- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
جاہلی معاشرے کی چند جھلکیاں
جزیرۃ العرب کے سیاسی اور مذہبی حالات بیان کر لینے کے بعد اب وہاں کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی حالات کا خاکہ مختصراً پیش کیا جا رہا ہے۔
اجتماعی حالات
عرب آبادی مختلف طبقات پر مشتمل تھی اور ہر طبقے کے حالات ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف تھے۔ چنانچہ طبقہ اَشراف میں مرد عورت کا تعلق خاصہ ترقی یافتہ تھا۔ عورت کو بہت کچھ خود مختاری حاصل تھی۔ اس کی بات مانی جاتی تھی اور اس کا احترام اور تحفظ کیا جاتا تھا۔ اس کی راہ میں تلواریں نکل پڑتی تھیں اور خون ریزیاں ہو جاتی تھیں۔ آدمی جب اپنے کرم وشجاعت پر...جسے عرب میں بڑا بلند مقام حاصل تھا ...اپنی تعریف کرنا چاہتا تو عموماً عورت ہی کو مخاطب کرتا۔ بسا اوقات عورت چاہتی تو قبائل کو صلح کے لیے اکٹھا کر دیتی اور چاہتی تو ان کے درمیان جنگ اور خون ریزی کے شعلے بھڑکا دیتی۔ لیکن ان سب کے باوجود بلا نزاع مرد ہی کو خاندان کا سربراہ مانا جاتا تھا اور اس کی بات فیصلہ کن ہوا کرتی تھی۔ اس طبقے میں مرد اور عورت کا تعلق عقد نکاح کے ذریعے ہوتا تھا اور یہ نکاح عورت کے اوّلیاء کے زیرنگرانی انجام پاتا تھا۔ عورت کو یہ حق نہ تھا کہ ان کی ولایت کے بغیر اپنے طور پر اپنا نکاح کر لے۔
ایک طرف طبقہ اشراف کا یہ حال تھا تو دوسری طرف دوسرے طبقوں میں مرد وعورت کے اختلاط کی بھی کئی صورتیں تھیں۔ جنھیں بد کاری وبے حیائی اور فحش کاری وزنا کاری کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں: ایک تو وہی صورت تھی جو آج بھی لوگوں میں رائج ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اس کی زیر ولایت لڑکی کے لیے نکاح کا پیغام دیتا۔ پھر منظوری کے بعد مہر دے کر اس سے نکاح کرلیتا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ عورت جب حیض سے پاک ہوتی تو اس کا شوہر کہتا کہ فلاں شخص کے پاس پیغام بھیج کر اس سے اس کی شرمگاہ حاصل کرو۔ (یعنی زنا کراؤ) اور شوہر خود اس سے الگ تھلگ رہتا اور اس کے قریب نہ جاتا۔ یہاں تک کہ واضح ہوجاتا کہ جس آدمی سے شرمگاہ حاصل کی تھی (یعنی زنا کرایا تھا ) اس سے حمل ٹھہر گیا ہے۔ جب واضح ہوجاتا تو اس کے بعد اگرشوہر چاہتا تو اس عورت کے پاس جاتا۔ ایسا اس لیے کیا جاتا تھا کہ لڑکا شریف اور باکمال پیدا ہو۔ اس نکاح کو نکاحِ اِسْتبضاع کہا جاتا تھا۔ (اسی کو ہندوستان میں نیوگ کہتے ہیں۔) نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس آدمیوں سے کم کی ایک جماعت اکٹھا ہوتی ، سب کے سب ایک ہی عورت کے پاس جاتے اور بد کاری کرتے۔ جب وہ عورت حاملہ ہوجاتی اور بچہ پیدا ہوتا تو پیدائش کے چند رات بعد وہ عورت سب کو بلابھیجتی اور سب کو آنا پڑتا مجال نہ تھی کہ کوئی نہ آئے۔ اس کے بعد وہ عورت کہتی کہ آپ لوگوں کا جو معاملہ تھا وہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں اور اب میرے بطن سے بچہ پیدا ہوا ہے اور اے فلاں! وہ تمہارا بیٹا ہے۔ وہ عورت ان میں سے جس کا نام چاہتی لے لیتی ، اور وہ اس کا لڑکا مان لیا جاتا۔
چوتھا نکاح یہ تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوتے اور کسی عورت کے پاس جاتے ، وہ اپنے پاس کسی آنے والے سے انکار نہ کرتی۔ یہ رنڈیاں ہوتی تھیں جو اپنے دروازوں پر جھنڈیاں گاڑے رکھتی تھیں تاکہ یہ نشانی کا کام دے اور جو ان کے پاس جانا چاہے بے دھڑک چلا جائے۔ جب ایسی عورت حاملہ ہوتی ، اور بچہ پیدا ہوتا تو سب کے سب اس کے پاس جمع ہوتے ، اور قیافہ شناس کو بلاتے۔ قیافہ شناس اپنی رائے کے مطابق اس لڑکے کو کسی بھی شخص کے ساتھ ملحق کر دیتا۔ پھر یہ اسی سے مربوط ہو جاتا اور اسی کا لڑکا کہلاتا۔ وہ اس سے انکار نہ کرسکتا تھا - جب اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو مبعوث فرمایا تو جاہلیت کے سارے نکاح منہدم کردیے۔ صرف اسلامی نکاح باقی رہا جو آج رائج ہے۔ (صحیح بخاری : کتاب النکاح ، باب من قال لانکاح الابولی ۲/۷۶۹ وابوداؤد : باب وجوہ النکاح۔)
عرب میں مرد وعورت کے ارتباط کی بعض صورتیں ایسی بھی تھیں جو تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک پر وجود میں آتی تھیں۔ یعنی قبائلی جنگوں میں غالب آنے والے والا قبیلہ مغلوب قبیلے کی عورتوں کو قید کر کے اپنے حرم میں داخل کر لیتا تھا لیکن ایسی عورتیں سے پیدا ہونے والی اوّلاد زندگی بھر عار محسوس کرتی تھی۔
زمانۂ جاہلیت میں کسی تحدید کے بغیر متعدد بیویاں رکھنا بھی معروف با ت تھی۔ لوگ ایسی دوعورتیں بھی بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے تھے جو آپس میں سگی بہن ہوتی تھیں۔ باپ کے طلاق دینے یا وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیتا تھا۔ طلاق ورجعت کا اختیار مرد کو حاصل تھا اور ان کی کوئی حد معین نہ تھی تا آنکہ اسلام نے ان کی حد بندی کی۔ (ابو داؤد ، نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث ، نیز کتب تفسیر متعلقہ الطلاق مرتان۔)
زنا کاری تمام طبقات میں عروج پر تھی۔ کوئی طبقہ یا انسانوں کی کوئی قسم اس سے مستثنیٰ نہ تھی ، البتہ کچھ مرد اور عورتیں ایسی ضرور تھیں جنھیں اپنی بڑائی کا احساس اس بُرائی کے کیچڑ میں لت پت ہونے سے باز رکھتا تھا۔ پھر آزاد عورتوں کا حال لونڈیوں کے مقابل نسبتاً اچھا تھا، اصل مصیبت لونڈیاں ہی تھیں اور ایسا لگتا ہے کہ اہلِ جاہلیت کی غالب اکثریت اس برائی کی طرف منسوب ہونے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ !فلاں میرا بیٹا ہے ، میں نے جاہلیت میں اس کی ماں سے زنا کیا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسلام میں ایسے دعوے کی کوئی گنجائش نہیں، جاہلیت کی بات گئی اب تو لڑکا اسی ہوگا جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زنا کار کے لیے پتھر ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور عبد بن زَمْعہ کے درمیان زمعہ کی لونڈی کے بیٹے...عبد الرحمن بن زمعہ...کے بارے میں جو جھگڑا پیش آیا تھا وہ بھی معلوم ومعروف ہے۔
(صحیح بخاری ۲/۹۹۹، ۱۰۶۵، ابو داؤد: الولد للفراش ، مسند احمد ۲/۲۰۷
)
جاہلیت میں باپ بیٹے کا تعلق بھی مختلف نوعیت کا تھا ، کچھ تو ایسے تھے جو کہتے تھے :
انما أولادنا بیننا
أکبادنا تمشی علی الأرض
''ہماری اولاد ہمارے کلیجے ہیں جو روئے زمین پر چلتے پھرتے ہیں۔''
لیکن دوسری طرف کچھ ایسے بھی تھے جو لڑکیوں کو رسوائی اور خرچ کے خوف سے زندہ دفن کر دیتے تھے اور بچوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے مار ڈالتے تھے۔ (قرآن۶:۱۰۱۔ ۱۶:۵۸، ۵۹۔ ۱۷:۳۱۔ ۸۱:۸)لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سنگ دلی بڑے پیمانے پر رائج تھی کیونکہ عرب اپنے دشمن سے حفاظت کے لیے دوسروں کی بہ نسبت کہیں زیادہ اوّلاد کے محتاج تھے اور اس کا احساس بھی رکھتے تھے۔
جہاں تک سگے بھائیوں، چچیرے بھائیوں، اور کنبے قبیلے کے لوگوں کے باہمی تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ خاصے پختہ اور مضبوط تھے۔ کیونکہ عرب کے لوگ قبائلی عصبیت ہی کے سہارے جیتے اور اسی کے لیے مرتے تھے۔ قبیلے کے اندر باہمی تعاون اور اجتماعیت کی روح پوری طرح کار فرماہوتی تھی۔ جسے عصبیت کا جذبہ مزید دو آتشہ رکھتا تھا۔ درحقیقت قومی عصبیت اور قرابت کا تعلق ہی ان کے اجتماعی نظام کی بنیاد تھا۔ وہ لوگ اس مثل پر اس کے لفظی معنی کے مطابق عمل پیرا تھے کہ ((انصر أخاک ظالمًا أو مظلومًا)) (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم) اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسلام کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ، البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ، جیسا کہ اَوس وخزرج ، عَبْس و ذُبَیْان اور بکر و تَغْلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حِدّ ت و شِدّت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاۃ، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصول معاش
کے لیے سراپا رحمت ومدد تھے۔ کیونکہ عرب ان کی حرمت کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ابو رجاء عطاری کہتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آجاتا توہم کہتے کہ یہ نیزے کی انیاں اتارنے والا ہے۔ چنانچہ ہم کوئی نیزہ نہ چھوڑتے جس میں دھار دار برچھی ہوتی مگر ہم وہ برچھی نکال لیتے اور کوئی تیر نہ چھوڑتے جس میں دھار دار پھل ہوتا مگر اسے بھی نکال لیتے اور رجب بھر اسے کہیں ڈال کر پڑا چھوڑ دیتے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر ۴۳۷۶ )اسی طرح حرام کے بقیہ مہینوں میں بھی۔ (فتح الباری ۸/۹۱
)
خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ، اپنی رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔