• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کاشرعی حکم

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207


بسم اللہ الرحمن الرحیم

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کاشرعی حکم

’’ الحمد للہ والصلوة والسلام علی رسول اللہ و علی الہ و صحبہ ومن اھتدی بھداہ ‘‘
’’ بہت سے افراد نے مجھ سے بار بار میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن و مجالس اور اس کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قیام، صلوة و سلام اور میلاد کے نام سے جو کچھ کیاجاتا ہے ،اس کے شرعی حکم کے بارے میں سوال کیا!


جواب:
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جشن منانا اور محفلیں منعقد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ،یہ سراسر بدعت اور دین میں نئی ایجاد ہے ،کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا ، اور نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے ایساکیا، اور نہ قرون اولی میں تابعین و تبع تابعین رحمة اللہ علیہم نے اس کام کو سر انجام دیا ، حالانکہ وہ سب کے سب زیادہ جاننے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں زیادہ کامل اور اتباع شریعت میں پیش پیش تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ‘‘
(بخاری ، ج۲ ص ۳۷۱، مسلم، ج۲ ص ۱۷، ابو داؤد ،ج۲ ص ۲۷۹ )
’’ جس نے ہمارےاس دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو دین میں نہیں ہے وہ مردود ہے ‘‘۔
دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدین من بعدی تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ و ایاکم و محدثات الامور فان کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة ‘‘
( مسند احمد :ج۴ ص ۲۷ ،ابو داؤد ج۲ ص ۲۷۹ ترمذی ج۲ ص ۹۲ ابن ماجہ :ص۵)
’’ میری سنت اورمیرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت لازم پکڑو ،اور اس کو مضبوطی اور سختی سے تھام لو ، اور دین میں نئے نئے ایجاد کردہ کاموں سے بچو ۔کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
ان دونوں حدیثوں میں بدعات کے ایجاد کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے پر سخت وعید کی گئی ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔(سورة الحشر :آیت ۷ پارہ ۲۸ رکوع ۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ‘‘
اللہ عزوجل کاارشاد ہے :
فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبھم فتنة أو یصیبھم عذاب ألیم۔(سورة النور: آیت ۳۶ پارہ ۱۸ رکوع ۱۵)
’’ ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ (دنیا میں )ان کوکوئی آفت و مصیبت یا(قیامت کے دن)درد ناک عذاب پہنچے‘‘۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنہ لمن کان یرجو اللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا۔(سورة الاحزاب :آیت ۱۲ پارہ ۲۱ رکوع ۱۸)
’’ در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی اور روزِ آخرت کاامید وار ہو اور اللہ تعالی کوکثرت سے یاد کرے ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ و أعد لھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا أبدا ذلک الفوز العظیم ۔(سورة التوبة: آیت ۱۰۰ پارہ ۱ رکوع ۲)
’’ وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے لگے، اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،اللہ نے ان کےلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم الشان کامیابی ہے ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
الیوم أکملت لکم دینکم و وأتممت علیکم و نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔(سورة المائدة :آیت ۳ پارہ ۶ رکوع ۵)
’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے ‘‘۔
قرآنِ مجید میں اس مفہوم کی بہت سی آیات موجود ہیں ۔دین میں اس قسم کی محفلوں کے ایجاد سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے لئے دین کو مکمل نہیں کیا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قابلِ عمل چیزیں بتائیں ۔اب بعد میں آنے والے لوگوں نے اللہ تعالی کی شریعت میں ایسی ایسی نئی بدعات شروع کردیں جن کی اللہ تعالی نے قطعاً اجازت نہیں دی، ان کاخیال ہے کہ یہ عمل ان کو اللہ تعالی کامقرب بنادے گا (ایسا ہرگز نہیں)بلا شبہ بدعات پر عمل کرنے میں امت کے لیے بڑا خطرہ ہے اور اس طرزِ عمل سے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا حرف آتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے دین کو مکمل اور نعمت کو پورا کر دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ہر ایک بات امت تک پہنچا دی اور جنت کی طرف لے جانے اور دوزخ سے بچانے کا کوئی راستہ امت سے اوجھل نہیں رکھا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مابعث اللہ من نبی الا کان حقا علیہ ان یدل امتہ علی خیر مایعلمہ لھم وینذرھم شر ما یعلمہ لھم ‘‘ (صحیح مسلم ، ج۲ ص ۱۲۶)
’’ اللہ تعالی نے ہر نبی پر واجب قرار دیا تھا کہ وہ اپنی امت کو ہر اس بھلائی سے آگاہ کرے جو اپنے علم میں امت کے لئے بہتر جانتا ہو اور ہر اس چیز سے ڈرائے جسے اس کے لئے شر جانتا ہو ‘‘۔
اوریہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور خاتم المرسلین ہیں اور اپنی امت کو دین پہنچانے اور اس کو نصیحت کرنے میں سب سے زیادہ کامل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

اگرمحفلِ میلاد منعقد کرنا دین کا حصہ ہوتا، جس کو اللہ تعالی پسند کرتا ،تویقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لئے بیان کر جاتے یااپنی زندگی میں محفلیں منعقد کرتے یاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کا اہتمام کرتے، جب ان میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہے،تومعلوم ہوا کہ محفلِ میلاد کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ بدعت میں سے ہے اس مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ فان خیر الحدیث کتاب اللہ و خیر الھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم و شر الامور محدثتھا و کل بدعة ضلالة ‘‘ (صحیح مسلم : ج۱ ص ۲۸۵)
’’ در حقیقت بہترین حدیث اللہ تعالی کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور بدترین کام دین میں ایجاد کردہ بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے ‘‘۔
اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے آیات و احادیث بہت سی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا دلائل کی بناء پر علماءِ امت نے واشگاف الفاظ میں محافلِ میلاد پر ردّ و قد کی ہے ،اور بعث متاخرین نے ان کو جائز ٹھہرایا ہے بشرطیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و مدح میں غلو نہ ہو، مرد و زن کااختلاط(میل وملاپ) نہ ہو ،گانے بجانے کااہتمام نہ ہواور خلافِ شرع کوئی کام نہ ہو، انہوں نے اسے بدعتِ حسنہ گمان کیا ہے (ان کی یہ بات غلط ہے) کیونکہ شریعت کاقاعدہ کلیہ ہے کہ اگر لوگوں کے درمیان کسی بات میں جھگڑا ہوجائے تو اس کافیصلہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیاجائے۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
یاأیھا الذین امنوا أطیعوا اللہ و أطیعوا الرسول و أولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیئ فردوہ الی اللہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الاخر ذلک خیر و أحسن تاویلا ۔(سورة النساء: آیت ۵۹ پارہ ۵ رکوع ۵)
’’ اے ایمان والو! اللہ تعالی کی اطاعت کرواور رسول کی ، اور تم میں صاحب امر ہیں ان کی بھی، اگر کسی بات میں تم جھگڑ پڑو تو اس کے فیصلہ کو اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ تعالی اورروزِآخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھی بات ہے ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
وما اختلفتم فیہ من شیء فحکمہ الی اللہ ۔(سورة الشوری:آیت ۱۰ پارہ ۲۵ رکوع ۳)
’’ تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کافیصلہ کرنا اللہ تعالی کاکام ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

اللہ تعالی کے فرمودہ اس اصول کی بنا پر ہم اس مسئلہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب اللہ کی طرف لوٹاتے ہیں ،کتاب اللہ نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی اتباع کا حکم دیا ہے ،اور جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیاہے اس سے ڈرایا ہے، اورکتاب اللہ نے ہمیں یہ بھی خبر دی ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے لئے اس کا دین مکمل کر دیا ہے ، جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس میں اس جشن اور محفلِ میلاد کاکوئی ثبوت نہیں ہے ،اس سےواضح ہوگیا کہ اللہ تعالی کے مکمل کردہ دین سے ان محفلوں کاکوئی تعلق نہیں ہے ۔


اور اس مسئلہ کو ہم سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں توہمیں اس میں اس بات کاقطعاً ذکرنہیں ملتا ۔نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا ، اور نہ کسی کو کرنے کاحکم دیا ، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کااہتمام کیا اس سےمعلوم ہواکہ یہ کوئی دینی کام نہیں ہے بلکہ ایجادِ بندہ ہے ، یعنی بدعت ہے اور یہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل یہود ونصاریٰ کی عید میلاد(کرسمس ڈے)کے مشابہ ہے ۔
(قرآن و حدیث نے ہمیں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ روکا ہے)۔ قرآن وسنت کے ان دلائل سے ہر اس انسان کے لئے جو معمولی بصیرت بھی رکھتا ہو، اور حق کاطالب ،اور اس کی تلاش میں منصف ہو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ محفلِ میلاد اور اس جشن کادینِ اسلا م سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایجاد کردہ نئی بدعت ہے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بچنے اور کنارہ کشی کاحکم دیا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حق کی پہچان

کسی عقل مند انسان کے لئے درست نہیں ہے کہ تمام علاقوں میں لوگوں کی کثرت کو کسی چیز پر عمل پیرا دیکھ کر دھوکہ کھائے اس لئے کہ حق کی پہچان کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شرعی دلائل کے ساتھ حق پہچانا جاتا ہے ۔
اللہ تعالی نے یہود ونصاریٰ کے بارے میں فرمایا :
و قالوا لن یدخل الجنة الا من کان ھودا أو نصاری تلک امانیھم قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین۔ (سورة البقرة: آیت ۱۱۱ پارہ ۱ رکوع ۱۳)
’’ اورانہوں نے کہا کہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر یہود ی یانصرانی یہ ان کی آرزوئیں ہیں ، آپ کہہ دیجئے اگر تم (اپنے اس دعوی میں )سچے ہوتو دلیل لاؤ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
ان تطع أکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ۔(سورة الانعام :آیت ۱۱۶ پارہ ۸ رکوع ۱)
’’ اگر آپ زمین کے رہنے والوں میں اکثر کی اطاعت کریں گے تو وہ آپ کو اللہ تعالی کے راستہ سے بہکا دیں گے ‘‘


میلاد کی محفلیں بدعت ہونے کے ساتھ ساتھ عام طور پر دیگر منکرات مثلاً مرد وزن کے اختلاط (میل ملاپ ) گانے بجانے کے اہتمام ، نشہ آور اور اعضاء انسانی کو قتل کرنے والی چیزوں کے خوردو نوش اور اس قسم کی دوسری برائیوں سے خالی نہیں ہے اور ان محفلوں میں سب سے بڑا گناہ شرکِ اکبر کاارتکاب ہے ۔
اکثر لوگ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر اولیاء کے میلاد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے اولیاء کی مدح میں غلو، مشکلات کے لئے ان کاپکارنا اور ان سے فریاد و مدد طلب کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا اعتقاد رکھنا اور اس قسم کے دوسرے امور کفریہ کاارتکاب کرتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’لاتطرونی کما اطرت النصاری ابن مریم انما انا عبد فقولوا عبداللہ ورسولہ ‘‘۔(بخاری : ج۱ ص ۴۹۰ کتاب الانبیاء )
’’ حد سےزیادہ میری تعریف کرکے مجھ کو نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ نے جنابِ عیسی بن مریم علیہما السلام کو بڑھایا ،میں بندہ ہوں مجھے اللہ کابندہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم جانو‘‘۔


عجیب و غریب بات یہ ہے کہ بہت لوگ ان بدعات (و معاصی) سے بھرپور محفلوں میں شرکت کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اور ان میں حاضر ہونے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور ان بدعات کی زور و شور سے حمایت کرتے ہیں اور اللہ تعالی نے جن اجتماعات مثلاً جمعہ و پنجگانہ نماز باجماعت میں انسان کی حاضری کو واجب قرار دیا ہے ان سے پیچھے رہتے ہیں ان کے بجالانے کے لئے ذرہ برابر اہتمام نہیں کرتے اور نہ ہی یہ احساس کرتے ہیں کہ وہ گناہِ عظیم کے مرتکب ہورہے ہیں بلاشبہ یہ سب کچھ ایمان کی کمزوری (دین میں) بصیرت کی کمی اور مختلف قسم کے گناہوں اور معاصی سے دلوں کے زنگ آلود ہوجانے کی وجہ سے ہورہا ہے ۔’’ نسال اللہ العافیة و نسائر المسلمین‘‘
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

بعض لوگوں کااعتقاد ہے کہ محفلِ میلاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود تشریف لاتے ہیں، اسی بناء پر وہ لوگ صلوة و سلام اور خوش آمدید کہنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ،یہ اعتقاد انتہائی غلط اور بدترین جہالت ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت سے پہلے اپنی قبر مبارک سے نہیں نکلیں گے اورنہ کسی کو مل سکتےہیں اور نہ لوگوں کے اجتماعات میں حاضر ہوسکتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزِ قیامت تک اپنی قبر شریف میں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح طیبہ أعلی علیین ، دارالکرامة میں اپنے رب کے پاس ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
ثم انکم بعد ذلک لمیتون ثم انکم یوم القیامة تبعثون۔(سورة المؤمنون :آیت ۱۵ ،۱۶ پارہ ۱۸ رکوع ۱)
’’ بعد ازاں تم مرنے والے ہو، پھرقیامت کے دن تمہیں اٹھایا جائے گا ‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ أنا اول من ینشق عنہ القبر یوم القیامة و أنا اول شافع و اول مشفع ‘‘ (صحیح مسلم :ج ۲ ص ۲۴۵ ،مشکوة: ج۲ ص ۵۱۱)
’’ قیامت کے دن میں پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر شق ہوگی(یعنی سب سے پہلے قبر سے میں نکلوں گا)اور پہلاسفارش کرنے والا اور پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی سفارش قبول کی جائے گی ‘‘۔


یہ آیت کریمہ اور حدیث شریف اور اس مفہوم کی دیگر آیات واحادیث تمام کی تمام اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مدفون افراد قیامت کے دن اپنی قبروں سے نکلیں گے (اس سے پہلے ہرگز نہیں) اس پر تمام علماء کااجماع ہے اور اس عقیدہ میں (سلف صالحین میں)کسی قسم کااختلاف نہیں ہے۔(۱)ان مسائل سے تمام مسلمانوں کو آگاہ ہونا اور جہال کی ایجاد کردہ نئی نئی بدعات و خرافات سے بچنا ضروری ہے اللہ تعالی نے ان پرکوئی دلیل نازل نہیں کی ۔’’ واللہ المستعان و علیہ التکلان ولا حول ولا قوة الا بہ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوة وسلام بھیجنا ، اللہ تعالی کے قرب کا افضل ترین ذریعہ اور اعلی ترین صالح عمل ہے، اللہ تعالی نے فرمایا :
ان اللہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یاأیھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔(سورة الاحزاب :آیت ۵۶ پارہ ۲۲ رکوع ۴)
’’ اللہ تعالی اور اس کے ملائکہ (فرشتے)نبی پر درود بھیجتے ہیں ،اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’من صلی علی واحدة صلی اللہ علیہ عشرا‘‘۔(مسلم : ج ۱ ص ۱۶۶)
’’ جو کوئی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا‘‘۔
درود و سلام کا پڑھنا ہروقت جائز ہے ،ہر نماز کے آخر میں پڑھنے کی زیادہ تاکید ہے بلکہ اہل عمل کا اس پر اجماع ہے کہ ہر نماز کے آخری تشہد میں درود شریف ضروری ہے اور متعدد مقامات پر سنت مؤکدہ ہے، ان میں سے ایک موقعہ اذان کے بعد کا ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کانام سن کر ۔اس پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کو دین کی سمجھ اور اس پر ثابت رہنے، سنت پر عمل پیرا ہونے اور بدعت سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
انہ جواد کریم و صلی اللہ علیہ نبینا محمد و الہ وصحبہ۔

ہم میلاد کیوں نہیں مناتے؟
 
Top