• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس کے ساتھ بھلائی کریں اسکے شر سے بچیں ‘‘ کیا صحیح حدیث ہے ؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محترم بھائی @عامر عدنان نے سوال کیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ محترم اس حدیث کی تحقیق چاہئے اگر فورم پر موجود ہے تو مجھے بتلا دیں ورنہ آپ ہی جواب دے دیں حوالہ نہیں معلوم
"جسکے ساتھ بھلائی کریں اسکے شر سے بچیں"
جزاک اللہ خیراً
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ :امام اعظم جناب محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ»
فرماتے ہیں : کسی بندہ کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا پھرے ‘‘
صحیح مسلم
اور فرمایا :
«مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ، فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ» (صحیح مسلم )
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا :کہ جس نے علم کے باوجود جھوٹی حدیث کو میری طرف منسوب کیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جو الفاظ آپ نے سوال میں پوچھے ہیں :
یہ الفاظ کسی حدیث کے نہیں ، بلکہ کسی کا قول ہے :
علامہ إسماعيل بن محمدالعجلوني الدمشقي (المتوفى: 1162 ھ)
اپنی کتاب ( کشف الخفاء و مزیل الالباس ) میں لکھتے ہیں :
’’ اتق شر من أحسنت إليه.
وفي لفظ: من تحسن إليه، قال في الأصل: لا أعرفه، ويشبه أن يكون من كلام بعض السلف، قال: وليس على إطلاقه, بل هو محمول على اللئام دون الكرام ‘‘


ترجمہ :
’’ اس کے شر سے اپنے آپ کو بچا ، جس سے تو بھلائی کرے ‘‘
یہ الفاظ ( کسی حدیث میں ) میں نہیں جانتا ، اور لگتا یہ ہے کہ یہ سلف میں سے کسی بزرگ کا کلام ہے (حدیث نہیں )
اور پھر یہ بات بھی علی الاطلاق درست نہیں ( یعنی ہر آدمی جس سے احسان کیا گائے وہ ایسا نہیں ہوتا ) بلکہ یہ گھٹیا قسم کے لوگوں پر صادق آتا ہے ، نہ کہ شریف النفس لوگوں پر ۔۔
 
Last edited:
Top