• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جرح وتعدیل میں محدثین وناقدین کا فیصلہ اجتہادی ہوتاہے

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
آپ کا سوال تھا :
یہ سوال پڑھ کرہرکوئی اندازہ لگاسکتاہے کہ آپ رجال پرحکم لگانے کو امراجتہادی کہنے سے حیران ہیں اور غالبا آپ نے اس سوال سے قبل یہی سمجھاتھا کہ رجال پر حکم لگانا امر اجتہادی نہیں ہے، واللہ اعلم۔
جی محترم ایسا ہی ہے آپ بالک ٹھیک سمجھے ہیں۔

آپ نے بزرگوں کی تصریحات کو غورسے نہیں پڑھا ورنہ ان میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی مل جاتا ۔
بہرحال میں آپ کو کچھ مقدمات سمجھانے کی کوشش کرتاہوں اگر یہ مقدمات آپ کی سمجھ میں آگئے توبزرگوں کی تصریحات میں آپ کو ’’کیسے‘‘ کا جواب بھی نظر آجائے گا۔

آپ مجھے یہ بتادیں کہ :
کیا شرعی مسائل میں اہل علم کے اجتہاد کے آپ قائل ہیں یا نہیں ؟؟؟
جی ہاں میں فقہی مسائل میں شرعی اجتہاد کا قائل ہوں

اگرہاں تو کیسے ؟؟ کیا آپ اس لئے اس بات کے قائل ہیں کہ اہل علم نے تصریح کی ہے کہ شرعی مسائل میں اجتہاد ہوتا ہے ،اورآپ ان اہل علم کی تقلید کررہے ہیں؟ یا آپ کے پاس یہ چیز ماننے کی کوئی دلیل بھی ہے؟؟
ابتدآ میں نے سن کر مان لیا تھا۔ تقلیدآ اس بات کا قائل تھا۔ بعد میں عقلآ بھی قائل ہوگیا۔ اس لئے کہ غیر منصوص مسائل کا شرعی حل امت کو مطلوب ہوتا ہے اس کیلئے شرعی اجتہاد ہی واحد راستہ ہے۔

اگرشرعی مسائل میں اجتہاد کے لئے آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کردیں ۔
بعد میں جب خود مطالعہ کا شوق بڑھا تو نقل سے بھی اسکا جواز مل گیا۔ بنو قریظہ کا واقعہ مشہور ہے ۔
لایصلین احدن العصر الافی بنی قریظۃ فادرک بعضھم العصر فی الطریق فقال بعضھم لانصلی حتی ناتیھا وقال بعضھم بل نصلی لم یردمناذالک فذکر ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یعنف واحدا منھم
(بخاری)
تم میں سے کوئی بھی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں جاکر۔چنانچہ راستہ میں ان میں سے بعض پر عصر کی نماز کا وقت آگیا ۔ان میں سے بعض نے کہاکہ ہم توبنی قریظہ ہی میں جاکر نماز پرھیں گے۔ اوربعض دیگر نے کہاکہ ہم تونماز یہاں ہی پڑھیں گے کیونکہ آپ کا مطلب یہ نہیں تھا(ان کے کہنے کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں ہم عصر تک بنی قریظہ پہنچ سکتے تھے اسی لئے آپ نے یہ فرمایاہے۔انہوں نے نماز پرھ لی۔ جب آپ کے سامنے ذکر ہوا توآپ نے کسی کوملامت نہ کی۔

نص فہمی میں اختلاف کی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے اجتھادات فرمائے۔ اسی طرح اور بھی احادیث ہیں جن میں نص فہمی کے اختلاف سے صحابہ کے مختلف اجتھادات ملتے ہیں۔ جبکہ رجال پر حکم لگانے کا کوئی اجتھاد ہمیں نہیں ملتا۔ منافقین کے معاملے میں بھی بذریعہ وحی آپکو اطلاع دی گئی۔ ایک جہاد کے موقع پر کسی صحابی نے کافر کو جب گرایا تو اس نے کلمہ پڑھا صحابی سمجھا کہ وہ جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ صحابی نے انھیں قتل کردیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نےناراضگی کا اظہار فرمایا اور ہیاں تک فرمایا کہ کیا اسکا سینہ کھول کر دیکھ لیا تھا کہ اس میں ایمان نہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ایک بات اوربتادیں پھر میں اپنی بات رکھتا ہوں ۔
اہل علم میں مسلم ہے کہ شریعت کا مسئلہ بتانے میں مجتہد اگر صحیح فیصلہ کرے تو دو اجر اور اگرغلطی کرجائے تب بھی ایک اجرہے۔

کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں ؟؟؟؟؟
اگرہاں تو اس کی دلیل بھی لکھ دیں ، جو یقینا آپ کو معلوم ہوگی۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ایک بات اوربتادیں پھر میں اپنی بات رکھتا ہوں ۔
اہل علم میں مسلم ہے کہ شریعت کا مسئلہ بتانے میں مجتہد اگر صحیح فیصلہ کرے تو دو اجر اور اگرغلطی کرجائے تب بھی ایک اجرہے۔

کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں ؟؟؟؟؟
اگرہاں تو اس کی دلیل بھی لکھ دیں ، جو یقینا آپ کو معلوم ہوگی۔
جی یہ بات حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو میں مانتا ہوں اور اسکی دلیل یہ حدیث ہے

اذا حکم الحاکم فا جتھد واصاب فلہ اجران واذا حکم فاجتھدوا اخطاء فلہ اجر واحد
بخاری جلد ٢ ص١٠٩٣
مسلم جلد ٢ صفحہ ٧٦

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملےگا۔ ہاں جو نا اہل ہو اسکو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اسکا حق کو پا لینا محض اتفاقی ہے کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گنہگار ہے۔ حق کے موافق ہوں یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اسکا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے۔
شرح مسلم ج2 ص76
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
کفایت اللہ بھائی آپ اپنی بات (مقدمات) ہمیں سمجھا ہی دیں
محترم بھائی میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ:
ایک بات اوربتادیں پھر میں اپنی بات رکھتا ہوں ۔
اہل علم میں مسلم ہے کہ شریعت کا مسئلہ بتانے میں مجتہد اگر صحیح فیصلہ کرے تو دو اجر اور اگرغلطی کرجائے تب بھی ایک اجرہے۔
کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں ؟؟؟؟؟
اگرہاں تو اس کی دلیل بھی لکھ دیں ، جو یقینا آپ کو معلوم ہوگی۔
اس کے جواب میں آپ نے لکھا:
جی یہ بات حدیث سے ثابت ہے اس لئے اس کو میں مانتا ہوں اور اسکی دلیل یہ حدیث ہے

اذا حکم الحاکم فا جتھد واصاب فلہ اجران واذا حکم فاجتھدوا اخطاء فلہ اجر واحد
بخاری جلد ٢ ص١٠٩٣
مسلم جلد ٢ صفحہ ٧٦

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مجتہد ہر اجتہاد میں اجر پاتا ہے اگر اس کا اجتہاد درست نکلا تو دو اجر کا مستحق ہے، ایک اجر اجتہاد کا دوسرا اصابت کا اور اگر اجتہاد خطا نکلا تو بھی ایک اجر اجتہاد کا ملےگا۔ ہاں جو نا اہل ہو اسکو اجتہاد سے حکم کرنا کسی حال میں جائز نہیں بلکہ وہ گنہگار ہے۔ اس کا حکم نافذ بھی نہ ہوگا۔ اگرچہ حق کے موافق ہو یا مخالف کیونکہ اسکا حق کو پا لینا محض اتفاقی ہے کسی اصلِ شرعی پر مبنی نہیں۔ پس وہ تمام احکام میں گنہگار ہے۔ حق کے موافق ہوں یا مخالف اور اس کے نکالے ہوئے تمام احکام مردود ہیں اسکا کوئی عذر شرعاً مقبول نہیں وہ دوزخی ہے۔
شرح مسلم ج2 ص76
عرض ہے کہ یہی حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ رجال پر حکم لگانا بھی اجتہادی امر ہے، اوریہاں بھی صحیح فیصلہ پر دو اجر اورغلط فیصلہ پر ایک اجر ملے گا۔

یادرہے کہ ہم نے شریعت کے مسئلہ میں اجتہاد اوراس پر اجر کی دلیل طلب کی تھی اور آپ نے ایسی حدیث پیش کی جس میں حاکم کے فیصلہ کی بات ہے ۔
اب اگر حاکم کے فیصلہ میں شرعی مسائل سے متعلق فیصلہ بھی شامل ہے تو اسی میں رجال سے متعلق فیصلہ بھی شامل ہے ، ورنہ آپ فرق کی دلیل پیش کریں کہ یہ حاکم والی حدیث میں حاکم کے فیصلہ کے ساتھ شرعی مسائل کا فیصلہ بھی شامل ہے لیکن رجال کا فیصلہ شامل نہیں !!!

یہی وہ بات ہے جس کے بارےمیں ہم نے کہا تھا کہ یہ اوپر نقل کردہ اقتباس میں بھی ہے ۔
چنانچہ اس حدیث پر غور کرنے کے بعد یہ اقتباس دوبارہ پڑھیں :
امام منذري رحمه الله (المتوفى656)فرماتے ہیں:
واختلاف هؤلاء كاختلاف الفقهاء، كل ذلك يقتضيه الاجتهاد، فأن الحاكم إذا شهد عنده بجرح شخص، اجتهد في أن ذلك القدرمؤثر أم لا؟ وكذلك المحدث إذا أراد الاحتجاج بحديث شخص ونقل إليه فيه جرح، اجتهد فيه هل هو مؤثر أم لا؟ ويجري الكلام عنده فيما يكون جرحا ، في تفسير الجرح وعدمه، وفي اشتراط العدد في ذلك، كما يجري عند الفقيه، ولا فرق بين أن يكون الجارح مخبرا بذلك للمحدث مشافهة أو ناقلا له عن غيره بطريقه، والله عز وجل أعلم. [جواب الحافظ المنذري عن أسئلة في الجرح والتعديل ص: 83]۔
ان محدثین کا اختلاف فقہاء کے اختلاف کی طرح ہے ، یہ سب کچھ اجتہاد کی بنا پرہوتا ہے ، کیونکہ حاکم کے پاس جب کسی شخص سے متعلق جرح پیش ہوتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں ، اسی طرح محدث جب کسی راوی کی حدیث سے حجت پکڑنا چاہتا ہے اور اوراس راوی سے متعلق اسے جرح ملتی ہے تو وہ اجتہاد کرتا ہے کہ یہ جرح اثرانداز ہوگی یا نہیں اوراس کے نزیک اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ جرح مفسر ہے یا نہیں ، اسی طرح جارحین کا تعداد کتنی ہے ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ فقیہ کے ساتھ بھی ہوتا ہے ، اوراس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ جارح اپنی جرح سے محدث کو براہ راست خبردیتا ہے یا دوسرے کی جرح اپنی سند سے پیش کرتا ہے۔

نیز امام ذھبی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ہم نے جو لکھا تھا اسے بھی دوبارہ پڑھیں:
اورجس طرح فقہی امورمیں مجتہد سے غلطی ہوجائے تواس کے لئے ایک اجرہے اسی طرح جرح وتعدیل کے امور میں بھی کسی مجتہدسے غلطی ہوجائے تو اس کے لئے ایک اجرہے یہ بات ہماری نہیں امام ذہبی کی ہے ، چنانچہ:


امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
ولكنَّ هذا الدين مؤيَّد محفوظ من الله تعالى ، لم يَجتمع علماؤه على ضلالة ، لا عَمْداً ولا خطأ ، فلا يَجتمِعُ اثنانِ على توثيقِ ضعيف ، ولا على تضعيفِ ثقة ، وإنما يقعُ اختلافُهم في مراتبِ القُوَّةِ أو مراتبِ الضعف . والحَاكمُ منهم يَتكلَّمُ بحسبِ اجتهادِهِ وقُوَّةِ مَعارِفِه ، فإن قُدِّرَ خطؤه في نقده ، فله أجرٌ واحد ، والله الموفق . [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 20، ]۔
لیکن یہ دین موید اوراللہ کی طرف سے محفوظ ہے، اس فن کے علماء گمراہی پرجمع نہیں ہوئے نہ جان بوجھ کراورنہ ہی غلطی سے ، پس کسی ضعیف راوی کی توثیق پر یا ثقہ راوی کی تضعیف پر دو امام جمع نہیں ہوسکتے ، بلکہ ان کااختلاف قوۃ و ضعف کے مرتبہ پر ہوتا ہے ، اوران میں فیصلہ کرنے والا اپنے اجتہاد اور اپنی معلومات کے بقدرکلام کرتا ہے، پس اگر اپنے نقد میں وہ غلطی کرجائے تب بھی اسے ایک اجرملے گا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِىِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- تُرِيدُ الصَّلاَةَ فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَهَا فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا فَصَاحَتْ فَانْطَلَقَ وَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ فَقَالَتْ إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِى كَذَا وَكَذَا. وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ فَقَالَتْ إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِى كَذَا وَكَذَا. فَانْطَلَقُوا فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِى ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَتَوْهَا فَقَالَتْ نَعَمْ هُوَ هَذَا. فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ لِيُرْجَمَ قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِى وَقَعَ عَلَيْهَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا. فَقَالَ لَهَا « اذْهَبِى فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ ». وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلاً حَسَنًا وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِى وَقَعَ عَلَيْهَا « ارْجُمُوهُ ». وَقَالَ « لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ ».[سنن الترمذى 6/ 35، ]۔
علقمہ بن وائل کندی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی تو راستے میں ایک آدمی نے اسے پکڑ لیا اور اپنی حاجت پوری کر کے چل دیا۔ وہ چیختی رہ گئی پھر اس کے پاس سے ایک دوسرا آدمی گزرا تو اس نے بتایا کہ اس شخص نے اس کے ساتھ اس طرح کیا ہے پھر مہاجرین کی ایک جماعت وہاں سے گذری تو انہیں بھی بتایا ان لوگوں نے دوڑتے ہوئے اس شخص کو پکڑ لیا جس کے متعلق اس عورت کا خیال تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے جب اس آدمی کو اس عورت کے سامنے لائے تو اس نے کہا ہاں یہی ہے۔ پھر وہ اسے رسول اللہ کے پاس لائے اور آپ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا تو اسی وقت ایک اور آدمی کھڑا ہوا جس نے درحقیقت اس عورت کے ساتھ زنا کیا تھا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ جاؤ اللہ نے تمہیں بخش دیا پہلے آدمی سے اچھا کلام کیا اور زانی کے بارے میں فرمایا کہ اسے سنگسار کر دو۔(ترجمہ ایزی قران وحدیث)
ابن الجارود کی روایت میں ہے:

فَجَاؤُوا بِهِ يَقُودُونَهُ إِلَيْهَا فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا الَّذِي أَعَنْتُكِ وَقَدْ ذَهَبَ الْآخَرُ فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَخْبَرَهُ الْقَوْمُ أَنَّهُمْ أَدْرَكُوهُ يَشْتَدُّ فَقَالَ: إِنَّمَا كُنْتُ أُعْيِنُهَا عَلَى صَاحِبِهَا فَأَدْرَكَنِي هَؤُلَاءِ فَأَخَذُونِي فَقَالَتْ: كَذَبَ هُوَ الَّذِي وَقَعَ عَلَيَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ» قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ النَّاسِ فَقَالَ: لَا تَرْجُمُوهُ وَارْجُمُونِي أَنَا الَّذِي فَعَلْتُ بِهَا الْفِعْلَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔[المنتقى لابن الجارود ص: 209 ].
یعنی صحابہ اس شخص کو پکڑ کرلائے جو عورت کی مدد کے لئے دوڑا تھا ، تو وہ شخص عورت سے کہنے لگا میں تو آپ کی مدد کررہا تھا اور اصل مجرم فرار ہوچکا ہے ، تو ان سب کو لے کر صحابہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، تو عورت نے بتایا کہ اسی شخص نے اس کے ساتھ بدکاری کی ہے ، اورصحابہ نے کہا ہم نے اسی کو بھاگتے ہوئے پکڑا ہے ، تو اس شخص نے کہا : میں تو اس عورت کی مجرم کے خلاف مدد کررہا تھا اوراسی دوران مجھے ہی پکڑ لیا گیا ، یہ سن کر عورت نے کہا یہ جھوٹ کہتا ہے اسی نے میرے ساتھ بدکاری کی ہے ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اسے لے جاؤ اور رجم کردو ،پھر ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اوراس نے کہا : اسے رجم نہ کرو بلک مجھے رجم کرو کیونکہ میں نے ہی اس کے ساتھ بدکاری کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی اخر الحدیث


اس حدیث میں غور کریں کہ بعض لوگوں کی خبر قابل قبول ہے کہ نہیں اس بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتہاد کیا اورفیصلہ بھی دے دیا ۔
یعنی ایسے لوگوں کی بات قبول کی تھی جن کی بات اس وقت قابل قبول نہ تھی ، اور بری شخص کی بات کو رد کردیا حالانکہ وہ اس وقت صحیح کہہ رہا تھا کہ اس کا قصور نہیں مطلب اس کی بات قابل قبول تھی ۔
یعنی اس موقع پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سسلسلے میں اجتہاد کیا کہ اس وقت کس کی بات قابل قبول ہے اور کس کی نہیں اوریہی اجتہاد رواۃ کے سلسلے میں بھی ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ ہر اجتہاد کی نوعیت الگ ہوتی ہے ، چنانچہ محدثین کسی کو ثقہ بتلانے ہیں یعنی اس کی بات قابل قبول ہے اورکسی کو ضعیف یعنی اس کی بات قابل قبول نہیں اور کسی کے بارے میں تفصیل کرتے ہیں کہ بعض حالات میں اس کی بات قابل قبول ہوگی اوربعض حالات میں نہیں ، اوریہ سب کچھ اجتہاد کی بناپر ہوتا ہے اوراس میں محدثین سے غلطی کا بھی امکان ہے اور ایسی صورت میں بھی انہیں کم از کم از ایک اجر ملے گا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722

آخر میں عرض کردوں کہ یہ سوال و جواب کا سیکشن ہے بحث ومباحثہ کا نہیں ، یہ سیکشن صرف اس لئے ہے کہ آپ اپنے کسی سوال سے متعلق ہمارا موقف جان سکیں بس ۔
اس لئے اس سیکش میں ایک بار سوال کریں اور اس کا جواب پاکر یہاں سے رخصت ہوجائیں ،خواہ آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں ، ہاں اگر جواب میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے دوبارہ پوچھ سکتے ہیں لیکن بات سمجھ میں آجائے مگر آپ کے نزدیک محل نظر ہو اور آپ بحث کرنا چاہتے ہوں تو اس کی اجازت اس سیکشن میں قطعا نہیں ہے ، البتہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ علوم حدیث سے متعلق کسی مسئلہ پربحث کریں تو حدیث سیکش کے دیگر ذیلی زمروں کا رخ کریں وہاں کوئی نیا دھاگہ شروع کریں اور جس قدر چاہیں بحث کریں ، اگر میرے پاس وقت رہا تو ساتھ دوں گا بصورت دیگر دوسرے حضرات سے آپ تبادلہ خیال کرسکتے ہیں ۔
 
Top