• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن عید میلاد النبی جیسی بدعات کو اچھا سمجھنے والے کا رد

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوم : نبی کریم کے بعض خصائل طیبہ اورنسب شریف کا سننا ,
یہ دلیل بھی محفل میلاد قائم کرنے کے لئے کافی نہیں ہے , کیونکہ آپکے خصائل اورنسب شریف کی معرفت کے لئے سال بھر میں ایک دفع سُن لینا کا فی نہیں ہے , ایک دفع سننا کیسے کافی ہوسکتا ہے جب کہ وہ عقیدہ اسلامیہ کا جزء ہے ؟
ہرمسلمان مرد اورعورت پر واجب ہے کہ اپنے نبی £کے نسب پاک اوران کی صفات کو اس طرح جانے جس طرح اللہ تعالی کو اس کے ناموں اورصفتوں کے ساتھ جانتا ہے اوریہ وہ چیز ہے کہ جس کی تعلیم انتہائی ضروری اورناگزیر ہے , اس کے لئے سال میں ایک مرتبہ محض واقعہ پیدائش کا سن لینا کافی نہیں ہے .
سوم : تیسری دلیل بھی بالکل واہی تباہی دلیل ہے ,کیونکہ خوشی رسول £کی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی , اگرخوشی رسول £کی ہے تو ہمیشہ جب بھی رسول £کا ذکرآئے خوشی ہونی چاہئے , اورکسی وقت کے ساتھ خاص نہیں ہونا چاہئے , اور اگرخوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن بھی ہے جس میں آپ کی وفات ہوئی , اورمیں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ایسا عقلمند شخص ہوگا جو اس دن مسرّت اورخوشی کا جشن منائے گا جس دن اس کے محبوب کی موت واقع ہوئی ہو حالانکہ رسول £کی وفات سب سے بڑی مصیبت ہے جس سے مسلمان دوچار ہوئے حتى کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کہا کرتے تھے کہ !جس پر کوئی مصیبت آئے تو اس کو چاہئے کہ اس مصیبت کویاد کرلے جو رسول £کی وفات سے پہنچی ہے, نیز انسانی فطرت اس کی متقاضی ہے کہ انسان بچہ کی پیدائش کے دن خوشی مناتا ہے اوراسکی موت کے دن غمگین ہوتا ہے ,لیکن تعجب ہے کہ کس دھوکہ میں یہ انسان فطرت کو بدلنے کے لئے کوشاں ہے .
4-چوتھی دلیل یعنی کھانا کھلانا, یہ پچھلی سب دلیلوں سے زیادہ کمزور ہے , کیونکہ کھانا کھلانےکی ترغیب اس وقت دی گئی جب اس کی ضرورت ہو, مسلمان مہمان کی مہمان نوازی کرتا ہے , بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اور صدقہ وخیرات کرتا ہے اور یہ پورے سال ہوتا ہے , اس کے لئے سال میں کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ہے کہ اسی دن کھانا کھلائے, اس بناء پر یہ ایسی علت نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے کسی بھی حال میں کسی بدعت کا ایجاد کرنا لازم ہو .
5- پانچویں دلیل یعنی ذکر کے لئے جمع ہونا , یہ علت بھی فاسد اورباطل ہے , کیونکہ بیک آواز ذکر کےلئے اجتماع سلف کے یہاں معروف نہیں تھا. اسلئے یہ اجتماع فی نفسہ ایک قابل نکیر بدعت ہے اورطرب انگیز آواز سے مدحیہ اشعار اورقصائد پڑھنا تو اور بھی بدترین بدعت ہے , جسے وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے دین پر اطمینان نہیں ہوتا , حالانکہ ساری دنیا کے مسلمان رات اوردن میں پانچ مرتبہ مسجدوں میں اورعلم کے حلقوں میں علم ومعرفت کی طلب کے لئے جمع ہوتے ہیں , اس لئے ان کو ایسے سالانہ جلسوں اورمحفلوں کی ضرورت نہیں ہے جن میں اکثر حظوظ نفسانیہ یعنی طرب انگیز اشعار کے سننے اورکھانے پینے کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے .​
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوم: سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:
جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "
اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا.
اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:
" ہر وہ عبادت جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "
اور اسی کے مثل امام مالک نے فرمایا:"جو چیز اسوقت دین نہ تھی ,آج بھی دین نہ ہوگی"
يعنى: جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "
پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:
وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ نے يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.
اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.
رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.
اور قرافى نے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.
پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " مصالح مرسلہ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:
" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " (الاعتصام ( 152 - 153 ).
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:
" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:
پہلى مثال: علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.
دوسرى مثال:كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.
تيسرى مثال: اصول فقہ كى تدوين.
چوتھى مثال: جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " (قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ).
اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
عزبن عبدالسلام نے جو كچھ كہا ہے:اس پركلام وہى ہے جو بيان ہو چكى ہے اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے جيسا اس نے كہا ہے چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو كيونكہ يہ تو مصالح مرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں (الاعتصام/157-158)
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:
ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.
اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:" شرعى عرف ميں بدعت مذ موم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " (فتح البارى/13 / 253 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " (فتح البارى/13 / 340 ).
اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: " اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "
اور اس عموم كے باوجود يہ كہنا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا "
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.
لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا.
اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.
بلكہ كمال محبت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو.
كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں انكا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " (اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ).
اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.
ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.
 
Last edited by a moderator:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سوم: اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.
معزز قارئین!اگریہ کہا جائے کہ آپ نے تو اپنے دلائل اوربراہین کی بھر مارسے بدعت مولود کو باطل کردیا, لیکن اس بدعت کا جو کہ بہر حال بعض نیکیوں سے خالی نہیں ,بدل کیا ہے ؟ توآپ ان کہنے والوں سے کہیں کہ اس کا نعم البدل یہ ہے کہ واقعہ پیدائش اور نسب شریف اور شمائل محمدیہ کے واقعات کا جائزہ لینے کے بجائے مسلمانوں کو چاہئے کہ سنجیدہ بنیں اور کرنے کے کام میں لگیں , ہرروز مغرب کے بعد عشاء تک اپنی اپنی مسجدوں میں کسی عالم دین کے پاس بیٹھیں جو ان کو دین کی تعلیم دے اور ان کے اندر دین کی سمجھ پیدا کرے , اللہ تعالی جس کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں , اس کو دین کا سمجھ عطا فرماتے ہیں , اورپھر وہ نسب شریف بھی جان جائیں گے اورشمائل محمدیہ بھی پڑھ لیں گے اور اسوہ حسنہ سے بھی متصف ہوجائیں گے اوراس طرح یقینی طور پر رسول £کے تابعدار اور سچے عاشق ہوجائیں گے اور اسطرح یقینی طور پر رسول £ کے تابعدار اور سچے عاشق ہوجائیں گے , محض زبانی دعویدار نہ ہوں گے –اورذکر اورتلاوت قرآن کا بدل یہ ہے کہ صبح وشام اور رات کے پچھلے پہر کے لئے وظائف ہوں , صبح کا وظیفہ ہو "سبحان اللہ وبحمدہ , سبحان اللہ العظیم أستغفر اللہ, سوبار , اور "لاإلہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ, لہ الملک ولہ الحمد وھو على کل شئی قدیر " سو بار ,اور شام کا وظیفہ ہو " أستغفر اللہ لی ولوالدی وللمؤمنین والمؤمنات "سوبار , اور سوبار درود شریف (1​
اور رات کے پچھلے پہر کا وظیفہ یہ ہے کہ آٹھ رکعت نماز پڑھے اور ہررکعت میں چوتھائی پارہ قرآن شریف پڑھے اوراپنی نماز تین رکعتوں پر ختم کرے, دورکعتوں میں ایک رکعت اورملا کر اس کو وتر بنادے , اور ساتھ ہی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی پابند ی کرے , خاص طور سے عصر اورفجر کی , کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ( من صلی البردین دخل الجنۃ )(رواہ الشیخان ) " جس نے عصر اورفجر کی نماز پڑھ لی وہ جنت میں داخل ہوگیا )-
ممکن ہے کہ کچھ قارئین یہ سوال کریں کہ جب میلاد نبوی شریف تما م بدعتوں کی طرح ایک بدعت حرام ہے تو علماء اس کی طرف سے خاموش کیوں رہے اور اس کو یوں چھوڑ کیوں دیا کہ بدعت پھیلی اور رواج پاگئی اور اس طرح ہوگئی کہ گویا یہ اسلامی عقائد کا ایک جزء ہے, کیا ان پریہ لازم نہیں تھا کہ وہ اس پر نکیرکرتے, ان حضرات نےایساکیوں نہ کیا ؟؟​
اس کے جواب میں عرض ہےکہ اس بدعت کے پیدا ہونے کے دن ہی سے علماء نے اس پر نکیر کی اور اسکی تردید میں رسالے لکھے , جو شخص ابن الحاج کی " المدخل" سے واقف ہوگا وہ اسکو بخوبی جان سکتا ہے , انہی اہم رسالوں میں سے علامہ تاج الدین عمربن علی لخمی سکندری فاکہانی مالکی مصنف "شرح الفاکہانی علی رسالۃ ابن ابی زید قیروانی" کا رسالہ "المورد فی الکلام علی المولد" ہے , ہم اس کی عبارت اس خاتمہ میں درج کریں گے, یہ اور بات ہے کہ قومیں اپنے انحطاط کے زمانہ میں جس قدر شروفساد کی دعوت پر لبیک کہنے میں قوی ہوتی ہیں اسی نسبت سے خیرواصلاح کی دعوت قبول کرنے میں ضعیف وکمزورہوتی ہیں , اسلئے کہ بیمار جسم میں معمولی تکلیف بھی اثر کرجاتی ہے, اور تندرست جسم پر بڑی سے بڑی اورطاقتور تکلیف بھی اثر انداز نہیں ہوتی اس کی محسوس مثال یہ ہے کہ صحیح سالم اورمضبوط دیوار کوپھاؤڑےٍ اورکلہاڑے بھی گرانے سے عاجزرہ جاتے ہیں اورگرتی ہوئی دیوار ہواکے جھوکے ا ورپیر کے دھکے سے بھی گر جاتی ہے , اسلئے اسلامی معاشرہ کے اندر اس بدعت کا وجود اوراسکا جڑ پکڑلینا علماء کے اس پر نکیر نہ کرنے کی دلیل نہیں ہے
﴿ماخوذ از رسالہ جات محمد صالح المنجد، ابوبکر الجزائری، عبداللہ ابن باز رحمہم اللہ﴾
 
Last edited by a moderator:

Abdul Haseeb

مبتدی
شمولیت
اگست 14، 2016
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
18
219307: جشن عید میلا د کو مستحب قرار دینے والوں کے ہاں یہ شرعی عبادت ہے۔

سوال: میں جانتا ہوں کہ "بدعت" اس چیز کا نام ہے جو دین میں عبادت کی غرض سے ایجاد کی جائے، اگر یہ بات درست ہے تو ہم عید میلاد کوبدعت سے متصف کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ اس میں صرف جشن منایا جاتا ہے، اور اس جشن کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ کچھ لوگ استدلال کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے دو شرعی عیدیں ہی مقرر کی ہیں، اس کے علاوہ کسی اور دن میں جشن یا تہوار منانا درست نہیں، تو میں یہاں پر یہ کہوں گا کہ: جشن عید میلاد صرف ایک عام جشن ہے، اس کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں ، چنانچہ اس کا معاملہ بھی عام دیگر عید میلاد [برتھ ڈے] جیسا ہی ہے۔
Published Date: 2014-12-31
الحمد للہ:
عید میلاد النبی صرف اور صرف جشن نہیں ہے، کہ اسکا عبادت کیساتھ کوئی تعلق نہ ہو، بلکہ جو لوگ جشن مناتے ہیں وہ اسے ایک دینی تہوار کے طور پر قربِ الہی حاصل کرنے کیلئے مناتے ہیں۔
اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
اول:
جو لوگ عیدمیلاد مناتے ہیں، یا ان محفلوں میں شرکت کرتے ہیں، یہ سب لوگ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں، اور اللہ و اسکے رسول سے محبت عظیم ترین عبادات میں سے ہے، یہی ایمان کا مضبوط ترین کڑا ہے، چنانچہ جو کوئی بھی کام اس محبت کی وجہ سے کیا جائے گا تو یقیناً وہ عبادت کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام آپ کیساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے، سب سے زیادہ آپکی تعظیم کرتے تھے، صحابہ کرام کو اپنے بعد آنے والے لوگوں سے زیادہ نبوی حقوق کا علم تھا؛ چنانچہ جو کام صحابہ کرام کے ہاں دین میں شامل نہیں تھا، وہ انکے بعد بھی دین میں شامل نہیں ہوسکتا۔
اسی اصول اور قاعدہ کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد میں ذکر الہی کیلئے جمع ہو کر کنکریوں پر تسبیح شمار کرنے والے حضرات کے خلاف دلیل بنایا، اور کہا:
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت والی ملت پر ہو!؟ یا کوئی گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟!
لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابو عبد الرحمن [عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت] ہم تو نیکی ہی کرنا چاہتے تھے!؟
آپ نے کہا: "کتنے لوگ ہیں جو نیکی کرنا چاہتے ہیں ، لیکن نیکی کر نہیں پاتے!!" دارمی: (210)
دوم:
ہر سال کسی موسم میں جشن منانااسے تہوار کے درجےتک پہنچا دیتا ہے، اوریہ تہوار دینی شعائر ہوتے ہیں، اسی لئے اہل کتاب اپنے تہواروں کو مقدس سمجھتے ہیں، اور ان دنوں میں مخصوص تقریبات بھی کرتے ہیں۔
شیخ ناصر العقل حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں ، اور تہواروں کو صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، "حکم بغیر ما انزل اللہ "کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے اللہ کی طرف کسی بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے" انتہی
" مقدمہ اقتضاء الصراط المستقیم " (ص58)
سوم:
ابو داود: (1134) میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو [اہل مدینہ] دو دنوں میں تفریح ومیلہ کیا کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (یہ دو دن کیا ہیں؟) تو انہوں نے کہا: "ہم دور جاہلیت سے ان دنوں میں کھیلتے آرہے ہیں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے اچھے دن بدلے میں دیے ہیں: عید الاضحی، اور عید الفطر)" اسے البانی نے "صحیح سنن ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔
چنانچہ اگر کسی تہوار کو جشن منانا عادات میں شامل ہوتا، اور عبادت کیساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا ، اور نہ ہی اس میں کفار سے مشابہت کی گنجائش ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کھیل کود میں لگا رہنے دیتے، کیونکہ کھیل کود، اور ہنسی مذاق میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
اس لئے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی تہوار کے دن میں کھیل کود سے منع فرمایا، حالانکہ اس میں کسی قسم کی عبادت بھی نہیں تھی؛ تو جو شخص کوئی عمل عبادت اور قرب الہی کیلئے ، یا دلی میلان کیساتھ ، یا اس عمل پر ثواب ملنے کا دعوی کرے ؛ اسے تو بالاولی منع ہونا چاہیے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے [دینی] معاملے میں ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے)بخاری: (2697) مسلم: (1718)
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (10843) اور : (128530) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.

اسلام سوال وجواب
 
Top