• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں

جزیرۃ العرب کے سیاسی اور مذہبی حالات بیان کر لینے کے بعد اب وہاں کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی حالات کا خاکہ مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔

اجتماعی حالات
عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقہ اَشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصہ ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی تھی اور اس کا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا۔ اس کی راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خون ریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی جب اپنے کرم وشجاعت پر...جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ...اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموماً عورت ہی کو مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خون ریزی کے شعلے بھڑکا دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے اوّلیاء کے زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔
ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد وعورت کے اختلاط کی بھی کئی صورتیں تھیں۔ جنھیں بد کاری وبے حیائی اور فحش کاری وزنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کراؤ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا ) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاحِ اِسْتبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی ، سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلابھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی ، اور وہ اس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ، وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی ، اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے ، اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا - جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب النکاح ، باب من قال لانکاح الابولی ۲/۷۶۹ وابوداؤد : باب وجوہ النکاح۔)
عرب میں مرد وعورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والے والا قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا لیکن ایسی عورتیں سے پیدا ہونے والی اوّلاد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔
زمانۂ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسلام نے ان کی حد بندی کی۔ (ابو داؤد ، نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث ، نیز کتب تفسیر متعلقہ الطلاق مرتان۔)
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی ، البتہ کچھ مرد اور عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا، اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اہلِ جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن زَمْعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے...عبد الرحمن بن زمعہ...کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔
(صحیح بخاری ۲/۹۹۹، ۱۰۶۵، ابو داؤد: الولد للفراش ، مسند احمد ۲/۲۰۷
)
جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا ، کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے :


انما أولادنا بیننا​
أکبادنا تمشی علی الأرض​

''ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔''
لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ (قرآن۶:۱۰۱۔ ۱۶:۵۸، ۵۹۔ ۱۷:۳۱۔ ۸۱:۸)لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اوّلاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔
جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں، اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ ((انصر أخاک ظالمًا أو مظلومًا)) (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم) اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسلام کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ، البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ، جیسا کہ اَوس وخزرج ، عَبْس و ذُبَیْان اور بکر و تَغْلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حِدّ ت و شِدّت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاۃ، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصول معاش
کے لیے سراپا رحمت ومدد تھے۔ کیونکہ عرب ان کی حرمت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ابو رجاء عطاری کہتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آجاتا توہم کہتے کہ یہ نیزے کی انیاں اتارنے والا ہے۔ چنانچہ ہم کوئی نیزہ نہ چھوڑتے جس میں دھار دار برچھی ہوتی مگر ہم وہ برچھی نکال لیتے اور کوئی تیر نہ چھوڑتے جس میں دھار دار پھل ہوتا مگر اسے بھی نکال لیتے اور رجب بھر اسے کہیں ڈال کر پڑا چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۶ )اسی طرح حرام کے بقیہ مہینوں میں بھی۔ (فتح الباری ۸/۹۱
)
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ، اپنی رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقتصادی حالت
اقتصادی حالت، اجتماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سیہوسکتا ہے کہ تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد ورفت امن وسلامتی کی فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن وسلامتی کا کہیں وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار عُکاظ ، ذی المجَاز اور مَجِنہ وغیرہ لگتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی دِباغت وغیرہ کی شکل میںجو چند صنعتیں پائی بھی جاتی تھیں وہ زیادہ تریمن، حیرہ اور شام کے متصل علاقوں میں تھیں۔البتہ اندرونِ عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔ ساری عرب عورتیں سوت کاتتی تھیں لیکن مشکل یہ تھی کہ سارا مال ومتاع ہمیشہ لڑائیوں کی زد میں رہتا تھا۔ فقر اور بھوک کی وبا عام تھی اور لوگ ضروری کپڑوں اور لباس سے بھی بڑی حد تک محروم رہتے تھے۔
اخلاق
یہ تو اپنی جگہ مسلم ہے ہی کہ اہل جاہلیت میں خَسیس و رَذیل عادتیں اور وجدان وشعور اور عقلِ سلیم کے خلاف باتیں پائی جاتی تھیں۔ لیکن ان میں ایسے پسندیدہ اخلاقِ فاضلہ بھی تھے جنھیں دیکھ کر انسان دنگ اور ششدر رہ جاتا ہے۔ مثلاً:
کرم وسخاوت :...یہ اہل جاہلیت کا ایسا وصف تھا جس میں وہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے تھے اور اس پر اس طرح فخر کرتے تھے کہ عرب کے آدھے اشعار اسی کی نذر ہوگئے ہیں۔ اس وصف کی بنیاد پر کسی نے خود اپنی تعریف کی ہے تو کسی نے کسی اور کی۔ حالت یہ تھی کہ سخت جاڑے اور بھوک کے زمانے میں کسی کے گھر کوئی مہمان آجاتا اور اس کے پاس اپنی اس ایک اونٹنی کے سوا کچھ نہ ہوتا جو اس کی اور اس کے کنبے کی زندگی کا واحد ذریعہ ہوتی تو بھی ...ایسی سنگین حالت کے باوجود ...اس پر سخاوت کا جوش غالب آجاتا اور وہ اٹھ کر اپنے مہمان کے لیے اپنی اونٹنی ذبح کر دیتا۔ ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ بڑی بڑی دیت اور مالی ذمہ داریاں اٹھا لیتے اور اس طرح انسانوں کو بربادی اور خون ریزی سے بچا کر دوسرے رئیسوں اور سرداروں کے مقابل فخر کرتے تھے۔
اسی کرم کا نتیجہ تھا کہ وہ شراب نوشی پر فخر کرتے تھے ، اس لیے نہیں کہ یہ بذاتِ خود کوئی فخر کی چیز تھی بلکہ اس لیے کہ یہ کرم وسخاوت کو آسان کردیتی تھی۔ کیونکہ نشے کی حالت میں مال لٹانا انسانی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا۔ اس لیے یہ لوگ انگور کے درخت کو کرم اور انگور کی شراب کو بنت الکرم کہتے تھے۔ جاہلی اشعار کے دَوَاوِین پر نظر ڈالیے تو یہ مدح وفخر کا ایک اہم باب نظر آئے گا عنترہ بن شداد عبسی اپنے معلقہ میں کہتا ہے :


ولقد شربت من المدامۃ بعد مارکد
الھواجربالمشوف المعلم
بزجاجۃ صفراء ذات أسـرۃ
قرنت بأزھر بالشمال مفدم
فإذا شربت فإنني مستھلک
مالي ،وعرضي وافر لم یکلم
وإذا صحوت فما أقصر عن ندی
وکما علمت شمائلي وتکرمی


''میں نے دوپہر کی تیزی رکنے کے بعد ایک زرد رنگ کے دھاری دار جام بلوریں سے جو بائیں جانب رکھی ہوئی تابناک اور منہ بند خُم کے ساتھ تھا ، نشان لگی ہوئی ْصاف شفاف شراب پی اور جب میں پی لیتا ہوں تو اپنا مال لٹا ڈالتا ہوں۔ لیکن میری آبرو بھر پور رہتی ہے ، اس پر کوئی چوٹ نہیں آتی۔ ا ور جب میں ہوش میں آتا ہوں تب بھی سخاوت میں کوتاہی نہیں کرتا اور میرا اخلاق وکرم جیسا کچھ ہے تمہیں معلوم ہے۔ ''
ان کے کرم ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ جوا کھیلتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی سخاوت کی ایک راہ ہے کیونکہ انہیں جو نفع حاصل ہوتا ، یا نفع حاصل کرنے والوں کے حصے سے جو کچھ فاضل بچ رہتا اسے مسکینوں کو دے دیتے تھے۔ اسی لیے قرآن پاک نے شراب اور جوئے کے نفع کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ‌ مِن نَّفْعِهِمَا (۲:۲۱۹ ) ''ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ ''
وفائے عہد:...یہ بھی دَورِ جاہلیت کے اخلاقِ فاضلہ میں سے ہے۔ عہد کو ان کے نزدیک دین کی حیثیت حاصل تھی۔ جس سے وہ بہر حال چمٹے رہتے تھے اور اس راہ میں اپنی اوّلاد کا خون اور اپنے گھر بار کی تباہی بھی ہیچ سمجھتے تھے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہانیٔ بن مسعود شیبانی، سموأل بن عادیا اور حاجب بن زرارہ کے واقعات کافی ہیں۔ ہانی بن مسعود کا واقعہ حیرہ کی بادشاہی کے تحت گزر چکا ہے۔ سموأل کا واقعہ یہ ہے کہ امرؤ القیس نے اس کے پاس کچھ زرہیں امانت رکھ چھوڑی تھیں۔ حارث بن ابی شمر غسانی نے انھیں اس سے لینا چاہا ، اس نے انکار کردیا اور تیماء میں اپنے محل کے اندر بند ہوگیا۔ سموأل کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا تھا۔ حارث نے اسے گرفتار کر لیا اور زرہیں نہ دینے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی مگر سموأل انکار پر اڑا رہا۔ آخر حارث نے اس کے بیٹے کو اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کردیا۔
حاجب کا واقعہ یہ ہے کہ اس کے علاقے میں قحط سالی پیش آئی۔ اس نے کسریٰ سے اس کی عملداری کے حدود میں اپنی قوم کو ٹھہرانے کی اجازت چاہی۔ کسریٰ کو ان کے فساد کا اندیشہ ہوا، لہٰذا ضمانت کے بغیر منظور نہ کیا۔ حاجب نے اپنی کمان رہن رکھ دی اور وعدے کے مطابق قحط ختم ہونے پر اپنی قوم کو واپس لے گیا اور ان کے صاحبزادے حضرت عطارد بن حاجب رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے پاس جاکر باپ کی امانت واپس طلب کی۔ جسے کسریٰ نے ان کی وفاداری کے پیش نظر واپس کردیا۔
خودداری وعزتِ نفس:...اس پر قائم رہنا اور ظلم وجبر برداشت نہ کرنا بھی جاہلیت کے معروف اخلاق میں سے تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی شجاعت وغیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی، وہ فوراً بھڑک اٹھتے تھے اور ذرا ذرا سی بات پر جس سے ذلت واہانت کی بوآتی ، شمشیر وسنان اٹھالیتے اور نہایت خونریز جنگ چھیڑ دیتے۔ انہیں اس راہ میں اپنی جان کی قطعاً پروا نہ رہتی۔
عزائم کی تنفیذ: ...اہل جاہلیت کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جب وہ کسی کام کو مجد وافتخار کا ذریعہ سمجھ کر انجام دینے پر تُل جاتے تو پھر کوئی رکاوٹ انہیںروک نہیںسکتی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کام کو انجام دے ڈالتے تھے۔
حلْم وبردباری اور سنجیدگی: ...یہ بھی اہل جاہلیت کے نزدیک قابل ستائش خوبی تھی ، مگر یہ ان کی حد سے بڑھی ہوئی شجاعت اور جنگ کے لیے ہمہ وقت آمادگی کی عادت کے سبب نادرالوجود تھی۔
بدوی سادگی: ...یعنی تمدن کی آلائشوں اور داؤپیچ سے ناواقفیت اور دوری۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان میں سچائی اور امانت پائی جاتی تھی۔ وہ فریب کاری وبدعہدی سے دور اور متنفر تھے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جزیرۃُ العرب کو ساری دنیا سے جو جغرافیائی نسبت حاصل تھی اس کے علاوہ یہی وہ قیمتی اخلاق تھے جن کی وجہ سے اہل عرب کو بنی نوع انسان کی قیادت اور رسالتِ عامہ کابوجھ اُٹھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ کیونکہ یہ اخلاق اگرچہ بعض اوقات شر وفساد کا سبب بن جاتے تھے اور ان کی وجہ سے المناک حادثات پیش آجاتے تھے لیکن یہ فی نفسہٖ بڑے قیمتی اخلاق تھے۔ جو تھوڑی سی اصلاح کے بعد انسانی معاشرے کے لیے نہایت مفید بن سکتے تھے اور یہی کام اسلام نے انجام دیا۔
اور غالباً ان اخلاق میں بھی ایفائے عہد کے بعد عزتِ نفس اور پختگی ٔ عزم سب سے گراں قیمت اور نفع بخش جوہر تھا۔ کیونکہ اس قوتِ قاہرہ اور عزمِ مُصَمّم کے بغیر شر وفساد کا خاتمہ اور نظامِ عدل کا قیام ممکن نہیں۔
اہل جاہلیت کے کچھ اور بھی اخلاق ِ فاضلہ تھے لیکن یہاں سب کا اِستقصاء مقصود نہیں۔
 
Top