• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن امام خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھ جائے تو مؤذن اس کے سامنے کھٹرا ہوکر اذان کہے ؟؟؟

نبیل ارشد

مبتدی
شمولیت
اپریل 07، 2013
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
89
پوائنٹ
23
کیا کوئی ایسی حدیث ہے کہ جب جمعہ کے دن امام خطبہ کے لئے منبر پر بیٹھ جائے تو مؤذن اس کے سامنے کھٹرا ہوکر اذان کہے ؟؟؟ حوالہ کے ساتھ بتائین اگر ہے تو ۔ جزاک اللہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جی ہاں بالکل ایسی حدیث ہے اور صحیح بھی ہے۔
ملاحظہ ہو یہ حدیث سند اور متن کے ساتھ :

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ الصَّنْعَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدَانُ، ثنا هُرَيْمُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: ثنا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ النِّدَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عِنْدَ الْمِنْبَرِ، وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ النِّدَاءَ الْأَخِيرَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ» [المعجم الكبير للطبراني 7/ 146 رقم 6646]۔
صحابی رسول سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکررضی اللہ عنہ اور عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں (جمعہ کی) کی اذان منبر کے پاس ہوتی تھی ، اور جس نے سب سے پہلے (جمعہ کی) دوسری اذان شروع کرائی ہے وہ عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے۔اس سند کے سارے رجال ثقہ ہیں اورسند بھی متصل ہے۔

یہاں صرف یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ امام زہری کاعنعنہ ہے اور بعض نے انہیں مدلس کہا ہے ۔ تو جوابا عرض ہے۔

اولا:
امام زھری رحمہ اللہ کا مدلس ہونا قطعا ثابت نہیں متقدمین میں سے کسی ایک نے بھی انہیں مدلس قرار نہیں دیا ہے۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے امام شافعی اور امام دارقطنی رحمہماللہ کی طرف منسوب بات کو بنیاد بناکر انہیں مدلس کہہ دیا ہے لیکن یہ بات امام شافعی اور اورامام دارقطنی رحمہما اللہ سے ثابت ہی نہیں ہے۔
کچھ عرصہ قبل ناچیز بھی یہ سمجھتا تھا کہ یہ مدلس ہیں لیکن بعد کے مطالعہ کے نتیجہ میں میرے نزدیک یہی ثابت ہوا کہ امام زہری رحمہ اللہ مدلس نہیں ۔ والحمدللہ۔

ثانیا:
متاخرین میں سے جن لوگوں نے انہیں مدلس مانا ہے انہوں نے بھی انہیں طبقہ اولی یا ثانیہ کا مدلس مانا ہے اور ان کے عنعنہ کو قبول کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اسے تیسرے طبقہ میں رکھا ہے لیکن یہ بات خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اصول کی روشنی میں بھی درست نہیں کیونکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جس کی تدلیس ثابت نہ ہو یا جو قلیل التدلس راوی ہو وہ پہلے یا دوسرے طبقہ کا ہوگا ، اورامام زہری رحمہ اللہ کا کثیر التدلیس ہونا دور کی بات ان کا قلیل التدلیس ہونا بھی ثابت نہیں ہے۔
ظن غالب یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے جلدبازی میں غیرشعوری طور پر طبقات میں اسے تیسرے طبقہ میں رکھ دیا اور نکت میں بھی یہی ترتیب نقل کردی اس احتمال کا قرینہ یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کسی بھی روایت کو امام زہری کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا بلکہ اس کے برعکس متعدد ایسی روایات کو حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے جس میں امام زہری رحمہ اللہ کاعنعنہ ہے۔ مثلا دیکھئے: فتح الباري 63/7 نیز فتح الباري 146/7 وغیرہ۔


ثالثا:
صلاح الدين العلائي رحمه الله (المتوفى:761)نے کہا:
قد قبل الأئمة قوله عن
یعنی ائمہ محدثین نے ان کے عنعنہ کو قبول کیا ہے یعنی ان کے عنعنہ کی قبولیت پر محدثین کا اجماع ہے[جامع التحصيل للعلائي: ص: 109]۔
معاصرین میں سب سے عظیم محدث علامہ البانی رحمہ اللہ ہیں وہ بھی امام زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کو قبول کرتے ہیں ۔
بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ سے قبل بھی کسی ایک بھی محدث نے امام زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے کسی حدیث کو ضعیف نہیں کیا ہے۔

نوٹ: سلیمان تیمی کے بارے میں ابن معین نے کہا:
كان سليمان التيمي يدلس
یعنی سلیمان تیمی تدلیس کرتے تھے[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 141]

عرض ہے کہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے ارسال کے معنی میں تدلیس کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ سلیمان تیمی کے بارے میں ثابت شدہ بات یہ یہی ہے کہ وہ ارسال کرتے تھے ۔اوراہل علم نے اس بات کی صراحت بھی کی ہے اس لئے ابن معین رحمہ اللہ کے کلام کو ارسال کے معنی میں ہی لیا جائے گا۔
واضح رہے کہ بعض اہل علم ارسال کے معنی میں تدلیس کا لفظ بولتے تھے ان میں امام ابن معین رحمہ اللہ بھی ہیں چنانچہ:
ایک مقام پر امام ابن معين رحمه الله نے کہا:
دلس هشيم عن زاذان أبي منصور ولم يسمع منه
ہشیم نے زادان سے تدلیس کی ہے اور ہشیم نے زاذان سے سناہی نہیں[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 380]

یعنی جب ہشیم نے زادان سے سنا ہی نہیں تو ان سے تدلیس کیسے کرسکتے ہیں ، البتہ ارسال کرسکتے ہیں ۔ثابت ہوا کہ ابن معین رحمہ اللہ ارسال کے معنی میں بھی تدلیس کا لفظ بولتے تھے۔

اس سے بھی واضح حوالہ یہ ہے کہ :
أبو بكر خلال (المتوفى311)نے کہا:
وقلت لأحمد ويحيى: حدثوني عن عبد الحميد بن أبي روَّاد، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) : "لكل أمة فرعون، وفرعون هذه الأمة معاوية بن أبي سفيان".فقالا: جميعاً: ليس بصحيح، وليس يعرف هذا الحديث من أحاديث عبيد الله، ولم يسمع عبد المجيد بن أبي رواد من عبيد الله شيئاً، ينبغي أن يكون عبد المجيد دلسه؛ سمعه من إنسان، فحدث به.[المنتخب من علل الخلال ص: 227]

یعنی عبدالمجید نے ابورواد سے کچھ بھی نہیں سنا ہے تو ان سے تدلیس کیسے کرسکتے ہیں ؟ یہ تو ارسال ہی کہلائے گا ۔ معلوم ہوا کہ ابن معین رحمہ اللہ ارسال کے معنی میں تدلیس کا لفظ بولتے تھے۔

تنبیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جمعہ کی اصل اذان مسجد کے دروازہ کے چھت پر یا مسجد کے چھت پر ہوتی تھی اس لئے آج بھی جمعہ کی اذان کے لئے مسجد سے باہر ہی انتظام ہونا چاہئے:

علامہ البانی رحمہ اللہ دلیل میں محمدبن اسحاق کےطریق والی روایت پیش کی ہے جو اس طرح ہے:

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الذَّهَبِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «مَا كَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ، لَمْ يَكُنْ يُؤَذِّنُ لَهُ غَيْرُهُ، فَكَانُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَذَّنَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ كَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَذَلِكَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عُثْمَانُ كَثُرَ النَّاسُ , فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الْأَوَّلِ بِالسُّوقِ عَلَى دَارٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ، فَكَانَ يُؤَذَّنُ لَهُ عَلَيْهَا، فَإِذَا جَلَسَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ الْأَوَّلُ، فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ الصَّلَاةَ» [المعجم الكبير للطبراني 7/ 145]۔

یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ سند میں محمدبن اسحاق مدلس ہیں اور انہوں نے عن سے روایت کیا ہے۔ اور محمدبن اسحاق کا عنعنہ بالاتفاق مردود ہوتاہے۔

نوٹ: علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ اس حدیث میں امام زہری کا بھی عنعنہ ہے لیکن ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ ان کا عنعنہ مضر نہیں ہے۔


بعض حضرات علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس فتوی کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں بھی دیکھتے ہیں کہ جمعہ کے دن منبر کے سامنے اذان ہورہی ہے اسے بدعت کہہ دیتے ہیں اور اس کا حل یہ بتلاتے کہ مؤذن منبر سے تھوڑا دور ہوجائے یا تھوڑی دور دائیں ہو جائے یا تھوڑی دور بائیں ہوجائے ۔

حالانکہ ایسا کرنا ایک بدعت ختم کرکے دوسری بدعت شروع کرنا ہے، اور علامہ البانی رحمہ اللہ کے فتوی کے خلاف بھی ہے ۔
کیونکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف یہ نہیں کہا ہے کہ جمعہ کی اذان منبر کے سامنے سے نہیں ہونی چاہئے بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ جمعہ کی اذان سرے سے مسجد میں ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ مسجد سے باہر مسجد کے چھت پر ہونی چاہئے۔

ملاحظہ ہوں علامہ البانی رحمہ اللہ کے مکمل الفاظ:
لكننا نعتقد أن الأذان في المسجد أمام المكبر لا يشرع لأمور منها التشويش على من فيه من التالين والمصلين والذاكرين ومنها عدم ظهور المؤذن بجسمه فإن ذلك من تمام هذا الشعار الإسلامي العظيم "الأذان"
لذلك نرى أنه لابد للمؤذن من البروز على المسجد والتأذين أمام المكبر فيجمع بين المصلحتين وهذا التحقيق يقتضي اتخاذ مكان خاص فوق المسجد يصعد إليه ويوصل إليه مكبر الصوت فيؤذن أمامه وهو ظاهر للناس ومن فائدة ذلك أنه قد تنقطع القوة الكهربائية ويستمر المؤذن على أذانه وتبليغه إياه إلى الناس من فوق المسجد كما هو ظاهر
[الأجوبة النافعة عن أسئلة لجنة مسجد الجامعة:ص: 35 ]۔

لیکن ہماری رائے یہ ہے کہ مسجد کے اندر لاوڈ اسپیکر کے سامنے اذان دینا غیر مشروع ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں انہیں میں سے ایک یہ کہ ایسا کرنے سے مسجد کے اندر موجود تلاوت کرنے والوں ، نماز پڑھنے والوں اور ذکر و اذکار کرنے والوں کو تشویش ہوگی ، اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسجد میں اذان دینے سے مؤذن اپنے جسم کے ساتھ لوگوں کے لئے ظاہر نہیں ہوسکتا اور اذان جیسے عظیم اسلامی شعار میں یہ چیز بھی شامل ہے۔
لہٰذا ہمارا موقف یہ ہے کہ مؤذن کے لئے لازم ہے کہ وہ مسجد کے اوپر خود کو ظاہر کرے اور وہاں پر لاوڈ اسپیکرسے اذان دے تاکہ دونوں مصلحتوں (مؤذن کا ظاہر ہونا اور آواز کو دور تک پہچانا) کی ایک ساتھ رعایت ہو ۔ اور ایسا تبھی ہوسکتا ہے جب مسجد کے اوپر ایک خاص جگہ بنادی جائے جہاں مؤذن چڑھ کاجائے اور وہاں لاؤڈ اسپیکر کا بھی انتظام کردیا جائے تاکہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر مؤذن اس طرح اذان دے کہ وہ خود بھی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو۔ اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر کبھی لائٹ چلی گئی تو بھی مؤذن اپنی اذان کو جاری رکھ سکتا ہے اور مسجد کے اوپرسے اپنی آواز لوگوں تک پہنچا سکتا ہے جیساکہ واضح ہے۔
معلوم ہوا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ صرف مسجد میں منبر کے سامنے سے اذان دینے پر نکیر نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ تو سرے سے مسجد میں ہی اذان کے منکر ہیں ۔
لہٰذا جو حضرات بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے فتوی پر عمل کروانا چاہئے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ مؤذن کو صرف منبر سے دور نہ کریں بلکہ اسے سرے سے مسجد سے ہی باہر کردیں اور مسجد کے چھت پر اذان کا بندوبست کریں۔



واضح رہے کہ جمعہ کے علاوہ بقیہ عام نمازوں کے بارے میں ثابت ہے کہ مسجد کے باہر سے چھت پردی جاتی تھی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جواب کو اپڈیٹ کیا گیا ہے بتاریخ 12 اگست 2013
 
Top