• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن ایک دفعہ ہی اذان کہی جائے گی ، جب امام منبر پر بیٹھ جائے

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم الله الرحمن الرحیم

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّيْ الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب وقت الجمعة إذا زالت الشمس 1 / 307، الرقم : 862، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 150، الرقم : 12537، والترمذي فی السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء فی وقت الجمعة، 2 / 377، الرقم : 503، والطيالسي في المسند، 1 / 285، الرقم : 2139، وابن الجارود فی المنتقٰی، 1 / 81، الرقم : 389، والبيهقي في السنن الکبری 3 / 190، الرقم : 5460.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔


عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَکَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، 1

سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب سخت سردی ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ جلد پڑھ لیتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز جمعہ ٹھنڈی کر کے پڑھتے۔
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔


عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه حِينَ کَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَکَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ
. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علی المنبر عند التأذين، 1 / 310، الرقم : 873.

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کہنے کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب کہ مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور پہلے جمعہ کے روز صرف اُس وقت اذان ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا ‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔


عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الإِمَامُ عَلَى المِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: " الزَّوْرَاءُ: مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ )صحیح البخاری ۹۱۲ )
جناب سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ امام ابوعبداللہ (بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، 1 / 310، الرقم : 874، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب النداء يوم الجمعة، 1 / 285، الرقم : 1087، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأذان للجمعة 3 / 100، الرقم : 1392، والطبراني فيالمعجم الکبير، 7 / 147، الرقم : 6648، والبيهقي في السنن الکبير، 3 / 205، الرقم : 5535.

اور صحیح البخاری میں ہے :

عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: «إِنَّ الأَذَانَ يَوْمَ الجُمُعَةِ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ، يَوْمَ الجُمُعَةِ عَلَى المِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلاَفَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَثُرُوا، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الجُمُعَةِ بِالأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ، فَثَبَتَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ»

ترجمہ :
سائب بن یزید رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جمعہ کے روز کی پہلی اذان وہی ہوتی جس وقت امام جمعہ کے روز منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بڑھ گئے تو آپ رضی الله عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ پس وہ زوراء کے مقام پر کہی جاتی تھی اور یہی معمول قرار پایا۔‘‘
تیسری اذان سے مراد یہ کہ پہلے صرف ایک اذٓن اور اقامت کہی جاتی تھی ، اب ایک اور اذان بھی جاری کی جو مسجد سے باہر بازار میں دی جاتی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور امام ابن حجر فتح الباری شرح صحیح البخاری میں اس کے تحت لکھتے ہیں :
قَوْلُهُ عَلَى الزَّوْرَاءِ بِفَتْحِ الزَّايِ وَسُكُونِ الْوَاوِ وَبَعْدَهَا رَاءٌ مَمْدُودَةٌ وَقَوْلُهُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ هُوَ الْمُصَنِّفُ وَهَذَا فِي رِوَايَةِ أَبِي ذَرٍّ وَحْدَهُ وَمَا فَسَّرَ بِهِ الزَّوْرَاء هُوَ الْمُعْتَمد وَجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ وَفِيه نظر لما فِي رِوَايَة بن إِسْحَاق عَن الزُّهْرِيّ عِنْد بن خُزَيْمَة وبن مَاجَهْ بِلَفْظِ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى دَارٍ فِي السُّوقِ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ وَفِي رِوَايَتِهِ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ فَأَمَرَ بِالنِّدَاءِ الْأَوَّلِ عَلَى دَارٍ لَهُ يُقَالُ لَهَا الزَّوْرَاءُ فَكَانَ يُؤَذَّنُ لَهُ عَلَيْهَا فَإِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ أَذَّنَ مُؤَذِّنُهُ الْأَوَّلُ فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ الصَّلَاةَ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ فَأَذَّنَ بِالزَّوْرَاءِ قَبْلَ خُرُوجِهِ لِيَعْلَمَ النَّاسُ أَنَّ الْجُمُعَةَ قَدْ حَضَرَتْ (فتح الباری )
یعنی امام بخاری نے کہا کہ ( زوراء ) سے مراد مدینہ منورہ کے بازار میں ایک اونچی جگہ کا نام ہے ، اور یہی معتبر ہے ، امام ابن بطال نے فرمایا کہ زوراء ایک بڑا پتھر ہے جو مسجد نبوی کے دروازے کے قریب ہے ‘‘
جبکہ صحیح ابن خزیمہ اور سنن ابن ماجہ میں ہے کہ سیدنا عثمان نے (پہلے سے جاری اذان و اقامت کے علاوہ ) ایک تیسری اذان کا اضافہ کیا جو بازار میں زوراء نامی حویلی پر دی جاتی تھی ،

اور تحفۃالاحوذی میں ہے قَالَ الْإِمَامُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ قَالَ الْحَافِظُ مَا فَسَّرَ بِهِ الْبُخَارِيُّ هُوَ المعتمد وجزم بن بَطَّالٍ بِأَنَّهُ حَجَرٌ كَبِيرٌ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ
کہ صحیح بخاری میں امام بخاریؒ نے فرمایا ہے کہ ۔۔ زوراء ۔۔ مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ، اور ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہی اعتماد کے قابل تفسیر ہے ، اور ابن بطال کا کہنا کہ یہ مسجد کے پاس ایک پتھر کا نام ہے ( جس پر دوسر اذان دی جاتی تھی )
اور تحفۃ الاحوذی میں میں ہے
قال بن خُزَيْمَةَ قَوْلُهُ أَذَانَيْنِ يُرِيدُ الْأَذَانَ وَالْإِقَامَةَ يَعْنِي تَغْلِيبًا أَوْ لِاشْتِرَاكِهِمَا فِي الْإِعْلَامِ كَذَا فِي فَتْحِ الْبَارِي
والحمدلله رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
ذاتی پیغام میں محترم بھائی @راشد محمود نے درج ذیل مضمون بھیجا ہے ، جسے میں نے سب کے استفادہ کیلئے
یہاں اوپن فورم پر ان کی اجازت کے بغیر پیش کردیا ہے ؛
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اوپن فارم پر پیغام کیسے بھیجا جاتا ہے ؟؟؟
مجھے اس ویب سائٹ کے طریقہ کار سے آگاہ کیجیے -
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اوپن فارم پر پیغام کیسے بھیجا جاتا ہے ؟؟؟
مجھے اس ویب سائٹ کے طریقہ کار سے آگاہ کیجیے -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم راشد بھائی!
آپ ایک مرتبہ اس لنک کی زیارت کرلیں۔۔اُمید ہے طریقہ کار آسانی سے سمجھ آجائے گا۔۔ان شاءاللہ۔۔جزاک اللہ خیرا
http://forum.mohaddis.com/threads/نئے-ارکان-کیلئے-فورم-استعمال-کرنے-کا-بنیادی-طریقہ.31762/
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب اسحاق صاحب ! قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ
یعنی "زوراء" مدینہ کے ساتھ الگ بستی تھی -
آپ "مَوْضِعٌ" کا مطلب لغت کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں -
اور جہاں تک آپ کا دوسرا سوال ہے تو جناب
زوراء بستی ( قریہ ، مقام ) پر الگ اذان کا بالکل واضح مطلب ہے کہ الگ نماز کے لئے تھی کیوں کہ مدینہ میں چونکہ آبادی بڑھ چکی تھی اور لوگ سب وہاں پورے نہیں آ سکتے تھے تو اس لئے زورا کے مقام پر علیحدہ نماز کے لئے علیحدہ اذان کہی جانے لگی -
اور سنّت بھی یہی ہے کہ اذان تب کہی جائے جب امام ممبر پر بیٹھ جائے -
آپ نے میری تحریر میں ردوبدل کر دیا ہے اور وہ بھی بنا میری اجازت کے ؟؟؟
قارئین ! اصل پوسٹ ملاحضہ کریں :
"
بسم الله الرحمن الرحیم
سب طرح کی تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے واضح شریعت نازل کی ،جس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے !
اما بعد !

يقينا سب سے بہتر كلام اللہ كى كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے!
عثمان رضی الله عنہ نے مدینہ کی مسجد میں لوگ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے زوراء بستی میں الگ جمعہ کی نماز کے لیے الگ اذان کا حکم دیا.
یعنی یہ الگ الگ بستیوں کی اذانیں تھیں نہ کہ ایک مسجد میں دو دفعہ اذان.
اور یہ دین کے عین مطابق ہے.
لوگوں کے لیے آسانی کرو مشکل نہیں.
مسجد نبوی میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کو مشکل بھی ہوتی اور نماز میں بھی تاخیر ہوتی. نماز کو اول وقت میں پڑھنا فرض ہے. لہذا سب کچھ سنت کے مطابق تھا....
موجودہ فرقے عثمان رضی الله عنہ کی طرف یہ عمل غلط طریقے سے منسوب کرتے ہیں.
قارئین ! ہم آپ سب لوگوں کو درست اور صحیح عمل کی طرف دعوت دیتے ہیں .

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّيْ الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب وقت الجمعة إذا زالت الشمس 1 / 307، الرقم : 862، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 150، الرقم : 12537، والترمذي فی السنن، کتاب الجمعة، باب ما جاء فی وقت الجمعة، 2 / 377، الرقم : 503، والطيالسي في المسند، 1 / 285، الرقم : 2139، وابن الجارود فی المنتقٰی، 1 / 81، الرقم : 389، والبيهقي في السنن الکبری 3 / 190، الرقم : 5460.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس وقت نماز جمعہ پڑھا کرتے جب سورج ڈھل جاتا۔
اس حدیث کو امام بخاری، احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه يَقُولُ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَکَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب إذا اشتد الحر يوم الجمعة، 1

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب سخت سردی ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جمعہ جلد پڑھ لیتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو نماز جمعہ ٹھنڈی کر کے پڑھتے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه قَالَ : إِنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رضی الله عنه حِينَ کَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَکَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الإِمَامُ
. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب الجمعة، باب الجلوس علی المنبر عند التأذين، 1 / 310، الرقم : 873.

سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمعہ کے روز دوسری اذان کہنے کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب کہ مسجد میں آنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور جمعہ کے روز صرف اُس وقت اذان ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا(۔یعنی عثمان رضی الله عنہ مسجد نبوی میں اسی وقت اذان دلواتے تھے جب منبر پر بیٹھتے یعنی ایک ہی اذان. )
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ رضی الله عنه يَقُولُ : إِنَّ الْأَذَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ کَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَی الْمِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضی الله عنهما ، فَلَمَّا کَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه وَکَثُرُوا، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَی الزَّوْرَاءِ، فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجمعة، باب التأذين عند الخطبة، 1 / 310، الرقم : 874، وأبوداود في السنن، کتاب الصلاة، باب النداء يوم الجمعة، 1 / 285، الرقم : 1087، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الأذان للجمعة 3 / 100، الرقم : 1392، والطبراني فيالمعجم الکبير، 7 / 147، الرقم : 6648، والبيهقي في السنن الکبير، 3 / 205، الرقم : 5535.
سائب بن یزید رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں جمعہ کے روز کی پہلی اذان وہی ہوتی جس وقت امام جمعہ کے روز منبر پر بیٹھتا۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ بڑھ گئے تو آپ رضی الله عنہ نے جمعہ کے روز تیسری اذان کہنے کا حکم فرمایا۔ پس وہ زوراء کے مقام پر کہی جاتی تھی اور یہی معمول قرار پایا۔
اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
رقم الحديث: 867
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، " أَنَّ الَّذِي زَادَ التَّأْذِينَ الثَّالِثَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنٌ غَيْرَ وَاحِدٍ ، وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَعْنِي عَلَى الْمِنْبَرِ " .
رقم الحديث: 869
(حديث موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ ، " أَنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ ، وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ " .
رقم الحديث: 866
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : " كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ " ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ .
صحیح البخاری

قارئین ! اس مسئلہ کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ :
١- عثمان رضی الله عنہ مسجد نبوی میں اسی وقت اذان دلواتے تھے جب منبر پر بیٹھتے یعنی ایک ہی اذان.
٢- عثمان رضی الله عنہ نے مدینہ کی مسجد میں لوگ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے زوراء بستی میں الگ جمعہ کی نماز کے لیے ، الگ اذان کا حکم دیا.
٣- یعنی یہ الگ الگ بستیوں کی اذانیں تھیں نہ کہ ایک مسجد میں دو دفعہ اذان.
٤- یہ دین کے عین مطابق ہے.
٥- لوگوں کے لیے آسانی کرو مشکل نہیں.
مسجد نبوی میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں کو مشکل بھی ہوتی اور نماز میں بھی تاخیر ہوتی. نماز کو اول وقت میں پڑھنا فرض ہے. لہذا سب کچھ سنت کے مطابق تھا یعنی مدینہ کی مسجد میں لوگ زیادہ ہو جانے کی وجہ سے زوراء بستی میں الگ جمعہ کی نماز کے لیے ، الگ اذان کا حکم دیا.

٦-موجودہ فرقے عثمان رضی الله عنہ کی طرف یہ عمل غلط طریقے سے منسوب کرتے ہیں.
قارئین ! مندرجہ بالا تمام وضاحت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جمعہ کے دن اذان صرف ایک دفعہ ہی کہی جائے گی ، جب امام ممبر پر پر بیٹھ جائے -
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمدلله رب العالمین
"
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
محترم بھائی
اوپر میری پوسٹ کو ایک دفعہ پھر غور سے پڑھیں ، تو دو باتیں شاید آپ کی سمجھ میں آجائیں
ایک تو یہ کہ اب اس پوسٹ میں آپ کا نام نہیں ۔ یعنی یہ آپ کی پوسٹ نہیں ،
دوسرا یہ کہ : زوراء ۔۔ مدینہ سے علیحدہ کسی بستی کا نام نہیں ، بلکہ مدینہ شریف ہی کے ایک بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ، یہ بات خود مصنف الصحیح نے بتائی ہے ، اور اس کتاب کے سب سے بڑے اور مستند شارح نے اسے
(معتمد علیہ ) قرار دیا دیا ہے ،
آپ اپنے قریب کسی عالم سے رابطہ کے اسکی وضاحت و تصدیق کروالیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
دوسرا یہ کہ : زوراء ۔۔ مدینہ سے علیحدہ کسی بستی کا نام نہیں ، بلکہ مدینہ شریف ہی کے ایک بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ، یہ بات خود مصنف الصحیح نے بتائی ہے ، اور اس کتاب کے سب سے بڑے اور مستند شارح نے اسے
(معتمد علیہ ) قرار دیا دیا ہے ،
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب @اسحاق سلفی صاحب ! میں نے بھی وہی لکھا ہے جو آپ نے مذکور بالا لکھا کہ :
"یہ بات خود مصنف الصحیح نے بتائی ہے"

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ


یعنی "زوراء" مدینہ کے ساتھ الگ بستی تھی -
آپ "مَوْضِعٌ" کا مطلب لغت کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عجیب بات ہے اتنے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ :
زوراء مدینہ کے ایک بازار میں ایک جگہ کا نام ہے ؛
پھر بھی آپ اس کو کوئی بستی بنانے پر کمر بستہ ہیں
براہ مہربانی آپ پہلے کسی قریبی عالم سے رہنمائی لیں ، پھر کچھ لکھیں ،
اور لغت کی کتابوں کی ضرورت مجھے نہیں بلکہ آپ کو ہے ،
لیکن وہ بھی بنیادی علم کے بغیر آپ کیلئے بیکار ہیں
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب یہ بتائیے کہ
مَوْضِعٌ
کا مطلب کیا ہے ؟؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !
جناب یہ بتائیے کہ
مَوْضِعٌ
کا مطلب کیا ہے ؟؟؟
اس کا مطلب ہے آپ نے کسی عالم سے رابطہ نہیں کیا ، حالانکہ عالم دین سے رہنمائی لینے میں سراسر آپ کا فائدہ ہے ،
چلیں میں آپ کو ایک مستند عالم ( مولانا داود راز دہلوی ؒ) کے ترجمہ کا سکین دیتا ہوں،
دیکھتے ہیں آپ مانتے ہیں یا نہیں ۔


تیسری اذان.jpg
 
Last edited:
Top