• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جس کے پاس دعوت اسلام نہ پہنچی ، کیا جنت میں جائے گا ؟

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
۔
( یہ فرما کر ) اللہ تعالیٰ دوزخ میں سے اپنی مٹھی بھر کر ( ان ) لوگوں کو نکال لے گا جنہوں نے کبھی بھی کوئی ( چھوٹی یا بڑی ) نیکی کی ہی نہیں ہوگی ، یہ لوگ دوزخ میں ( جلتے رہنے کی وجہ سے ) کوئلہ بن چکے ہوں گے ، چنانچہ ان کو اس نہر میں ڈالے گا جو جنت کے دروازوں کے سامنے ہے اور جس کو " نہر حیات " کہا جائے گا ، اور پھر یہ لوگ اس نہر سے اس طرح تروتازہ نکلیں گے جیسے دانہ سیلاب کے کوڑے کچرے میں اگتا ہے ( یعنی جس طرح سیلابی کوڑے کچرے میں پڑا ہوا دانہ بہت جلد اگ آتا ہے اور خوب ہرا بھرا معلوم ہوتا ہے ، اس طرح یہ لوگ بھی اس نہر میں غوطہ دلائے جانے کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ بہتر جسمانی حالت میں واپس آجائیں گے اور خوب تروتازہ اور توانا معلوم ہوں گے ) نیز یہ لوگ ( اس نہر سے ) موتی کی مانند پاک و شفاف باہر آئیں گے ان کی گردنوں میں مہریں لٹکی ہوئی ہوں گی چنانچہ ( جب اہل جنت ان لوگوں کو ( ان کی امتیازی علامتوں کے ساتھ ) دیکھیں گے تو کہیں گے کہ یہ وہ ( خوش نصیب ) لوگ ہیں جو خدائے رحمان کے آزاد کئے ہوئے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ نے ( اپنے خاص فضل وکرم کے تحت ، اس امر کے باوجود جنت میں داخل کیا ہے کہ انہوں نے ( دنیا میں ) کوئی نیک عمل کیا تھا اور نہ انہوں نے (کم سے کم افعال قلب ہی کی صورت میں ، کوئی نیکی کرکے آگے بھیجی تھی اور پھر ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) ان نو آزاد لوگوں سے کہا جائے گا کہ ) بلکہ جنت میں تم جو کچھ دیکھ رہے ہو ( یعنی تمہاری حد نظر تک تمہیں جو اعلی سے اعلی نعمتیں نظر آرہی ہے ) نہ صرف یہ بلکہ ان ہی جیسی اور بہت سی نعمتیں بھی ، سب تمہارے لئے ہیں ۔ " ( بخاری)۔
یہ بخاری کی حدیث کاایک حصہ ہے ۔اِس حدیث میں جس لوگوں کے بارے میں بات کی گئی ہے وہ کون لوگ ہیں؟ مرجیہ کہتے ہیں کہ یہ کافر لوگ ہیں جن کو اللہ تعالٰی جھنم سے باہر نکالےگا۔
لیکن قرآن کی بہت سی آیات اور احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرک ہمیشہ جھنم میں رہیں گے۔
حدیث کے اِس حصے میں جن لوگوں کی بات کی گئی ہے وہ مسلمان بھی نہیں ہو سکتے کیوں کہ اِس حدیث کے پہلے حصہ میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کہ دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا اُس کو جھنم سے نکال لیا جائے گا۔ اب آپ یہ بتا دیں کہ جن لوگوں کو جھنم سے نکالا جائے گا وہ کون ہوں گے؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

چھٹی بات:

یہ اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر رحمت ہے کہ وہ ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دے گا جسے اسلام کی دعوت نہیں پہنچی، چنانچہ جو لوگ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے تھے اور انہیں اسلام کے بارے میں خبر تک نہ ہوئی تو ان لوگوں کا قیامت کے دن امتحان لیا جائے گا، اور اس کے بارے میں ہم تفصیلی گفتگو سوال نمبر (1244) اور (130271) کے جواب میں لے کر آئے ہیں۔ واللہ اعلم .
ح

1244: ان کفار کا انجام جنہیں اسلام کی دعوت نہیں پہنچی

الحمد للہ
اللہ تعالی کا یہ عدل وانصاف ہے کہ وہ کسی قوم کو بھی اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک کہ ان پر اتمام حجت نہ کرلے اور آپکا رب کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا۔


فرمان باری تعالی ہے:

"اور ہم کسی کو بھی اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول مبعوث نہ کر دیں"

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ:

"اور ہم کسی کو بھی اس وقت تک عذاب نہیں دیتے حتی کہ رسول مبعوث نہ کر دیں"

یہ اپنے عدل کی خبر دی ہے کہ وہ کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اس پر اتمام حجت نہ ہوجائے اور رسول نہ مبعوث کر دیا جائے

جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:

"جب بھی اس میں کوئی گروہ ڈالا جائے گا تو اس سے جہنم کا داروغہ سوال کرے گا کیا تمہارے پاس ڈرانے والا کوئی نہیں آیا تھا؟ وہ جواب دینگے بیشک آیا تھا لیکن ہم نے اسے جھٹلا دیا اور ہم نے کہا کہ اللہ تعالی نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا، تم بہت بڑی گمراہی میں ہو

اور ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

"اور کافرون کے غول کے غول جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، جب وہ اس کے قریب پہنچ جائیں گے تو اس کے دروازے ان کے لئے کھول دیے جائیں گے اور اسکے نگہبان ان سے سوال کرینگے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے؟ جو تم پر تمہارے رب کی آیتیں پڑھتے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے؟ وہ جواب دینگے کہ ہاں درست ہے لیکن عذاب کا حکم کافروں پر ثابت ہو گیا"

تو جو شخص اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ نہیں سنتا اور نہ ہی اسے صحیح شکل میں دعوت اسلام پہنچی ہے تو اللہ تعالی اس کو کفر پر مرنے کی وجہ سے عذاب نہیں دے گا، تو اگر یہ کہا جائے کہ اس کا انجام اور ٹھکانہ کیا ہو گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی اسے آزمائے گا اگر تو اس نے اطاعت کرلی جنت میں داخل ہو گا اور اگر نافرمانی کی تو جہنم میں جائے گا، اور اسکی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے۔

اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قیامت کے دن چار قسم کے لوگ (حجت پکڑیں گے) وہ بہرہ جو کچھ بھی نہیں سنتا ، اور وہ آدمی جو کہ احمق ہے، اور بوڑھا، اور وہ شخص جو کہ وحی نہ آنے کے فترہ میں فوت ہوا، تو بہرہ شخص کہے گا اے اللہ جب اسلام آیا تو میں کچھ بھی سن نہیں سکتا تھا، اور احمق یہ کہے گا اے اللہ اسلام آیا اور بچے مجھے مینگنیاں مارتے تھے اور بوڑھا یہ کہے گا اے اللہ جب اسلام آیا تو میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکتا تھا اور جو فترہ میں فوت ہوا وہ کہے گا اے اللہ میرے پاس تیرا رسول ہی نہیں آیا، تو اللہ تعالی ان سے عہد لے گا کہ وہ اس کی اطاعت کرینگے تو ان کی طرف یہ پیغام بھیجا جائے گا کہ آگ میں داخل ہو جاؤ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اگر وہ اس میں داخل ہو گئے تو اسے ٹھنڈی اور سلامتی والی پائیں گے۔

اور ایک روایت میں ہے کہ:

جو اس میں داخل ہو گیا اس پر وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو گی اور جو اس میں داخل نہیں ہو گا وہ اس کی طرف کھینچا جائے گا

مسند احمد اور صحیح ابن حبان اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع میں اسے صحیح کہا ہے حدیث نمبر 881


تو ہر وہ شخص جسے اسلام کی دعوت صحیح اور سلیم طریقے سے ملی تو اس پر حجت قائم ہو گئ اور جو اس حال میں مر گیا کہ اسے اسلام کی دعوت نہیں ملی یا پھر اسے صحیح طریقے پر نہیں ملی تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے ذمہ ہے اور وہ اپنی مخلوق کو زیادہ جانتا اور کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ واللہ اعلم .
ح
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
میں نے یہ سوال صرف اِس لیے پوچھا تھا کہ میں یہ جان سکوں کہ جو حدیث میں بار بار لکھ رہا ہوںاُس میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہےجن کو اللہ تعالٰی جھنم سے نکالے گا وہ کون لوگ ہوں گے؟ اور ابھی تک مجھے اِس کا جواب نہیں دیا گیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مرجیہ اِس حدیث کے ایک جملے سے یہ دلیل لیتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کافروں کو بھی جھنم سے نجات دلا دے کا۔لیکن اُن کی یہ دلیل صحیح نہیں ہیں کیوں کے دوسرے بہت سی جگہوں پر ہے کہ کافر ہمیشہ جھنم میں رہیں گے ۔ اور وہ جو لوگ جھنم سے نکالے جائیں گے وہ مسلمان بھی نہیں ہو گے کیوں کہ تمام مسلمان جن کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا اُن کو جھنم سے نکال لیا جائے گا۔ آخر میں یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر وہ لوگ مسلمان بھی نہیں ہوں گے اور کافر بھی نہیں ہو گے تو کون ہوں گے؟
آپ نے جو احادیث نقل کی ہیں ، وہ بھی دوبارہ پڑھی ہیں ، اور اس سے ہٹ کر بھی شفاعت والی احادیث عقیدہ طحاویہ وغیرہ سے دیکھی ہیں ، کسی بھی حدیث سے وہ مفہوم سمجھ نہیں آیا ، جو آپ نے اوپر بیان کیا ہے ۔
برائے مہربانی آپ حدیث کا وہ عربی متن نقل کردیں ، جس میں صراحت ہو کہ شفاعت کے کسی بھی مرحلے میں ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالاجائے گا جن میں بالکل ایمان نہیں ہوگا ۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
حَتَّى إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَامِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ بِأَشَدَّ مُنَاشَدَةً لِلَّهِ فِي اسْتِقْصَاءِ الْحَقِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لِلَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِإِخْوَانِهِمْ الَّذِينَ فِي النَّارِ يَقُولُونَ رَبَّنَا كَانُوا يَصُومُونَ مَعَنَا وَيُصَلُّونَ وَيَحُجُّونَ فَيُقَالُ لَهُمْ أَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ فَتُحَرَّمُ صُوَرُهُمْ عَلَى النَّارِ إِلَى سَاقَيْهِ وَإِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا مَابَقِيَ فِيهَا أَحَدٌ مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِهِ فَيَقُولُ لَھُمْ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا فَيَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا ثُمَّ يَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا مِمَّنْ أَمَرْتَنَا بِاخْرَاجِہِ أَحَدًا فَيَقُولُ ارْجِعُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ فَأَخْرِجُوهُ فَيُخْرِجُونَ خَلْقًا كَثِيرًا فَيَقُولُونَ رَبَّنَا لَمْ نَذَرْ فِيهَا خَيْرًا فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَفَعَتْ الْمَلَائِكَةُ وَشَفَعَ النَّبِيُّونَ وَشَفَعَ الْمُؤْمِنُونَ وَلَمْ يَبْقَ إِلَّاأَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَيَقْبِضُ قَبْضَةً مِنْ النَّارِ فَيُخْرِجُ مِنْهَا قَوْمًا مَايَعْمَلُوْا یَعْمَلُوْا خَيْرًا قَطُّ وَقَدْ دُوَا فَحُمًا فَيُلْقِيهِمْ فِي نَهَرِ الْحَیَاتِ فِي أَفْوَاهِ اجنَّةِ يُقَالُ لَهُ نَهَرُ الْحَيَاةِ فَيَخْرُجُونَ كَمَا تَخْرُجُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ۔

(بخاری ومسلم واللفظ لہ۔ التخویف من النار)
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
یہ حدیث پڑھیں اِس میں پہلے کہا گیا ہے کہ مومن لوگ ہر اُن شحص کو جھنم سے باہر نکال لائیں گے جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔ اب ظاہر ہے سب ایمان والے جھنم سے باہر نکال لیے جائیں گے تو جھنم میں کوئی ایمان والا نہیں بچے گا۔ اب اسی حدیث میں آگے کہا گیا ہے کہ سب لوگ اپنی اپنی سفارش کر لیں گے۔ پھر اللہ تعالٰی جھنم میں اپنی مٹھی ڈال کر کچھ ایسے لوگوں کو باہر نکالے کا جنھوں نے کبھی کوئی اچھا عمل نہیں کیا ہو گا۔ ( ایمان لانا ایک اچھا عمل ہے اور ایمان والے تو پہلے ہیں جھنم سے باہر نکال لیے گئے ہیں)

میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہ رہا تھا کہ یہ لوگ کون ہو ں گے؟ جن کو اللہ تعالٰی باہر نکالے گا؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ نے جو نقل کیا ، اس میں کہیں صراحت نہیں کہ جنہیں نکالا جائے گا وہ ایمان سے بالکل خالی ہوں گے ، البتہ آپ کا فہم اس مفروضے پر قائم ہے کہ ’’ مثقال ذرۃ ‘‘ وغیرہ کے بعد ایمان کا کوئی درجہ باقی نہیں رہ جاتا ۔ ظاہر ہے یہ ایک مفروضہ ہے جس کے بالمقابل واضح نصوص ہیں کہ جنت میں جانے کے لیے صاحب ایمان ہونا لازمی ہے ۔ ایک مفروضے کے بالمقابل واضح قرآنی آیات و احادیث نہیں چھوڑی جاسکتیں ۔ واللہ اعلم ۔
کبھی کوئی اچھا عمل نہیں کیا ہو گا۔ ( ایمان لانا ایک اچھا عمل ہے اور ایمان والے تو پہلے ہیں جھنم سے باہر نکال لیے گئے ہیں)
’’ لم یعملوا خیرا ‘‘ کے ایک مفہوم آپ نے بیان کیا ، اب امام ابو بکر ابن خزیمہ کے الفاظ میں سنیے :
هَذِهِ اللَّفْظَةُ لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي يَقُولُ الْعَرَبُ: يُنْفَى الِاسْمُ عَنِ الشَّيْءِ لِنَقْصِهِ عَنِ الْكَمَالِ وَالتَّمَامِ، فَمَعْنَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ عَلَى هَذَا الْأَصْلِ، لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ، عَلَى التَّمَامِ وَالْكَمَالِ، لَا عَلَى مَا أَوْجَبَ عَلَيْهِ وَأَمَرَ بِهِ التوحيد لابن خزيمة (2/ 732)
یہاں نفی کا اطلاق نفی وجود کے لیے نہیں ، بلکہ اس سے مراد کمال اور اعلی درجے کی نفی مقصود ہے ، اور یہ اسلوب اہل زبان کے ہاں متعارف ہے ۔
لہذا ’’ لم یعملوا خیرا قط ‘‘ سے عدم ایمان پر استدلال کرنا درست نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بلکہ اس حدیث کی دیگر روایات اور مکمل طرق اور سیاق و سباق دیکھنے سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ مسلمان ( عصاۃ الموحدین ) ہوں گے ، ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، وَقَالَ: " فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُمُ: اذْهَبُوا فَمَنْ عَرَفْتُمْ صُورَتَهُ، فَأَخْرِجُوهُ، وَتُحَرَّمُ صُورَتُهُمْ عَلَى النَّارِ " قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ بَيَّنْتُ مَعْنَى اللَّفْظَةِ الَّتِي فِي خَبَرِ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ النَّارَ عَلَى مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ»التوحيد لابن خزيمة (2/ 685)
جب اللہ تعالی حکم دے گا کہ جہنم سے لوگوں کو نکال لیں ، تو اللہ تعالی فرمائیں گے کہ جس کی شکل تم پہچان لو اسے نکال لو ،کیونکہ جنہوں نے خلوص دل سے ’’ کلمہ طیبہ ‘‘ پڑھا ہوگا آگ ان کی شناختیں نہیں بگاڑ سکے گی ۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں کلمہ گو نافرمان لوگون کی بات ہورہی ہے ۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
۔
هَذِهِ اللَّفْظَةُ لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي يَقُولُ الْعَرَبُ: يُنْفَى الِاسْمُ عَنِ الشَّيْءِ لِنَقْصِهِ عَنِ الْكَمَالِ وَالتَّمَامِ، فَمَعْنَى هَذِهِ اللَّفْظَةِ عَلَى هَذَا الْأَصْلِ، لَمْ يَعْمَلُوا خَيْرًا قَطُّ، عَلَى التَّمَامِ وَالْكَمَالِ، لَا عَلَى مَا أَوْجَبَ عَلَيْهِ وَأَمَرَ بِهِ التوحيد لابن خزيمة (2/ 732)
یہاں نفی کا اطلاق نفی وجود کے لیے نہیں ، بلکہ اس سے مراد کمال اور اعلی درجے کی نفی مقصود ہے ، اور یہ اسلوب اہل زبان کے ہاں متعارف ہے ۔
لہذا ’’ لم یعملوا خیرا قط ‘‘ سے عدم ایمان پر استدلال کرنا درست نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں ذرا آسان الفاظ میں بتائیں۔
 

Muhammad Raza

مبتدی
شمولیت
مارچ 02، 2016
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
مومن جائیں گے اور جس کے دل میں ایک درہم کے برابر بھی ایمان ہو گا اُس کو نکال لائیں گے پھر جائی گے اور جس کے دل میں آدھے درہم بھی ایمان ہو گا اُس کو بھی نکال لائیں گے اور پھر جائیں گے اور اُس کو بھی نکال لائیں گے جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان ہو گا۔
کیا اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جھنم سے تمام مواحدین کو نکال لیا جائے گا؟
 
Top