• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاوید احمد غامدی اور سنت

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
تعارف
جاوید احمد غامدی اور سنت

اگر سُنت میں اختلاف ہوجائے تو وہ سُنت نہیں رہے گی
غامدی صاحب کے اصول کے تحت سنت ماخذ قانون نہیں رہا

غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین کے صرف دو ماخذ ہیں۔ قرآن اور سُنت ۔۔۔ سُنت مقدم ہے قرآن موخر، سُنت ازل سے ہے جب کہ قرآن تو آخری کلام ہے۔ غامدی صاحب نے سنت کے لیے یہ اصول مقرر فرمایا کہ سُنت میں اختلاف ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ سُنت پر امّت کا اجماع ہے اور سُنت کا تواتر و تسلسل قرآن سے زیادہ مستحکم ہے کیونکہ سُنت قرآن کے مقابلے میں زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے لہٰذا سُنت میں جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابتہ نہیں رہے گی۔ لیکن غامدی صاحب نے اس خود ساختہ اصول کی نفی فرماتے ہوئے اب تک سُنت کی تعریف و تعین کے ضمن میں کئی موقف بدلے ہیں۔ غامدی صاحب کے مطابق پہلے سنتیں صرف چالیس تھیں ان میں داڑھی بھی شامل تھی پھر داڑھی فطرت ہوگئی سنتیں ۳۹ رہ گئیں، پہلے عورتوں کا ختنہ بھی سُنت میں شامل تھا پھر صرف مردوں کا ختنہ سُنت کے طور پر باقی رہ گیا۔ پہلے تمام سنتیں لازمی تھیں بعد میں بعض سنتیں ضروری، بعض لازمی بعض غیر ضروری غیر لازمی ہوگئیں۔ پہلے کم از کم دو کمروں کا مکان اور امام کا صاحب نصاب ہونا بھی سُنت ثابتہ تھا لیکن ۲۰۰۵ء میں سنتوں کی نئی فہرست سے یہ دونوں سنتیں بھی خارج ہوگئیں۔ سنتوں کے اخذ و ترک کے خود ساختہ اصولوں کا انجام یہی ہے کہ اب ان اصولوں کے تحت سُنت بحیثیت ماخذ دین باقی نہیں رہی، نعوذباللہ۔ لہٰذا غامدی صاحب کے طے شدہ اصول کے تحت ان کی بیان کردہ سنتیں اب سنتیں نہیں رہیں اور دین کا پہلا ماخذ سُنت جو قرآن پر مقدم ہے۔ غامدی صاحب کے فلسفے کے تحت نابود ہوگیا۔ دوسرے لفظوں میں جب سُنت ان کے وضع کردہ اصول دین کے تحت سُنت نہیں رہی تو دین کا پہلا ماخذ خودبخود کالعدم ہوگیا۔ صاف صاف بات کی جائے تو اصلاً غامدی صاحب کے نزدیک اب دین کا ایک ہی ماخذ ہے وہ قرآن مجید ہے۔ یہ بھی کب تک بحیثیت ماخذ باقی رہ سکے گا اس کے لیے غامدی صاحب کے ارتقاء تک انتظار فرمایے۔ ساحل]
قرآن دین کی آخری کتاب ہے اس سے پہلے دنیا میں دین موجود تھا اور لوگوں کو معلوم تھا۔ اب سوچیے کہ آخری کتاب جو آئے گی تو کیا وہ دنیا میں پہلے دن سے آئے ہوئے دین کو بیان کرنا شروع کر دے گی۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔ عقل عام کہتی ہے کہ جو دین محفوظ ہے اس کی تصدیق کر دے گی اس کی تفصیل بیان نہیں کرے گی اور اگر دین میں کوئی نئی بات کہنی ہے تو وہ کہہ دے گی۔ مثلاً آج اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی کتاب نازل ہو تو کیا وہ آپ کو یہ سکھائے گی کہ لوگو! نماز ایسے پڑھو عقل عام اس کا جواب نفی میں دے گی کیونکہ نماز تو پہلے سے دین کی حیثیت سے پڑھی جا رہی ہے۔ البتہ اس نماز کے اندر کوئی غلطی ہوگئی ہے کوئی خرابی ہوگئی ہے تو بس اس کی تصحیح کر دے گی۔ عقل عام یہی کہتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن مجید نے جو دین ہم کو دیا ہے وہ پہلی مرتبہ نہیں دیا بلکہ جو دین پہلے سے موجود تھا۔ قرآن اس دین کا پہلی بار دینے والا نہیں ہے اس کا مجدد ہے اس دین کو قرآن نے زندہ کیا ہے، اس دین میں کوئی خرابی تھی تو اس کی اصلاح کی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ وقت نماز یہ بات قرآن اور تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ ہمیشہ سے دنیا میں ہے وہ سب لوگ نماز کو پڑھتے رہے جو اللہ کے دین کو ماننے والے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ ، حضرت ابراہیمؑ سب نماز پڑھتے تھے۔ حضرت ابو ذر غفاری، اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ یہ واقعہ مسند احمد کی مشہور روایت ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب مکہ کے باہر آکر انھوں نے پڑاؤ ڈالا تو میرے بھائی مکہ گئے اور پہلی بار ان کو معلوم ہوا کہ ایک شخصیت نے یہاں نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابو ذر کا جملہ ہے کہ میں اس اطلاع سے تین سال پہلے سے نماز کا پابند ہوگیا تھا۔ تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھیے رسول اللہؐ سے بہت پہلے حضورؐ کے دادا قصی دارالندوہ میں جمعہ کے خطیب تھے اور خطبہ جمعہ رسالت مآبؐ کی آمد سے پہلے دیا کرتے تھے۔ حج کے بارے میں تو گفتگو کی ضرورت ہی نہیں وہ حضور سے بھی صدیوں پہلے ہو رہا تھا لوگ حج کرتے تھے اور حج کے وہی مناسک ادا کیے جاتے تھے جو لوگ آج بھی ادا کر رہے ہیں۔ زکوٰۃ تورات میں بھی موجود ہے اور بنیاسرائیل کے یہاں بھی زکوٰۃ دی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے آکر صلوٰۃ و زکوٰۃ حج و صوم کو متعارف نہیں کرایا۔ قرآن میں ہے کہ روزے تم پر اسی طرح فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلوں پر۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارا دین پہلے سے موجود تھا۔ پیغمبروں کے ذریعے دین دنیا کو مل چکا تھا۔ قرآن نے اس دین پر عمل کی تلقین کی۔ اس میں کوئی غلطی پیدا ہوگئی تھی تو اس کی اصلاح کی اور کسی چیز میں کوئی تبدیلی کرنا تھی تو وہ کر دی۔
جو کچھ ہو رہا تھا یہ پیغمبروں کا مسلمہ Establish طریقہ تھا جسے سُنت کہا جاتا ہے یعنی سُنت کچھ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمہ طریقہ جو پہلے سے جاری تھا اور جس طریقے سے رسول اللہؐ نے قرآن کی ہدایت کے مطابق چھوٹی موٹی اصلاح کر دی مثلاً قربانی پہلے سے جاری تھی، رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ قربانی کیا ہے؟ فرمایا حضرت ابراہیمؑ کی سُنت ہے۔ عرب میں جو دین تھا وہ انھیں حضرت ابراہیم سے منسوب کرتے تھے۔ اس کے لیے عرب دین ابراہیمی کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اس لیے قرآن میں سورہ نحل کی آیت ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبرؐ کی طرف وحی کی کہ اے پیغمبرؐ پیروی کرو ابراہیمؑ کے طریقے کی وہ ایک یکسو مسلمان تھا کسی مذہب شرک کا پیرو نہ تھا۔ [۳۱؍۱۶]
اس آیت کے ذریعے رسول اللہؐ کو حکم دیا گیا کہ جو دین ابراہیم کے زمانے سے مل رہا ہے آپ کو اس کی پیروی کرنا ہے۔ لہٰذا جس چیز کو سُنت کہا جاتا ہے وہ یوں نہیں ہے کہ پہلے قرآن آیا اور اس نے کہا کہ نماز پڑھیے پھر حضور نے بتانا شروع کیا کہ نماز ایسے پڑھی جائے گی۔ نماز پڑھی جا رہی تھی، روزہ رکھا جا رہا تھا، حج کیا جا رہا تھا، زکوٰۃ دی جا رہی تھی ان میں کچھ بدعتیں داخل ہوگئیں تھیں۔ قرآن نے اور پیغمبر نے ان کی اصلاح کی، ان کو درست کیا اوراسے جاری کر دیا۔ لہٰذا سُنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی اکرمؐ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا لہٰذا یہ دونوں چیزیں مل کر وہ دین بن جاتی ہیں جو محمدؐ سے صادر ہوا۔
سُنت کیا ہے اس پر غور کریں تو سُنت مقدم ہو جاتی ہے قرآن موخر ہوجاتا ہے یعنی وہ طریقہ جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حضورؐ کے زمانے تک مسلمہ دین کی حیثیت رکھتا تھا وہ سُنت ہوگئی۔ وہ دراصل سُنت ابراہیمی ہے اور آپؐ کی تصویب سے ہم تک پہنچی۔
سُنت ہمیں کیسے ملی ہے؟ سُنت کے بارے میں یہ بات قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے سُنت بھی صحابہ اور ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے۔ سُنت قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی۔ بچہ آنکھ کھولتا ہے تو قرآن مجید سے واقف ہوجاتا ہے۔ اس طرح نماز اور حج سے واقف ہوجاتا ہے۔ اجماع کا مطلب ہے کہ پوری امت کا علم اس بات پر متفق ہوتا ہے یہ بات کہ سُنت بخاری اور مسلم سے لیں گے مناسب جواب نہیں۔ جس طرح قرآن امت کے اجماع سے لیا ہے سُنت بھی امت کے اجماع سے لیں گے دونوں بالکل یکساں حیثیت سے منتقل ہوئے ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ سُنت زیادہ بڑے اجماع سے منتقل ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ نماز پڑھنے والوں کی تعداد اور قرآن کے حفاظ کی تعداد گن کر دیکھ لیجیے اس لیے سُنت کے معاملے میں کسی ادنیٰ تردد کی بھی ضرورت نہیں۔
قرآن کے بارے میں معلوم ہوگیا کہ یہ ۶۶۶۶ آیتوں کا مجموعہ ہے۔ سُنت کی تعریف کو نظر میں رکھ کر جب ہم امت کے علمی ذخیرے کا جائزہ لیتے ہیں تو جیسے قرآن بالکل محکم طریقے سے مل جاتا ہے ویسے ہی سُنت بھی محکم طور پر مل جاتی ہے یعنی سُنت کی فہرست لکھوائی جاسکتی ہے کہ یہ سُنت ہے۔ اس فہرست میں صرف چالیس سنتیں شامل ہیں جن پر صحابہ کا اجماع عملی ہے۔
سُنت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ آپ یہ مان لیں کہ سُنت وہ ہے جسے رسول اللہ نے دین کی حیثیت سے جاری کیا اور اس پر پوری امت کا اجماع ہوگیا۔ سُنت میں اختلاف کیسے ہوجائے گا؟ جیسے ہی اختلاف ہوجائے گا وہ چیز سُنت ثابت نہیں ہوگی، اجماع اس کی لازمی شرط ہے۔ جیسے قرآن میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا سُنت میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ [دانش سراء کراچی میں محاضرات ۹۸ء کی ریکارڈنگ سے ماخوذ]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سُنت کیا ہے؟: ۱۹۹۲ء میں غامدی صاحب کے خیالات
رسول کا ہر قول و فعل قانونی سند و حجّت ہے:
سُنت کا انکار۔ قرآن کا انکار ہے:
سُنت قرآن مجید کے بعد دین کا دوسرا قطعی ماخذ ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ اصول ایک ناقابل انکار علمی حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و ہدایات قیامت تک کے لیے اسی طرح واجب الاطاعت ہیں، جس طرح خود قرآن واجب الاطاعت ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے بعد آپ کا کام ختم ہوگیا۔ رسول کی حیثیت سے آپ کا ہر قول وفعل بجائے خود قانونی سندو حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کو یہ مرتبہ کسی امام و فقیہ نے نہیں دیا ہے،خود قرآن نے آپ کا یہی مقام بیان کیا ہے۔ کوئی شخص جب تک صاف صاف قرآن کا انکار نہ کردے، اس کے لیے سُنت کی اس قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن نے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں رسول کے ہر امر و نہی کی بے چون و چرا تعمیل کی جانی چاہیے:
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اِذن سے اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔[النساء ۴:۶۴]
قرآن کے خاموش مقامات کی شرح سُنت رسول اللہ ہے:
سُنت کے یہ اوامر و نواہی دو قسم کے معاملات سے متعلق ہوسکتے ہیں: ایک وہ جن میں قرآن مجید بالکل خاموش ہے اور اس نے صراحتہً یا کنایۃً کوئی بات نہیں فرمائی ہے اور دوسرے وہ جن میں قرآن مجید نے نفیاً یا اثباتاً کوئی حکم دیاہے یا کوئی اصول بیان فرمادیا ہے۔ پہلی قسم کے معاملات میں اگر سُنت کے ذریعے سے کوئی حکم یا قاعدہ ہمیں پہنچے تو اس کے بارے میں باعتبار اصول کسی بحث و نزاع کا سوال نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات میں سُنت بجائے خود مرجع و ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان معاملات میں ہمارا دائرۂ عمل بس یہ ہے کہ ہم ان کا مفہوم و منشا متعین کریں اور اس کے بعد بغیر تردد کے ان پر عمل پیرا ہوں۔
نسخ و ترمیم کے اس اختیار کی تردید کے بعد زیادہ سے زیادہ جو بات اس سلسلہ میں کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ سُنت قرآن کی تبیین کرسکتی ہے۔ قرآن مجید کی جو آیت اس کے حق میں بالعموم پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے :
’’اور ہم نے تم پر بھی یہ ذکر اتارا ہے تاکہ تم لوگوں پر اس چیز کو واضح کردو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے‘‘۔ [النحل ۱۶:۴۴]
آیت کا مدعا یہ ہے کہ خالق کائنات نے اپنا یہ فرمان محض اس لئے پیغمبر کی وساطت سے نازل کیا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اس کی تبیین کرے۔ گویا ’’تبیین‘‘ یا ’’بیان‘‘ پیغمبر کی منصبی ذمہ داری بھی ہے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اس کا حق بھی جو اسے خود پروردگار عالم نے دیاہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر مامور من اللہ’ مبین کتاب‘ ہے۔پیغمبر اور قرآن کا یہی وہ تعلق ہے جسے فن اصول کی شہرۂ آفاق کتاب ’’الموافقات‘‘ کے مصنف امام شاطبیؒ نے اس طرح بیان کیا ہے:
’’سُنت یا قرآن کا بیان ہوگی یا اس پر اضافہ۔ پس اگر وہ بیان ہے تو اس کا مرتبہ اس چیز کے مقابلے میں ثانوی ہے جس کا وہ بیان ہے، اور اگر بیان نہیں ہے تو اس کا اعتبار صرف اس صورت میں ہوگا، جبکہ وہ چیز جو اس میں مذکور ہے، قرآن مجید میں نہ پائی جائے‘‘۔[۴؍۵]
سُنت قرآن کے خاموش مقامات کے لیے ماخذ قانون کے حکم میں ہے:
شاطبی کے اس بیان سے واضح ہے کہ سُنت ہر اس معاملہ میں، جس میں قرآن مجید خاموش ہے، بجائے خود ماخذ قانون کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اگر کوئی چیز قرآن مجید میں مذکور ہے تو سُنت صرف اس کی’’تبیین‘‘ کرسکتی ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اس سے زیادہ کوئی اختیار سُنت کو حاصل نہیں ہے۔
قرآن مجید سے متعلق سُنت کے اس اختیار کی وضاحت کے بعد اب غور طلب مسئلہ صرف یہ رہ جاتا ہے کہ اس ’’تبیین‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ اس کی جامع و مانع منطقی تعریف کیا ہے؟ اور اس تعریف کی رو سے کیا چیز ’تبیین‘‘ قرار پاتی ہے اور کس چیز کو ’تبیین‘ قرار دینا ممکن نہیں ہے؟
سنت: ’تبیین ‘ کا مفہوم محض شرح قرآن ہے
’تبیین‘ عربی زبان کا ایک معروف لفظ ہے۔ اس کے معنی محض ’بیان کردینے‘ کے بھی ہیں اور ’واضح کرنے‘ اور ’واضح ہونے‘ کے بھی۔ آیۂ زیر بحث میں چونکہ یہ اپنے مفعول یعنی ’مانزل ا لیھم‘ کی طرف متعدی ہو کر استعمال ہواہے، اس وجہ سے یہاں اس کے معنی، ’واضح کرنے‘ ہی کے ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ یہ جب کسی کلام کے لئے آئے گا تو اس کا مفہوم ٹھیک وہی ہوگا جس کے لئے ہم لفظ ’شرح‘ بولتے ہیں۔ قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔سورۂ بقرہ میں جہاں نبی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اس مقام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود چونکہ اللہ کے اس حکم پر عمل کرنے سے گریزاں تھے، اس لیے انھوں نے ’ان تذبحوا بقرۃ‘ کے حکم کو، جس میں لفظ ’بقرۃ‘ کے نکرہ کی صورت میں آنے کے باعث یہ بات بالکل واضح تھی کہ انھیں کوئی سی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب اپنے خبث باطن کی وجہ سے غیر واضح قرار دے دیا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی شرح و وضاحت کے طالب ہوئے تو انھوں نے بار بار یہی لفظ استعمال کیا۔
سنت: تبیین کے تین اہم معانی:
قرآن مجید اور کلام عرب کے شواہد سے صاف واضح ہوتاہے کہ ’تبیین‘ کا لفظ کسی معاملے کی حقیقت کو کھول دینے، کسی کلام کے مدعا کو واضح کردینے اور کسی چیز کے خفا کو دور کرکے اسے منصۂ شہود پر لانے کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ یہود نے جب کلام کے واضح مفہوم سے گریز کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ تو بس متکلم کا منشا معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بار بار یہی لفظ ’تبیین‘ استعمال کیا ۔ اعشیٰ کا ممدوح چند اوصاف کا حامل تھا، لیکن جب مخالفوں نے انھیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اعشیٰ نے ان میں سے ایک ایک کو دلائل کے ساتھ نمایاں کردیا اور وہ پردۂ خفا سے نکل کر عالم ظہور میں آگئے تو اس نے اسے ’’تبیین‘‘ قرار دیا۔ دنیا کے خالق نے سال کو مہینوں اور مہینوں کو دنوں میں تقسیم کیا تو ان کی ایک ابتدا بھی وجود میں آئی اور ایک نصف بھی ، لیکن دنوں کے الٹ پھیر کی وجہ سے جب اس ابتدا اور اس نصف کے غیاب میں چلے جانے کا اندیشہ ہوا تو چاند کے منازل سے اس کی ’تبیین‘ کردی گئی۔ گویا ’تبیین‘ کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی، جسے باہر سے لا کر کسی بات ، کسی معاملے یا کسی کلام کے سر پر لا د دیا جائے۔ وہ کسی بات کی وہ کنہ ہے جو ابتداہی سے اس میں موجو د ہوتی ہے، آپ اسے کھول دیتے ہیں۔ وہ کسی کلام کا وہ مدعا ہے جو اس کلام کی پیدایش کے وقت ہی سے اس کے ساتھ ہوتاہے، آپ اسے واضح کردیتے ہیں۔وہ کسی چیز کا وہ لازم ہے جو شروع ہی سے اس کے وجود کی حقیقت میں پوشیدہ ہوتا ہے، آپ اس کو منصۂ شہود پر لے آتے ہیں، ’تبیین‘ کی حقیقت اس سے بال برابر زیادہ ہے نہ کم۔ آیۂ نحل میںیہ لفظ کلام خدا وندی کے لیے استعمال ہوا ہے، اس وجہ سے وہاں اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ متکلم کا وہ ارادہ جو ابتدا ہی سے اس کے کلام میں موجود ہے، اسے واضخ کردیا جائے۔
سُنت اصلاً اللہ کے منشاء کی شرح ہے:
’تبیین‘ کے اس لغوی مفہوم کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے اگر اس کی تعریف متعین کرناپیش نظر ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں:
’’تبیین کسی کلام کے متکلم کے اس مدعا کا اظہار ہے جسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے وہ اس کلام کو ابتداءً وجود میں لایا تھا‘‘۔
یہی مفہوم ہے جس کے لیے ہم اپنی زبان میں لفظ ’شرح‘ بولتے ہیں۔ شرح بس شرح ہے۔ ہر شخص جتنا جانتا ہے کہ اس لفظ کا اطلاق کسی ایسی ہی بات پر کیا جاسکتا ہے جس کے بارے میں آپ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ فی الواقع اس کلام کے متکلم کا منشا ہے جس کی طرف آپ وہ بات منسوب کر رہے ہیں۔ آپ کسی کلام سے متعلق کچھ فرماتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کا یہ ارشاد اس کلام کی شرح ہے تو اسے محض آپ کے ارشاد کی بنا پر تسلیم نہیں کرلیا جائے گا۔ ہر عاقل آپ سے مطالبہ کرے گا کہ اپنے اس قول کی دلیل بیان فرمائیے۔ وہ آپ سے پوچھے گا کہ جو کچھ آپ متکلم کی طرف منسوب کررہے ہیں کیا اس کے الفاظ اپنے لغوی مفہوم کے اعتبار سے اس پر دلالت کرتے ہیں؟ کیا اس کے جملوں کی ترکیب کا نحوی تقاضا یہ ہے جو آپ بیان فرمارہے ہیں؟ کیا جملوں کے سیاق و سباق کی دلالت سے آپ نے یہ معنی اخذ کیے ہیں؟ کیا یہ متکلم کی عادت مستمرہ ہے کہ وہ اس طرح کے الفاظ جہاں استعمال کرتا ہے، اس سے وہی کچھ مراد لیتا ہے جو آپ نے فرمایا ہے؟ کیا عقل عام کا ناگزیر اقتضا ہے کہ آپ کے ا س ارشاد ہی کو متکلم کا منشا قرار دیا جائے؟ آپ کسی کلام سے متعلق کسی بات کو ’شرح‘ یا ’تبیین ‘ قرار دینا چاہتے ہیں تو اپنے قول کو ثابت کرنے کے لیے ان دلائل میں سے کوئی دلیل آپ کو لازماً پیش کرنی ہوگی۔ اس طرح کی کسی دلیل کے بغیر کوئی بات نہ ’شرح ‘ قرار پاسکتی ہے نہ ’تبیین‘ شرح و تبیین کے الفاظ اپنے معنی ہی کے اعتبار سے اس طرح کی کسی دلیل کے متقاضی ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل تحقیق نے ’تبین ‘ یا ’بیان‘ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’بیان وہ دلیل ہے جو صحیح استدلال کے ذریعے سے اس چیز کے علم کے حصول تک پہنچاتی ہے جس پر وہ دلالت کرتی ہے‘‘۔[کشف الاسرار، علاء الدین عبدالعزیز ۳؍۱۰۵]
اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ’تبیین‘ تو بس متکلم کے اس فحویٰ کا اظہار ہے جو ابتدا ہی سے اس کے کلام میں موجود ہوتاہے۔ کسی کلام کے وجود میں آنے کے بعد جو تغیر بھی اس کلام کی طرف منسوب کیا جائے گا، آپ اسے ’نسخ‘ کہیے یا ’تغیر و تبدل‘اسے ’تبیین‘ یا ’بیان‘ یا ’شرح‘ بہر حال قرار نہیں دیا جاسکتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے اصول میں سے جن لوگوں کی نگاہ لفظ کی اس حقیقت پر رہی ہے، انھوں نے ’تبیین‘ کی تعریف میں یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے۔ امام بزدوی نے علم اصول پر اپنی کتاب میں شمس الائمہ کی تعریف نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’بیان کا اطلاق اس شے پر کیا جاتا ہے جس کے ذریعے سے اس شے کا ابتدا ہی سے کلام میں موجود ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ رہا وہ تغیر جو کلام کے وجود میں آنے کے بعد کیا جائے تو وہ نسخ ہے۔ اسے بیان قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔
سُنت قرآن کی شارح محض ہے:
لفظ ’تبیین‘ کے معنی، اس کی تعریف اور اس کے حدود کی تعیین کے بعد اب یہ بات کسی پہلو سے مبہم نہیں رہی کہ سُنت کو جو منصب قرآن مجید نے خود اپنے متعلق عطا فرمایا ہے، وہ شارح کا منصب ہے۔شارح کی حیثیت سے سُنت قرآن مجید کے مضمرات کو کھولتی، اس کے عموم و خصوص کو بیان کرتی اور اس کے مقتضیات کو واضح کرتی ہے۔ سُنت کا یہ کام کوئی معمولی نہیں ہے۔ یہی وہ کام ہے جس کے نتیجے میں دین کی تشکیل ہوتی اور زندگی کے گو نا گوں احوال کے ساتھ اس کا تعلق استوار ہوتا ہے۔ اس حیثیت سے سُنت کے جو احکام و قواعد ہمیں مختلف ذرائع سے معلوم ہوتے ہیں ،ان کی پیروی، جیسا کہ ہم نے اس بحث کے آغاز میں بیان کیا ہے، ہمارے لئے لازم ہے اور وہ بھی اسی طرح قیامت تک کے لیے واجب الاطاعت ہیں، جس طرح خود قرآن واجب الاطاعت ہے۔ علمائے اصول میں جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تفقہ فی الدین کی نعمت سے نواز ا ہے، انھوں نے سُنت کے معاملے میں یہی بات فرمائی ہے۔ حدیث و سُنت کے صاحب البیت امام احمد بن حنبل سے متعلق روایت ہے:
’’فضل بن زیادہ کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل سے حدیث: ’ان ا لسنۃ قاضیۃ‘‘ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: میں یہ کہنے کی جسارت نہیں کرسکتا کہ سُنت کتاب اللہ پر قاضی ہے۔ سُنت تو کتاب اللہ کی شرح و تفسیر کرتی ہے۔ فضل کہتے ہیں کہ میں نے ان کا یہ ارشاد بھی سنا کہ: سُنت قرآن مجید کی کسی بات کو منسوخ نہیں کرسکتی ۔ قرآن کو صرف قرآن منسوخ کرسکتا ہے‘‘۔[جامع بیان العلم، ابن عبدالبر ۲؍۲۳۴]
سُنت قرآن کی شرح و تفسیر ہے:
یہی بات ایک دوسرے اسلوب میں امام شاطبی نے ’’الموافقات‘‘ میں واضح کی ہے:
’’سُنت کے کتاب پر قاضی ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اسے کتاب پر مقدم ٹھیرایا جائے اور کتاب کو اس کے مقابلے میں چھوڑ دیا جائے، بلکہ جو کچھ سُنت میں بیان کیا جاتا ہے،وہ کتاب کی مراد ہوتا ہے۔ گویا سُنت احکام کتاب کے معانی کے لیے شرح و تفسیر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہی بات قرآن مجید کی آیت:’’لتبین للناس‘‘ میں واضح کی گئی ہے‘‘۔[۴؍۷]
اس کے بعد امام موصوف نے قطع ید کی سزا کے بارے میں بعض تشریحات مثلاً لفظ ’ید‘ کے معنی ، مال مسروق کی مقدار اور ’حرز‘ وغیرہ کے شرائط کا حوالہ دیتے ہوئے مزید وضاحت کی ہے:
’’سُنت کی یہ تشریح در حقیقت آیت کا مفہوم و مدعا ہے۔ ہم یاہ نہیں کہیں گے کہ سُنت نے یہ احکام قرآن کے علاوہ دیے ہیں ۔ جس طرح کہ امام مالک یا کوئی دوسرا مفسر کسی آیت یا حدیث کے معنی بیان کرتا ہے اور ہم اس کے معنی کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے فلاں مفسر کے قول کے مطابق عمل کیا ہے۔ اس کے بجائے ہم یہی کہیں گے کہ ہمارا عمل اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق ہے۔ یہی معاملہ قرآن کی ان تمام آیا ت کا ہے جن کی ’تبیین‘ سُنت نے کی ہے۔ لہٰذا سُنت کے کتاب اللہ پر قاضی ہونے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ کتاب اللہ کی شارح ہے‘‘۔[۴؍۸]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سنّت کسے کہتے ہیں؟ ۲۰۰۲ء میں غامدی صاحب کا نیا مؤقف​
اب رسول کا ہر قول و فعل حجّت نہیں رہا
سُنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔قرآن میں اس کا حکم آپ کے لئے اس طرح بیان ہوا ہے:
ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَن اتَّبعْ مِلَّۃَ اِبرٰھِیْمَ خلنِیفًا، وَمَا کَانَ مِنَ المُشرِکِیْنَ۔ [النحل ۱۶ ۔ ۱۲۳]
’’پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا‘‘۔
اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ یہ ہے:
[۱] اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ [۲] ملاقات کے موقع پر السلام علیکم، اور اس کا جواب۔ [۳]چھینک آنے پر ’’الحمداللہ‘‘ اور اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘۔ [۴]نو مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ [۵]مونچھیں پست رکھنا۔ [۶]زیر ناف کے بال مونڈنا۔[۷]بغل کے بال صاف کرنا۔ [۸]لڑکوں کا ختنہ کرنا۔[۹]بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ [۱۰]ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی۔[۱۱]استنجا۔ [۱۲]حیض و نفاس میں زن و شوہر کے تعلق سے اجتناب۔ [۱۳]حیض و نفاس کے بعد غسل۔[۱۴]غسلِ جنابت۔ [۱۵]میت کا غسل۔[۱۶]تجہیز و تکفین۔ [۱۷]تدفین۔ [۱۸]عید الفطر۔ [۱۹]عیدالاضحیٰ۔[۲۰]اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تزکیہ۔[۲۱]نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات۔ [۲۲]زکوٰۃ اور اس کے متعلقات۔[۲۳]نماز اور اس کے متعلقات۔ [۲۴] روزہ اور صدقۂ فطر۔[۲۵]اعتکاف۔[۲۶]قربانی۔ [۲۷]حج و عمرہ اور ان کے متعلقات۔
سُنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔[۲۰۰۲ء میزان]
دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے ، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ [۲۰۰۶ء]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
دین میں سُنت اور رسوم و آداب کا فرق: غامدی صاحب
۲۰۰۲ء میں غامدی صاحب کا ارتقاء یافتہ مؤقف​
رسوم و آداب
انسان کی تہذیب نفس رہن سہن کے جن طریقوں اور تمدن کے جن مظاہر سے نمایاں ہوتی ہے،انھیں ہم اصطلاح میں رسوم و آداب کہتے ہیں۔ انسانی معاشرت کا کوئی دوران رسوم و آداب سے خالی نہیں رہا۔ انھیں ہم ہر قبیلے، ہر قوم اور ہر تہذیب میں یکساں رائج اور ایک عمومی دستور کی حیثیت سے یکساں جاری ریکھتے ہیں ۔ اقوام و ملل کی پہچان ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ تر انھی سے قائم ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام جو دین لے کر آئے ہیں، وہ بھی اپنے ماننے والوں کو بعض رسوم و آداب کا پابند کرتا ہے۔ دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے، لہٰذا دین کے یہ رسوم و آداب بھی اسی مقصد کو سامنے رکھ کر مقرر کئے گئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو یہ سب دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر عرب میں رائج تھے۔چند چیزوں کے سوا آپ نے ان میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ یہ قرآن سے مقدم ہیں اور ان کی حیثیت ایک سُنت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب کے بعد صحابہ کرام کے اجماع اور تواتر عملی سے امت کو منتقل ہوتی ہے۔ ان کا ماخذ اب امت کا اجماع ہے اور یہ سب اسی بنیاد پر پوری امت میں ہر جگہ دین تسلیم کئے جاتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کے مقرر کردہ یہی رسوم و آداب ہم تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کریں گے۔
[۱] اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔
ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اعتراف و اقرار اور ان میں برکت کی دعا کے لئے ہے اور دوسری چیز اس حقیقت کی ہمہ وقت یاد دہانی کے لئے جنت کی نعمتیں قیامت کے دن جن لوگوں کو ملیں گی، ان کا نامۂ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا۔ بندۂ مومن جب اس طرح کے مواقع پر دائیں کی رعایت کرتا ہے تو یہ گویا اس کی طرف سے ایک طرح کا علامتی اظہار ہوتاہے کہ قیامت میں بھی وہ اصحاب الیمین ہی کے زمرے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔
[۲] ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘‘ اور اس کا جواب۔
[۳] چھینک آنے پر ’’الحمداللہ ‘‘ اور اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ ۔
[۴] نومولود کے کان میں اذان و اقامت
[۵] مونچھیں پست رکھنا۔ [۶] زیر ناف کے بال مونڈنا ۔ [۷] بغل کے بال صاف کرنا۔ [۸]بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ [۹] لڑکوں کا ختنہ کرنا [یہ پانچوں آداب کی قبیل سے ہیں] [۱۰] ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی، [۱۱] استنجا [۱۲] حیض و نفاس کے بعد غسل [۱۳] غسل جنابت [۱۴] میت کا غسل [۱۵] تجہیز و تکفین [۱۶]تدفین [۱۷] عید الفطر [۱۸] عیدالاضحی
ان میں جو اعمال سُنت کے طور پر جاری کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔ صدقۂ فطر
۲۔ نماز اور خطبہ
۳۔ ایام تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیریں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سُنت کسے کہتے ہیں؟ ۲۰۰۲ء میں ایک نیا مؤقف​
دین میں سُنت سے مراد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ یا راستہ ہے جسے آپ نے ملت ابراہیمی کے اتباع میں اپنے پیروکار وں میں دین کی حیثیت سے جاری کیا ۔ اس میں آپ نے مختلف امور کی تجدید و اصلاح کی، کیونکہ مرور زمانہ سے اس میں مختلف بد عتیں اور تحریفات داخل ہو چکی تھیں۔ بہت سے دینی احکامات اپنی شکل اور مطلوبہ ہیت میں باقی نہیں رہے تھے۔ آپ نے اس طرح کے تمام امور کو درست کیا اور انھیں دین کی حیثیت سے جاری کیا۔
تمام صحابہ سُنت پر کاربند نہ تھے:
سُنت اس امت کو صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے منتقل ہوئی یعنی تمام کے تمام صحابہ اس بات پر کاملاً متفق تھے کہ فلاں عمل سُنت ہے اور وہ سارے کے سارے یا ان کی ایک کثیر تعداد اس پر کاربند بھی تھی۔لہٰذا یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے۔ سُنت اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح یہ ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرارپائے گی۔
سُنت صرف عملی ہے قرآن کی شرح نہیں:
سُنت ، تمام تر، عملی چیزوں پر مشتمل ہے، جبکہ اصولی اور نظریاتی معاملات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔
خودقرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جس طرح اس کے ہر حکم پر عمل کرنا ہمارے لئے لازم ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین کا جو عملی طریقہ سکھائیں، وہ بھی دین کا حصہ ہے اور اس کا اتباع کرنا ہم پر لازم ہے۔ سورۂ جمعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقام اس طرح بیان ہوا ہے:
’’اللہ وہی ہے جس نے ان امی عربوں کے اندر ایک رسول خود انھی میں سے اٹھایا جو انھیں اس اللہ کی آیات سناتا ہے۔ ان کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے۔ اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور اس رسول کی بعثت ا ن تمام اہل عالم کے لیے بھی ہے جو اس سے نہیں ملے‘‘۔ [۶۲:۲،۳]
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دین کا واحد ماخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ آپ ہی کی وساطت سے ہمیں قرآن ملا ہے اور آپ ہی سے ہمیں اس دین کا وہ عملی طریقہ ملا ہے جسے آپ نے غیر معمولی اہتمام کے ساتھ اس امت کو پہنچایا ہے۔ گویا آپ نے تھیوری [قرآن] اور پریکٹس[سنت] دونوں طریقوں سے ہماری زندگیوں کو پاک و صاف کرنے یعنی تزکیہ کرنے کا کام انجام دیا۔ ۔ قرآن مجید ہمیں اس امت کی متفقہ قولی شہادت سے ملا ہے اور سُنت ہمیں اس امت کی متفقہ عملی شہادت سے ملی ہے۔ یہی سارا دین ہے۔
سُنت کا قرآن کی شرح سے کوئی تعلق نہیں:
سُنت سے ہمیں جو دین ملا ہے وہ در اصل زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق عملی رہنمائی ہے۔ مثلاً معاشرت اور آداب کے ضمن میں [۱] اللہ کا نام لے کر کھانا اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا [۲] ملاقات کے موقع پر السلام علیکم اور اس کا جواب، [۳] چھینک آنے پر الحمد اللہ اور اس جواب میں یرحمک ا للہ [۴] نو مولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت، [۵]نکاح ، [۶]نکاح کا خطبہ اور [۷] جانوروں کا تزکیہ کرنا۔
ذاتی صفائی کے ذیل میں [۸] مونچھیں پست رکھنا، [۹]زیر ناف بال مونڈنا [۱۰]بغل کے بال صاف کرنا، [۱۱]لڑکوں کا ختنہ کرنا، [۱۲]بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا، [۱۳] داڑھی اور انگلیوں کا خلال کرنا، [۱۴] ناک منہ اور دانتوں کی صفائی کرنا اور [۱۵] استنجا کرنا، سُنت میں شامل ہے۔ اسی طرح [۱۶]میت کو غسل دینا، [۱۷] اس کی تجہیز و تکفین اور [۱۸] تدفین کرنا بھی سُنت ہے۔
عبادات کے ضمن میں [۱۹] نواقض وضو[یعنی جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے] [۲۰] موزوں پر مسح ، [۲۱] اذان و اقامت، [۲۲] نماز کے لیے مساجد کا اہتمام، [۲۳]شب و روز کی پانچ فرض نمازیں، [۲۴] نماز جمعہ، [۲۵] نماز عیدین اور [۲۶] نماز جنازہ کا طریقہ ہمیں سُنت نے سکھایا ہے۔ اسی طرح [۲۷]روز، [۲۸]اعتکاف، [۲۹] عید الفطر، [۳۰]صدقہ عید الفطر کا طریقہ بھی سُنت کا عطا کردہ ہے۔ [۳۱]زکوۃ کی عملی صورت گری بھی سُنت کی مرہون منت ہے۔ اسی طرح [۳۲] ہدی [قربانی کا جانور جو حاجی مکہ مکرمہ لے جاتے ہیں] [۳۳] طواف اشہر حرم [ذو القعدہ، [۳۴] محرم اور رجب یعنی وہ مہینے جن میں خدا نے قتل و قتال حرام قرار دیا ہے] [۳۵] عمرہ، [۳۶] حج، [۳۷] عید الاضحی، [۳۸] ذوالحجہ کی قربانی اور ایام تشریق [عید الاضحی کے بعد کے تین دن] میں جماعت کی نمازو ں کے بعد تکبیروں کا عملی طریقہ ہمیں سُنت نے سکھایا ہے۔
درج بالا سب چیزیں سُنت ہیں۔ثبوت کے اعتبار سے ان میں اور قرآن مجید میں کوئی کوئی فرق نہیں ہے۔ یہی دین ہے۔ ان سب امور پر امت کا اجماع ہے۔[۲۰۰۲ء]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سُنت کیا ہے؟ ۲۰۰۴ء میں غامدی صاحب کا جدید مؤقف​
دین اس دنیا میں انسان کے لیے اللہ پروردگار عالم کی ہدایت ہے۔یہ انسان کو دو صورتوں میں ملا ہے جنہیں ہم ’’دینِ فطرت کے حقائق‘ اور ’دین وحی‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔دینِ فطرت کے حقائق سے مراد اللہ پروردگارِ عالم کی وہ ہدایت و رہنمائی ہے جسے اُس نے انسان کی فطرت میں ابتداء ہی سے ودیعت کیا ہے۔ اس میں وہ رہنمائی بھی شامل ہے جس کا تعلق انسان کے علم اور اس کے تصورات سے ہے۔ مثلاً ذاتِ خدا وندی کا علم، توحید و معاد کے تصورات وغیرہ۔ اور وہ ہدایت بھی جس کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے مثلاً اسے اس کے جسمانی وجود کے بارے میں اس کے پروردگار نے طہارت اور غلاظت کا احساس دیا، کھانے اور پینے کے معاملے میں پاکیزہ اور ناپاک چیزوں کا شعور عطا کیا اور اسے اس کے اخلاقی وجود میں اچھے اور برے کا شعور بخشا اور ان میں امتیاز کی صلاحیت عطا کی ہے۔ غرض یہ کہ انسان ان تمام معاملات میں ابتدا ہی سے خیرو شر کا شعور رکھتا، صالح اور غیر صالح میں فرق کرتا اور پاکیزگی اور ناپاکی کا احساس رکھتا ہے۔
یہ دین فطرت کے حقائق ہیں جنہیں قرآنِ مجید معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے۔ مثلاً داڑھی یہ سُنت نہیں فطرت ہے ہر مرد داڑھی رکھتاہے اور اس کی فطرت عورت کی مشابہت سے فطری طور پراِباکرتی ہے۔ یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت اِبا کرتی اور انہیں بُرا سمجھتی ہے۔قرآن ان کی کوئی جامع و مانع فہرست نہیں پیش کرتا، بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتداہی سے معروف و منکر دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے۔ غرض یہ کہ انسان اپنے وجود میں روز اول سے ایک ایسی بینائی لے کر اس دنیا میں آیا ہے جو اس کے باطن میں ودیعت کی گئی ہے۔ وہ اصلاً ایک بینا مخلوق ہے۔ یہ واضح رہے کہ فطرت کے اِن حقائق کے لئے ’دین‘ کا لفظ یہاں اصطلاحی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ بلکہ اصطلاحی دین [دینِ وحی] کے ساتھ اس کی اس مماثلت کی بنا پر ہوا ہے کہ وہ بھی اس دنیا میں انسان کے لئے ا س کے پروردگار کی ہدایت ہے اور فطرت کے حقائق کی حیثیت بھی انسان کے لئے یہی ہے۔
دین فطرت اور دین وحی کا ماخذ ایک ہے:
دینِ فطرت اور دینِ وحی دونوں کا ماخذ و مصدر اصلاً ایک ہی ہے اور وہ اللہ پروردگار عالم کی ذات ہے۔دینِ فطرت انسان کے لئے اللہ پروردگار عالم کی ہدایت ہے اور دین وحی کی بھی یہی حقیقت ہے۔دین فطرت ہر انسان کو روز اول سے اس کے پروردگار کی طرف سے براہِ راست حاصل ہوتاہے، جبکہ دین وحی اسے صرف اس کے پیغمبروں ہی کی وساطت سے میسر ہوتاہے ۔
دینِ فطرت کی حیثیت انسان کے لئے بنیادی اور اولین ہدایت کی ہے۔ اور دینِ وحی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی اضافی اور ثانوی ہدایت ہے۔ دوسرے لفظوں میں دینِ وحی کی بنیاد اصلاً دینِ فطرت کے حقائق پر قائم ہے۔
دین وحی کی آخری صورت۔۔۔قرآن اور سُنت ہے چنانچہ اب رہتی دنیا تک دین کے مآخذ کے حیثیت انہی دو چیزوں کو حاصل رہے گی۔ قرآن کی تعریف پر کوئی اختلاف نہیں اصل مسئلہ سُنت کا ہے۔
سُنت کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ سُنت کیا ہے سُنت در اصل دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے اور جسے آپ کے صحابہّؓ ٖنے اپنے اجماع اور عملی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت، پورے اہتمام اور قطعیت کے ساتھ دنیا کو منتقل کیاہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ثبوت کے اعتبار سے سُنت اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے۔ دنیا میں تاریخی طور پر کسی چیز کے منتقل ہونے کا مستند ترین ذریعہ اجماع اور تواتر ہی ہیں، کسی چیز کے تاریخی استناد کو آخری درجے میں ثابت کرنے کے لئے اجماع و تواتر سے بڑھ کر کوئی چیز پیش نہیں کی جاسکتی۔ بلاشبہ صحابہ کرامؓ سے ہم تک تمام امت نے خدا کا یہ دین اپنے کامل اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی یہ ہدایت اب بھی ہم امت کے اجماع ہی سے اخذ کرتے ہیں۔اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دین کی نسبت اور اس کا استناد قطعیت کے درجہ میں ثابت ہوتا ہے ۔ اور یہ ثبوت علمِ یقین کے درجے کو پہنچ جاتا ہے۔
اعمالِ سنن اور اُن کا حکم:
سُنت کی حیثیت سے جو دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ملا ہے وہ عبادات، معیشت ، معاشرت، خوردو نوش اور رسوم و آداب سے متعلق ہیں۔ ان کا بیان اور دین میں ان کا حکم حسب ذیل ہے:
عبادات میں سنن:کچھ سنتیں لازمی نہیں ہیں: کچھ ضروری نہیں
[۱]شب و روز کی پانچ نمازیں اور ان کے متعلقات۔ ہر مسلمان مرد و عورت کے لئے یہ نمازیں دین میں لازمی عبادات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ [۲]نمازِ جمعہ اور اس کے متعلقات۔ ہر جمعہ کے دن مردوں کے لئے دین میں یہ ہمیشہ ایک لازمی،اور عورتوں کے لئے ایک پسندیدہ عبادت کے طور پر جاری کی گئی ہے۔[۳]عیدین کی نماز اور اس کے متعلقات۔ یہ عید الفطر اور عید الضحی کے موقع پر مردوں کے لئے لازمی اور عورتوں کے لئے پسندیدہ عبادات ہیں۔ [۴]نماز جنازہ اور اس کے متعلقات ۔ میت کے ورثا اور اقارب کے لئے اسے ادا کرنا ایک لازمی سُنت ہے۔ جبکہ دیگر افراد کے لئے اس کی حیثیت ایک پسندیدہ سُنت کی ہے۔ [۵]رمضان کے روزے اور ان کے متعلقات ۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوں کے لئے دین میں اسے ایک لازمی عبادت کی حیثیت سے جاری کیا گیا ہے۔ [۶]رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف اور اس کے متعلقات۔ یہ ایک پسندیدہ عبادت ہے۔ لازم اور واجب نہیں ہے۔ [۷]بیت الحرام کا حج اور اس کے متعلقات۔ صاحبِ استطاعت پر یہ عبادت عمر بھر میں ایک مرتبہ دین میں لازم کی گئی ہے۔[۸]بیت الحرام کا عمرہ اور اس کے متعلقات ۔ دین میں یہ عبادت صاحب استطاعت کے لئے ایک پسندیدہ عبادت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لازم نہیں ہے۔ [۹]عید الاضحی کی قربانی اور اس کے متعلقات۔اس سُنت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحبِ استطاعت مسلمانوں کے لئے ایک پسندیدہ عبادت کے طور پر دین میں جاری فرمایاہے۔ [۱۰]ایام تشریق [۱۱،۱۲ اور ۱۳ ذوالحجہ] میں ہر نماز کے بعد تکبیریں۔ یہ تکبیرات دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت رکھتی ہیں۔
معیشت میں سنن:[۱۱]زکوٰۃ اور اس کے متعلقات ۔ یہ اپنی شرائط کے ساتھ دین میں ایک لازمی انفاق ہے۔ [۱۲]صدقۂ فطر۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت کے لئے رمضان کے اختتام پر نمازِ عید سے پہلے اس انفاق کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ [۱۳]مرد کے لئے نکاح کے موقع پر مہر کی ادائیگی۔ اس کی حیثیت بھی ایک لازمی سُنت کی ہے۔
معاشرت میں سنن:[۱۴] نکاح۔ ہر مسلمان مرد و عورت کے لیے یہ اپنی شرائط کے ساتھ ایک لازمی سُنت ہے۔[۱۵]طلاق
خور و نوش میں سنن:[۱۶]اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ جانور ذبح کرنے والے کے لیے یہ عمل دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت رکھتا ہے۔تذکیہ کا لفظ بطورِ اصطلاح جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کرکے اس کاخون اس طرح بہادیا جائے کہ اس کی موت خون بہہ جانے ہی کے باعث واقع ہو۔
رسوم و آداب میں سنن: [۱۷] اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ کھانے پینے کے موقع پر اس عمل کو دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت سے جاری کیا گیا ہے۔ [۱۸]ملاقات کے موقع پر ’’السلام علیکم‘‘ اور اس کا جواب۔ یہ سُنت بھی دین میں ایک لازمی عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ [۱۹] چھینک آنے پر ’’الحمداللہ ‘‘ اور اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ کہنا۔ دین میں یہ عمل بھی ایک لازمی سُنت کے طور پر جاری کیا گیا ہے۔ [۲۰]نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے والدین اور سرپرستوں کے لئے ایک پسندیدہ سُنت کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔ [۲۱] مونچھیں پست رکھنا۔ اس عمل کو مردوں کے لئے دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت حاصل ہے۔ [۲۲] زیر ناف کے بال مونڈنا ۔ یہ بھی دین میں ایک واجب عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ [۲۳] بغل کے بال صاف کرنا اس کی حیثیت بھی ایک لازمی سُنت کی ہے۔ [۲۴] لڑکوں کا ختنہ کرنا۔ والدین اور سرپرستوں پر دینِ ابراہیمی کی یہ سُنت بھی لازم کی گئی ہے۔[۲۵] بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ یہ بھی دین میں ایک لازمی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔[۲۶] ناک ، منہ اور دانتوں کی صفائی۔ سنن میں اس عمل کی حیثیت بھی ایک واجب کی ہے۔ [۲۷] استنجا۔ بول و براز کے موقع پر اس عمل کو دین میں لازم کیا گیا ہے۔ [۲۸] لڑکیوں کا ختنہ۔ [۲۹] حیض و نفاس کے بعد غسل۔ عورتوں کے لیے اسے دین میں ایک لازمی سُنت کی حیثیت سے جاری کیا گیا ہے۔[۳۰] داڑھی رکھنا۔ [۳۱] میت کا غسل۔ ورثا اور اقارب پر اس ذمہ داری کو ادا کرنا دین میں لازم کیا گیا ہے۔[۳۲] تجہیز و تکفین ۔ ورثا اور اقربا کے لئے اس کے حکم کی حیثیت بھی میت کے غسل ہی کی طرح ہے۔ [۳۳]تدفین ۔ عزیز و اقارب کے لئے یہ بھی ایک لازمی سُنت ہے۔ [۳۴]عید الفطر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چند متعین سنن کے ساتھ مسلمانوں میں ایک لازمی تہوار کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔ [۳۵] عید الاضحی۔ اس کی حیثیت بھی دین میں عید الفطر ہی کی طرح ہے۔[۳۶] نکاح کے موقع پر خطبہ۔ یہ دین میں ایک پسندیدہ سُنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ لازم اور واجب نہیں ہے۔ [۲۰۰۴ء]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سُنت کی تعریف ۱۹۹۶ء: میں جاوید احمد غامدی کے الفاظ میں
لغت کے لحاظ سے سُنت نام ہی عملی طریقے کا ہے۔ نظری نوعیت کی چیزیں اس میں زیر بحث نہیں آتیں۔ حدیث کے ذخیرے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ اس میں کیا چیز سُنت ہے؟ کیا تفہیم ہے؟ کیا تبئین ہے؟ کیا اسوہ حسنہ ہے اور کیا تاریخ ہے؟ میں نے دین کی یہی خدمت کی ہے کہ حدیث کے تمام ذخیرے کا ربع صدی مطالعہ کرکے چالیس سنتیں نکال لیں اور اس ذخیرہ حدیث کو عنوانات کے تحت تقسیم کر دیا۔
لاریب سُنت صرف چالیس ہیں اس کے سوا کچھ سُنت نہیں: [۱] اللہ کا نام لے کر دائیں ہاتھ سے کھانا [۲]السلام علیکم کہنا اور اس کا جواب [۳]چھینک آنے پر الحمدللہ جواباً یرحمک اللہ کہنا [۴]کان میں اذان وقت ولادت [۵]نکاح [۶] خطبہ نکاح [۷] قربانی [۸] مونچھیں مونڈنا [۹]زیر ناف کے بال صاف کرنا [۱۰]بغلوں کے بال کی صفائی [۱۱] لڑکوں اور لڑکیوں کے ختنے [۱۲] بڑھے ناخن کاٹنا [۱۳] داڑھی رکھنا [۱۴] داڑھی اور انگلی میں خلال [۱۵] ناک منہ دانت کی صفائی [۱۶] استنجا [۱۷] غسل جنانت [۱۸] میت کا غسل [۱۹] تجہیز و تکفین [۲۰] تدفین [۲۱] نماز سے پہلے وضو [۲۲] تیمم [۲۳] اذان اقامت [۲۴] نماز کے لیے اہتمام مساجد [۲۵] پنج وقتہ لازمی نمازیں [۲۶] نماز جمعہ [۲۷] چار شادیاں کرنا [۲۸] نماز جنازہ [۲۹] روزہ [۳۰] اعتکاف [۳۱] عیدین کی نمازیں [۳۲] نماز جنازہ [۳۳] صدقہ عیدالفطر [۳۴] زکوٰۃ [۳۵] ہدی کا جانور [۳۶] کم از کم دو کمروں کا مکان[۳۷] امام کا صاحب نصاب ہونا [۳۸] طواف [۳۹] عمرہ و حج [۴۰] ایام تشریق کی تکبیریں [۴۱] مسوا ک اور خوشبو کا استعمال۔ ۱۹۸۰ء میں داڑھی قرآن سے ثابت تھی۔ [حضرت موسیٰؑ نے بھائی کی داڑھی کھینچی۔] ۱۹۹۴ء میں داڑھی سُنت ہوگئی۔ پھر فطرت ہوگئی اور سُنت سے نکل گئی۔ ۱۹۹۸ء میں صرف اسوہ حسنہ رہ گئی۔ رسولؐ نے اسے پسند فرمایا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں داڑھی بس ایک شے ہے اس کے سوا کچھ نہیں، ساحل]
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
سُنت کیا ہے؟ ۲۰۰۵ء میں غامدی صاحب کا ایک اور نقطۂ نظر
دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اس کے بعد اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔یہ صرف انھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہوسکتی ہے اور یہ صرف انھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے گا۔
ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الاُ مِّیِّنَ رَسُولًا مِّنھُم یَتلُوا عَلَیھم اٰیٰتِہٖ وَیُزَ کِیھِم وَ یُعَلِّمُھُمُ الکِتٰبَ وَالحِکمَۃ۔ [الجمعہ ۶۲:۲]
’’وہی ذات ہے جس نے ان امیوں میں ایک رسول انھی میں سے اٹھایا ہے جو اس کی آیتیں ان پر تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور [اس کے لیے] انھیں قانون او رحکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ نے دین سے تعبیر کیا جا ہے۔ اس کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:۱۔قرآن مجید۔۲۔سنت۔
قرآن مجید کے بارے میں ہر مسلمان اس حقیقت سے واقف ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے، اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس ان کی طرف سے بالا جماع اس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے دنیا کو منتقل کیاہے۔
سُنت قرآن کی شرح و تبیین کا نام نہیں:
سُنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ قرآن میں اس کا حکم آپ کے لیے اس طرح بیان ہوا ہے:
ثُمَّ اَوحَینَآ اِلَیکَ اَنِ اتَّبع مِلَّۃَ اِبرٰھِیمَ حَنِیفًا ، وَ مَا کَانَ مِنَ المُشرِکِینَ۔[النحل۔۱۶:۱۲۳]
’’پھر ہم نے تمہیں وحی کی کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا‘‘۔
سُنت دین ابراہیمی کی تجدیدی روایت:
اس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے، وہ یہ ہے:
عبادات:[۱]نماز۔ [۲]زکوٰۃ اور صدقۂ فطر۔ [۳]روزہ و اعتکاف ۔[۴]حج و عمرہ۔[۵]قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں۔
معاشرت: [۱] نکاح و طلاق او ران کے متعلقات۔ [۲]حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔
خورو نوش: [۱] سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کی حرمت۔[۲]اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔
رسوم و آداب:
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ [۲]ملاقات کے موقع پر ’’السلام علیکم‘‘ اور اس کا جواب۔ [۳]چھینک آنے پر ’’الحمداللہ‘‘ اور اس کے جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ ۔[۴]نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت۔ [۵]مونچھیں پست رکھنا۔ [۶]زیرناف کے بال کاٹنا۔ [۷]بغل کے بال صاف کرنا۔[۸]بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔[۹]لڑکوں کا ختنہ کرنا [لڑکیوں کا ختنہ منسوخ ہوگیا]۔ [۱۰]ناک، منہ اور دانتوں کی صفائی۔[۱۱]استنجا۔ [۱۲]حیض و نفاس کے بعد غسل۔ [۱۳]غسل جنابت۔ [۱۴]میت کا غسل۔ [۱۵]تجہیز و تکفین۔ [۱۶]تدفین۔ [۱۷]عید الفطر۔ [۱۸]عید الاضحی ۔ [عیدین رسوم ہوگئیں پہلے عبادات تھیں۔ پہلے سنتیں ۴۰ تھیں اب ۲۷ رہ گئیں، ساحل۔]
سُنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے،لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔[۲۰۰۵ء]
[غامدی صاحب کا سنتوں کے بارے میں متضاد، متنوع اور رنگارنگ مؤقف ان کی کتابوں میزان ۱۹۸۴ء، میزان ۲۰۰۲ء، اصول و مبادی ۲۰۰۵ء، برہان، محاضرات ۱۹۹۸ء کراچی، تین سو مختلف خطبات، تقاریر، آڈیو ویڈیو کیسٹ اور غامدی صاحب کی متنفرق و منتشر تحریروں سے مرتب کیا گیا ہے۔ سُنت کی تعریف، توضیح اور سنتوں کے تعین میں غامدی صاحب نے گزشتہ ۱۵ برس کے دوران جو رنگ بدلے ہیں اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سُنت دین کا ماخذ نہیں ہے بلکہ چیستان ہے اور غامدی صاحب پندرہ سو برس کے دینی ادب کے مطالعے کے بعد بھی سُنت کا درست تعین کرنے سے قاصر اور عاجز ہیں، ساحل]
 
Top