• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جلوس میلاد ناجائز لیکن دیوبند کا صد سالہ جشن جائزکیوں؟۔۔۔۔

شمولیت
دسمبر 12، 2012
پیغامات
22
ری ایکشن اسکور
19
پوائنٹ
0
جلوس میلاد ناجائز لیکن دیوبند کا صد سالہ جشن جائزکیوں؟۔۔۔۔
صد سالہ جشن دیوبند کا بیان
صدائے باز گشت :۔
شاعر مشرق مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے شہرہءآفاق کلام و اشعار میں ::
زد یوبند حسین احمد ایں چہ بو العجی است فرماکردیوبند و صدر دیوبند کی مشرک دوستی و کانگرس نوازی اور متحدہ قومیت سے ہمنوئی کو بہت عرصہ پہلے جس بوالعجی سے تعبیر فرمایا تھا، بمصداق تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ سے تعبیر فرمایا تھا ، اس بو العجی کی صدائے بازگشت اس وقت بھی سنی گئی ، جب صد سالہ جشن دیوبند میں مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم بھارت کو شمع محفل دیکھ کر خود دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم و لیڈر مولوی احتشام الحق تھانوی (کراچی) کو بھی یہ کہنا پڑا کہ
بہ دیوبند مسز گاندھی ایں چہ بوالعجی است
تفصیل : ۔
اس اجمال کی یہ ہے : کہ شان رسالت و جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے مرکز اور کانگرس کی حمایت و مسلم لیگ و پاکستان کی مخالفت کے گڑھ دارالعلوم دیوبند کا 21، 22، 23۔ مارچ 1980ء کو صد سالہ جشن منایا گیا اور اس موقع پر اندداگاندھی کی کانگریسی حکومت نے جشن دیوبند کا کامیاب بنانے کے لئے ریڈیو۔ ٹی وی۔ اخبارات۔ ریلوے وغیرہ تمام متعلقہ ذرائع سے ہر ممکن تعاون کیا۔ بھارتی محکمہ ڈاک و تارنے اس موقع پر 30 پیسے کا ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا: جس پر مدرسہ دیوبند کی تصویر شائع کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اندرادیوبندی نے"بنفس نفیس" جشن دیوبند کی تقریبات کا افتتاح کیا۔ اپنے دیدار و آواز و نسوانی اداؤں سے دیوبندی ماحول کو مسحور کیا: اور دیوبند کے اسٹیج پر تالیوں کی گونج میں اپنے خطاب سے جشن دیوبند کو مستفیض فرمایا: بانیءدیوبند کے نواسے اور مدرسہ دیوبند کے بزرگ ،مہتمم قاری محمد طیب صاحب نے اندرادیوی کو 'عزت مآب وزیراعظم ہندوستان' کہہ کر خیر مقدم کیا اور اسے بڑی بڑی ہستیوں میں شمار کیا: اور اندرادیوی نے اپنے خطاب میں بالخصوص کہا کہ' ہماری آزادی اور قومی تحریکات سے دارالعلوم دیوبند کی وابستگی اٹوٹ رہی ہے': علاوہ ازیں جشن دیوبند کے اسٹیج سے پنڈت نہروکی رہنمائی و متحدہ قومیت کے سلسلہ میں بھی دیوبند کے کردار کو اہتمام سے بیان کیا گیا : بھارت کے پہلے صدر راجند پرشاد کے حوالہ سے دیوبند کو 'آزادی (ہند) کا ایک مضبوط ستون قرار دیا گیا۔ (ماہنامہ 'رضائے مصطفٰے' گوجرانوالہ جمادی الاخریٰ 1400ھ مطابق اپریل 1980 ء۔)
یادگار اخباری دستاویز :۔
نئی دہلی 21۔ مارچ (ریڈیو رپورٹ) اے آئی آر) دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات شروع ہو گئیں بھارت کی وزیر اعظم مسزاندراگاندھی نے تقریبات کا افتتاح کیا۔(روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت لاہور 22، 23۔ مارچ 1980ء)
تقریر :۔
مسز اندراگاندھی نے کہا دارالعلوم دیوبند نے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان روداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اس نے دیگر اداروں کے ساتھ مل جل کر آزادی کی جدوجہد کوآگے بڑھایا۔ انھوں نے دارالعلوم کا موازنہ اپنی پارٹی کانگریس سے کیا (روزنامہ جنگ راولپنڈی 23 مارچ
تصویر :۔
روزنامہ جنگ کراچی 3 اپریل کی ایک تصویر میں مولویوں کے جھرمٹ میں ایک ننگے منہ ننگے سر برہنہ بازو۔ عورت کو تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔ 'مسز اندراگاندھی دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر تقریر کر ہی ہیں۔':
روزنامہ 'نوائے وقت' لاہور۔9۔اپریل کی تصویر میں ایک مولوی کو اندراگاندھی کے ساتھ دکھایا گیا ہے اور تصویر کے نیچے لکھا ہے۔'مولانا راحت گل مسزاندراگاندھی سے ملاقات کرنے کے بعد واپس آ رہے ہیں۔'
دیگر شرکاء :۔
جشن دیوبند میں مسزاندراگاندھی کے علاوہ مسٹر راج نرائن، جگ جیون رام، مسٹر بھوگنا نے بھی شرکت کی۔(جنگ کراچی 11۔اپریل)
سنجے گاندھی کی دعوت :۔
اندراگاندھی کے بیٹے سنجے گاندھی نے کھانے کا وسیع انتظام کر رکھا تھا۔ سنجے گاندھی نے تقریبا پچاس ہزار افراد کو تین دن کھانا دیا۔ جو پلاسٹک کے لفافوں میں بند ہوتا تھا۔ بھارتی حکومت کے علاوہ وہاں کے غیر مسلم باشندوں ہندواؤں اور سکھوں نے بھی دارالعلوم کے ساتھ تعاون کیا۔ (روزنامہ امروز لاہور 9۔اپریل)
ہندواؤں کا شوق میزبانی :۔
کئی مندوبین (دیوبندی علماء) کو ہندو اصرار کرکے اپنے گھر لے گئے جہاں وہ چار دن ٹھہرے۔ (روزنامہ امروز لاہور27۔ مارچ 1980ء)
حکومتی دلچسپی :۔
اندراگاندھی اور سنجے گاندھی وغیرہ کی ذاتی دلچسپی کے علاوہ اندرا حکومت نے بھی جشن دیوبند کے سلسلہ میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور اس جشن کے خاص انتظام و اہتمام کے لئے ملک و حکومت کی پوری مشیزی حرکت میں آ گئی اور بڑے بڑے سرکار حکام نے بہت پہلے سے اس کو ہر اعتبار سے کامیاب بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اپنےآرام و سکون کو قربان کر دیا۔ اور شب و روز اسی میں لگے رہے ریلوے، ڈاک، پریس، ٹی وی، ریڈیو اور پولیس کے حفاظتی عملہ نے منتظمین جشن کے ساتھ جس فراخدلی سے اشتراک و تعاون کیا ہے۔اس صدی میں کسی مذہبی جشن کے لئے ا سکی مثال دور دور تک نظر نہیں آتی۔(ماہنامہ فیض رسول براؤن بھارت۔مارچ 1980ء)
ڈیڑھ کروڑ :۔
جشن دیوبند کے مندوبین نے واپسی پر بتایا کہ جشن دیوبند کی تقریبات پر بھارتی حکومت نے ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کئے اور ساٹھ لاکھ روپے دارالعلوم نے اس مقصد کے لئے اکٹھے کئے۔ (روزنامہ امروز لاہور 27مارچ 1980ء)
30۔ لاکھ:۔
مرکزی حکومت نے قصبہ دیوبند ک نوک پلک درست کرنے کے لئے، 30 لاکھ روپیہ کی گرانٹ الگ مہیا کی۔ روٹری کلب نے ہسپتال کی صورت میں اپنی خدمات پیش کیں۔ جس میں دن رات ڈاکٹروں کا انتظام تھا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل 1980ء)
کسٹم :۔
ہنگامی طور پر جلسہ کے گرد متعدد نئی سڑکوں کی تعمیر کی گئی اور بجلی کی ہائی پاور لائن مہیا کی گئی بھارتی کسٹم اور امیگریشن حکام کا رویہ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے مندوبین کو کسی قسم کی تکلیف نہیں آنے دی۔ (روزنامہ امروز لاہور 9 اپریل 1980ء)
اخراجات جشن :۔
تقریبا جشن کے انتظامات وغیرہ پر 75 لاکھ سے زائد رقم خرچ کی گئی،: پنڈال پر چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔ کیمپوں پر ساڑھے چار لاکھ سے بھی زیادہ کی رقم خرچ ہوئی۔: بجلی کے انتظام پر 3 لاکھ سے بھی زیادہ روپیہ خرچ ہوا۔ (روزنامہ جنگ راولپنڈی 3۔اپریل مروز لاہور 9 ۔اپریل 1980ء)

اندرا سے استمداد :
مفتی محمودنے اسٹیج پر مسز اندراگاندھی سے ملاقات کی اور ان سے دہلی جانے اور ویزے جاری کرنے کے لئے کہا۔ اس پر اندراگاندھی نے ہدایت جاری کی کہ اسے ویزے جاری کردئیے جائیں۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے دیوبند میں ویزا آفس کھول دیا۔ (روزنامہ نوائے وقت لاہور 26مارچ1980ء)
دیوبند کے تبرکات:
زائرین دیوبند و جشن دیوبند میں شرکت کے علاوہ واپسی پر وہاں سے بےشمار تحفے تحائف بھی ہمراہ لائے ہیں ان میں کھیلوں کا سامان ہاکیاں طور کرکٹ گیندوں کے علاوہ سیب، گنے، ناریل، کیلا، انناس، کپڑے، جوتے، چوڑیاں، چھتریاں اور دوسرا سینکڑوں قسم کا سامان شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ چند ایک زائرین اپنے ہمراہ لکڑی کی بڑی بڑی پارٹیشنین بھی لاہور لائے ہیں۔ (روزنامہ مشرق۔ نوائے وقت 26 مارچ 1980ء)
تاثرات
احتشام الحق تھانوی:
کراچی 22 ۔مارچ مولونا احتشام الحق تھانوی نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا صدسالہ اجلاس جو مذہبی پیشوا اور علماءو مشائخ کا خالص مذہنی اور عالمی اجتماع ہے اس کا افتتاح ایک (غیر مسلم اور غیر محرم خاتون) کے ہاتھ سے کراکرنہ صرف مسلمانوں کی مذہبی رویاات کے خلاف ہے بلکہ ان برگزیدہ مذہنی شخصیتوں کے تقدس کے منافی بھی ہے جو اپنے اپنے حلقے اور علاقوں سے اسلام کی اتھارٹی اور ترجمان ہونے کی حقیقت سے اجتماع میں شریک ہوئے ہیں۔ ایشیاکی دینی درسگاہ کے اس خالص مذہبی صد سالہ اجلاس کو ملکی سیاست کے لئے استعمال کرنا ارباب دارالعلوم کی جانب سے مقدس مذہبی شخصیتوں کا بدترین استحصال اور اسلاف کے نام پر بدترین قسم کی استخوان فروشی ہے ہم ارباب دارالعلوم کے اس غیر شرعی اقدام پر اپنے دلی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ اس شرمناک حرکت کی ذمہ داری دارالعلوم دیوبند کے مہتمم پر ہے۔ جنہوں نے دارالعلوم کی صد سالہ روشن تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ (روزنامہ امن کراچی 24۔ مارچ 1980ء)
وقار انبالوی :
مولانا احتشام الحق صاحب کا یہ کہنا :
(بہ دیوبند مسز اندرا ایں چہ بوالعجبی است)
کی وضاحت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ یہ تو اب تاریخ دیوبند کا ایک ایسا موڑ بن گیا ہے کہ ماؤرخ ا سے کسی طرح نظر انداز کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے دامن سے یہ داغ شاید ہی مٹ سکے۔ وقتی مصلحتوں نے علمی غیرت اور حمیت فقر کو گہنا دیا تھا۔ اس فقیر کو یا د ہے کہ متحدہ و قومیت کی تارنگ میں ایک مرتبہ بعض علماءسوامی سردہانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھانے کا ارتکاب بھی کر چکے ہیں لیکن دو برس بعد اسی سردہانند نے مسلمانوں کو شدھی کرنے یا بھارت سے نکالنے کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ (سرراہے نوائے وقت 29۔ مارچ 1980ء)
 
Top