• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جب تم کسی شہر میں داخل ہو تو اُس کی پیاز کھا لو

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
جب تم کسی شہر میں داخل ہو تو اُس کی پیاز کھا لو

الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد:
محترم قارئین! ایک بھائی نے درج ذیل حدیث کی صحت و ضعف کے تعلق سے سوال کیا :

”إِذَا دَخَلْتُمْ بِلَادًا فَكُلُوا مِنْ بَصَلِهَا،يُطْرَدْ عَنكُم وَبَاءُهَا“

راقم اپنے اِس بھائی کو جواب دیتے ہوئے روایت ہذا کی مفصل تحقیق پیش کر رہا ہے، ملا حظہ فرمائیں:

امام ابو القاسم عبد الرحمن بن عمربن نصر الشیبانی الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی:410ھ) فرماتے ہیں:

”حدثنا خيثمة، قال: حدثنا جعفر بن عنبسة، قال: حدثنا أحمد بن عمر البجلي، قال: حدثنا محمد بن فضيل، عن عبد الرحمن بن زيد، عن أبيه زيد، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول اللہِ ﷺ: إِذَا دَخَلْتُمْ بِلَادًا فَكُلُوا بَصَلَهَا، يُطْرَدُ عَنكُم وَبَاءُهَا“.

[ترجمہ] حسین بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم کسی شہر میں داخل ہو تو اُس کی پیاز کھا لو، اُس شہر کی بیماریاں تم سے دور کر دی جائیںگی ۔

[تخریج] فوائد ابن نصر عن مشايخه بتحقیق حمزة الجزائري،ص:76، ح:63 والآثار المروية في الأطعمة السرية لابن بشکوال بتحقیق أبو عمار محمد ياسر،ص:265،ح:95.

[حکم حدیث] یہ حدیث منکر ہے اور اِس کی سند سخت ضعیف اور منقطع ہے۔

[سبب] روایت ہذا کی سند میں دو (2) علتیں ہیں:

(1) أَبُو جَعْفَر مُحَمَّد بن عَلِي بن الحُسَيْن البَاقِر الفَاطِمِي، المَدَنِي :
آپ ثقہ ہیں لیکن اپنے دادا حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے آپ کی روایت مرسل ہوتی ہے۔

ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی:241ھ) :
”ثقة، قوي الحديث“ ”آپ ثقہ ، قوی الحدیث ہیں“۔
(سؤالات المیمونی ،ت:361وموسوعة أقوال الإمام أحمد : 3/295،ت:2389)

امام ابو الحسن احمد بن عبد اللہ العجلی رحمہ اللہ(المتوفی:261ھ):
”تَابِعِيّ ثِقَة“ ”آپ تابعی ہیں، ثقہ ہیں“۔
(معرفة الثقات بتحقیق عبد العلیم البستوی :2/249، ت:1630)

امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ) :
(1) ”أبو جعفر الباقر محمد بن علي بن الحسين الإمام الثبت “
(تذكرة الحفاظ بتحقیق زكريا عميرات :1/93، ت:109)

(2) ”وَعَنْ جَدَّيْهِ: الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ مُرْسَلاً أَيْضاً“
”آپ نے اپنے دونوں دادا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے بھی مرسلا روایت کیا ہے“۔
(سير أعلام النبلاء بتحقیق مامون :4/401،ت:158)

امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
”ثقة فاضل“ ”آپ ثقہ فاضل ہیں“۔
(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:497،ت:6151)

عَبْدُ الرَّحْمَن بن زَيْد بن أَسْلَم المَدَنِي :

آپ سخت ضعیف اور متہم راوی ہیں، بعض ائمہ نے انہیں متروک کہا ہے۔

ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں :

امام ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی ،المعروف بابن سعد رحمہ اللہ(المتوفی:230ھ):
”وكان كثير الحديث ضعيفا جدا“ ”کثیر الحدیث اور سخت ضعیف تھا“۔
(الطبقات الكبرى بتحقیق محمد عبد القادر:5/484، ت:1414)

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (المتوفی : 233ھ):
”ليس حديثه بشئ، ضعيف“ ”اس کی حدیث کچھ نہیں ہے ، یہ ضعیف ہے“۔
(الجرح و التعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی: 5/233 ، ت: 1107واسنادہ صحیح)

امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ):
امام احمد کے بیٹے امام عبد اللہ بن احمد الشیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(1) ”وَكَانَ أَبِي يُضَعِّفُ عَبْدَ الرَّحْمَن بن زيد بن أسلم“
”میرے والد عبد الرحمن بن زید بن اسلم کو ضعیف قرار دیتے تھے“۔
(العلل ومعرفة الرجال بتحقیق وصي الله بن محمد عباس :2/135، رقم :1795)
(2) ”ضعيف“ ”یہ ضعیف ہے“۔
(الجرح والتعديل بتحقیق المعلمی:5/233،ت: 1107واسنادہ حسن)

امام ابوزرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:264ھ):
”ضعيف الحديث“ ”یہ ضعیف الحدیث ہے“۔
(الجرح والتعديل بتحقیق المعلمی:5/234،ت: 1107)

امام ابو حاتم محمد بن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”ليس بقوي الحديث ،كان في نفسه صالحا وفي الحديث واهيا، ضعفه علي ( يعني) ابن المديني جدا“
”یہ قوی الحدیث نہیں ہے ، فی نفسہ نیک تھااور حدیث میں سخت ضعیف تھا، امام ابن المدینی رحمہ اللہ نے اِسے سخت ضعیف قرار دیا ہے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی: 5/233-234،ت: 1107)

امام ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی رحمہ اللہ (المتوفی:279ھ):
”ضَعِيفٌ فِي الحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَعَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا مِنْ أَهْلِ الحَدِيثِ وَهُوَ كَثِيرُ الغَلَطِ“
”یہ حدیث میں ضعیف ہے۔ امام احمد، امام علی بن المدینی اور دیگر اہل الحدیث نے اسے ضعیف کہا ہےاور یہ کثرت سے غلطی کرنے والا ہے“۔
(سنن الترمذی بتحقیق بشار عواد :2/19، تحت الحدیث :632)

امام ابو بکر احمد بن عمرو العتکی ، المعروف بالبزار رحمہ اللہ (المتوفی:292ھ):
(1) ”وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ جِدًّا“ ”یہ سخت منکر الحدیث ہے“۔
(مسند البزار بتحقیق محفوظ الرحمن:1/414، تحت الحدیث:291)
(2) ”وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ لَيِّنُ الْحَدِيثِ“ ”عبد الرحمن لین الحدیث ہے“۔
(مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد :11/430، تحت الحدیث:5287)
(3) ”قد أجمع أهل العلم بالنقل على تضعيف أخباره التي رواها...وأنه ليس بحجة فيما يتفرد به“
”اہل الحدیث نے اس کی مرویات کی تضعیف پر اجماع کیا ہے۔۔۔ اور جس حدیث میں یہ منفرد ہو ، وہ لائق احتجاج نہیں ہے“۔
(مسند البزار بتحقیق عادل بن سعد :15/277، تحت الحدیث :8763)

زیر بحث روایت کو بیان کرنے میں یہ منفرد ہے۔
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعيب النسائی رحمہ اللہ (المتوفی : 303ھ):
”ضَعِيف مدنِي“ ”یہ ضعیف اور مدنی ہے“۔
(الضعفاء والمتروكون بتحقیق محمود إبراهيم زايد،ص:66، ت:360)

امام ابو یحیی زکریا بن یحیی الساجی رحمہ اللہ (المتوفی:307ھ):
”وهو منكر الحديث“ ”یہ منکر الحدیث ہے“۔
(تہذیب التہذیب:6/179، ت:361، الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند)

امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):
(1) ”لَيْسَ بِشَيْءٍ فِي الْحَدِيثِ“ ”یہ حدیث میں کچھ نہیں ہے“۔
(المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم: 1/202، رقم :157)
(2) ”كَانَ مِمَّن يقلب الْأَخْبَار وَهُوَ لَا يعلم حَتَّى كثر ذَلِك فِي رِوَايَته من رفع الْمَرَاسِيل وَإسْنَاد الْمَوْقُوف فَاسْتحقَّ التّرْك“
”یہ لا علمی میں حدیثوں کو الٹ پلٹ دیا کرتا تھا حتی کہ اِس مرویات میں اِس کی کثرت ہو گئی جیسے مرسل روایتوں اور موقوف سند کو مرفوع بنا دینا لہذا یہ ترک کا مستحق ہوا“۔(المجروحين بتحقیق محمود إبراهيم:2/57، ت:598)

امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وَعَبد الرحمن بن زيد بن أسلم له أحاديث حسان...وَهو ممن احتمله الناس وصدقه بعضهم، وَهو ممن يكتب حديثه“
”عبد الرحمن بن زید بن اسلم کی کئی اچھی حدیثیں ہیں۔۔۔ اور یہ اُن لوگوں میں سے ہیں جن کو لوگوں نے گوارا کیا ہے اور بعض نے اِن کی تصدیق بھی کی ہے اور اِن کی حدیث لکھی جائے گی“۔
(الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :5/448، ت:1105)

امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم رحمہ اللہ (المتوفی:405ھ):
”روى عَن أَبِيه أَحَادِيث مَوْضُوعَة، لَا يخفى على من تأملها من أهل الصَّنْعَة أَن الْحمل فِيهَا عَلَيْهِ“
”اس نے اپنے والد سے موضوع حدیثیں روایت کی ہیں ، صاحب فن میں سے جو ان موضوع احادیث پر غور کرے گا ، اس پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اِن موضوع احادیث کا ذمہ دار یہی ہے“۔
(المدخل إلى الصحيح بتحقیق الدکتور ربيع هادي،ص:154، ت:97)

امام ابونعیم احمد بن عبد اللہ الاصبہانی رحمہ اللہ (المتوفی:430ھ):
”حدث عَن أَبِيه بِالْمَنَاكِيرِ ،لَا شَيء“ ”اس نے اپنے والد سے منکر روایتیں بیان کی ہے، یہ کچھ نہیں ہے“۔
(الضعفاء بتحقیق فاروق حمادة ،ص:102، ت:122)

اور زیر بحث روایت انہوں نے اپنے والد سے ہی روایت کی ہے۔
امام ابو الفضل محمد بن طاہر الشیبانی ،المعروف بابن قیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی : 507ھ) :
”وَهُوَ لَيْسَ بِشَيْءٍ“ ”یہ حدیث میں کچھ نہیں ہے“۔
(تذكرة الحفاظ بتحقیق حمدی السلفی ،ص:18، ح:25)

امام ابو الحسن علی بن محمد الفاسی ، المعروف بابن القطان رحمہ اللہ (المتوفی :628ھ):
(1) ”وَهُوَ سَاقِط“ ”یہ ساقط ہے“۔
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام بتحقیق الحسين آيت :3/472)
(2) ”ضَعِيف“ ”یہ ضعیف ہے“۔
(بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام بتحقیق الحسين آيت :4/325)

امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) ”ضعفوه“ ”محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے“۔
(الكاشف بتحقیق محمد عوامة وغیرہ:1/628، ت:3196)
(2) ”عبد الرَّحْمَن واهٍ“ ”عبد الرحمن سخت ضعیف ہے“۔
(تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق بتحقیق مصطفى أبو الغيط:1/329، مسالۃ :291)

امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
(1) ”ضعيف“ ”ضعیف ہے“۔
(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:340، ت:3865)
(2) ”متفق على تضعيفه“ ”اِس کے ضعف پر اتفاق ہے“۔
(إتحاف المهرة بتحقیق مركز خدمة السنة والسيرة :12/97، ح:15163)
(3) ”ضعيف متروك“ ”ضعیف متروک ہے“۔
(التلخيص الحبير بتحقیق الدكتور محمد الثاني :1/52)
(4) ”عبد الرحمن ضعيف جدا“ ”عبد الرحمن سخت ضعیف ہے“۔
(مختصر زوائد مسند البزار بتحقیق صبری :2/295، ح:1887)

اب چند باتیں بطور فائدہ پیش خدمت ہیں :

[فائدہ نمبر :1] شیخ ابو عبد اللہ حمزہ الجزائری حفظہ اللہ زیر بحث روایت پر حکم لگاتے ہوئے فرماتے ہیں:
”الحدیث ضعیف جدا“ ”حدیث سخت ضعیف ہے“۔
(فی تحقیق فوائد ابن نصر عن مشايخه ،ص:76، ح:63)

[فائدہ نمبر :2]جعفر بن عنبسہ الکوفی رحمہ اللہ کی بابت امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی : 385ھ) فرماتے ہیں :
”يحدث عن الضعفاء ، لَيْسَ بِهِ بَأْس“ ”اِس نے ضعیف رواۃ سے حدیث بیان کی ہے ، اِس میں کوئی حرج نہیں ہے“۔
(سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني بتحقیق الدکتور موفق ، ص:107، ت:68)

امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی : 458ھ) امام ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ (المتوفی : 628ھ) نے اِن کو نہیں پہچانا ہے ۔
(دلائل النبوة : 2/427 و بيان الوهم والإيهام بتحقیق الدکتور الحسین :3/369)

راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اِن کو پہچانا ہے اور یہی کافی ہے کیونکہ آپ رحمہ اللہ فنِ جرح و تعدیل کے امام ہیں۔

[فائدہ نمبر :3] کشف الخفاء ومزیل الالباس للعجلونی میں زیر بحث روایت اِن الفاظ کے ساتھ ہے:
”إذا دخلتم بلدة وبيئة فخفتم وباءها، فعليكم ببصلها“.
(كشف الخفاء ومزيل الإلباس بتحقیق عبد الحمید : 1/101، رقم :228)

اب چند باتیں بطور تنبیہ پیش خدمت ہیں :

[تنبیہ نمبر :1]فوائد ابن نصر کی سند میں ”احمد بن عمر البجلی“ لکھا ہوا ہے۔
راقم کہتا ہے کہ سند میں موجود ” احمد بن عمر رحمہ اللہ“ کا پورا نام یہ ہے:
”أحمد بْن عمر بْن حفص بْن جَهْم بْن واقد أبو جعفر الكِنْديّ الكُوفيُّ الجلاب الضرير المقرئ المعروف بالوكيعيّ“
اور اِن کا ترجمہ کئی کتابوں میں ہے لیکن کسی بھی کتاب میں مجھے اُن کی نسبت ”البجلی“ نہیں مل سکی۔ واللہ اعلم۔

[تنبیہ نمبر :2] الآثار المرویہ فی الاطعمۃ السریہ لابن بشکوال بتحقیق محمد یاسر میں ”عن ابیہ زید“ کا اضافہ نہیں ہے۔

دیکھیں : الآثار المروية في الأطعمة السرية لابن بشکوال بتحقیق أبو عمار محمد ياسر،ص:265،ح:95.

[تنبیہ نمبر :3]شیخ الجزائری حفظہ اللہ فوائد ابن نصر کی تحقیق میں فرماتے ہیں :
”جعفر بن عنبسۃ قال الحاکم :يحدث عن الضعفاء. سؤالات الحاکم (68)“
راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ جس طرح شیخ حفظہ اللہ نے لکھا ہے ،اُس سے ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ جعفر بن عنبسہ الکوفی الیشکری رحمہ اللہ کی بابت ”يحدث عن الضعفاء“ امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہ بات اُس وقت انہوں نے کہی تھی جب امام حاکم رحمہ اللہ نے اُن سے ابن عنبسہ رحمہ اللہ کی بابت پوچھا تھا۔
اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”يحدث عن الضعفاء“ کہنے کے ساتھ ساتھ ”لَيْسَ بِهِ بَأْس“ بھی کہا تھا۔
دیکھیں : سؤالات الحاكم النيسابوري للدارقطني بتحقیق الدکتور موفق ، ص:107، ت:68.

[تنبیہ نمبر :4] شیخ الجزائری حفظہ اللہ نے فوائد ابن نصر کی تحقیق میں عبد الرحمن بن زید کے والد کو زید العمی کہا ہے۔
راقم با ادب عرض کرتا ہے کہ یہ بات بلا شبہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عبد الرحمن بن زید کے والد کا نام ”زید بن اسلم ابو اسامہ القرشی المدنی العدوی“ہے جبکہ زید العمی یہ ایک دوسرا راوی ہے ۔

[خلاصۃ التحقیق]زیر بحث روایت منکر اور سخت ضعیف ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم.

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
26-رجب -1441ھ
21-March-2020
 
Top