• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جامعہ کے فرزند شیخ رضوان رفیق ( مدنی ) حادثے کا شکار ہوگئے ۔

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اللہ عزوجل ان بچوں کو ہر قسم کی آزمائش میں دین پرثابت قدم رکھے ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھے، انہیں نیک صالح بڑا کرے، اور ان کے والدین کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
اللہ تعالی بظاہر اس شر سے بچوں کے لئے خیر نکالے، ایسی خیر جس کا تصور نہ ان کے والدین کرسکتے ہیں نہ وہ خود. اور ان کی دین و دنیا کی حفاظت کرے آمین

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
بچھڑا میں اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

میرا نام رضوان ہے ، ہم کبھی دنیا میں لاہور پاکستان رہا کرتے تھے ، والد محترم کا نام محمد رفیق ہے ، محنت مزدوی کرنے والے انسان ہیں ، والدہ محترمہ و مرحومہ نے دودھ پلاتے ہوئے اچھی خواہشات رکھی ہوں گی ، کہ اللہ تعالی نے مجھے دین کی تعلیم کی طرف راغب کردیا ، حفظ کیا ، پھر ایک معروف دینی مدرسے جامعہ رحمانیہ (لاہور)میں داخلہ لے لیا ، مولوی حضرات کہا کرتے تھے ، دین کے رستے میں نکلیں تو اللہ تعالی منزلیں آسان کردیتا ہے ، یہ واقعتا سچی بات تھی ،اللہ نے میرے لیے ایسے راستے آسان کیے ، نہ صرف معرفت الہی کے دریچے کھلے ، بلکہ اللہ نے عزت و رفعت سے بھی نوازا ، ایک دن یوں ہوا کہ دستار فضیلت سر پر سجانے کے بعد ہم شاگردوں کی لسٹ سے نکل کر اساتذہ میں شمار ہونے لگے ، لیکن ابھی اللہ نے مزید نعمتوں کی بارش کرنا تھی ، مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑھنے کے لیے بلاوا آگیا۔ میرے عزائم مزید بلند ہوگئے ، والدین کی امیدیں آسمانوں کو چھونے لگیں ، اللہ نے مدینہ منورہ جامعہ اسلامیہ میں ایک عشرے کی مدت مدید رہنے کا موقعہ دیا، وہاں پوری دنیا سے لوگ پڑھنے کے لیے آئے ہوتے ہیں ، طرح طرح کے مزاج ، طبیعتیں ، البتہ میں یہاں کچھ اس طرح رہا کہ لوگ کہا کرتے تھے ’ رضوان اپنے کام سے کام رکھنے والا بندہ ہے ، مجلسوں میں اٹھک بیٹھک کم ہی کرتا ہے ‘ ، ہاں کچھ دوست یار تھے ، جن کے ساتھ بے تکلفی بھی تھی ۔۔۔ قصہ مختصر یوں کریں کہ دس سا ل پر محیط عرصہ پلک جھپکنے میں گزر گیا ، میں ماسٹر کا مقالہ لکھ کر جمع کروا چکا تھا ، امتحان ( مناقشہ ) کے انتظار میں تھا ، اور ان سوچوں میں گم تھا کہ میں نے اگلی زندگی بطور داعی سعودیہ گزارنی ہے یا پھر پاکستان جاکر تدریس شروع کرنی ہے ؟ خیرمشاورت سے ایک بات ذہن میں بیٹھ گئی ، عزم کرلیا ۔ذہن میں آیا ، دوبارہ پتہ نہیں یہاں آنےکا موقعہ ملے نہ ملے ، والدین اور چھوٹے بھائی کو عمرے کے لیے بلا لیتا ہوں ، میرے ہوتے ہوئے ، ایک بار حرمین کی زیارت کر جائیں ، اور چھوٹا بھائی جو ذہنی صدمے سے دو چار تھا ، اسے بھی اس روحانی فضا میں شاید کوئی سکون مل سکے ۔
اللہ کی توفیق سے والدین اور بھائی عمرے کے لیے آگئے ، ہم بیوی بچوں نے ملکر ان کا استقبال کیا ، مدینہ سے ہم مکہ کو روانہ ہوئے ، گھر کو تالا لگا کر اللہ توکل کردیا ، عمرہ کرتے ہوئے اللہ سے بہتر مستقبل کے لیے دعائیں کیں ، والدین کی صحت اور درازی عمر کے لیے کلمات تو خود بخود ادا ہوجاتے تھے ، چھوٹے بھائی کی بہت پریشانی تھی ، دعا کی ، یا اللہ اس کی روحانی جسمانی بیماریاں دور فرما ، خوشی و فرحت کے ان لمحات میں کبھی بیگم نے ، کبھی بچوں کے چاچو نے تصویریں بنالیں ، کہ آئندہ وقتوں میں یہ لمحات یاد رہیں گے ۔
عمرہ کرکے ہم مناسک حج دیکھنے کی طرف نکل گئے ، بڑے اچھے موڈ میں باتیں ہورہی تھیں ، ماں جی بار بار دھیان سے گاڑی چلانے کی تلقین کررہی تھیں ، والد محترم ساتھ ہی بیٹھے تھے ، دھیان ان کا بھی اسی طرف تھا ، البتہ انہیں یہ علم تھا کہ رضوان اب بچہ نہیں بلکہ بچوں والا ہے ، سمجھدار ہے ، لہذا بار بار بچوں کی طرح اسے تلقین کرنے کی ضرورت نہیں ۔ خیال تو مجھے بھی تھا کہ گاڑی درست ڈرائیو کرنی ہے ، کیونکہ ابھی چند ماہ پہلے ہی ذرا بے احتیاطی سے گاڑی کا کافی نقصان ہوگیا تھا ، ویسے بھی سڑک پر چلتے ہوئے ، خود بچنا بھی چاہیے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہیے ، کیونکہ بعض دفعہ نابینا لوگ بغیر سہارے کے سڑک پر آجاتے ہیں ، اور بعض جگہوں پر تو نوجوان گاڑی ہی نابینوں کی طرح چلاتے ہیں ، یہ سب باتیں میرے ذہن میں اچھی طرح تھیں اور میں مکمل احتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا ، لیکن پھر بھی زیارات کی وضاحت کرتے کرتے ، ان کے فضائل بیان کرتے کرتے ، جب ہم ایک چورستے سے گزر رہے تھے ، ایک اندھا تیز سپیڈ ڈ رائیور آکر سیدھا گاڑی میں لگا ، اور پل بھر میں سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ خیر یہ ایک بہانہ تھا ، جبکہ اصل میں: إن أجل اللہ إذا جاء لا یؤخر والا فیصلہ ہوچکا تھا۔
میں نے بہت ساری پلاننگ کی تھی ، لیکن اس اچانک حادثے کی میرے ذہن میں کوئی پلاننگ نہیں تھی ، میرے والدین کیا کریں گے؟ بچے کیا کریں گے ؟ رفیقہ حیات جس کے ساتھ جینے مرنے کے وعدے کیے ہوتے ہیں ، اس کا کیا بنے گا ؟ میرا چھوٹا بھائی جس کی صحتیابی کی امید سے اسے یہاں بلایا تھا ، اس کی مہمان نوازی یوں بھی ہوگی ، بالکل نہیں سوچا تھا ، پاکستان میں بھائی بہنیں ، رشتہ دار ، دوست یاروں نے مجھے ایئر پورٹ سے لینے آنا تھا ، انہوں نے بہت سارے کام میرے لیے سنبھال کر رکھے ہوں گے ، مجھے اس کی فکر تو تھی ، البتہ یہ بالکل پتہ نہیں تھا یوں اچانک میں ان سب فکروں سے آزاد کردیا جاؤں گا۔
یوں اچانک میں راہی عدم ہو جاؤں گا ، اس کا اندازہ ہوتا تو اور کچھ نہیں ان بیٹوں کے لیے کچھ انتظام ضرور کرتا ، جو میرے بغیر کھانا نہیں کھاتے، اور جب تک گھر واپس نہ آؤں ، سونے پر راضی نہیں ہوتے ، موبائل میں کچھ اہم نمبرز تھے، گھر میں کچھ اہم ڈاکومنٹس تھے ، سینے میں کچھ راز تھے ، پتہ ہوتا تو یوں لمحے بھر میں اس دنیا سے بے دخل ہوجاؤں گا ، تو ضرور یہ ذمہ داریاں ادا کرکے جاتا ۔
حادثہ ہوا ، کچھ وقت کے بعد ہلال احمر ایمبولینسیں آئیں ، ہم سب کو اٹھا کر ہسپتال منتقل کردیا گیا ، ہم جو بلا ٹکٹ اور ویزہ ہی اگلے جہاں سدھار چکے تھے ، ڈاکٹروں نے ہمارے دنیا سے خروج نہائی ( فائنل ایگزٹ ) کی تصدیق کردی ، تاکہ کسی کو شک و شبہ نہ رہے ، البتہ میرے دو بیٹے ، محمد اور احمد ، والد محترم اور چھوٹا بھائی ان کے بارے میں یہ تصدیق ہوئی کہ انہوں نے ابھی اس دنیا کو مزید جھیلنا ہے ، گو چھوٹا بھائی چند دن بعد موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد حتمی طور پر ہم سے آملا۔
ایک وقت تھا ، جب پاکستان میں ہونے والے کام بھی یہاں سے فون کرکے ، پیسے بھجوا کر میں کروایا کرتا تھا ، اور ایک وقت اب ہے ، کہ میں پاکستان میں موجود بھائی بہنوں کو کوئی دلاسہ دےسکتا تھا ، اور نہ ہی یہاں چیخ و پکار کرتے ، اپنے بیٹوں کو سینے سے لگا سکتا تھا ۔
اس وقت سب کےلیے ایک ہی چیلنج تھا ، زخمیوں کو کون سنبھالے ؟ لاشوں کا کون وارث بنے ؟ اور بچوں کی خالی خالی آنکھوں سے تیروں کی طرح برستے سوالوں کا سامنا کون کرے ؟
صرف ایک آپشن تھا ’ طلاب جامعہ ‘ ۔ انہیں جونہی خبر پہنچی ، آن کی آن میں کچھ طالبعلم اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مکہ کی جانب روانہ ہوگئے ،کچھ نے میرے گھر والوں سے مسلسل رابطہ کیا ، کچھ نے مکہ میں موجود اپنے جاننے والوں سے رابطے کیے ، یوں زخمی ڈھونڈ لیے گئے ، لاشیں پہچان لی گئیں ، اب کیا کرنا ہے ، وہ کام کیسے ہو ، یہ کیسے ہو ؟ سب کمیٹیاں بن گئیں ۔ یوں میں اِس دنیا میں اور میرے گھر والے اُس دنیا میں ’ مولویوں کی محبت ‘ کے ایک بار پھر مقروض ہوگئے ۔
ویسے اگر آپ خود کو میری جگہ پر رکھ کر سوچیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اتنے بڑھے حادثے کے بعد میرے گھرانے کا کیا بچا ؟ ، لیکن پھر بھی میرے بچوں کے ددھیال اور ننھیال میں پہلے دن سے ہی اختلاف شرو ع ہوگیا ، جو اس گھٹیا انداز سے شروع ہوا کہ دوسرے دن ہی اس کی خبریں سمندر پار جامعہ کے طلبہ کو پہنچنا شروع ہوگئیں ، اسے آپ مال و متاع کا لالچ اور حرص کہیے ، یا بدحواسی ، ایک طرف میرے کچھ وارثین غموں اور پریشانیوں کے پہاڑ تلے دبے تھے ، جبکہ دوسری طرف کچھ تعلقدار لڑکوں کو فون پر تلقین کر رہے تھے کہ فلاں فلاں گھر کی چیزیں ہماری ہیں ، برائے مہربانی یہ ہمارےلیے ایک طرف سنبھال کر رکھ لیں ۔
جامعہ اسلامیہ کے طالبعلموں پر بہت احسانات ہیں ، جو بعض دفعہ ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتے ہیں ، انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر طالبعلم دوران تعلیم فوت ہوجائے ، تو ذرا کوشش کرنے سے اس کے والدین کے لیے ویزہ وغیرہ نکل آتا ہے ، تاکہ وہ اپنے بیٹے کی قبرپر دعا کے ساتھ ساتھ حرمین کی زیارت کرجائیں ، اور ان کا غم ہلکا ہوجائے ۔ میرے لیے بھی کچھ لوگوں نے اس انداز سے کوشش شروع کردی ، پاکستان میں جاری جھگڑا اس معاملے پر بھی اثر انداز ہوا ، اور انہیں ’ اختلافات ‘ سے شہ پاکر جامعہ میں موجود میرے کچھ کرم فرماؤں نے یہ مدبرانہ فیصلہ کرنے کی بھی کوشش کی کہ ، حادثہ جو ہونا تھا ہوگیا ، اب پاکستان سے ان لوگوں کو بلوا کر یہاں لڑائی کروانے کا کیا فائدہ ؟ کسی کو یہ خیال ہوا کہ جناب وہ پاکستان سے آکر یہاں ہم پر کیس کروادیں گے کہ ہم نے ( بامر مجبوری )ان کے گھروں کے تالے توڑے ہیں۔۔۔ خیر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس سب پراپیگنڈے کے باوجود میرا بھائی اور میری ساس اور بچوں کا ماموں سعودیہ پہنچ گئے ۔
کچھ طالبعلموں نے ان کی بہت خدمت کی ، انہیں بڑے اعزاز و اکرام سے یہاں رکھا ، پھر وقت آنے پر بچوں سمیت انہیں ایئرپورٹ تک روانہ کرکے آئے ، کہانی کو یہاں ختم ہوجانا چاہیے تھا ۔ اور عام لوگوں کی نظر میں یا جامعہ اسلامیہ کے عام طالبعلموں کی معلومات کے مطابق یہ معاملات ختم ہوچکے تھے ۔
لیکن اختلاف ، حظ نفس ، لالچ حرص ، اور چودھراہٹ نے بیڑا غرق کردیا ، میرے والد محترم پاکستان پہنچ چکے تھے ، بھائی بچے بھی پاکستان چلے گئے ، لیکن میری جمع پونچی ، بچوں کی والدہ کازیور وغیرہ ’ وراثت ‘ ابھی تک جامعہ کے ہی چند لوگوں کے پاس موجود تھے ۔
ادھر پاکستان جاتےہی وہ سامان جو میری بیگم ساتھ لائی تھی ، وہ میرے گھر سے واپس اٹھالیا گیا کہ اب نہ ہماری بیٹی رہی ، نہ تمہارا بیٹا رہا ، تو سامان کا یہاں کیا تعلق ؟
جس طرح میرے بھائی اور میرے سسرال میں اختلافات تھے ، اسی طرح یہاں میرے ’ محسنین‘ بھی دو طبقوں میں بٹ چکے تھے ، مولویانہ کٹ حجتیاں شروع ہوئیں ، ضد بازیاں کی گئیں ، مرضی کے فتوے لکھوائے گئے ، رد کیے گئے ، صرف اس لیے تاکہ ’ میرے بچوں ‘ اور ’ میری وراثت ‘ کا کوئی اپنی مرضی کے مطابق کسی کو حقدار بناسکے ۔
دلائل گھڑے جانے لگے ، کسی نے کہاکہ رضوان صاحب اپنے گھر والوں سے ناخوش ہی رہتے تھے ، ان کے گھر والوں والوں کا دینی رجحان درست نہیں ہیں ، ددھیال کے ہاں بچوں کی تربیت درست نہیں ہوگی ۔ حضانت کا حق نانی کا زیادہ ہے ۔ کسی نے کہا: رضوان صاحب میرے رازدان تھے ، میں ان کے گھر کے سارے حالات جانتا ہوں ، ایک اس حد تک نیچے گر گیا کہ میرے بھائی کو طعنے دینا شروع کردیے ، کہ میں تم سب کو جانتا ہوں ، تمہارا فلاں رشتہ دار ایسا ہے ، فلاں ایسا ہے ۔ ایک دوسرے نے اپنی جلن کا اظہار یوں کیا : انہیں کچھ چاہیے! تو سیدھا مجھے فون کریں ، ادھر ادھر فون کیوں کرتے ہیں ، حالانکہ خود انہیں بھی پتہ ہے کہ وہ فون کیا ، کوئی خود پاکستان سے چل کر سعودیہ ان کے پاس پہنچ جائے تو یہ اس کو بھی کوئی پلہ پکڑانے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔
ان سب حجت بازیوں اور چالاکیوں میں میرے ان ’ فاضل محسنین ‘ کی عقل پر اس حوالے سے پردہ ہی پڑا رہا کہ انہیں اس ’ قاضی ‘ اور ’ حاکم ‘ کا درجہ کس نے دیا ہے ؟ میں آج موجود ہوتا تو ان سے ضرور پوچھتا کہ ٹھیک ہے تم نے کڑے وقت میں ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ، لیکن اب کس منطق کے تحت تم میرے وکیلِ بلاتوکیل بنے ہوئے ہو ؟
باپ بیٹے کو عاق کرتا ہے ، یہاں ’ انت و مالک لأبیک ‘ کی سند رکھنے والے باپ کو بیٹے کی جائیداد سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا تھا ، بچوں کے لیے یہ اتنے فکر مند ہوئے کہ باقاعدہ میرے بھائی یعنی بچوں کے چچا کو بٹھا کر بچوں کا خیال رکھنے کی تلقین کی گئی ، بلکہ مرضی کے معاہدے بھی کروانے کی کوشش کی گئی ۔
گویامیرے بیٹوں کا تمہیں ان سے زیادہ خیال ہے، کہ جن کے دو شاہ بلوط ٹوٹ پڑے ، اور باقی صرف یہ ننھے منھے معصوم پھول بچے ہیں ؟
مجھے اپنے جامعہ کے سیکڑوں ساتھیوں سے کوئی گلہ نہیں ،ان ہزاروں علماء کا بھی میں شکر گزار ہوں ، جنہوں نے میرے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ، رو رو کر دعائیں مانگیں ، میرے بچوں کے لیے ہمدردی کا اظہا رکیا ، لیکن ان دو یا چار’ فقیہانِ حرم ‘ کو یہ ضرور کہوں گا کہ اگر انہیں شریعت بھول چکی ہے ، اخلاقیات ان سے روٹھ چکی ہیں ، تو کم ازکم اتنا تو کرلیں کہ خود کو میری جگہ رکھ کر فیصلہ کرلیں ، اگر کل کو ان کے ساتھ بھی ایسا ہوگیا ، تو یہ اپنے لیے یہ سب کچھ برداشت کریں گے؟
دوسال گزر نے والے ہیں کہ ابھی تک میرے بھائی یا باپ حتی کہ میرے بیٹوں تک کسی کو کوئی پتہ نہیں ، کہ میری جمع پونچی اور وراثت کہاں ہے ؟ اگر کسی ایک یا دو لوگوں کے پاس ہے ، تو اس کا کسی کے پاس کیا ثبوت ہے ؟ پتہ نہیں یہ دنیا کا کون سا قانون یا شریعت کا کون سا اصول ہے جس کی یہ ’ محسنین ‘ پاسداری کر رہے ہیں ؟
میرے بھائی شفیق نے کہا تھا کہ ہمیں ’ جامعہ کے طالبعلموں ‘ کے فیصلے پر اعتماد ہے ، جامعہ میں میرے سب سے قریبی ساتھی قاری ابراہیم صاحب ، قاری طاہر صاحب ہیں ، تمہارے فیصلے اتنے صاف اور نیتیں اتنی شفاف ہیں ، کہ بار بار پوچھنے کے باوجود میرے گھر والے تو کجا میرے یہ دو ساتھی بھی تمہاری کاروائی سے مکمل بے خبر ہیں۔
کہتے ہیں کہ میرے گھر والے اور سسرال کا اتفاق ہوگا ، تو ہم سب کچھ انہیں دے دیں گے ، آخر یہ بھی تو بتائیں کہ ایک وقت خوش قسمتی سے جب ان دونوں گھروں کا ااتفاق ہوچکا تھا ، اشٹام پر تحریر اور دستخط ہوچکے تھے، تو پھر میرے سسرال کو دوبارہ عدالت میں کیس کرنے پر کس نے ابھارا تھا ؟ گویا آپ دوبارہ کیس کردیں ، اور ہم اسی بہانے اپنی چودھراہٹ قائم کرنے میں کامیاب رہیں ۔
منہج کےٹھیکے داروں کی گھسی پھٹی دلیل یہی ہے کہ میرے سسرال درست منہج والے ہیں ، اور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ، لہذا للہ فی اللہ ان کی حمایت کرنی چاہیے ، اگر انہیں ذرا کوئی منہج اور کسی مسلک کا خیال ہوتا ، تو اس طرف بھی ضرور خیال رکھتے ، کہ جس بوڑھے باپ نے مجھے کتاب وسنت کی تعلیم دلوائی ، تو کیا وہ ابھی تک وہ غلط مسلک ہی سنبھالے بیٹھا ہے ؟ مان لیں وہی ہوں گے ، لیکن اب اس کے بیٹے ، بیوی اور بہو چھن جانے کے بعد اسے مزید جس امتحان سے تم گزار رہے ہو ، تمہاری ان ’ منہجی اخلاقیات ‘ سے انہیں کیا پیغام جائے گا ؟
مجھے اپنے گھر والوں سے امید واثق ہے کہ اللہ نے انہیں جس سیدھے راستےکی سمجھ دی ہے ، وہ تمہارے جیسے چند لوگوں کی حرکات سے دلبرداشتہ ہوکر پیچھے نہیں ہٹیں گے ، میرے بھائی کا میری کتابوں کو بخوشی شہر قصور کے ایک دینی ادارے کو وقف کرنا ، اس بات کی دلیل ہے کہ میری وفات کے بعد بھی وہ میری سوچ پر قائم ہیں ، اور رہیں گے ۔ إن شاءاللہ
اس سب کے باوجود میرے گھر والے جو بھی ہوں ، میں تو تمہارےجیسا سلفی ہوں ، ذرا میرا ہی پاس کرلو ، میرے گھر میں جو کچھ تھا، میرے باپ کے حوالے کرو ، اگلی جو تقسیم ہے ، وہ میرے والد اور اس کے رشتہ دار آپس میں جیسے مرضی کریں ، تمہیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے ؟
میرے بعض بزرگوں کو خدشہ لاحق ہے کہ ہم مسلک سے مخلص نہیں ہوتے ، اگر تمہاری یہ کارگزاری ان تک پہنچی تو منہج و مسلک سے اس انوکھے اخلاص پر عش عش کیےبغیر نہ رہیں گے۔
خیر یہ میری شادی بیاہ کی کوئی تقریب نہیں تھی ، کہ یہ سب مرضی سے ہورہا ہے ، اور میں جان بوجھ کر تماشائی بنا بیٹھا ہوں ، یہ تو ایک حادثہ تھا ، جس کی آڑ میں تم میرے گھر والوں پر یوں حاکم بن بیٹھے ، حادثہ تو کہتے ہی اسے ہیں ، جو نہ مرضی سے ہوتا ہے ، نہ اس کے بعد مرضی ہوسکتی ہے ، ورنہ تم اچھی طرح جانتے ہو ، کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو تمہارے ہزار احسانات کا بدلہ میں لاکھ بار پر چکاتا ، لیکن اپنے باپ ، بھائی یا گھر کے کسی فرد کے بارے میں تمہارے ایک ایک لفظ پر تمہاری زبانیں گدی سے کھینچتا ۔
بچھڑا’ میں‘ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے’ گھر‘ کو ’پریشان‘ کر گیا
کہا جاتا ہے:
مر جائے تو انسان کی بڑھ جاتی ہے قیمت
زندہ رہے تو جینے کی سزا دیتی ہے دنیا
لیکن کچھ لوگوں نے تو میرے ’ مرجانے ‘ کا بھی احساس نہ کیا ، بلکہ الٹا مجھے اور میرے گھر والوں کو میرے ’ مرنے ‘ کی سزا ابھی تک دے رہے ہیں ۔
میں یہی کہتا ہوں کہ جنہوں نے میرے یا میرے گھر والوں کے ساتھ احسان کیا ، وہ جہاں بھی ہیں اور جہاں سے بھی تھے ، اللہ انہیں ہمیشہ سکھی رکھے ، دونوں جہانوں میں شاد رکھے ۔ اور جس نے شعوری لاشعوری طور پر کوئی غلط اقدام کیا ہے ، اللہ تعالی اسے ہدایت دے ۔
آخر میں ، میں اپنے گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتا ہوں ، اگر ان سے ان کے جوان بیٹے اور بھائی چھن گئے ہیں ، تو اس کے بعد انہیں دنیا کی کوئی دولت چھن جانے کا غم نہیں ہونا چاہیے ، اور اگر ان کے پاس محمد اور احمد کی شکل میں میری نشانیاں موجود ہیں ، تو دنیا کی کوئی دولت ان کے لیے اس سے بڑی نہیں ہوسکتی ۔
بڑوں کو سلام ، بچوں کے لیے پیار
محمد رضوان رفیق
 
Last edited:
Top