہا:’اے اللہ کے رسول ﷺ ‘اس لڑکے کوآسیب ہے اوراس کی وجہ سے ہم بہت تکلیف میں ہیں ۔نہ جانے دن میں اس کوکتنی دفعہ دورہ پڑتاہے ۔‘اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا:’اس کومیرے پاس لاؤ۔‘اس عورت نے بچہ اٹھاکرنبی اکرم ﷺ کودے دیا۔آپ ﷺ نے بچے کواپنے سامنے اپنی کاٹھی کے بیچ میں لٹادیا۔پھرآپ ﷺ نے اس کامنہ کھولااوراس میں تین بارپھونک ماری اورکہا:’بسم اللہ ۔میں اللہ کابندہ ہوں لہٰذاتم یہاں سے نکل جاؤ‘اے اللہ کے دشمن!‘اس کے بعدآپ ﷺ نے بچہ اس عورت کولٹادیااورکہا:’ہماری واپسی پرہمیں اسی جگہ ملنااوربچے کاحال بتانا۔‘اس کے بعدہم وہاں سے روانہ ہوگئے ۔واپسی پروہ عورت ہم کووہاں پھرملی ۔اس کے ساتھ تین بھیڑیں بھی تھیں ۔نبی اکرم ﷺ نے پوچھا:’تمہارابیٹااب کیساہے؟‘اس عورت نےکہا:’قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کوسچانبی بناکربھیجاہے ‘اس دن کے بعدسے ہم نے اس میں کوئی خرابی نہیں دیکھی ۔اس لیے میں یہ بھیڑیں آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لائی ہوں ۔‘اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا :’نیچے اترو‘ایک بھیڑلے لواورباقی اسے واپس کردو‘۔‘‘
حضرت ام ابان بنت الوازع سے روایت ہے کہ جب ان کے دادازارع رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے وفدکے ساتھ اللہ کے پیغمبرﷺ سے ملاقات کے لیے گئے تواپنے ساتھ اس بیٹے کوبھی لے گئے جوبے عقل تھا۔جب وہ اللہ کے رسول ﷺسے ملے توعرض کیا:’’میں اپنے ساتھ اپنے بے عقل بیٹے کوبھی لایاہوں تاکہ آپ ﷺ اس کے لیے دعافرمائیں۔‘‘اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ اسے لے کرآؤ۔دادانے اس کاسفری لباس اتارااوراسے اچھے کپڑے پہناکراللہ کے پیغمبرﷺ کے پاس لے گئے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
’’اسے میرے نزدیک لاؤاوراس کی پیٹھ میری طرف کردو۔‘‘نبی اکرم ﷺ نےاس لڑکے کوکپڑوں سے پکڑااوراس کی پیٹھ پرزورزورسے مارناشروع کیااورمارتےہوئے فرمایا:’’نکل جااللہ کے دشمن!اللہ کے دشمن نکل جا!‘‘لڑکااسی وقت ادھراُدھردیکھنےلگاجیسے وہ بالکل ٹھیک ہو۔اللہ کے پیغمبرﷺ نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اورپانی منگوایا۔پھرآپ ﷺ نے اس کے منہ پرپانی پھیرااوراس کے لیے دعافرمائی۔اللہ کے پیغمبرﷺ کی دعاکے بعدحاضرین میں سے کوئی بھی ایسانہیں تھاجولڑکے سےزیادہ صحت مندہو۔(أسئدالغابہ : 2/ 145)
حضرت خارجہ ابن الصلت رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ ان کے چچانے کہا:
’’ایک دفعہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس سے اٹھے توہمارے راستے میں بدروحوں کاایک قبیلہ آیا۔اس کےکچھ لوگوں نے ہم سے کہا:’ہم نے سناہے تم لوگ اس شخص (یعنی نبی اکرم ﷺ)سے بہت کچھ اچھی چیزیں لے کرآئے ہو۔کیاتمہارے پاس آسیب زدہ شخص کےلیے کوئی دوائی یامنترہے؟‘ہم نے جواب دیا:’ہاں ہمارے پاس ہے۔‘چنانچہ وہ ایک پاگل شخص کولے کرآئے جوآسیب کےاثرمیں جکڑاہواتھا۔میں نے تین دن تک صبح شام اس پرسورہ الفاتحہ پڑھ کردم کیا۔ہردفعہ جب میں تلاوت ختم کرتاتومنہ میں لعاب جمع کرکے تھوک دیتاتھا۔آخرکاروہ اٹھ کھڑاہوااورایسامعلوم ہواجیسے وہ کسی چیز سے بندھاہواتھااوراب آزادہوگیاہے ۔بدواجرت کے طورپرمیرے لیے ایک تحفہ لے کرآئے ۔میں نے انہیں بتایا :’میں اسے قبول نہیں کرسکتاجب تک میں نبی اکرم ﷺ سے نہ پوچھ لوں ۔’جب میں نے اللہ کے رسولﷺ سے اس بارے میں پوچھاتوآپ ﷺ نے فرمایا :’لے لو۔مجھے اپنی زندگی کی قسم ہے ‘جوکوئی بھی جھوٹے منتروں سے کمایاہواکھائے گاوہ اپنے گناہ کی سزابھی بھگتے گا۔مگرتم نے توسچے کلام کی تلاوت سے یہ معاوضہ حاصل کیاہے۔‘‘(سنن ابوداؤد،انگریزی ترجمہ جلد3،صفحہ 1092نمبر3887)
جادوپراسلامی فیصلہ
چونکہ اسلام میں جادوسیکھنااورجادوکرنادونوں کوکفرقراردیاگیاہے اس لیے جوکوئی بھی جادوکرتاہواپکڑاجائے اس کے لیے شریعت میں بہت سخت سزارکھی گئی ہے ۔اگرکوئی جادوپرعمل کرتاہواپکڑاجائے اوروہ توبہ نہ کرے اورجادوکرنانہ چھوڑے تواس کی سزاموت ہے ۔اس قانون کی بنیاداللہ کے پیغمبرﷺکی یہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت جندب ابن کعب رضی اللہ عنہ ہیں ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جادوگرکے لیے مقررکردہ سزایہ ہے کہ اس کوتلوارسے قتل کردیاجائے۔‘‘
اس قانون پرخلفائے راشدین نے ‘جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی رحلت کے بعدمسلمان قوم کی امامت کی ‘بہت سختی سےعمل کیا۔حضرت بجالہ ابن عبدہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ ابن الخطاب نے روم اورفارس میں جہادکرنے والی مسلمان افواج کوایک خط لکھ کرحکم دیاکہ وہ ان سب زرتشتیوں سےکہہ دیں جنہوں نے اپنی ماؤں ‘بیٹیوں اوربہنوں سے شادی کی ہوئی ہے کہ وہ ایسی شادیاں ختم کردیں۔ان کویہ بھی بتایاگیاکہ وہ زرتشتیوں کاکھاناکھالیاکریں تاکہ ان کوبھی اہل کتاب میں شامل کیاجاسکے۔آخرمیں ان کویہ حکم دیاگیاتھاکہ ہرقسمت کاحال بتانے والے اورجادوگرجس کوبھی پائیں قتل کردیں۔حضرت بجالہ رضی اللہ عنہ نےکہااس حکم کی بنیادپرخودانہوں نے تین جادوگرقتل کئے۔(مسند احمد)
حضرت محمدابن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نےجوحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں اپنی ایک خادمہ کوبھی قتل کروایاتھا کیونکہ اس نے ان پرجادوکیاتھا۔(جمع کیامالک رحمہ اللہ نے(موطاامام مالک ،انگریزی ترجمہ ،صفحہ 344۔345‘نمبر1511))
یہ سزاتورات میں بھی آج تک درج ہے جوعیسائیوں اوریہودیوں کوصاف طورپربتارہی ہے کہ جادوممنوع ہے :
’’ایسامردیاایسی عورت جوجادوکرتاہے یاکرواتاہے قتل کردیاجائے گا‘ان کوسنگسارکیاجائے گااوران کاخون ان کے اوپرڈال دیاجائےگا۔‘‘
خلفائےراشدین کےبعدان قوانین میں نرمی برتی گئی ۔اموی بادشاہوں نے نہ صرف جادوگروں اورقسمت کاحال بتانے والوں کواپنے ممنوعہ کام کرنے کی اجازت دے دی بلکہ ان کوشاہی دربار میں بھی شامل کرلیا۔چونکہ حکومت نے اس قانون کونافذکرنابندکردیاتھااس لیے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کونافذکرنے کی ذمہ داری اپنے اوپرلے لی ۔حضرت ابوعثمان النہدی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ خلیفہ الولیدابن عبدالملک (705تا715ء)نے اپنے دربارمیں ایک آدمی رکھاہواتھاجوجادوکے کرتب دکھاتاتھا۔ایک دفعہ اس نے ایک آدمی کاسرتن سے جداکردیا۔حاضرین دربارجب اس عمل کی دہشت سے ہیجان زدہ ہوگئے تولوگوں کواورزیادہ حیران کرنے کے لیے اس نے اس کٹےہوئے سرکودوبارہ جوڑدیااوروہ آدمی ایسے ٹھیک ہوگیاجیسے اس کاسرکبھی کٹاہی نہیں تھا۔دربارمیں موجودلوگوں نے نعرہ بلندکیا:’’سبحان اللہ !یہ تومردوں کوبھی زندہ کرسکتاہے !‘‘ایک صحابی حضرت جندب الازدی رضی اللہ عنہ نے الولیدکے دربارمیں جب شورسناتووہ آئے اورجادوگرکاکرتب دیکھا۔اگلے دن وہ اپنی کمرسے تلوارباندھ کرآئے ۔جب جادوگرکرتب دکھانے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھاتوحضرت جندب رضی اللہ عنہ مجمع کوچیرتے ہوئے اپنی تلوارنکال کرآگے بڑھے اورجادوگرکاسرقلم کردیا۔پھرخوفزدہ مجمع کی طرف دیکھ کرانہوں نے فرمایا:
’’اگریہ واقعی مردے کوزندہ کرسکتاہے تواب وہ اپنے آپ کوزندہ کرلے۔‘‘خلیفہ الولیدنے انہیں گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیا۔‘‘
جادوگروں پراس قدرسخت فیصلے کس ضرورت اس لیے ہے کہ معاشرے کے کمزورلوگ اللہ تعالی کی مخصوص صفات کوجادوگروں سےمنسوب نہ کرنے لگیں اوراس طرح توحیدالاسماء والصفات میں شرک کے مرتکب نہ ہوجائیں ۔جادوئی اعمال میں سرگرم جادوگرمذہب کی بے حرمتی کرنےکے علاوہ اکثراپنے لیے ماورائی قوتوں اورخدائی اوصاف کادعویٰ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کے مریدبنیں اوران کوناجائزشہرت حاصل ہو۔
اسلام میں نحوست اوربدشگونی کاکوئی تصورنہیں یہ محض توہم پرستی ہے ۔حدیث شریف میں بدشگونی کے عیقیدے کی تردیدفرمائی گئی ہے سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اورفسق وفجورہے جوآج مختلف طریقوں سے گھرگھرمیں ہورہاہے ۔الاماشاء اللہ ۔یہ بداعملیاں اورنافرمانیاں خداکے قہراورلعنت کی مؤجب ہیں ان سے بچناچاہیے ۔
اسلام نحوست کاقائل نہیں ۔اس لیے کسی کام یادن کومنحوس سمجھناغلط ہے نحوست اگرہےتوانسان کی اپنی بدعملی میں ہے پاؤں پرپاؤں رکھناجائز ہے ۔انگلیاں چٹخانانامناسب ہے اوراگرجمائی آئےتومنہ پرہاتھ رکھنےکاحکم ہے ۔
اللہ تعالی نے ہمیں کن باتوں کے کرنے کااورکن باتوں سے بازرہنے کاحکم دیاان کاجاننامستقل فرض ہے اوران پرعمل کرنامستقل فرض ہے جس نے جاناہی نہیں اورنہ جاننے کی کوشش ہی کی وہ دوہرامجرم ہے اورجس نے شریعت کاحکم معلوم کرنے کی اس نے اورایک فرض اداکردیا۔ایک اس کے ذمہ دیا۔الغرض بے علمی مستقل جرم ہے اوربےعملی مستقل اسلیئے اس شخص کی حالت بدترہے جوشرعی حکم جاننے کی کوشش نہیں کرتادوم یہ کہ جوشخص اللہ ورسول ﷺ کے حکم کوجانتاہوگاوہ اگرحکم کی خلاف ورزی کرے گاتوکم ازکم اپنے آپ کومجرم اورگناہگارتوسمجھے گاگناہ کاگناہ اورحرام کاحرام جانے گااورجوشخص جانتاہی نہیں کہ میں حکم الہی کوتوڑرہاہوں اوراپنے جہل اورنادانی کی وجہ سے گناہ کوگناہ نہیں سمجھے گانہ وہ اپنے آپ کوگناہ گاراورقصوروارتصورکرے گاظاہرہے کہ جومجرم اپنے جرم کوجرم ہی نہ سمجھے اسکی حالت اس شخص سے بدترہے جواپنے آپ کوقصوروارسمجھے اوراپنے جرم کامعترف ہو۔سوم یہ کہ جوشخص گناہ کوگناہ سمجھے کم ازکم اسکوتوبہ واستغفارکی توفیق توہوگی اورہوسکتاہے کہ کسی وقت اسکواپنی حالت پرندامت ہواوروہ گناہ سے تائب ہوجائے ۔لیکن جس جاہل کویہی معلوم نہیں کہ وہ گناہ کررہاہے وہ کبھی توبہ واستغفارنہیں کرےگا۔اورنہ اس کے بارےمیں یہ توقع ہوسکتی ہے کہ وہ اس گناہ سے بازآجائے گاظاہرہے کہ یہ حالت پہلی حالت سے زیادہ خطرناک ہے اللہ تعالی ہرمسلمان کواپنے غضب سے محفوظ رکھے۔
 
Top