• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جدید قواعد ِاملاء کے مطابق کتابت ِمصحف کی ممانعت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن اس رسم پر لکھا گیا ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریمﷺسے سنتے تھے۔
٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر میں والی بنا تو مصاحف میں وہی کروں گا جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔
صاحب الابریررحمہ اللہ نے اپنے شیخ عبدالعزیز الدباغ رحمہ اللہ سے ذکر کیا ہے کہ قرآن کا رسم اسرار مشاہدہ اور کمال رفعت میں سے ہے جو نبی کریمﷺکی زبان اقدس سے صادر ہوا ہے۔ جس میں صحابہ کرام وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے۔یہ نبی کریمﷺکی طرف سے توقیفی ہے جس کا آپﷺحکم دیتے تھے کہ ان کلمات کو معروف ہیئت پر الف کی زیادتی یا کمی وغیرہ کے ساتھ لکھا جائے۔ رسم قرآن بھی ایک راز ہے جس تک توفیق الٰہی کے بغیرعقول رسائی حاصل نہیں کرسکتیں۔جس طرح نظم قرآن معجزہ ہے اسی طرح قرآن کا رسم بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
رسم قرآن کے توقیفی ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ قرآنی آیت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اس نے کتابت قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے۔لفظ’’رحمت،نعمت‘‘ جیسے کلمات میں وقفاً تاء کے ساتھ اور ’’وسوف یؤت ‘‘ میں بغیر جازم کے یاء کے حذف اور تاء کے سکون کے ساتھ اور ’’یدع الانسان،ویمح،سندع ‘‘ میں حذف واؤ کے ساتھ تواتر سے ثابت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگر رسم عثمانی توقیفی نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی یہ خبر’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹) جھوٹی ہوجاتی جو کہ محال ہے۔ یعنی اگر رسم عثمانی غیر توقیفی ہوتا جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی وسعت علمی کے مطابق لکھا ہے جیسا کہ بعض کا خیال ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ لفظ ’’رحمت، نعمت‘‘ ھاء کے ساتھ وسوف یؤت، یاء کے ساتھ اور ویدع وغیرہ واؤ کے ساتھ نازل کئے گئے تھے جن کو صحابہ رضی اللہ عنہم نے خط سے عدم واقفیت اور جہالت سے تاء کے ساتھ، حذف یاء اور حذف واؤ سے لکھ دیا او رچودہ سو سال گزر جانے کے باوجود امت ان کی اس غلطی کی پیروی کرتی چلی آئی ہے یعنی نبی کریم ﷺکے زمانہ سے لے کر آج تک پوری اُمت قرآنی حروف کو بدلنے اور حذف وزیادتی کے جرم کی مرتکب ہوتی رہی ہے۔
اوراللہ تعالیٰ کی یہ خبر’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹) جھوٹی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی خبر کا جھوٹا ہونا محال اور باطل ہے۔ لہٰذا اس خبر نے اس اعتراض کو باطل کردیا جو رسم عثمانی کے عدم توقیفی ہونے پر کیا گیا۔ جب اس خبر نے عدم توقیفی کے نظریہ کو باطل کردیا تو اس کی ضد توقیف نبوی ہونا ثابت ہوگیا یعنی رسم عثمانی توقیفی ہے او راس میں تبدیلی کرنا حرام ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بعض ایسے آثار منقول ہیں، جن سے محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺحروف کو پہچانتے تھے اور علماء کی ایک جماعت کا یہی میلان ہے جن میں سے ابومحمد الشیبانی،ابوذرالھروی،ابوالولیدالباجی اور ابو الفتح النیسابوری رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے درج ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے۔
٭ ابن ابی الشیبہ رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے : ’’ ما مات رسول اﷲ حتی کتب و قرأ ‘‘ کہ نبی کریمﷺوفات سے پہلے لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔‘‘
٭ ابن ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریمﷺکا یہ قول نقل کیا ہے کہ آپﷺنے فرمایا: ’’رأیت لیلۃ أسري بي مکتوبا علی باب الجنۃ : الصدقۃ بعشر أمثالھا، والقرض ثمانیۃ عشر ‘‘’’میں نے معراج کی رات جنت کے دروازے پر یہ لکھا ہوا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ملتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺپڑھنا جانتے تھے۔
٭ ابن اسحاق رحمہ اللہ کی روایت میں قصہ حدیبیہ والی حدیث میں مذکور ہے کہ ’’ فأخذ رسول اﷲ الکتاب فکتب : ھذا ما قضی علیہ محمد بن عبداﷲ‘‘ ’’نبی کریمﷺنے ورق لیا اور اس پر لکھا کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے فیصلہ کیا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: ’’ولیس یحسن أن یکتب فکتب‘‘’’آپ کی کتابت خوبصورت نہیں تھی،پس آپ نے لکھا ‘‘تیسری روایت میں : ’’ فکتب بیدہ ‘‘ کی زیادتی ہے کہ آپﷺنے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں ، طبری رحمہ اللہ اور خازن رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اور یمنی رحمہ اللہ نے اپنی شرح میں نقل کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ’’کان علیہ السلام یقرأ من الکتاب و إن کان لا یکتب‘‘’’نبی کریمﷺکتاب پڑھ لیا کرتے تھے اگرچہ لکھ نہیں سکتے تھے۔‘‘اس اثر کو ابو البقاء رحمہ اللہ نے الکلیات میں اور ابوالمکارم رحمہ اللہ نے المدحۃ الکبریٰ میں ذکر کیا ہے۔
٭ ابوبکر النقاش رحمہ اللہ نے ابوکبشۃ السلولی رحمہ اللہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ ’’ إنہ قرأ صحیفۃ لعیینۃ بن حصن وأخبر بمعناہا‘‘نبی کریمﷺنے حضرت عینیہ بن حصن رضی اللہ عنہ کا صحیفہ پڑھا اور اس کا معنی بتایا۔ اس حدیث کو ابوحیان رحمہ اللہ نے اپنی بحر میں نقل کیا ہے اور انہوں نے فرمایا کہ نبیﷺکی کتابت کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔
(١) ایک صورت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلم کو ان کے ہاتھ میں جاری کردیا ہو اور قلم نے آپﷺکے قصد کے بغیر ہی لکھ دیا ہو۔
(٢) دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺکو اس وقت کتابت سکھا دی ہو جس طرح قراء ت سکھا دی تھی حالانکہ وہ پڑھنا نہیں جانتے تھے اور یہ آپ کے کمال معجزہ کی علامت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:آپﷺسے کتابت کے ثبوت کی روایات اگرچہ صحیح نہیں ہیں لیکن یہ بھی کوئی بعید بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو کتابت اور قراء ت دونوں کا علم عطا کردیا ہو اور ایسے آثار موجود ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ آپﷺحروف کے خط اور حسن تصویر کو پہچانتے تھے۔
٭ بخاری کی بعض روایات میں منقول ہے کہ نبی کریم ﷺنے اپنی وفات سے چار دن پہلے ’ اور یہ جمعرات کا دن تھا ‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا : ’’ایتونی بکتف أکتب لکم کتابا لا تضلوا من بعدي ‘‘’’میرے پاس شانہ لاؤ میں تمہیں کچھ لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوسکو۔‘‘
قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ’’ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ‘‘(العنکبوت:۴۸) کا انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ آپﷺکی تعلیم سے پہلے کی نازل کردہ ہے اور اس میں بھی آپﷺکا معجزہ کارفرما ہے کہ پہلے آپ اُمی تھے پھر ایسے عظیم الشان علوم لے کر آئے جن کا ایک اُمی سے صدور محال ہے۔آپ کا اُمی ہونے کے باوجود ایسے علوم لانا بھی کمال معجزہ کی دلیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمہور علماء کا خیال ہے کہ نبی کریمﷺلغوی معنی میں اُمی تھے، یعنی نہ لکھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھا ہوا پڑھ سکتے تھے۔ انہوں نے قرآنی آیت ’’ وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتٰبٍ‘‘ (العنکبوت:۴۸)اور حدیث رسولﷺ’’ نحن أمۃ أمیۃ لا نکتب ولا نحسب ‘‘ ہم اُمی امت ہیں نہ لکھ سکتے اور نہ گن سکتے ہیں، سے استدلا ل کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ آپﷺکا کتابت و قراء ت کو جاننا آپﷺکے اُمی ہونے کے معجزہ کو باطل کردیتا ہے کہ وہ نبی اُمی ہوں گے اور معجزات میں ایک معجزے کا دوسرے معجزہ کو ختم کردینا محال ہے اور حدیث میں ’’ فکتب ‘‘ کے الفاظ سے مراد ’’أمربالکتب‘‘ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔
الابی اور السنوسی رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے حق بات کہی ہے کہ آپﷺنے نہیں لکھا، لیکن اگر کوئی شخص اس کا قائل ہے تو اس سے کفر یا فسق لازم نہیں آتا بلکہ یہ ایک غلطی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
المواھب میں منقول ہے کہ صحیح ترین بات یہی ہے کہ آپﷺنے اپنے ہاتھ سے نہیں لکھا،کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ضرور تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتا۔
بعض نے فریقین کے دلائل میں تطبیق دے کر حیران کن کام کیا ہے کہ نبی کریمﷺاپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں امی تھے اور آخر حیات میں کتابت و قراء ۃ کو جانتے تھے۔ واﷲ أعلم
رسم عثمانی کے بارے میں بعض مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ صحابہ کرام کی طرف سے اصلاح کی گئی تھی جس کی مخالفت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح شیخ الاسلام عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ پہلی رسم پر آج مصحف کی کتابت جائز نہیں ہے۔ بعض متاخرین نے ذکر کیا ہے کہ رسم عثمانی کی اتباع فقط پہلے زمانے میں ضروری تھی اب نہیں ہے۔
مذکورہ تمام اقوال و آثار ناقابل توجہ اور ناقابل قبول ہیں، کیونکہ اس سے رسم کو بالتدریج ترک کرنا لازم آتا ہے اور ایک ایسی چیز جس کو سلف ثابت کرچکے ہیں جاہلوں کی جہالت کی رعایت کرتے ہوئے اس کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ خصوصاً جبکہ وہ قراء ت کے بنیادی ارکان میں سے ہو۔ علاوہ ازیں اس سے قراء تِ قرآنیہ اور علوم الاداء کے ضیاع کا خطرہ ہے۔

٭_____٭_____٭
 
Top