• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن کی فضیلت (قبر کے عذاب سے نجات) ؟؟؟

شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!
جمعہ کی فضیلت کے تعلق سے ایک حدیث بیان کی جاتی ہیں جو کی ترمذی اور مسند احمد میں ہیں اس حدیث کا مفحم یہ ہیں کہ جمعہ کے دن فوت ہونے والے شخص کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا.
میں نے ایڈوکیٹ فیض سعید اور ابو زید ضمیر حفظهما الله کے لیکچر میں یہ سنا ہیں کہ اس شخص کو قیامت تک قبر کا عذاب نہیں ہوتا
اس کی کیا حقیقت ہیں تفصیل سے بیان فرماۓ
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!
جمعہ کی فضیلت کے تعلق سے ایک حدیث بیان کی جاتی ہیں جو کی ترمذی اور مسند احمد میں ہیں اس حدیث کا مفحم یہ ہیں کہ جمعہ کے دن فوت ہونے والے شخص کو قبر کا عذاب نہیں ہوتا.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ کے دن فوت ہونے والے کو عذاب؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :۔ کہا جاتا ہےکہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یاجمعہ کے دن فوت ہوجائے تو اللہ عزوجل اس سے قیامت تک کا عذاب ہٹا لیتا ہے۔یہ مسئلہ کیا درست ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمعہ کی رات یا دن موت کی فضیلت کے بار ے میں وارد روایات ضعیف ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری کے ''کتاب الجنائز'' کے اختتام پرحضرت عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث:
«ما من مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة الا وقاه الله فتنة القبر »حسنه البانی بشواهده المشکاة (1367)

یعنی '' جومسلمان جمعہ کے دن یاجمعہ کی ر ات فوت ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر سے محفوظ فرما لیتا ہے۔''
نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
في اسناده ضعف واخرجه ابو يعلي من حديث انس نحوه واسناده اضعف ’’
یعنی ''اس کی سند میں ضعف ہے۔اور اس کی مانند حدیث ابو یعلیٰ نے بھی حضرت انس سے بیان کی ہے لیکن اس کی سند اس سے بھی زیادہ کمزور ہے۔''
مذکورہ حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
هذا حديث غريب وليس اسناده بمتصل وبيعة بن سيف انما يروي عن ابي عبد الرحمٰن الحبلي عن عبدا لله بن عمر و ولا تعرف لربعة من سيف سماعا من عبدالله بن عمرو ’’
''یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ربیعہ بن سیف کی روایت تو عبد اللہ بن عمرو سےابو عبد الرحمٰن حبلی کے واسطہ سے ہے۔ربیعہ بن سیف کا سماع عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معلوم نہیں ہوسکا۔۔
باب ما جاء فيمن يموت يوم الجمعة
شارح ترمذی علامہ مبارک پوری فرماتے ہیں:
فالحديث ضعيف لانقطاعه لكن له شواهد
''پس انقطاع کی بنا پر حدیث ضعیف ہے لیکن اس کے کچھ شواہد ہیں۔''
پھرعلامہ سیوطی سے بحوالہ ''مرقاۃ'' کچھ آثار وشواہد نقل کئے ہیں۔(تحفہ الاحوذی :4/ 188) بہرصورت ان آثار کی صحت یاقابل صحت ہونا مشکوک ہی نظر آتا ہے جب کہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت بھی رطب ویابس جمع کرنے میں معروف ہے مجھے اس وقت سخت تعجب ہوا جب میں نے استاد محترم مفتی محمد عبدہ صاحب مدظلہ العالی کی کتاب ''احکام الجنائز'' کا مراجعہ کیا تو اس کے حواشی میں بحوالہ تحفہ فرماتے ہیں:
مسند احمد وترمذي وله شواهد فالحديث بمجموع طرقه حسن او صحيح ’’
یعنی''عبدا للہ بن عمرو کی روایت مسنداحمد اور ترمذی میں ہے اور اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔پس حدیث مجموع طرق کے اعتبار سے حسن یاصحیح ہے۔''
دراں حالیکہ مذکور عبارت محل مقصود میں قطعاً نہیں ہے۔البتہ ایک دوسرے مقام پر علامہ موصوف فرماتے ہیں:
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے۔''(فتاویٰ ثنائیہ:2/25)
گویا کہ موصوف کا رجحان اثبات مسئلہ رفع عذاب کی طرح ہے لیکن اس بارے میں درجہ حجت واستدلال کاحصول ایک مشکل امر ہے۔اور یہ بات مسلمہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کے روز ہوا تھا۔ اورحضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرض الموت میں اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ اس پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں تبویب یوں قائم کی ہے :''باب موت یوم الاثنین '' صحيح البخاري كتاب الجنائز رقم الباب (٩٤)
شارحین حدیث نے لکھا ہے : اس سے مصنف کا مقصود جمعہ کی فضیلت کے بارے میں وار حدیث کی تضعیف ہے۔
واقعاتی طور پر وفات کا جو دن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کےلئے منتخب اور پسند فرمایا وہی افضل اور بہتر ہونا چاہیے۔ اسی بناء پر خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دن موت کی چاہت کی تھی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج1ص244

محدث فتویٰ
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جزاکم اللہ خیرا کثیرا شیخ
شیخ جیسا کہ اوپر علاما مبارکپوری کا بیان ہیں کہ اس حدیث کے شواہد بھی ہیں تو کیا یہ شواہد سے مل کر حسن کے درجہ کو نہیں پہنچتی.
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
شیخ محترم میں تو کنفیوژ ہو گیا ہو.
امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سنن ترمذی حدیث نمبر ١٠٧٤ پر حسن لکھا ہے اور شیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اللہ کی جنازے کی کتاب (صفحہ نمبر ٥٤)میں بھی اس حدیث کو لکھا کیا ہیں اور اسے حسن لکھا گیا ہیں. لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمة اللہ نے مشکوة المصابح حدیث نمبر ١٣٦٧ پر اسے ضعیف لکھا ہیں. (اور اس حدیث کو شرح احمد شاکر میں شیخ احمد شاکر نے صحیح لکھا ہیں. اس کا حدیث نمبر معلوم نہیں لیکن یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں. )
شیخ محترم وضاحت فرمائے

محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
شیخ محترم میں تو کنفیوژ ہو گیا ہو.
امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سنن ترمذی حدیث نمبر ١٠٧٤ پر حسن لکھا ہے اور شیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اللہ کی جنازے کی کتاب (صفحہ نمبر ٥٤)میں بھی اس حدیث کو لکھا کیا ہیں اور اسے حسن لکھا گیا ہیں. لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمة اللہ نے مشکوة المصابح حدیث نمبر ١٣٦٧ پر اسے ضعیف لکھا ہیں. (اور اس حدیث کو شرح احمد شاکر میں شیخ احمد شاکر نے صحیح لکھا ہیں. اس کا حدیث نمبر معلوم نہیں لیکن یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں. )
شیخ محترم وضاحت فرمائے

محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب
هل من يموت يوم الجمعة يجار
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
شیخ محترم میں تو کنفیوژ ہو گیا ہو.
امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو سنن ترمذی حدیث نمبر ١٠٧٤ پر حسن لکھا ہے اور شیخ عمران ایوب لاہوری حفظہ اللہ کی جنازے کی کتاب (صفحہ نمبر ٥٤)میں بھی اس حدیث کو لکھا کیا ہیں اور اسے حسن لکھا گیا ہیں. لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمة اللہ نے مشکوة المصابح حدیث نمبر ١٣٦٧ پر اسے ضعیف لکھا ہیں. (اور اس حدیث کو شرح احمد شاکر میں شیخ احمد شاکر نے صحیح لکھا ہیں. اس کا حدیث نمبر معلوم نہیں لیکن یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہیں. )
شیخ محترم وضاحت فرمائے
محترم بھائی !
اس حدیث کی تحقیق میں میں نے استاذ العلماء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خاں مدنی حفظہ اللہ کا فتوی اور تحقیق اسی لئے نقل کی ہے۔ کہ آپ جماعت اہل حدیث کے اکابر مفتیوں میں شمار ہوتےہیں ۔ اور اہل الحدیث کے بزرگ ، جید اور مستند علماء میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ،
اورعلامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ضعیف کہنا آپ نے نقل کردیا ہے ، جو علامہ مدنی کے فتوی کی قوی تائید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل روایت سنن ترمذی سے درج ذیل ہے :
حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، وأبو عامر العقدي، قالا: حدثنا هشام بن سعد، عن سعيد بن أبي هلال، عن ربيعة بن سيف، عن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مسلم يموت يوم الجمعة أو ليلة الجمعة إلا وقاه الله فتنة القبر»
: «هذا حديث غريب». " وهذا حديث ليس إسناده بمتصل ربيعة بن سيف، إنما يروي عن أبي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو، ولا نعرف لربيعة بن سيف سماعا من عبد الله بن عمرو

ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہما کہتے ہيں کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ”جو مسلمان جمعہ کے دن يا جمعہ کي رات کو مرتا ہے، اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوظ رکھتا ہے“
امام ترمذي کہتے ہيں: - يہ حديث غريب ہے، - اس حديث کي سند متصل نہيں ہے، ربيعہ بن سيف ابوعبدالرحمن حبلي سے روايت کرتے ہيں اور وہ عبداللہ بن عمرو سے ۔ اور ہم نہيں جانتے کہ ربيعہ بن سيف کي عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہما سے سماع ہے يا نہيں۔
(سنن الترمذي ، حدیث نمبر 1074 )

---------------------------
اور یہی روایت مسند امام احمد ؒ میں تین مقامات پر منقول ہے :
6582 - حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلَّا وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
’’ اس کی اسناد ضعیف ہے کیونکہ ربیعہ بن سیف نے عبداللہ بن عمرو سے نہیں سنا ، (یعنی سند منقطع ہے ) گو باقی رجال ثقہ ہیں ‘‘
إسناده ضعيف، ربيعة بن سيف لم يسمع من عبد الله بن عمرو، وهو وهشام بن سعد ضعيفان، وباقي رجاله ثقات رجال الشيخين، أبوعامر: هو العقدي عبد الملك بن عمرو.
ومن طريق أحمد أخرجه المزي في "تهذيب الكمال" في ترجمة ربيعة بن سيف 9/116.
وأخرجه الترمذي (1074) ، والطحاوي في "شرح مشكل الآثار" (277) من طريق أبي عامر العقدي، بهذا الإسناد.
وأخرجه الترمذي (1074) أيضاً من طريق عبد الرحمن بن مهدي،

-------------------------------
دوسرے مقام پر ہے :
6646 - حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَبِيلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
اس کے ذیل میں علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
یعنی یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ بقیہ بن ولید جو مدلس ہیں ، اور تدلیس تسویہ کے مرتکب ہیں وہ یہاں ( عن ) سے روایت نقل کر رہے ہیں
إسناده ضعيف. بقية -وهو ابن الوليد الحمصي- يُدلًس عن الضعفاء وُيسوي (*) ، ويسْتبيح ذلك، قال ابن القطان: وهذا إن صح، فهو مفسد لعدالته.
قال الذهبي: نعم -والله- صح هذا عنه أنه يفعله، وصح عن الوليد بن مسلم،=
بل عن جماعة كبارٍ فعْلُه، وهذه بلية منهم، ولكنهم فعلوا ذلك باجتهاد، وما جوزوا على ذلك الشخص الذي يُسقطون ذكره بالتدليس أنه تعمد الكذب، هذا أمثل ما يُعتذر به عنهم. ولم يتوقف الحافظ ابنُ حجر في جرح من يفعل ذلك، نقله عنه البقاعي كما في "توضيح الأفكار" 1/375.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان. وأبو قييل: تقدم بيان حاله في الحديث الذي قبله، وسيأتي برقم (7050) .
وسلف برقم (6582) بإسناد ضعيف أيضاً، وذكرنا هناك شواهده.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور تیسرے مقام پر یوں ہے
7050 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْعَبَّاسِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَعِيدٍ التُّجِيبِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا قَبِيلٍ الْمِصْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ»
إسناده ضعيف، وهو مكرر (6646) . بقية: هو ابن الوليد.
ومعاوية بن سعيد: هو ابن شريح بن عروة التجيبي الفهمي مولاهم، المصري، لم يوثقه غير ابن حبان
یہ اسناد بھی ضعیف ہے کیونکہ معاویہ بن سعید کی ابن حبان کے علاوہ کسی نے توثیق نہیں کی ۔
اور دوسرا راوی (ابو قبیل ) ہے جس کے متعلق علامہ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :
وأبو قبيل -واسمه حيي بن هانىء المعافري- وثّقه غير واحد، وذكره ابنُ حبان في "الثقات"، وقال: كان يخطىء، وذكره الساجي في كتابه "الضعفاء"، وحكى عن ابن معين أنه ضعفه. قال الحافظ في "تعجيل المنفعة" ص 277: ضعيف، لأنه كان يكثر النقل عن الكتب القديمة.
-----------------------
اور مصنف عبدالرزاق میں بالاسناد یوں ہے :
5595 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَاتَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ - أَوْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ - بَرِئَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ» أَوْ قَالَ: «وُقِيَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، وَكُتِبَ شَهِيَدًا»
اس میں ابن جریج سے اوپر والا راوی مجہول ہے ، اور ساتھ ہی روایت مرسل ہے کیونکہ ابن شہاب نے صحابی کا ذکر نہیں کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
جی شیخ محترم میں سمجھ گیا اس کا ایک بھی طرق صحیح نہیں. ۔۔۔
اللہ آپ کو جزا خیر دے اور آپ کے علم اور عمل میں اضافہ فرمائے.
جزاکم اللہ خیرا کثیرا
 
شمولیت
مئی 28، 2016
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
58
پوائنٹ
70
پر شیخ محترم بہت بہت معذرت کے ساتھ (میرا مقصد کسی پر تنقید کا نہیں اللہ مجھے اس کے لیے معاف کرے) یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کئی اہل حدیث علماء آج بھی اس مسئلۂ کو اپنی کتابوں میں اور لیکچر میں لکھتے اور بیان کرتے ہیں.
میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میرے لیے سارے علمائے کرام قابل احترام ہیں میں کسی پر تنقید نہیں کر رہا ہوں. اسکے لیے بہت بہت معذرت! !!!!!!!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
جمعہ کے دن مرنے والے کی فضیلت میں وارد احادیث کے متعلق علامہ شیخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله سے سوال کیا گیا
تو انہوں نے فرمایا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السؤال : هل من يموت يوم الجمعة يجار من عذاب القبر، وهل الجزاء ينطبق على يوم الوفاة، أم على يوم الدفن؟
_____________________________________
الجواب
هل من يموت يوم الجمعة يجار من عذاب القبر؟
الأحاديث في هذا ضعيفة، الأحاديث في الموت يوم الجمعة وأن من مات يوم الجمعة دخل الجنة ووقي النار، كلها ضعيفة غير صحيحة، من مات على الخير والاستقامة دخل الجنة، في يوم الجمعة أو في غير الجمعة، من مات على دين الله على توحيد الله والإخلاص له فهو من أهل الجنة في أي مكان مات، وفي أي زمان، وفي أي يوم، إذا استقام على دين الله فهو من أهلال الجنة والسعادة، وإن مات على الشرك بالله فهو من أهل النار في أي يوم وفي أي مكان، نسأل الله العافية. وإن مات على المعاصي فهو على خطر، تحت مشيئة الله، لكنه إلى الجنة إذا كان موحد مسلم منتهاه الجنة، لكن قد يعذب بعض العذاب على معاصيه التي مات عليها غير تائب، لقول الله: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ[النساء: 48]، فبين -سبحانه- أن الشرك لا يغفر لمن مات عليه، وأن ما دونه من المعاصي فهو تحت المشيئة، إذا مات وهو زانٍ لم يتب مات في شرب الخمر لم يتب مات عاقاً لوالديه، مات يأكل الربا فهو تحت مشيئة الله إن شاء الله غفر له لأعماله الطيبة وتقواه، وإن شاء عذبه على قدر هذه المعاصي، ثم بعد هذا يخرج من النار، بعد التطهير يُخرج من النار إلى الجنة.

الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمه الله

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
سوال : ــــ کیا بروز جمعہ فوت ہونے والے کو عذاب قبر سے بچالیا جائے گا ؟
اور کیا اس فضیلت کا اطلاق مرنے والے دن کے لحاظ سے ہوگا ، یا دفن ہونے والے دن کے حساب سے ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :ـــــــــ اس باب میں جتنی بھی احادیث مروی ہیں سب ضعیف ہیں ، بروز جمعہ کی موت پر جنت میں داخلہ اور عذاب قبر سے بچالئے جانے
کی فضیلت والی تمام احادیث ضعیف ہیں ،صحیح نہیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ جو بھی خیر یعنی نیکی اور دین پر استقامت کی حالت میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا ۔وہ جمعہ کے دن فوت ہو یا کسی اور دن۔
جو بھی اللہ کے دین ، اور اسکی توحید کے عقیدے اور اخلاص پر فوت ہوا ، چاہے اسے کہیں اور کسی دن موت آئی ہو وہ جنت میں جائے گا ۔
اور جو بھی شرک پر فوت ہوا ، چاہے وہ کہیں مرا ہو ، اور کسی بھی دن اسے موت آئی ہو اسے جہنم میں جانا ہے ،
اور جسے (ایمان کی حالت میں ) گناہوں میں ملوث حالت میں موت آئی ، تو وہ خطرے میں ، اور اللہ کی مشیت کے تحت ہے ،
لیکن اگر وہ موحد ہے تو بالآخر اس کا ٹھکانہ جنت ہے چاہے اپنے گناہوں پر عذاب بھگتنے کے بعد جنت میں جائے ،
کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : (إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ )[النساء: 48]
یعنی اللہ شرک کو تو کسی صورت نہیں بخشے گا،(اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی ) تاہم اس کے علاوہ گناہوں کو اگر چاہے گا تو بخش دے گا ،
تو اللہ نے واضح کردیا کہ :
شرک (والے عقیدے و اعمال ) پر مرنے والا ہرگز بخشش کی امید نہ رکھے ، ہاں شرک کے علاوہ دوسرے گناہ اس کی مشیت کے تحت ہیں
یعنی زانی ،شرابی ، والدین کے نافرمان ، سود خور کو اگر اللہ چاہے تو بخش دے ، اگر چاہے گا تو عذاب میں مبتلا کرے گا ۔
پھر وہ گناہگار عذاب سے نکل کر اور پاک ہوکر جنت میں جائے گا ۔
 
Top