- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کاشرعی حکم
’’ الحمد للہ والصلوة والسلام علی رسول اللہ و علی الہ و صحبہ ومن اھتدی بھداہ ‘‘
’’ بہت سے افراد نے مجھ سے بار بار میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جشن و مجالس اور اس کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قیام، صلوة و سلام اور میلاد کے نام سے جو کچھ کیاجاتا ہے ،اس کے شرعی حکم کے بارے میں سوال کیا!
جواب:
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جشن منانا اور محفلیں منعقد کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ،یہ سراسر بدعت اور دین میں نئی ایجاد ہے ،کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایسا کیا ، اور نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے ایساکیا، اور نہ قرون اولی میں تابعین و تبع تابعین رحمة اللہ علیہم نے اس کام کو سر انجام دیا ، حالانکہ وہ سب کے سب زیادہ جاننے والے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت میں زیادہ کامل اور اتباع شریعت میں پیش پیش تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ‘‘
(بخاری ، ج۲ ص ۳۷۱، مسلم، ج۲ ص ۱۷، ابو داؤد ،ج۲ ص ۲۷۹ )
’’ جس نے ہمارےاس دین میں کوئی نئی چیز نکالی جو دین میں نہیں ہے وہ مردود ہے ‘‘۔
دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ علیکم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدین المھدین من بعدی تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ و ایاکم و محدثات الامور فان کل محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة ‘‘
( مسند احمد :ج۴ ص ۲۷ ،ابو داؤد ج۲ ص ۲۷۹ ترمذی ج۲ ص ۹۲ ابن ماجہ :ص۵)
’’ میری سنت اورمیرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت لازم پکڑو ،اور اس کو مضبوطی اور سختی سے تھام لو ، اور دین میں نئے نئے ایجاد کردہ کاموں سے بچو ۔کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔
ان دونوں حدیثوں میں بدعات کے ایجاد کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے پر سخت وعید کی گئی ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا۔(سورة الحشر :آیت ۷ پارہ ۲۸ رکوع ۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو ‘‘
اللہ عزوجل کاارشاد ہے :
فلیحذر الذین یخالفون عن أمرہ أن تصیبھم فتنة أو یصیبھم عذاب ألیم۔(سورة النور: آیت ۳۶ پارہ ۱۸ رکوع ۱۵)
’’ ان لوگوں کو ڈرنا چاہیئے جو آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ (دنیا میں )ان کوکوئی آفت و مصیبت یا(قیامت کے دن)درد ناک عذاب پہنچے‘‘۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا :
لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوة حسنہ لمن کان یرجو اللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا۔(سورة الاحزاب :آیت ۱۲ پارہ ۲۱ رکوع ۱۸)
’’ در حقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی اور روزِ آخرت کاامید وار ہو اور اللہ تعالی کوکثرت سے یاد کرے ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ و أعد لھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا أبدا ذلک الفوز العظیم ۔(سورة التوبة: آیت ۱۰۰ پارہ ۱ رکوع ۲)
’’ وہ مہاجرین و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے لگے، اللہ ان سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،اللہ نے ان کےلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم الشان کامیابی ہے ‘‘۔
اللہ تعالی نے فرمایا :
الیوم أکملت لکم دینکم و وأتممت علیکم و نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ۔(سورة المائدة :آیت ۳ پارہ ۶ رکوع ۵)
’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے ‘‘۔
قرآنِ مجید میں اس مفہوم کی بہت سی آیات موجود ہیں ۔دین میں اس قسم کی محفلوں کے ایجاد سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے لئے دین کو مکمل نہیں کیا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قابلِ عمل چیزیں بتائیں ۔اب بعد میں آنے والے لوگوں نے اللہ تعالی کی شریعت میں ایسی ایسی نئی بدعات شروع کردیں جن کی اللہ تعالی نے قطعاً اجازت نہیں دی، ان کاخیال ہے کہ یہ عمل ان کو اللہ تعالی کامقرب بنادے گا (ایسا ہرگز نہیں)بلا شبہ بدعات پر عمل کرنے میں امت کے لیے بڑا خطرہ ہے اور اس طرزِ عمل سے اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا حرف آتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے دین کو مکمل اور نعمت کو پورا کر دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی ہر ایک بات امت تک پہنچا دی اور جنت کی طرف لے جانے اور دوزخ سے بچانے کا کوئی راستہ امت سے اوجھل نہیں رکھا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مابعث اللہ من نبی الا کان حقا علیہ ان یدل امتہ علی خیر مایعلمہ لھم وینذرھم شر ما یعلمہ لھم ‘‘ (صحیح مسلم ، ج۲ ص ۱۲۶)
’’ اللہ تعالی نے ہر نبی پر واجب قرار دیا تھا کہ وہ اپنی امت کو ہر اس بھلائی سے آگاہ کرے جو اپنے علم میں امت کے لئے بہتر جانتا ہو اور ہر اس چیز سے ڈرائے جسے اس کے لئے شر جانتا ہو ‘‘۔
اوریہ سب جانتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور خاتم المرسلین ہیں اور اپنی امت کو دین پہنچانے اور اس کو نصیحت کرنے میں سب سے زیادہ کامل ہیں۔