جب مطلق امر کا صیغہ بولا جائے تو اس کا کیا حکم ہوتا ہے؟
جب امر کا صیغہ اپنی مراد پر دلالت کرنے والے تمام قرائن سے خالی ہو تو وہ وجوب کا تقاضا کرتا ہے، یہی جمہور کا قول ہے اور اسی پر دلیلیں دلالت کرتی ہیں۔ مثلاً اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ابلیس سے یہ کہنا کہ : ﴿ مَا مَنَعَكَ أَلاَّ تَسْجُدَ إذْ أَمَرْتُكَ ﴾ [الأعراف:12] جب میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دے دیا تھا تو تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا؟
اسی طرح اللہ رب العالمین کا یہ فرمان کہ: ﴿ وَإذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لا يرْكَعُونَ ﴾ [المرسلات:48] جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے۔
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ : ﴿ فَلْيحْذَرِ الَّذِينَ يخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ [النور:63] تو جو لوگ رسول اللہﷺ کے حکم کی نافرمانی (مخالفت) کرتے ہیں ، وہ فتنے یا دردناک عذاب کے پہنچنے سے ڈریں۔
اسی طرح یہ فرمان الہٰی بھی کہ: ﴿ أَفَعَصَيتَ أَمْرِي ﴾ [طه:93] کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان عبرت نشان بھی کہ : ﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يكُونَ لَهُمُ الْخِيرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ﴾ [الأحزاب:36] جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کسی معاملہ کا فیصلہ کردیں تو کسی مؤمن مردوعورت کےلیے ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فرامین ہیں۔ ان تمام دلائل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مامور (جس کو حکم دیا گیا ہو) کےلیے سوائے امر کو سرانجام دینے کے اور کوئی راستہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ وعید سے خلاصی، عذاب اور نافرمانی کی عار (ذلت) سے نجات پاسکے۔
اسی طرح صحابہ ]کا بھی امر کے ذریعے وجوب پر استدلال کرنا اس قاعدے کی ایک اور دلیل ہے اور چونکہ اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے لہٰذا یہ اجماع ہے۔
پھر اسی طرح اہل لغت کا اس غلام کی مذمت بیان کرنا اور اسے نافرمانی سے موصوف کرنا جو اپنے آقا کے حکم کو سرانجام نہ دے ، بھی اس قاعدے کے درست ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کسی کی مذمت اور اسے نافرمان اسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ کسی واجب کو ترک کرے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر