• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز ( خزانہ ) نہیں ہے۔

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الزکوۃ
باب : جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے وہ کنز ( خزانہ ) نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے

حدیث نمبر : 1404
وقال أحمد بن شبيب بن سعيد حدثنا أبي، عن يونس، عن ابن شهاب، عن خالد بن أسلم، قال خرجنا مع عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فقال أعرابي أخبرني قول الله، ‏{‏والذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله‏}‏ قال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ من كنزها فلم يؤد زكاتها فويل له، إنما كان هذا قبل أن تنزل الزكاة فلما أنزلت جعلها الله طهرا للأموال‏.‏
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے خالد بن اسلم نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے “ جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بناکر رکھتے ہیں۔ ” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰة نہ دی تو اس کے لیے ویل ( خرابی ) ہے۔ یہ حکم زکوٰة کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کا حکم نازل کردیا تو اب وہی زکوٰة مال ودولت کو پاک کردینے والی ہے۔

تشریح : یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّہَبَ وَالفِضَّۃَ ( التوبہ: 34 ) معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔ گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔ یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔ جسے امام مالک نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔ حدیث لیس فیمادون خمس اواق صدقۃ یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔ اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔ یہی چاندی کا نصاب ہے اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔

کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کل ما ادیت زکوتہ وان کان تحت سبع ارضین فلیس بکنز وکل مالا تودی زکوتہ فہو کنز وان کان ظاہرا علی وجہ الارض ( فتح الباری )

یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے ما ابالی لو کان لی مثل احد ذہبا اعلم عددہ ازکیہ واعمل فیہ بطاعۃ اللہ تعالیٰ ( فتح ) یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1405
حدثنا إسحاق بن يزيد، أخبرنا شعيب بن إسحاق، قال الأوزاعي أخبرني يحيى بن أبي كثير، أن عمرو بن يحيى بن عمارة، أخبره عن أبيه، يحيى بن عمارة بن أبي الحسن أنه سمع أبا سعيد ـ رضى الله عنه ـ يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ليس فيما دون خمس أواق صدقة، وليس فيما دون خمس ذود صدقة، وليس فيما دون خمس أوسق صدقة‏"‏‏.
ہم سے اسحاق بن یزید نے حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یحیٰی بن ابی کثیر نے خبر دی کہ عمروبن یحییٰ بن عمارہ نے انہیں خبر دی اپنے والد یحیٰی بن عمارہ بن ابولحسن سے اور انہو ںابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰة نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں ہے اور پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰة نہیں ہے۔

تشریح : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیہ کے دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتی ہے‘ یہ چاندی کا نصاب ہے۔ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے صاع چار مد کا۔ مدایک رطل اور تہائی رطل کا۔ ہندوستان کے وزن ( اسی تولہ سیر کے حساب سے ) ایک وسق پکے ساڑھے چار من یا پانچ من کے قریب ہوتا ہے۔ پانچ وسق ساڑھے بائیس من یا 25 من ہوا۔ اس سے کم میں زکوٰۃ ( عشر ) نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1406
حدثنا علي، سمع هشيما، أخبرنا حصين، عن زيد بن وهب، قال مررت بالربذة فإذا أنا بأبي، ذر ـ رضى الله عنه ـ فقلت له ما أنزلك منزلك هذا قال كنت بالشأم، فاختلفت أنا ومعاوية في الذين يكنزون الذهب والفضة ولا ينفقونها في سبيل الله‏.‏ قال معاوية نزلت في أهل الكتاب‏.‏ فقلت نزلت فينا وفيهم‏.‏ فكان بيني وبينه في ذاك، وكتب إلى عثمان ـ رضى الله عنه ـ يشكوني، فكتب إلى عثمان أن اقدم المدينة‏.‏ فقدمتها فكثر على الناس حتى كأنهم لم يروني قبل ذلك، فذكرت ذاك لعثمان فقال لي إن شئت تنحيت فكنت قريبا‏.‏ فذاك الذي أنزلني هذا المنزل، ولو أمروا على حبشيا لسمعت وأطعت‏.
ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا‘ انہوں نے ہشیم سے سنا‘ کہا کہ ہمیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں زید بن وہب نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) سے میرا اختلاف ( قرآن کی آیت ) “ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ” کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ ( جو ان دنوں خلیفة المسلمین تھے ) کے یہاں میری شکایت لکھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ ( وہاں جب پہنچا ) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔

تشریح : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ودرویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے‘ ایسی بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں۔ حضرت معاویہ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیں کوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے۔ ابوذر نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تو مدینہ سے نکل جاؤ مگر اصلاح کے طورپر بیان کیا۔ ابوذر نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا۔ اور وہ ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔

امام احمد اور ابویعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا تھا جب تو مدینہ سے نکالا جائے گا تو کہاں جائے گا؟ تو انہوں نے کہا شام کے ملک میں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف میں آجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیاکرے گا۔ ابوذر نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپ نے فرمایا بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی بات سن لینا اور مان لینا۔ وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ حضرت ابوذر نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخردم تک ربذہ ہی میں رہے۔
جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ آخر ابوذر کو ایک پیش گوئی یا دآئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جابیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے اور صورت حال معلوم کرکے رونے لگے‘ پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا ( رضی اللہ عنہم )
علامہ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وفی ہذا الحدیث من الفوائد غیرماتقدم ان الکفار مخاطبون بفروع الشریعۃ لاتفاق ابی ذر ومعاویۃ ان الایہ نزلت فی اہل الکتاب وفیہ ملاطفۃ الائمۃ للعلماءفان معاویۃ لم یجسر علی الانکار علیہ حتی کاتب من ہو اعلیٰ منہ فی امرہ وعثمان لم یحنق اعلیٰ ابی ذرمع کونہ کان مخالفا لہ فی تاویلہ فیہ التحذیر من الشقاق والخروج علی الائمۃ والترغیب فی الطاعۃ لاولی الامر وامر الافضل بطاعۃ المفضول خشیۃ المفسدۃ وجواز الاختلاف فی الاجتہاد والاخذ بالشدۃ فی الامر بالمعروف وان ادی ذالک الی فراق الوطن وتقدیم دفع المفسدۃ علی جلب المنفعۃ لان فی بقاءابی ذر بالمدینۃ مصلحۃ کبیرۃ من بث عملہ فی طالب العلم ومع ذالک فرجع عند عثمان دفع مایتوقع عند المفسدۃ من الاخذ بمذہبہ الشدید فی ہذہ المسئلۃ ولم یامرہ بعد ذالک بالرجوع عنہ لا ن کلا منہما کان مجتہدا۔
یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں حضرت ابوذر اور حضرت معاویہ یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماءکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔ حضرت معاویہ نے یہ جسارت نہیں کی کہ کھلم کھلا حضرت ابوذر کی مخالفت کریں بلکہ یہ معاملہ حضرت عثمان تک پہنچادیا جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے اور واقعات معلوم ہونے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق وشقاق سے ڈرنا ہی چاہیے اور ائمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہیے بلکہ اولوالا مرکی اطاعت کرنی چاہیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امربالمعروف کرنا ہی چاہیے خواہ اس کے لیے وطن چھوڑنا پڑے اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیے اگرچہ وہ نفع کے خلاف بھی ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا‘ اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہ یہاں مدینہ میں رہیں گے تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیںفرمایا۔ اس لیے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔

خلاصہ الکلام یہ کہ حضرت ابوذر اپنے زہد وتقویٰ کی بناپر مال کے متعلق بہت شدت برتتے تھے اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ان سے زیادہ تعرض کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا‘ باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔

حدیث نمبر : 1407
حدثنا عياش، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا الجريري، عن أبي العلاء، عن الأحنف بن قيس، قال جلست‏.‏ وحدثني إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد، قال حدثني أبي، حدثنا الجريري، حدثنا أبو العلاء بن الشخير، أن الأحنف بن قيس، حدثهم قال جلست إلى ملإ من قريش، فجاء رجل خشن الشعر والثياب والهيئة حتى قام عليهم فسلم ثم قال بشر الكانزين برضف يحمى عليه في نار جهنم، ثم يوضع على حلمة ثدى أحدهم حتى يخرج من نغض كتفه، ويوضع على نغض كتفه حتى يخرج من حلمة ثديه يتزلزل، ثم ولى فجلس إلى سارية، وتبعته وجلست إليه، وأنا لا أدري من هو فقلت له لا أرى القوم إلا قد كرهوا الذي قلت‏.‏ قال إنهم لا يعقلون شيئا‏.‏
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید جریری نے ابوالعلاءیزید سے بیان کیا‘ ان سے احنف بن قیس نے‘ انہوں نے کہا کہ میں بیٹھا تھا ( دوسری سند ) اور امام بخاری نے فرمایا کہ مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا مجھ سے سعید جریری نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوالعلاءبن شخیر نے بیان کیا‘ ان سے احنف بن قیس نے بیان کیا کہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں سخت بال‘ موٹے کپڑے اور موٹی جھوٹی حالت میں ایک شخص آیا اور کھڑے ہوکر سلام کیا اور کہا کہ خزانہ جمع کرنے والوں کو اس پتھر کی بشارت ہو جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی بھٹنی پر رکھ دیا جائے گا جو مونڈھے کی طرف سے پار ہوجائے گا۔ اس طرح وہ پتھر برابر ڈھلکتا رہے گا۔ یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے اور ایک ستون کے پاس ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا اور ان کے قریب بیٹھ گیا۔ اب تک مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بات قوم نے پسند نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ سب تو بے وقوف ہیں۔

حدیث نمبر : 1408
قال لي خليلي ـ قال قلت من خليلك قال النبي صلى الله عليه وسلم ـ ‏"‏ يا أبا ذر أتبصر أحدا‏"‏‏. ‏ قال فنظرت إلى الشمس ما بقي من النهار وأنا أرى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يرسلني في حاجة له، قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏ ما أحب أن لي مثل أحد ذهبا أنفقه كله إلا ثلاثة دنانير‏"‏‏. ‏ وإن هؤلاء لا يعقلون، إنما يجمعون الدنيا‏.‏ لا والله لا أسألهم دنيا، ولا أستفتيهم عن دين حتى ألقى الله‏.‏
مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں؟ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اے ابوذر! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے۔ کیونکہ مجھے ( آپ کی بات سے ) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں ( احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے ) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھتا کہ صرف تین دینار بچا کر باقی تمام کا تمام ( اللہ کے راستے میں ) دے ڈالوں ( ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا کہ ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں’ یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں خدا کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تا آنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جاملوں۔

تشریح : شاید تین اشرفیاں اس وقت آپ پر قرض ہوں گی یا یہ آپ کا روزانہ کا خرچ ہوگا۔ حافظ نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مال جمع نہ کرے۔ مگر یہ اولویت پر محمول ہے کیونکہ جمع کرنے والا گو زکوٰۃ دے تب بھی اس کو قیامت کے دن حساب دینا ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو آئے خرچ کر ڈالے مگر اتنا بھی نہیں کہ قرآن پاک کی آیات کے خلاف ہو جس میں فرمایا وَلاَ تَبسُطہَا کُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلُوماً مَحسُوراً ( بنی اسرائیل: 29 ) یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادرہ نہ کرو کہ تم خالی ہوکر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کو بچانے کے لیے اس کے ہاتھ میں مال کا ہونا مفید ہوگا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض دفعہ محتاجگی کافر بنادیتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ درمیانی راستہ بہتر ہے۔
 
Top