• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس چیز سے روکا گیا ہو، نہی اس کے فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے: (اصول الفقہ)

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
جس چیز سے روکا گیا ہو، نہی اس کے فاسد ہونے کا تقاضا کرتی ہے:

جن چیزوں سے روکا جاتا ہے ، ان کی دوقسمیں ہوتی ہیں:

پہلی وہ قسم ہے کہ اس میں جن چیزوں سے روکا جاتا ہے ان کا کبھی بھی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان عبرت نشان ہے: ” ﴿ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنَى ﴾ [الإسراء:32] “ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح یہ فرمان عالی مقام: ” ﴿ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيئًا ﴾ [النساء:36] “ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔

یہ وہ نہی ہے جس کی اپنی ذات کی وجہ منع کیا ہے ، یعنی فی نفسہٖ قباحت ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا ہے۔تو یہ قطعی طور پر حرام اور لازمی طور پر باطل ہے۔ اوراس پر جو بھی مترتب ہوگا وہ بھی باطل ہو گا، جیسے ولد الزنا کہ اس کو اس کے باپ سے لاحق نہیں کیا جائے گا، اسی طرح مشرک کے اعمال کہ ان کا اس کا کو ئی ثواب نہیں ملے گا۔

دوسری قسم وہ ہے کہ جس سے ایک اعتبارسے تو روکا گیا ہے اور دوسرے اعتبارسے اس کا حکم بھی دیا گیا ہوتا ہے ۔ اس قسم کی تین صورتیں ہیں۔

۱۔
جس سے کسی صفت کی وجہ سے روکا گیا ہو۔

۲۔
کسی ایسی چیز کی وجہ سے روکا گیا ہو جو اس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہو۔

۳۔
کسی خارجی امر کی وجہ سے جس سے روکا گیا ہو۔

1 جس سے کسی صفت کی وجہ سے روکا گیا ہو:

1۔ عبادات میں:
حائضہ اور نشئی کا نماز پڑھنے سے ممانعت۔

2۔ معاملات میں:
پیٹ کے بچے کی بیع کرنے کی ممانعت کیونکہ اس میں جس چیز کو بیچا جارہا ہوتا ہے اس کا علم ہی نہیں ہوتا کہ زندہ بھی نکلے گا یا نہیں۔

2 کسی ایسی چیز کی وجہ سے روکا گیا ہو جو اس کے ساتھ چمٹی ہوئی ہو:​

1۔ عبادات میں:
عید کے دن روزے رکھنے کی ممانعت کیونکہ اس طرح اس دن میں اللہ تعالیٰ کی مہمانی سے اعراض لازم آتا ہے ۔

2۔ معاملات میں:
کسی مسلمان غلام کو کسی کافر کے ہاتھ بیچنا کیونکہ اس طرح اس مسلمان باغلام کو آزاد نہیں کیا جائے۔۔۔۔۔



3 کسی خارجی امر کی وجہ سے جس سے روکا گیا ہو:​

1۔ عبادات میں:
چھینے ہونے پانی سے وضو کرنا یا قبضہ کی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا۔

یہاں پر ممانعت کی وجہ ایک خارجی امر ہے ، نہ کہ وضو کرنے کی ممانعت ہی ہے بلکہ یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ کسی غیر کا حق اس کی اجازت کے بغیر استعمال کیا گیا ہے، لہٰذا یوں بغیر اجازت وضوکرکے پانی ختم کرنا یا اسے ویسے ہی گرادینا برابر ہے۔

جس چیز سے اس کی ذات کی وجہ سے منع کیا گیا ہو اور جسے کسی خارجی امر کی وجہ سے منع کیا گیا ہو ، ان کے درمیان فرق کو واضح طور پر دیکھنے کےلیے نجس پانی اور غصب شدہ پانی پر غور فرمالیں۔

2۔ معاملات میں:
جمعہ کی نماز کے لیے اذان کے بعد خریدوفروخت کی ممانعت۔

اس کی ممانعت کی وجہ ایک خارجی امر ہے کیونکہ تجارت کی تمام شروط تو اس میں پوری ہیں لیکن نماز کے فوت ہونے کے اندیشے کی بناء پر اس وقت تجارت ممنوع ہے۔ اگرچہ بسا اوقات نماز کے فوت ہونے کے اور بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں۔

جمہور کا کہنا ہے کہ اس صورت میں نہی تجارت کے فساد کا تقاضا نہیں کرتی کیونکہ جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ ایسی تجارت ہے جو تمام مبطلات (باطل کرنے والی چیزوں) سے خالی ہے، لہٰذا اس میں ممانعت اسی خارجی امر کی وجہ سے ہے۔اس بیع کے صحیح ہونے کی جہت اس کی ممانعت والی جہت سے واضح ہے۔ اور امام احمد aکے نزدیک یہ نہی فساد کا تقاضا کرتی ہے ، کیونکہ نہی سزا کا تقاضا کرتی ہے اورصحت (یعنی بیع کا صحیح ہونا) ثواب کا تقاضاکرتی ہے۔ توایک ہی چیز کے سبب ثواب اور عقاب بیک وقت نہیں ہوتے۔

اس بات کے بہت سے دلائل موجود ہیں کہ نہی فساد کاتقاضا کرتی ہے ۔ ان میں سے ایک دلیل نبی کریمﷺ کا یہ فرمان مبارک ہے جو صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ: «من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو رد» جس نے کوئی ایسا عمل کیا ، جس پر ہمارا حکم موجود نہیں تھا تو وہ عمل رد ہے یعنی مردود ہے۔اور جو کام فاعل پر رد کردیا گویا کہ وہ عدم سے وجود پذیر ہی نہیں ہوتا۔اگر عبادت کی طرف ردکرنے کی نسبت کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس عبادت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ اور جب اس رد کرنے کی نسبت معاملات کی طرف کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ معاملہ فاسد ہے اور نافذ نہیں ہوسکتا۔

ایک اور دلیل نبی کریمﷺ کا سیدنا بلالکو اچھی کھجوریں لوٹانے کا حکم دینا اور بتانا کہ یہ واضح سود ہے جب انہوں نے دو صاع خراب کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی کھجوریں خریدی تھیں۔

تیسری دلیل زیر بحث قاعدے کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ صحابہ کرام ]بھی نہی کو فساد کا موجب جانتے تھے ، جیسا کہ انہوں نے سودی کاروبار کے فاسد ہونے پر نبی کریمﷺ کے اس فرمان سے استدلال کیا تھا کہ : ” «لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلاً بمثل» “ تم سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر۔

اور مُحرم (احرام باندھے ہوئے) شخص کے نکاح کے فاسد ہونے پر انہوں نے نبی کریمﷺ کی نہی سے استدلال کیا تھا۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top