• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جماعت وبیعت

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جماعت وبیعت

اَبو علی حمزہ مدنی​
اَحادیث ِمبارکہ میں التزامِ جماعت کا جو حکم بیان ہوا ہے، اس سے مراد یا تو مسلمانوں کی جماعت (اُمت ِمسلمہ) ہے یا پھر مسلمانوں کی حکومت، کیونکہ’’ یَدُ اﷲِ عَلَی الْجَمَاعَۃ ‘‘ ہو یا ’’ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ ‘‘ یا ’’ تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِینَ ‘‘ تقریباً تمام نصوص میں یہ لفظ یا تو الجماعۃ کے الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے یا پھر اضافت کے ساتھ اس کو معرفہ بیان کیا گیا۔ اسی طرح احادیث میں کسی جماعت کا نظم یا اس کی بنیاد بیان نہیں ہوئی بلکہ الجماعۃ یا جماعۃ المسلمین کی بنیاد اور اس کا نظم بیان ہوا ہے کیونکہ اَحادیث میں کہیں بھی ’سمع واِطاعت‘ کی اصطلاحات یا ’بیعت‘ کی اصطلاح کسی محدود جماعت یا انجمن کیلئے بیان نہیں ہوئی بلکہ ’الجماعۃ ‘یا ’جماعۃ المسلمین ‘کے الفاظ سے بیان ہوئی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جتنی بھی جماعتیں موجود ہیں، وہ نہ تو الجماعۃ ہیں اور نہ ہی جماعۃ المسلمین، ان کو ہم ان کو فکری، سماجی، مذہبی اور سیاسی تنظیمیں کہہ سکتے ہیں یا اپنی زبان میں ’انجمن‘ بول سکتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان جماعتوں یا انجمنوں کا نظم اور بنیاد وہی رکھی جا سکتی ہے جو کہ الجماعۃ یا جماعۃ المسلمین کے حوالے سے احادیث میں بیان ہوئی ہے؟ تو یہ سارا قیاس ومصالح اور اجتہاد کا میدان ہے۔ اس مسئلے پر علمائے اہل حدیث میں تقریباً ایک صدی سے بحث چلتی آ رہی ہے اور دو موقف سامنے آئے ہیں:
1۔ان اصطلاحات سمیت نظم جماعت کو جو کہ احادیث میں الجماعۃ کیلئے بیان ہوا ہے اس کو کسی عام انجمن یا جماعت کے لیے بھی ہونا چاہیے۔
2۔دوسرا موقف یہ تھا کہ اس معاملہ میں توسع ہے۔
پہلے موقف کے حاملین پھر دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے:
پہلے گروہ نے کہا کہ جو بھی اپنی کسی محدود تنظیم یا انجمن کیلئے الجماعۃ کے نظم جماعت کو بنیاد بنانا چاہتا ہے وہ الجماعۃ یا جماعۃ المسلمین ہی ہے، اس کا حجم چھوٹا یا بڑا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چنانچہ زکوٰۃ کی اَدائیگی بھی امامِ جماعت کو کرنی لازمی ہے۔ ’جماعت غربا اہل حدیث‘ اسی فکر کی پیداوار ہے۔ گویا ان کے نزدیک تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے ان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنا واجب ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو الجماعۃ کہتے ہیں۔
دوسرے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ الجماعۃ کا نظم جماعت جو کسی محدود تنظیم یا انجمن کے لیے استعمال ہو، وہ امامت صغریٰ ہے جیسا کہ نماز باجماعت کے امام یا سفری اَمیر کا معاملہ ہے، اس لئے تمام اُمور کی پابندی امامت کبریٰ (خلافت) کی سی نہیں ہے۔ مثلاً اس میں بیعت نہیں ہے۔ ہم اس وقت دیگر مسائل سے قطع نظر صرف ’مسئلہ بیعت‘ کو لیتے ہیں۔
چونکہ اللہ کے رسولﷺ کی بیعت دو طرح کی تھی: ایک بیعت ِنبوت اور دوسری بیعت اِمامت واِمارت۔ پہلی آپﷺ کی وفات کے ساتھ یوں تبدیل ہوگئی ہے کہ اب اس کیلئے غیر مسلموں سے تو کلمہ طیبہ لا إِلہ إِلا اﷲ، محمد رسول اﷲ ہی بیعت کے قائم مقام ہے کیونکہ نبیﷺ کی نبوت دائمی ہے اس میں نیابت کی ضرورت نہیں۔ جبکہ دوسری آپﷺ کی وفات کے بعد آپ کے خلفا (نائبین)لیتے رہے ۔بیعت ِعقبہ اولیٰ اور ثانیہ بیعت ِنبوت بھی تھی اور بیعت ِامامت بھی، کیونکہ:
  • ایک روایت میں الفاظ ہیں: تَوَاثَقْنَا عَلَی الإِسْلَام (صحیح البخاري: ۳۸۸۹)
  • دوسری روایت کے الفاظ ہیں: بَایَعنَا عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَکْرَھِنَا وَعُسْرِنَا وَیُسْرِنَا وَأَثَرَۃٍ عَلَیْنَا وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَہْلَہٗ إِلَّا أَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَّاحًا عِنْدَکُمْ مِنَ اﷲِ فِیہِ بُرْھَانٌ (صحیح البخاري: ۷۰۵۶)
  • ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں: … وَلَا تَعْصَوْا فِي مَعْرُوفٍ، فمَنْ وَفَیٰ مِنْکُمْ فَأَجْرُہٗ عَلَی اﷲِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْیَا فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ … (صحیح البخاري: ۱۸)
اس روایت میں وقت ِبیعت، حدود کے نفاذ کی طرف اشارہ ہے۔
جہاں تک سیدنا حسین بن علی﷜، عبد اللہ بن زبیر﷜ اور سید اَحمد بریلوی شہید وغیرہ کی بیعت کا معاملہ ہے تو وہ اس وجہ سے تھی کہ یہ سب حضرات امامت ِکبریٰ کے دعویدار تھے اور اُنہوں نے مسلمانوں کے امام کی حیثیت سے بیعت لی۔ آج بھی کوئی اگر مسلمانوں کا امام ہونے کا دعویدار ہے تو وہ یہ بیعت لے سکتا ہے، خواہ یہ دعویٰ ایک خاص علاقے کے مسلمانوں کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو، جیسے ملا عمر کی بیعت ہے ۔
دوسرے الفاظ میں صرف اس جماعت کی بنیاد سمع واِطاعت اور بیعت کے نظام پر رکھی جا سکتی ہے جو کسی خاص علاقے میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہو یا اس کی دعویدار ہو، یعنی اس کے پاس اس علاقے کی حکومت ہو۔ جہاں تک ایک محدود جماعت یا انجمن کا معاملہ ہے اس کیلئے نظم جماعت کی کوئی بنیاد، ہمیں قرآن وسنت سے نہیں ملتی کیوں کہ قرآن وسنت نے ہمیں کوئی محدود جماعت یا انجمن قائم کرنے یا اس کے اِلتزام کا حکم نہیں دیا بلکہ الجماعۃ یا جماعۃ المسلمین کے اِلتزام اور ان کے امام کی سمع واِطاعت کا حکم دیا ہے اور ان کے قیام کو اُمت ِمسلمہ پر فرض قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ الجماعۃ کا اس وقت وجود ہے یا نہیں؟ میری ناقص رائے یہ ہے کہ چونکہ اُمت ِمسلمہ یا ملت ِاسلامیہ کا وجود ہر علاقہ میں ہے اس لئے ملک وملت کی سطح پر کم از کم الجماعۃ اور جماعۃ المسلمین توموجود ہیں لیکن ان کا امام نہیں ہے جسے ’اَمیر المومنین‘ کہا جا سکے، کیونکہ جو بھی حکام ہیں، وہ امامت کی شرائط پوری نہیں کرتے۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے کسی مناسب شخص کو امام مقرر کریں کیونکہ امام کے بغیر زندگی گزارنے سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع فرمایاہے۔ اب اس امام کے تقرر کیلئے اگر کسی جماعتی جد وجہد کی ضرورت ہے تو وہ بھی بنائی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس امام کا تقرر بغیر کسی جماعتی جد وجہد کے ممکن ہی نہ ہو تو پھر ’’ ما لا یتمّ الواجب إلا بہ فھو واجب ‘‘ کے مصداق اس جماعت کا بنانا واجب ہو گا تاکہ اللہ کے رسولﷺ کے فرامین ’’ تَلْزَم جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِینَ وَإِمَامَھُمْ ‘‘ وغیرہ پر عمل ہو سکے۔
گویا اب الجماعۃکے علاوہ دو قسم کی جماعتوں کے رہنماؤں کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے، ایک وہ جو کسی علاقے میں کسی نظم اجتماعی کے بالمقابل اپنی امامت کا دعویٰ کریں تو یہ حضرات بیعت لے سکتے ہیں جیسا کہ سیدنا حسین﷜، سیدنا عبد اللہ بن زبیر﷜، سید اَحمد بریلوی شہید اور ملا عمر وغیرہ کی مثالیں ہیں۔ لیکن اگر کسی جگہ کسی محدود جماعت کا امیر مسلمانوں کی امامت کا دعویدار تو نہ ہو لیکن اس امامت کو قائم کرنے کیلئے کوشاں ہو تو میری ناقص رائے کے مطابق وہ اِمامت ِصغریٰ ہے لہٰذا اس محدود جماعت کی بنیاد بیعت پر نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کیلئے عام انجمنوں کا سا نظام اپنایا جائے گا جیسا کہ جماعت ِاسلامی اور تنظیم اسلامی وغیرہ نے اپنا نظم قائم کیا ہوا ہے، البتہ تنظیم اسلامی کے اَمیر کا بیعت لینا محل نظر ہے کیونکہ اس کی شرعی دلیل نہیں ہے جیسا کہ نماز باجماعت کے امام اور سفری اَمیر کا معاملہ پہلے گزر چکا ہے کہ ان کی بیعت نہیں ہوتی۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا اس امارتِ صغریٰ یا انجمن کا نظم کیا ہوگا؟ تو اس سلسلہ میں بہتر تو یہی ہے کہ اس کے نظم کیلئے تمام اُصول اسی طرح امارتِ کبریٰ سے لیے جائیں جس طرح امارتِ کبریٰ نے خاندانی نظم سے اپنا نظام کشید کیا بلکہ سیدنا علی﷜ نے خلیفہ اَول ابو بکر صدیق﷜ کی بیعت کے بعد اپنے موقف کی یوں وضاحت کی:
’’ رَضِیَکَ لِدِینِنَا فَنَرْضَکَ لِدُنْیَانَا ‘‘ (طبقات ابن سعد: ۳/۴۳) ’’نبی کریمﷺ نے آپ کو ہمارے دین (اپنی زندگی میں نمازِ باجماعت) کا اِمام بنایا تو ہم نے اس بنا پر آپ کو اپنی دُنیا کا امام بنا لیا۔‘‘
لہٰذا محتاط اَمر یہ ہے کہ جب کسی محدود جماعت کا کوئی اور نظم ہی بنانا ہے تو کیوں نہ اس نظم کو اختیار کر لیا جائے جو کم اَز کم کتاب وسنت میں تو موجود ہے ؟
جہاں تک اس جماعت کے بنانے کے جواز کا معاملہ ہے تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں کہ وہ حالات سے طے ہو گا، کبھی اس کا حکم جوازکا ہو گا اور کبھی وجوب کا۔ جواز کا حکم تو ہر صورت میں ہے اور وجوب کا حکم صرف ان حالات میں ہو گا جب کسی جماعت کے بغیر امام کے تقرر کا فریضہ مکمل نہ ہو سکتا ہو۔
البتہ اگر کسی علاقے میں یہ صورت پیدا ہو جائے کہ وہاں کوئی الجماعۃ یا جماعۃ المسلمین اور ان کا متفقہ امام بنانا ممکن نہ ہو، جیسا کہ عراق کی صورتِ حال ہے تو ایسے ہی سوال کے جواب میں نبی کریمﷺ نے فرمایا
تھا:’’فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّیٰ یُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَیٰ ذَلِکَ ‘‘ (صحیح البخاري: ۳۶۰۶)
’’پھر ان تمام ٹولیوں سے الگ ہو جائو، خواہ تمہیں درخت کی جڑیں کھا کر گزارا کرنا پڑے (اس فتنۂ انتشار سے بچنا لازمی ہے) حتیٰ کہ اسی حال پر موت آجائے۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
’’ فَإِنْ تَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ عَلَیٰ جِذْلٍ خَیْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تَتَّبِعَ أَحَدًا مِنْھُمْ ‘‘ (أبو داؤد : ۴۲۴۴)
’’اگر تمہیں اس حالت میں موت آئے کہ تم نے درخت کی جڑ کو دانتوں تلے دبایا ہو، یہ بہتر ہے اس سے کہ تم مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ان کے پیرو کار بنو۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے حالات میں مسلمانوں کی مختلف ٹولیوں کیلئے فرق کا لفظ استعمال کیا ہے جو خاص طور پر قابل غور ہے۔
اسلامی ممالک میں الجماعۃ اور جماعۃ المسلمین (اُمت ِمسلمہ) تو ہر جگہ موجود ہے لیکن ان کے اکثر وبیشتر ’امام‘ نہیں ہیں لہٰذا ان کا تقرر اُمت ِمسلمہ پر فرض ہے۔
 
Top