• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جسے کافر کہا جائے وہ کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے؟

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
جسے کافر کہا جائے وہ کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اکثر مشرکین و مرجئہ کو دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی سلفی منہج والا مسلمان کسی شرک اکبر یا نواقص الاسلام کے مرتکب کی تکفیر کرتا ہے اسے اس کے شرک و نواقض کی وجہ سے کافر کہتا ہے تو مشرکین چیخنا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو یہ وہابی لوگ کلمہ گوہ کو کافر کہتے ہیں کلمہ گوہ تو مسلمان ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کی تکفیر کر رہے ہیں وغیرہ ہالانکہ کلمہ کا صرف زبانی اقرار کر کے شرک اکبر و نواقض الاسلام کا ارتکاب کرنے والا مسلمان نہیں کافر و مشرک ہی ہوتا ہے لیکن یہ مشرکین ڈھٹائی کے ساتھ اپنے شرک کو اسلام مشرکین و مرتدین کو مسلمان اور اہل توحید و سلفی منہج والوں کو خوارج کے الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو خوارج مسلمانوں کی تکفیر کر رہے ہیں۔ پھر مشرکین اپنے شرک اور ارتکابِ نواقض سے توبہ کرنے کی بجائے اس شرک اکبر اور نواقض الاسلام کی وجہ سے مشرکین و مرتدین کی تکفیر کرنے والے ان سلفی منہج اہل توحید مسلمانوں کو ہی کافر کہنا شروع کر دیتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے اور دلیل کی طور پر یہ حدیث پیش کرتے نظر آتے ہیں :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ المُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا»، وَقَالَ عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ: سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ: سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کہے: اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔" عکرمہ بن عمار نے یحییٰ سے، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے ابو سلمہ سے انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔"

[صحیح البخاری، حدیث:
٦۱۰۳]

یہ حدیث کلمہ گو مشرکین و مرتدین کو کافر کہنے سے منع نہیں کرتی بلکہ اس حدیث میں "لِأَخِيهِ" کے الفاظ ہے جو کہ صرف مؤمنین کی تخصیص کرتے ہیں یعنی صرف اہل توحید مسلمان جو ہمارے ہم عقیدہ مؤمنین بھائی ہو اس کو کافر نہ کہا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی فرمایا : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ "بلاشبہ مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔" [سورة الحجرات، آیت: ۱۰] لہاذا یہ حدیث صرف مؤمنین کے لئے خاص ہے اور شرک اکبر و نواقض الاسلام کا ارتکاب کرنے والے اس سے مستثنیٰ ہے اور مؤمنین کو بھی بغیر کسی دلیل کے کافر کہنے کی ممانعت ہے اس حدیث میں اگر دلیل کے ساتھ کسی کو مسلم کو بھی کافر کہا جائے اور وہ کافر نہ ہوا تو بھی کافر کہنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا کیوں کہ کافر کہنے والا مسلم متأول شمار ہوگا جس سے صرف تاویل کی غلطی ہوئی ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى فِي الْقُرْآنِ: (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا) قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (قَدْ فَعَلْت) ، وَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ الْخَطَأِ الْقَطْعِيِّ فِي مَسْأَلَةٍ قَطْعِيَّةٍ أَوْ ظَنِّيَّةٍ ... فَمَنْ قَالَ: إنَّ الْمُخْطِئَ فِي مَسْأَلَةٍ قَطْعِيَّةٍ أَوْ ظَنِّيَّةٍ يَأْثَمُ، فَقَدْ خَالَفَ الْكِتَابَ وَالسُّنَّةَ وَالْإِجْمَاعَ الْقَدِيمَ "اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمارا مواخذہ مت فرمانا۔ [البقرة:۲۸٦] اس آیت کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: (میں نے تمہاری دعا قبول فرما لی ہے) یہاں پر کسی ظنی یا قطعی مسئلے میں یقینی خطا کی تفریق نہیں فرمائی۔۔۔ چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی بھی قطعی یا ظنی مسئلے میں خطا کھانے والا شخص گناہ گار ہو گا تو ایسا شخص کتاب و سنت اور قدیم اجماع کی مخالفت کر رہا ہے"

[مجموع فتاوىٰ شيخ الإسلام ابن تيمية: ۱۹/ ۲۱۰]


امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی صحیح البخاری میں انہیں الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے بَابُ مَنْ كَفَّرَ أَخَاهُ بِغَيْرِ تَأْوِيلٍ فَهُوَ كَمَا قَالَ جس نے بغیر تاویل کے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو وہ خود ویسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔ یعنی کوئی مسلمان تاویل کی غلطی کرتے ہوئے کسی اہل توحید مؤمن کو بھی کافر کہہ دے تو بھی کافر کہنے والا شخص کافر نہیں ہوگا اور سلف کا بھی یہی منہج رہا ہے جب خوارج نے قرآن میں تاویل کی غلطی کرتے ہوئے امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک کو کافر کہا پھر بھی کسی صحابی نے یا خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی خوارج کو کافر نہیں قرار دیا۔ بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہ تو خوارج کے پیچے نمازیں بھی پڑھتے رہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے:

ومما يدل على أن الصحابة لم يكفروا الخوارج: أنهم كانوا يصلون خلفهم، وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنه وغيره من الصحابة يصلون خلف نجدة الحروري، وكانوا أيضا يحدثونهم ويفتونهم ويخاطبونهم كما يخاطب المسلم المسلم، كما كان عبد الله بن عباس يجيب نجدة الحروري لما أرسل إليه يسأله عن مسائل ، وحديثه في البخاري، وكما أجاب نافع بن الأزرق عن مسائل مشهورة، وكان نافع يناظره في أشياء بالقرآن كما يتناظر المسلمان، وما زالت سيرة المسلمين على هذا، ما جعلوهم مرتدين كالذين قاتلهم الصديق رضي الله عنه

"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خوارج کی تکفیر نہیں کی ہے، اس پر دلالت کرنے والا ایک ثبوت صحابہ کرام کا خوارج کے پیچھے نماز پڑھنا ہے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ بہت سارے صحابہ کرام نجدۃ حروری کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، اور ان (خوارج) سے صحابہ کرام اسی طرح بات چیت کرتے اور مخاطب ہوتے تھے جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نجدہ الحروری کوجوابات دیتے تھے جب وہ ان سے مسائل کے بارے میں پوچھنے کے لیے ان کی طرف اپنے سوالات بھجواتا تھا، اور اس (واقعہ) کی حدیث بخاری کے اندر بھی مذکور ہے، اسی طرح نافع بن الازرق نے مشہور مسائل کا جواب دیا، اور نافع قرآن سے متعلق اشیاء میں اس سے اسی طرح مناظرہ کرتے تھے جیسے دو مسلمان آپس میں (ادب واخلاق) کے ساتھ مناظرے کرتے ہیں، مسلمانوں کا خوارج کے ساتھ یہی برتاؤ رہا اور انہوں نے کبھی خوارج کو ان مرتدین جیسا نہیں سمجھا جن کے خلاف صدیق رضی اللہ عنہ نے قتال کیا تھا۔"

[منهاج السنة النبوية: ۵/ ۲۴۷]

اس سے واضح دلیل ملتی ہے تاویل کی غلطی کرتے ہوئے کوئی مسلم اپنے کسی مؤمن بھائی کو کافر کہہ دے تو بھی کافر کہنے والا شخص کافر نہیں ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ متأول ہوتا ہے جیسا کہ خوارج تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے خوارج کو اس وجہ سے کافر نہیں کہا ۔ لیکن کوئی بغیر کسی دلیل یا تاویل صرف اسلام دشمنی میں ابو بکر، عمر، عثمان، اور معاویہ رضی اللہ عنہم یا دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر کہے یا برا کہے جیسے شیعہ کفار کہتے ہیں تو وہ ضرور کافر ہونگے کیوں کہ شیعہ کفار متأول نہیں بلکہ وہ تو قرآن کے ہی انکاری ہیں یعنی قرآن کے ہی تحریف شدہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں شیعہ کفار ابو عبداللہ محمد بن النعمان٬ ملقب بہ شیخ مفید کہتا ہے: ان الاخبار قد جاءت مستفیضة عن آئمه الھدی من آل محمد باختلاف القرآن وما احدثه بعض الظالمین من الحذف و النقصان "آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ آئمہ ہدی سے وارد ہونے والی ایسی روایات زبان زد خلق ہیں کہ قرآن میں اختلاف موجود ہے اور اس میں کچھ ظالموں (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ) کی طرف سے کانٹ چھانٹ اور نقصان کا صدور ہوا ہے۔" [اوائل المقالات:۹۳]

ایک اور کافر شیعہ نعمتہ اللہ الجزائری کہتا ہے: روی انھم فی الاخبار علیھم السلام امر شیعتھم بقراۃ ھذا الموجود من القرآن فی الصلاۃ و غیرھا والعمل باحکامه حتی یظھر مولانا صاحب الزمان فیر تفع ھذا القرآن من ایدی الناس الی السماء ویخرج القرآن الذی الّفه امیر المؤمنین علیه السلام فیقرأ و یعمل بأحمامه "روایات میں بیان کیا جاتا ہے کہ آئمہ علیہ السلام نے اپنے شیعوں کو موجودہ قرآن کی نماز وغیرہ میں قرات کا اور اس کے احکامات کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ ہمارے آقا صاحب الزمان کا ظہور ہو جائے چنانچہ (اس کے ظہور کے بعد) اس قرآن کو لوگوں کے پاس سے ختم کر کے آسمان پر اٹھا لیا جائے گا اور وہ قرآن لایا جائے گا جسے امیر المومنین علیہ السلام نے جمع کیا تھا پھر وہی پڑھا جائے گا اور پیروی بھی اسی کے احکامات کی ہوگی۔" [الانوار النعمانیة: ۲/ ۳
٦۰]

تحریف قرآن کا عقیدہ کفر ہے اور قرآن کی واضح نصوص إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ "بیشک ہم نے ہی قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" [سورہ الحجر آیت: ۹] کا انکار ہے اسی طرح شیعہ کفار کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو امام ماننے کا دعویٰ بھی صرف لوگوں کو دھوکہ دینا ہے کیوں کہ علی رضی اللہ عنہ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سب سے افضل قرار دیا ہے۔ (دیکھیں: صحيح البخاري، حدیث:
۳٦۷۱) اس کے باوجود بھی ایک شیعہ کافر باقر مجلسی زندیق بغیر کسی دلیل کے بغص اسلام میں کہتا ہے: ہر دو ابو بکر وعمرؓ کافر بودنددہر کہ ایشان رادوست دارد کافراست "ابوبکر و عمرؓ دونوں کافر تھے اور جو ان سے دوستی رکھے وہ بھی کافر ہے۔" [حق الیقین ص ۵۲۲] شیعہ کفار صرف اہل بیت سے محبت کا جھوٹا ڈراما کرتے ہیں ان شیعہ روافض کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسے روافض کفار کے متعلق ہی ہمارے موحد بھائی ابو ہشام حفظہ اللہ نے فرمایا ہے: "روافض ہر جگہ عام ہیں، چیر پھاڑ کر پھینک دو"

اسی طرح آج کے دور کے نیم رافضی بھی جو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے تو محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کاتب وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی گندی زبان سے زہر اگلتے ہیں وہ بھی کوئی متأول نہیں بلکہ صرف اسلام دشمنی میں ایسا کرتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راضح فرمان ہے: عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ ! اسے ہادی مہدی بنا دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے۔" [جامع ترمذی، حدیث: ۳۸۴۲]

یہ نیم روافض دلائل واضح ہونے کے بعد بھی ٹھیٹائی کے ساتھ حدیثوں کا انکار کرتے ہوئے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے نفرت کرتے ہیں لہاذا یہ نیم روافض بھی متأول نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدایت یافتہ صحابی سے بغض و عداوت رکھنے کی وجہ صرف اسلام دشمنی ہے ان نیم راوفض کا مقصد یہی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عجمعین اسلام کی شہ رگ ہے دین کی سند ہے لہاذا صحابہ کی عظمت پر وار کر کے صحابہ سے عوام کو بدظن کیا جائے تاکہ اسلام مشکوک ہو جائے۔ صحابہ سے نفرت در حقیقت اسلام سے نفرت ہے اور ایسا کرنے والے شیعہ کافر ہے کوئی متأول نہیں۔

بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ بخاری کی یہ روایت إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا کسی مشرک، مرتد، زندیق کی تکفیر میں مانع نہیں ہے اس روایت سے مشرکین کی تکفیر کو ممنوع سمجھنا سلفی منہج کے خلاف ہے۔ اور اگر کوئی شخص تاویل کی غلطی کرتے ہوئے دلیل کے ساتھ کسی مؤمن موحد مسلمان کو بھی کافر کہتا ہے تو کافر کہنے والا مسلمان کافر نہیں ہوگا یہ ملت سے خارج کر دینے والا عمل نہیں ہے اور اگر ایک مؤمن کسی دلیل کی بنا پر غلطی سے دوسرے مؤمن کی تکفیر بھی کر دے تو وہ متأول شمار ہوگا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے:


وإذا کان المسلم متأولا في القتال أو التکفیر لم یکفر بذالك کما قال عمر ابن الخطاب لحاطب بن أبی بلتعة: یا رسول الله دعني أضرب عنق هذا المنافق، فقال النبی صلی الله علیه سلم: إنه قد شهد بدرا، وما یدریك أن الله قد اطلع علی أهل بدر، فقال اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم وهذا في الصحیحین


"مسلمان جب کسی سے قتال کرنے یا کسی کو کافر کہنے میں متأول ہوتا ہے تو اس سے وہ کافر نہیں ہو جاتا جیسا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے اِس منافق کی گردن مارنے کی اجازت دیجیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بدر میں لڑے ہیں اور تمہیں معلوم نہیں اللہ تعالیٰ مجاہدینِ بدر کے احوال پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود ہی فرما چکا ہے کہ تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔ اور یہ صحیحین میں ہے۔"

[مجموع فتاوىٰ شيخ الإسلام ابن تيمية: ۳/ ۲۸۳]

جب ایک اہل توحید مسلمان کو کافر کہنے والا متاول مسلم کافر نہیں ہوتا تو مشرک، کافر، زیندیق کو کافر کہنے والا کیسے کافر ہو کستا ہے بلکہ شرک اکبر اور نواقض الاسلام کے مرتکب کو کافر کہنا اسکی تکفیر کرنا سلف کا منہج رہا ہے اور ایسا نہ کرنے والا یعنی مشرک کی تکفیر نہ کرنے والا اس کو مسلمان کہہ کر اس کے مزہب کو صحیح سمجھنے والا خود کافر ہو جاتا ہے کیوں کہ مشرکین کی تکفیر نہ کرنا خود ایک نواقص الاسلام ہے یعنی دین اسلام سے خارج کر دینے والا عمل ہے۔

امام محمد بن عبد الوہاب التمیمی رحمہ اللہ کا فرمان ہے: من لم يكفّر المشركين، أو شك في كفرهم، أو صحح مذهبهم: كفر "جو شخص مشرکین کی تکفیر نہ کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مزہب کو صحیح سمجهے وہ بهی کافر ہے-" [رسالہ نواقض الاسلام، النواقض الثالث] کچھ مشرکین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حکم صرف اصلی کافر کے متعلق ہے کلمہ گوه مشرک یا کلمہ پڑه کر شرک و کفر کرنے والے اور ارتداد کرنے والے اس حکم میں شامل نہیں تو ان مشرکین کا یہ دعوی بهی باطل ہے کیوں کہ سلف نے قرآن کو مخلوق کہنے والے کلمہ گوه کافر کے متعلق بهی یہی اصول بیان کیا ہے-

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے : القرآن كلام الله من قال مخلوق فهو كافر، ومن شك في كفره فهو كافر "قرآن اللہ کا کلام ہے اور جو شخص قرآن کو مخلوق کہتا ہے وہ کافر ہے اور جو شخص اس کے کفر میں شک کرتا ہے وہ بهی کافر ہے۔" [رواه البخاري في خلق أفعال العباد، ص
٣٧] لہاذا کلمہ گوہ مشرکین کی تکفیر کرنے کا بھی یہی حکم ہے اور جو مشرکین کی تکفیر نہیں کرتا وہ نواقض الاسلام کا مرتکب ہے۔ شرک اکبر اور اور نواقض الاسلام کا ارتکاب کرنے والے کی تکفیر کرنا لازمی ہے۔

شیخ حافظ عبد الجبار شاکر فک الله اسرہ کا فرمان ہے:

"نہ نہ نہ نہ کافر نہ کہنا! ابهی شیخ بیان کر رہے تهے شرک کرنے والے کو مشرک نہیں کہنا! رد کر رہے تهے اسکا کافر کو کافر نہیں کہنا! باطل نظام کے پوجاری کو کافر نہیں کہنا! اتنے اخلاق والے تم ہو گئے ہو! یہ اخلاق کی نشانی ہے! اسلام حسن اخلاق سے پهیلا ہے! تو پهر میرے ابراہیم علیہ السلام کیا تهے؟ کفرنا بکم یہ غیرت ہے غیرت، اللہ کے علاوہ جس کی پوجا ہو رہی ہو ہم انکو مسلمان سمجهے؟ اللہ کو للکارا جا رہا ہو ہم انکو مسلمان سمجهے؟ کفرنا بکم ہم تمہاری تکفیر کرتے ہیں۔ ہم تمہیں مسلمان نہیں سمجهتے۔ صرف اپنا مسلمان کہلوانا لازمی نہیں جو اللہ کا دشمن باغی ہے اسے کافر کہنا بهی لازمی ہے-"

[شیخ عبد الجبار شاکر حفظہ اللہ کا بیان بعنوان "ملت ابراہیم"]

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن، حدیث و منہج سلف کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے صحیح سلفی منہج پر قائم رکھے۔ آمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!
بالکل درست! کلمہ گو کی تکفیر ہی اصل میں مسئلہ تکفیر ہے، ورنہ جو کلمہ گو ہی نہیں اس کی تکفیر کا تو معالہ ہی نہین، وہ تو مسلمان ہونے کا مدعی ہی نہیں!

الله تعالیٰ سلفی منہج کو سمجھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے! نواقض اسلام پر اصولی تکفیر ایک الگ چیز ہے، اور کسی شخص پر اس کا اطلاق کرتے ہوئے، اس کی معین تکفیر لگ معاملہ ہے!
کلمہ گو کی تکفیر معین کے لئے لازم ہے کہ ان قواعد وضوابط کا اطلاق بھی کیاجائے، جو قرآن وحدیث سے علماء نے اخذ کیئے ہیں!
کسی کلمہ گو سے محض نواقض اسلام کے ارتکاب کودیکھ کر اس کی تکفیر معین کرنا نہ سلفی منہج ہے، اور نہ ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله اس کے قائل ہیں، اور نہ ہی یہ شیخ محمد بن عبد الوھاب کی دعوت و تعلیم ہے!

امام احمد بن حنبل رحمہ الله نے بھی قرآن کو مخلوق کہنے والوں کی تکفیر معین نہیں کی!
تو کیا امام سفیان بن عینہ کے اس قول کا اطلاق امام احمد بن حنبل پر بھی اسی طرح ہوگا، جیسا کہ یہاں سمجھا اور سمجھایا جا رہا ہے!
اور اگر امام احمد بن حنبل پر اس کا اطلاق نہ کیا تو کیا وہ بھی نواقض اسلام پر کسی کی تکفیر نہ کرتے ہوئے خود نواقض اسلام کا مرتکب ہو کر کافر قرار پائے گا!
داراصل یہ اسلاف کے اقوال کو سمجھنے میں غلطی ہے، اسی غلط فہمی کے پیش نظر شیخ الاسلام ابن تیمہ نے فرمایا ہے کہ اسلاف سے تکفیر کے بعض اقوال سے تکفیر معین مراد نہیں، بلکہ وعید بیان کرنا مقصود ہے!
وَكُنْت أُبَيِّنُ لَهُمْ أَنَّمَا نُقِلَ لَهُمْ عَنْ السَّلَفِ وَالْأَئِمَّةِ مِنْ إطْلَاقِ الْقَوْلِ بِتَكْفِيرِ مَنْ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا فَهُوَ أَيْضًا حَقٌّ، لَكِنْ يَجِبُ التَّفْرِيقُ بَيْنَ الْإِطْلَاقِ وَالتَّعْيِينِ. وَهَذِهِ أَوَّلُ مَسْأَلَةٍ تَنَازَعَتْ فِيهَا الْأُمَّةُ مِنْ مَسَائِلِ الْأُصُولِ الْكِبَارِ وَهِيَ مَسْأَلَةُ " الْوَعِيدِ " فَإِنَّ نُصُوصَ الْقُرْآنِ فِي الْوَعِيدِ مُطْلَقَةٌ كَقَوْلِهِ {إنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا} الْآيَةَ وَكَذَلِكَ سَائِرُ مَا وَرَدَ: مَنْ فَعَلَ كَذَا فَلَهُ كَذَا. فَإِنَّ هَذِهِ مُطْلَقَةٌ عَامَّةٌ. وَهِيَ بِمَنْزِلَةِ قَوْلِ مَنْ قَالَ مِنْ السَّلَفِ مَنْ قَالَ كَذَا: فَهُوَ كَذَا. ثُمَّ الشَّخْصُ الْمُعَيَّنُ يلتغي حُكْمُ الْوَعِيدِ فِيهِ: بِتَوْبَةِ أَوْ حَسَنَاتٍ مَاحِيَةٍ أَوْ مَصَائِبَ مُكَفِّرَةٍ أَوْ شَفَاعَةٍ مَقْبُولَةٍ.
(مجموع الفتاوى: صفحه 230 جلد 03
مطبوعہ مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية)

حافظ عبد الجبار شاکر کا ابراھیم علیہ السلام کے واقعہ سے کلمہ گو پر استدلال کرنا درست نہیں! کیونکہ ابراھیم علیہ السلام کا معاملہ کلمہ گو کے ساتھ نہیں تھا، بلکہ منکرین توحید کے ساتھ تھا!
 
Last edited:
Top