• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن ایک دفعہ ہی اذان کہی جائے گی ، جب امام منبر پر بیٹھ جائے

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
اما بعد !
غلط فہمی : -

علامہ صاحب ابھی مرکزی بات میری سمجھ میں نہیں آئی ، درج ذیل جملہ :
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے کس جملہ کا ترجمہ ہے ؟؟
ازالہ : -
لیجیے جناب وضاحت ملاحضہ کیجیے اور پھر ان پر بھی فتویٰ لگا دیں !؟

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ملاحضہ کیجیے
"جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ،
ازالہ : -
لیجیے جناب وضاحت ملاحضہ کیجیے اور پھر ان پر بھی فتویٰ لگا دیں !؟
جس آدمی کی علمی قابلیت یہ ہو کہ اسے ( ملاحظہ ) اور (ملاحضہ ) کا پتا نہ ہو ، ۔۔ یعنی ( لحظ ) کو ( حیض ) بنادیا ہو
اسے سنت کے معانی اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال کی حیثیت پر بحث کرنے کا حق نہیں ،
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
نشاندہی :-

جس آدمی کی علمی قابلیت یہ ہو کہ اسے ( ملاحظہ ) اور (ملاحضہ ) کا پتا نہ ہو
جناب ! لکھنے میں غلطی ہو سکتی ہے - اور میں نے نظر ثانی نہیں کی تھی اس لئے باقی رہ گئی - جب مجھے غلطی نظر آتی ہے تو میں اس کی درستگی کر دیا کرتا ہوں -
اب آپ کو چونکہ دلائل برداشت نہیں ہو رہے ، اس لئے آپ نے یہی کہنا ہے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
"جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ،
آپ نے بتایا نہیں کہ :
(کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ )
حدیث کے کس جملہ کا ترجمہ ہے ،
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی : -

آپ نے بتایا نہیں کہ :
ازالہ : -
جناب ! اس کا جواب میں نے اوپر دیا تھا لیکن اگر آپ کو نظر نہیں آیا !؟ تو کوئی بات نہیں ، میں دوبارہ نقل کر دیتا ہوں -
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔
(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810)
اب بتائے کیا اعتراض ہے آپ کا -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جناب ! اس کا جواب میں نے اوپر دیا تھا لیکن اگر آپ کو نظر نہیں آیا !؟ تو کوئی بات نہیں ، میں دوبارہ نقل کر دیتا ہوں -
یعنی آپ نے گذشتہ حدیث ( علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین ) میں تصرف اور تحریف فرمائی ہے ، اور اپنی طرف سے لکھ دیا ہے کہ :
(کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ ‘‘
اگر یہ تحریف نہیں تو کسی معتبر و مشہور محدث سے یہی بات نقل کرکے دکھائیں ؛ کیونکہ یہ حدیث شریف آج تو نازل نہیں ہوئی ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم الله الرحمن الرحیم

غلط فہمی :-

ازالہ :- حدیث درج ذیل ہے ملاحضہ کیجیے :
فَقَالَ الْعِرْبَاضُ صَلَّی بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ کَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيکُمْ بِتَقْوَی اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِي فَسَيَرَی اخْتِلَافًا کَثِيرًا فَعَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّکُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
عرباض نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لئے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تم پر مقرر کیا جائے پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس ﺍﯾﺴﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻻﺯﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺧﻠﻔﺎﺋﮯ ﺭﺍﺷﺪﯾﻦ کے طریقہ (کی ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻨﺖ ) ﮐﻮ ﻻﺯﻡ ﭘﮑﮍﮮ ﺭﮨﻨﺎ، اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1219 ) صحیح
(نوٹ : یہ حدیث جامع ترمزی اور ابن ماجہ میں بھی موجود ہے ، متن کے کچھ الفاظ آگے پیچھے ہیں )

تبصرہ : -
اس حدیث سے غلط استدلال لے رہے ہیں ۔کہ
دین کی بنیاد قرآن ،حدیث اور خلفاءراشدین کی سنت یعنی تین چیزوں پر ہے تو یہ استدلال اتنی بڑی غلطی ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیئے – کیونکہ دین رسول اللہ ﷺکی حیات میں مکمل ہوگیا تھااور الله نے اس بات کا اعلان بھی کروا دیا تھا
لہٰذاصرف اور صرف قران و حدیث ہی دین ہے کوئی تیسری چیز قانون یا دین نہیں ہے۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک جامع ترین نصیحت ہے مندرجہ بالا حدیث نبوی میں
۔
خط کشیدہ عبارتوں پر غور کریں ۔اختلاف کسے کہتے ہیں یعنی سنت کے خلاف کا م ۔۔۔خلاف کا معنی ہے الٹا چلنا ۔الٹا کام کرنا۔تو اس سے بھی واضح ہوا کہ جب امیر اور خلفا ء سنت کے خلاف چلیں یا چلنے کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانو بلکہ سنت کو پکڑو ۔جس طرح ہدایت یافتہ خلفاء
کرتے تھے۔کہ وہ اختلافات میں اللہ اور رسول کی سنت کیطرف رجوع کرتے تھے
۔
درست ترجمہ اور تفسیر''تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی طرح (میری سنت ) کو لازم پکڑو، اسے (یعنی میری سنت کو(واحد))مضبوطی سے تھام لو اور دانتوں کے ذریعہ اسے(یعنی میری سنت کو(واحد))سختی سے پکڑ لو"
مسلمین بھائیو! اس حدیث پر گرائمر جاننے والا کوئی بھی شخص آسانی سے نتیجہ نکا ل سکتا ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔آئیے دیکھتے ہیں۔
عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِی تم پر میری سنت فرض ہے۔
وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ یعنی میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کےطریقہ (کی طرح)
کسی ایک بھی حدیث سےثابت نہیں ہوتا کہ صر ف ابوبکر وعمر ہی ہدایت یافتہ خلفا ء تھے بلکہ اس سے مراد یہ ہے اس کے علاوہ بھی جتنے بھی خلفا ء اور امراء اپنے اپنے دور میں ہوں گے ان کی اطاعت اور سنت یعنی جیسے وہ رسول اللہ کے سنت کو مضبوطی سے پکڑے اسی طرح تم بھی سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑو۔کیونکہ اگر کوئی خلیفہ اور امیر سنت کے خلاف کرتا ہے تو وہ اس معاملہ میں ہدایت پر ہوتا ہی نہیں۔لہذا اس معاملہ میں اس کی اطاعت نہیں اگرچہ وہ ابو بکر و عمر ہی کیوں نہ ہوں۔کیونکہ ہدایت کا دارومدار ہے ہی سنت رسولﷺ۔
وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا [24 ۔ 54 ) اگر رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے۔
اور پھر خلفا ء ہوں یا امراء اگر وہ سنت کے خلاف چلیں تو ان کی کوئی اطاعت نہیں۔بلکہ ان سے جھگڑا کرنے کا حکم ہے۔ان کو مجبور کردو کہ وہ اللہ کے رسول کے سنت کی طرف رجوع کریں۔
اللہ تعالیٰ مومنین کو اس موضوع کی طرف دعوت دیتا ہے اورفرماتا ہے :
یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلاً(سورہ نساء ، آیت ۵۹) ۔
ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور امیروں(اورخلفاء) کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے (تم پر ) ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے 1اللہ اور 2رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے ۔


تَمَسَّکُوْا بِهَا
اسے (واحد)مضبوطی سے تھام لو یعنی صرف سنت رسول ﷺ
"ھا" اسم ضمیر واحدمونث غائب کے لیے ہے۔


وَعَضُّوْا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ
اور دانتوں کے ذریعہ اسے (یعنی صرف سنت رسول ﷺ (واحد))سختی سے پکڑ لو۔
یہاں بھی "ھا" اسم ضمیر واحد مونث غائب کے لیے ہے
یعنی دونوں میں یہ حکم ہے کہ صرف سنت رسول ﷺ کو تھام لو ۔اور دانتوں سے بھی صرف سنت رسول ﷺ کو ہی تھام لو ۔یعنی باقی سب کچھ جو بھی سنت رسول کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو۔ایک مثال دے رہا ہوں ۔اور اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
پہلی مثال : -
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلَالٌ فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاکَ قَدْ نَهَی عَنْهَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ أَبِي نَهَی عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
عبد بن حمید، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، ابوصالح بن کیسان، ابن شہاب سے روایت ہے کہ ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شامی کو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے حج کے ساتھ عمرے کو ملانے (یعنی تمتع) کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا۔ عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا یہ جائز ہے شامی نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد نے اس سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا دیکھو
اگر میرے والد کسی کام سے منع کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کام کریں تو میرے والد کی اتباع کی جائے گی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ شامی نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمتع کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 810 )
مزید وضاحت : -
"وایاکم ومحدثات الامور" یعنی دین کے معاملہ میں نئی نئی باتیں ایجاد ہوں تو ان سے بچو "وإیاکم ومحدثات الامور" اپنے کو بچاؤ او ربچو، یعنی لوگ اپنے فائدوں کی غرض سے محض اندازوں سے دین کے اندر نئی باتیں کرتے رہتے ہیں ان سے بچو اور یہ دین کے معاملہ میں ہے ، دنیا کے معاملہ میں نہیں ، دنیا کے معاملہ میں آدمی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق کام کرے، لیکن دین کے معاملہ میں جہاں الله تعالیٰ کی رضا کا معاملہ ہوتا ہے اس میں اگر کوئی نئی بات ایجاد کی جاتی ہے جو رسول صلی الله علیہ وسلم نے نہیں بتائی تو وہ "محدث" ہے، یعنی نئی کر دی گئی ہے ، نئے نئے اختیار کردہ معاملات سے بچو، جن کو لوگ دین بناتے ہیں حالاں کہ وہ دین نہیں ہے ، جس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتایا او رکہا یا کیا ہے اس کے علاوہ جو نئی چیز اختیار کی جائے گی اور وہ دین نہیں بلکہ بدعت ہے یا بدعت کامطلب دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور دین کے اندر نئی بات کا ایجاد کرنا کسی کا حق نہیں، کیوں کہ دین مکمل کر دیا گیا او راعلان کر دیا گیا ﴿الیوم اکملت لکم دینکم﴾ میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، دین مکمل ہو گیا، اب کوئی نئی بات دین میں داخل نہیں ہو گی۔
الله تعالیٰ حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
والحمد للہ رب العالمین
اگر دین کی بنیادفقط ”قرآن و سنت“ پر ہی ہے تو نبیﷺ ن”خصوصاً “ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی ”سنت “کو بھی اپنانے کی ہدایت کیوں کی ؟کیوں کہ آپ کا بیان کردہ ترجمہ ،متن سے بظاہر مطابقت نہیں رکھتا ۔دوسرا یہ کہ روایت کے الفاظ میں ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو بھی ”مطلقاً “ بیان کیا گیا ہے ۔وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ اس کی وجہ بیان فرما دیں۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
غلط فہمی : ۔
اگر دین کی بنیادفقط ”قرآن و سنت“ پر ہی ہے تو نبیﷺ ن”خصوصاً “ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی ”سنت “کو بھی اپنانے کی ہدایت کیوں کی ؟
ازالہ : ۔ جناب اگر دین کی بنیاد صرف قرآن اور حدیث نبوی نہیں ہے !؟(نعوذباللہ)
تو درج ذیل آیت پر ایمان کیسے لائیں گے ؟ اور اس پر عمل کیسے کریں گے ؟

الله تعالیٰ فرماتا ہے : ۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
(نوٹ :۔ معذرت چاہوں گا ! مصروفیات کے باعث کافی عرصہ کے بعد اس فارم پر آیا ہوں ، اس لئے نوٹیفکیشن بھی مکمل نہیں موصول ہوۓ ! جس کی وجہ سے زیر گفتگو موضوعات کو تلاش کر کے جواب تحریر کر رہا ہوں ۔
@اسحاق سلفی کیا آپ تعاون کریں گے سابقہ پوسٹس کو تلاش کرنے میں ، جو زیر مشاہدہ پوسٹس کی لسٹس سے جا چکی ہیں اور اطلاعات سے بھی !)
 
Top