• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمعہ کے دن یا رات فوت ہونے والے کو عذاب قبر نہ ہونا

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71

(حدیث نمبر 1)
جامع ترمذی کی روایت ہے ،
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے فرمایا :
"رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان جمعے کے دن یا جمعے کی رات کو مرے تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب قبر، حساب اور امتحان سے بچا لیتا ہے"۔

(جامع ترمذی رقم 1074، مسند احمد بتحقیق شعیب ارنؤوط 6582)
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ ربیعہ بن سیف نے عبداللہ بن عمروؓ سے کچھ سنا ہو، جبکہ انہوں نے عبداللہ بن عمروؓسے بحوالہ ابی عبدالرحمان حبلی روایت کی ہے۔
شیخ البانی نے کہا کہ یہ حسن ہے۔
حافظ زبیر علی زئی نے کہا کہ یہ حسن ہے اس حدیث کے شواہد بیہقی کی عذاب القبر میں موجود ہیں۔
شعیب ارنؤوط نے کہا کہ اس کی سند ضعیف ہے، ربیعہ بن سیف نے عبداللہ بن عمروؓ سے سماع نہیں کیا اور وہ اور ہشام بن سعد ضعیف ہے جبکہ باقی رجال ثقہ ہیں اور شیخین کے رجال ہیں۔
امام بیقہی اپنی کتاب اثبات عذاب القبر میں اس روایت کو اسی سند کے ساتھ اس طرح لے کر آئے ہیں :
عبدالرحمان بن قحذم سے روایت ہے کہ عیاض بن عقبہ کا بیٹا جمعہ کے دن فوت ہو گیا تو انہیں اس کا بہت زیادہ صدمہ پہنچا ، صدف کے ایک آدمی نے انہیں کہا : اے ابو یحییٰ ! کیا میں آپ کو وہ خوشخبری نہ سنا دو جو میں نے عبداللہ بن عمروؓ بن العاص سے سنی ہے۔ میں نے انہیں یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو مسلمان جمعہ کی رات کو فوت ہو جاتا ہے تو وہ قبر کے فتنے سے بری ہوجاتا ہے۔

(اثبات عذاب القبر للبیہقی عربیص 103ح155 (اردو ص 24ح151))
میں یہ کہتا ہوں کہ اس کی سند میں ربیعہ بن سیف صدوق ہے جبکہ ہشام بن سعد ضعیف ہے۔ ربیعہ بن سیف کا سماع عبداللہ بن عمروؓ بن العاص سے ثابت نہیں ہے ، ہشام بن سعد کے ضعف اور ربیعہ بن سیف کا حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے سماع کا نہ ہونا اس کی سند میں ضعف کا باعث ہے۔
اس روایت کو عبدالرزاق نے بحوالہ ابن جریج بحوالہ ربیعہ بن سیف بحوالہ عبداللہ بن عمروؓبھی بیان کیا ہے۔
(مصنف عبدالرزاق اردو مترجم 5596)
اس کی سند میں بھی ربیعہ بن سیف ہے جس کا سماع حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس لیے یہ سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
عبدالرزاق نے اس روایت کو ابن جریج بحوالہ رجل بحوالہ ابن شہاب بھی بیان کیا ہے۔
(مصنف عبدالرزاق اردو رقم 5595)
جبکہ ایک اور جگہ عبدالرزاق نے اسے بحوالہ ابن جریج بحوالہ رجل بحوالہ مطلب بن عبداللہ بن حنطب روایت کیا ہے۔
(مصنف عبدالرزاق اردو رقم 5597)
مذکورہ بالا دونوں راویات کی سند میں ابن جریج نے ایک مجہول شخص سے روایت کی ہے، اس وجہ سے ان کی سند ضعیف ہے۔
(حدیث نمبر 2)
اثبات عذاب القبر میں امام بیہقی روایت کرتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن یا رات کو فوت ہو جائے تو وہ قبر کے فتنے (اور عذاب) سے محفوظ ہوجاتا ہے"۔
اثبات عذاب القبر للبیہقی (عربی ص 103ح156 و اردو ص 78ح153)
اس کی سند میں بقیہ بن ولید مصری راوی معاویہ بن سعید التجیبی سے روایت کررہے ہیں۔ بقیہ بن ولید کی معروف راویوں سے روایت قابل قبول ہے اور مزید برآں ان کی غیر شامی راویوں سے روایت نہایت کمزورہے۔ اس کی سند میں سلیمان بن آدم مجہول ہیں۔
(حدیث نمبر 3)
عکرمہ بن خالد المخزومی سے راویت ہے کہ انہوں نے کہا : جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو فوت ہو جائے تو اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے اور وہ عذاب قبر سے بچ جاتا ہے۔
(اثبات عذاب القبر عربی ص 104ح158 (اردو ص 78ح155))
اس میں عکرمہ بن خالد تابعی ہیں اور یہ روایت مرسل ہے۔ اس لیے قابل حجت نہیں ہے۔

حاصل تحقیق
اس روایت کی تمام اسناد میں ضعف ہے اس لیے یہ روایت اصول حدیث پر قابلِ قبول نہیں ہے اور ضعیف ہے۔ اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔ حافظ زبیر علی زئی نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے ،سنن ترمذی رقم 1074 کے حاشیہ میں انہوں نے لکھا ہے کہ یہ حسن ہے اور اس کے شواہد بیقہی کی کتاب "اثبات عذاب القبر " میں موجود ہیں۔ جبکہ اوپر پیش کی گئی تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیہقی کی مذکورہ کتاب میں اس حوالے سے جتنی روایات ہیں ان تمام کی اسناد میں ضعف موجود ہے۔ حافظ صاحب کا اس کو حسن کہنا ، صحیح نہیں ہے۔
احوال الرجال
بقیہ ابن الولید
روی عن​
ابراہیم بن ادہم، اسحاق بن ثعلبہ بن عیاش، بحیر بن سعد ، بشر بن عبداللہ بن یسار، تمام بن نجیح، ثوری بن یزید، جراح بن المنہال، جریر بن یزید، جعفر بن الزبیر ، حبیب بن صالح الطائی، حریز بن عثمان الرحبی، حصین بن مالک الفزاری، خالد بن یزید بن عبر بن ہبیرہ الفزاری، داود بن الزبرقان، رشدین بن سعد، سری بن ینعم، سعد بن عبداللہ الاغطش، سعید بن بشیر، سعید بن سالم، سعید بن عبدالعزیز، سلیمان بن سلیم، شعبہ بن الحجاج، شعیب بن ابی حمزہ، صباح بن مجالد، صفوان بن عمرو، ضبارہ بن مالک، ضحاک بن حمرہ، طلہح بن زید الرقی، عبداللہ بن عمر العمری، عبداللہ بن المبارک، عبداللہ بن المحرر، عبداللہ بن واقد، عبدالرحمان بن ثابت بن ثوبان، عبدالرحمان بن عمرو الاوزاعی، عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج، عبیداللہ بن عمر العمری، عتبہ بن تمیم التنوخی، عتبہ بن ابی حکیم، عثمان بن زفر الجہنی، عمارہ بن ابی الشعشاء، عمر بن جعثم، عمر بن عبداللہ مولیٰ غفرہ، لوذان بن سلیمان، مبشر بن عبید القرشی، مالک بن انس، محمد بن راشد المکحولی، محمد بن زیاد الالہانی، محمد بن عبدالرحمان بن عرق الیحصبی، محمد بن عبدالرحمان القشیری، محمد بن الفضل بن عطیہ، محمد بن الولید الزبیدی، مروان بن سالم، مسلم بن زیاد، مسلم بن عبداللہ، مسلمہ بن علی الخشنی، معاذ بن رفاعہ السلامی، معاویہ بن سعید التجیبی، معاویہ بن یحییٰ الاطرابلسی، معاویہ بن یحییٰ الصدفی، نافع بن یزید المصری، نمیر بن یزید، ہقل بن زیاد، ورقاء بن عمر، وضین بن عطاء، یزید بن عوف الشامی، یزید بن ہارون، یوسف بن ابی کثیر، یونس بن یزید الایلی، عبداللہ بن ابی مریم الغسانی، ابی بکر بن الولید الزبیدی، ابی حلبس۔
روی عنہ​
ابراہیم بن شماس، ابراہیم بن موسیٰ الفراء، احمد بن الفرج الحجازی، اسحاق بن راہویہ، اسد بن موسیٰ، اسماعیل بن ابراہیم الترجمانی، اسماعیل بن عیاش، برکہ بن محمد الحلبی، حاجب بن الولید، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، حیوۃ بن شریح الحمصی، خالد بن خلی، داود بن رشد، سعید بن شبیب الحضرمی، سعید بن عمرو السکونی، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن سلمہ الخبائری، سلیمان بن عبیداللہ الرقی، سوید بنس عید، شعبہ بن الحجاج، عبداللہ بن المبارک، عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی، عبدالرحمان بن عمرو الاوزاعی، عبدالرحمان بن یونس البرقی، عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج، عبدالوہاب بن الضحاک العرضی، عبدالوہاب بن نجدہ الحوطی، عبدہ بن عبدالرحیم المروزی، عطیہ بن بقیہ بن ولید (بیٹا)، علی بن حجر السعدی المروزی، عمر بن حفص الوصابی، عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار الحمصی، عیسیٰ بن احمد العسقلانی، عیسیٰ بن المنذر الحمصی، کثیر بن عبیدالحذاء، محمد بن ابی السری العسقلانی، محمد بن عبدالعزیز الرملی، محمد بن عمر القرشی، محمد بن عمرو بن حنان الکلبی، محمد بن المبارک الصوری، محمد بن المصفیٰ بن بہلول، محمویہ بن الفضل العکاوی، مہنا بن یحییٰ ، موسیٰ بن ایوب، موسیٰ بن سلیمان بن اسماعیل بن القاسم، موسیٰ بن مروان الرقی، نعیم بن حماد الخزاعی، ہشام بن خالد الازرق، ہشام بن عبدالملک الیزنی، ہشام بن عمار، وکیع بن الجراح، ولید بن شجاح بن الولید السکونی، ولید بن صالح النخاس، ولید بن عتبہ الدمشقی، ولید بن مسلم، یحییٰ بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، یزید بن عبدربہ الجرجسی، یزید بن ہارون، یعقوب بن ابراہیم الدورقی۔
جرح و تعدیل​
ابو مسہر کہتے ہیں کہ بقیہ کی نقل کردہ روایات پاک صاف نہیں ہیں اس لیے تم ان سے پرہیز کرو۔
حیوۃ بن شریح کہتے ہیں کہ میں نے بقیہ کہ یہ کہتے ہوئے سنا جب میں شعبہ کے سامنے بحیر بن سعد سے منقول روایات پڑھیں تو وہ بولے : اے ابو محمد اگر میں نے یہ روایات ان سے نہ سنی ہوتیں تو یہ روایات ضائع ہو جانی تھیں۔

عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ صدوق ہے، تاہم یہ ہر طرح کے راویوں سے احادیث تحریر کر لیتا ہے۔
ابن سعد نے کہا کہ ثقہ سے روایت کرنے میں ثقہ ہیں جب کہ غیرثقہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک اسماعیل بن عیاش سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ابن حنبل سے جب عبداللہ بن احمد نے حمزہ اور بقیہ کے بارے مین دریافت کیا تو وہ بولے ضمرہ نامی راوی میرے نزدیک تمام ثقہ اور مامون ہیں سب سے زیادہ پسندیدہ ہے، وہ ایک نیک شخص تھا ، شام میں اس کے پائے کا اور کوئی نیک شخص نہیں تھا۔ اللہ اس پر رحم کرے۔ عقیلی نے عبداللہ بن احمد بن حنبل کے حوالے سے ان کووالد ابن حنبل کا قول بیان کیا کہ جب بقیہ اپنی قوم کے غیرہ معروف لوگوں سے روایت بیان کرے تو مت لو اور جب معروف لوگوں سے جیسے بحیر بن سعد وغیرہ ہیں روایت کرے تو قبول کرلو۔
یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ بقیہ کے پاس دو ہزار مستند احادیث تھیں جو شعبہ سے منقول تھیں اور یہ علم فقہ کے بارے میں شعبہ کے ساتھ بحث مباحثہ کیا کرتے تھے۔ دارمی نے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا کہ بقیہ بن ولید ثقہ ہے۔
جوزجانی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بقیہ پر رحم کرے وہ اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ اس نے کوئی جھوٹی روایت حاصل کرلی ہے، البتہ اگر وہ ثقہ راویوں کے حوالے سے کوئی روایت نقل کرتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عجلی نے کہا کہ معروف لوگوں سے روایت کرے تو ثقہ اور مجہولین سے روایت کرے تو کوئی شے نہیں۔
ابو حاتم رازی کہتے ہیں کہ اس کی نقل کردہ روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
آجری نے ابو داود کے حوالے سے بیان کیا کہ یزید بن ہارون اور شعبہ نے بقیہ سے بغداد میں سماع کیا۔
نسائی کہتے ہیں کہ یہ جب حدثنا یا اخبرنا کے الفاظ استعمال کرے تو ثقہ شمار ہو گا۔
دارقطنی نے کہا کہ ضعفاء سے کثرت کے ساتھ تدلیس کرتاہے۔اس نے متروکین مثلاً مجاشع بن عمرو اور عبداللہ بن یحییٰ سے روایت کی ہے جو معروف نہیں ہیں اور نہ ہی بقیہ کے علاوہ ان کی کسی نے روایت کی ہے۔
ابن المدینی نے کہا کہ اہل شام سے اس کی روایات صالح ہیں جبکہ اہل حجاز اور اہل عراق سے اس کی روایات سخت ضعیف ہیں۔
ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ جب اہل شام سے روایات نقل کرے تو ثبت شمار ہو گا۔ ابن عدی نے اپنی سند کے ساتھ بقیہ کے حوالے سے ابو راشد کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو امامہ باہلیؓ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: ایک مرتبہ نبیﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ بات ارشاد فرمائی
ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس نے شعبہ، امام مالک اوردیگر حضرات سے مستقیم روایات کا سماع کیا ہے پھر اس نے کچھ جھوٹے لوگوں سے وہ روایات سنیں جو شعبہ اورامام مالک کی طرف منسوب کی گئیں تو اس نے ضعیف راویوں سے جو روایات نقل کی تھیں انہیں تدلیس کرتے ہوئے ثقہ راویوں کے حوالے سے روایت کردیا۔
دیگر کئی حضرات نے یہ بات بیان کی ہے کہ یہ تدلیس کرت تھا اور جب یہ لفظ عن استعمال کر ے تو اس وقت یہ حجت شمار نہیں ہوگا۔
ذہبی نے کہا کہ یہ حافظ الحدیث اور جلیل القدر شخصیت ہے۔ کئی آئمہ کہا کہنا ہے کہ بقیہ جب ثقہ راویوں کے حوالے سے روایات نقل کرےتو ثقہ شمار ہو گا۔
ابن عبدالہادی کہتے ہیں کہ بقیہ کی بحیر بن سعد سے روایت صحیح ہوتی ہے، چاہے وہ سماع کی تصریح کریں یا نہ کریں۔
خطیب بغدادی نے کہا کہ بقیہ بغداد میں آیا اور اس نے وہاں احادیث بیان کیں ۔ اسی کی احادیث میں مناکیر تھیں اور اکثر احادیث مجہول افراد سے روایت کیں۔ اور وہ صدوق تھا۔
ذہبی نے کہا کہ جمہور نے اسے ثقہ کہا ہے کیونکہ اس سے ثقات نے سماع کیا ہے۔
ابو زرعہ عراقی نے کہا کہ ضعفاء سے کثرت سے تدلیس کرتا ہے، تدلیس کے لیے مشہور ہے تدلیس تسویہ کرتا ہے۔
ابن حجر نے کہا آٹھوں طبقہ کا صدوق ہے ضعفاء سے کثیر تدلیس کرتا ہے۔
ابن طلعت لکھتے ہیں کہ بقیہ بن ولید کی حدیث سے احتجاج لیا جائے گا جب وہ سماع کی صراحت کرے اور وہ ثقہ معروف شیخ کی روایت کرے، جبکہ اس کی وہ حدیث قبول نہیں ہو گی جو کہ سماع کی صراحت پر مبنی ہو، چاہے وہ معروف شیخ سے ہو یا مجہول یا ضعیف سے ہو۔ جبکہ اس کی روایت ضعفاء اورمجہولین سے بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔
حافظ زبیر نے لکھا کہ بعض جرحیں اصل جارحین سے ثابت ہوتی ہیں لیکن جمہور کی توثیق یا تعدیل صریح کے مقابلے میں مرجوح یا غیر صریح ہونے کی وجہ سے مردود ہوتی ہیں۔ مثلاً امام زہری، عبدالرزاق بن ہمام، بقیہ بن الولید، عبدالحمید بن جعفر، عکرمہ مولیٰ ابن عباس اور محمد بن اسحاق بن یسار وغیرہم پر تمام جرحیں جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ایک جگہ حافظ زبیر لکھتے ہیں کہ بقیہ بن الولید اگرچہ صدوق مدلس تھے، لیکن بحیر بن سعد سے ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے، کیونکہ یہ باب الروایۃ عن الکتاب میں سے ہے ۔

مصادر
(طبقات ابن سعد9/474ح،تاريخ يحيى بن معین بروایت الدوری 2 / 61،تاريخ الدارمی ص 79ح 190، علل احمد دیکھیں فہرست 4/110،تاريخ الكبير 2/150ح2012،ثقات العجلی 1/250ح168،ضعفاء العقيلي1/162ح203، الجرح والتعديل 1 / 135ح10 اور 2/434 ح1728،علل ابن ابی حاتم دیکھیں فہرست 7/272، المجروحين1/159ح229 ،الكامل لابن عدی2/259ح302،ثقات ابن شاہين ص 49ح139، ضعفاء دار قطني ص 414ح630، سؤالات السلمی ص 57ح89، اور ص 59ح103 اور، الارشاد الخليلي دیکھیں فہرست 2/1056، تاريخ بغداد7/623ح3514،تعلیقات علی العلل ابن ابی حاتم ص 124ح35 ،تاريخ دمشق 10/328ح934،تہذیب الکمال 4/192ح738، میزان الاعتدال2/45ح1252 (اردو2/80ح1252)،سیر اعلام النبلاء 7/74 اور 8/518،الكاشف1/273ح619،تذہیب الہتذیب2/44ح740،التبین سبط ابن عجمی ص 16ح5،المدلسین ابو زرعہ ص 37ح4، تہذیب التہذیب1/445ح880، تقریب التہذیب1/264ح741،تعریف اہل التقدیس ص 49ح117،معجم المدلسین لابن طلعت ص 98ح20، مقالات زبیر 3/354 اور 424 اور 5/29، الفتح المبین ص 136، معجم من رمی باالتدلیس ص 174ح39)


حیی بن ہانی ابی قبیل المعافری
روی عن​
احنف الجندی، امین بن عمرو المعافری، حنظلہ بن صفوان الکلبی، حی بن عامر الزبادی، حی بن یومن المعافری، خالد بن نعیم الخبشی، شفی بن ماتع الاصبحی، عبادہ بن الصامت، عبداللہ بن شہر الخبشی، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبداللہ بن موہب، عبدالرحمان بن غنم الاشعری، عقبہ بن عارم الجہنی، عمرو بن العاص، ابی مسکینہ، ابی میسرہ مولیٰ عباس بن عبدالمطلب۔
روی عنہ​
ابراہیم بن محمد العکی، اسود بن خیر المعافری، بکر بن مضر، حرملہ بن عمران التجیبی، حمید بن ہانی الخولانی، خنیس بن عامر المعافری، دراج ابو السمح، رجاء بن ابی عطاء، سہیل بن حسان الکلبی، ضمام بن اسماعیل، عبداللہ بن لہیعہ، عبداللہ بن المسیب، عبدالرحمان بن شریح، عرابی بن معاویہ الحضرمی، علی بن حوشب الفزاری، عمرو بن الحارث، قرہ بن عبدالرحمان بن حیوئیل، لیث بن سعد، مالک بن الخیر الزبادی، معاویہ بن سعید التجیبی، یحییٰ بن ایوب، یزید بن ابی حبیب۔
مشہور یہ ہے کہ ا س کا نام حیی ہے ،یہ بات ایک جماعت نے بیان کی ہے، جہاں تک ابن یونس اور ابو حاتم کا تعلق ہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ حیی حضرت معاویہ کے زمانے میں یمن سے مصر آگیا تھا اور یہ اس وقت نوجوان تھا۔
جرح و تعدیل
ابن سعد نے کہا کہ آپ صاحب حدیث ہیں اور آپ سے حدیثیں مروی ہیں۔
دارمی نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے کہا کہ ثقہ ہیں۔
ابن حنبل نے کہا کہ ثقہ ہے۔
یعقوب بن شیبہ نے کہا کہ ان کو ملاحم اور فتن کا علم تھا۔
عجلی نے کہا کہ ثقہ ہے۔
ابو زرعہ رازی نے کہا کہ ثقہ ہے۔
ابو حاتم رازی نے کہا کہ صالح الحدیث ہے۔

مصادر
ذہبی نے کہا کہ اس کی توثیق جماعت نے کی ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ تیسرے طبقہ کا صدوق اوہام والا راوی ہے۔
(طبقات ابن سعد9/518ح4879(اردو7/323)، تاريخ يحيى بن معین بروایت الدوری 2 / 141،تاريخ دارمي ص 238 ح 923،تاريخ الكبير 3 / 75ح 267،الجرح والتعديل 3 / 275ح 1227، الثقات 4/178، تہذیب الکمال 7/490ح1586،سير اعلام النبلاء 5 / 214،العبر 1 / 167الكاشف 1 /360ح1297،ميزان الاعتدال2/402ح2396 (اردو2/461ح2396)، تذہیب التہذیب3/66ح1603، تہذیب التہذیب3/253ح1899، تقریب التہذیب 1/543ح1616)

ربیعہ بن سیف
روی عن
بشر بن زبید المعافری، تبیع الحمیری، شفی بن ماتع الاصبحی، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبداللہ بن یزید الحبلی، عیاض بن عقبہ الفہری، فضالہ بن عبیدالانصاری، مکحول الشامی۔
روی عنہ​
بکر بن مضر، جعفر بن ربیعہ، حیوۃ بن شریح، خنیس بن عامر المعافری، سعید بن ابی ایوب، سعید بن ابی ہلال، سہیل بن حسان الکلبی، ضمام بن اسماعیل، عبداللہ بن لہیعہ، عبدالرحمان بن زیاد بن انعم الافریقی، لیث بن سعد، مفضل بن فضالہ، نافع بن یزید، ہشام بن سعد المدنی۔
جرح و تعدیل
عجلی نے کہا کہ مدنی تابعی ثقہ ہے۔
امام بخاری نے کہا کہ منکر روایات کرتا ہے۔
ترمذی نے کہا کہ ہم ربیعہ کے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓکے ساتھ سماع سے واقف نہیں ہیں۔
نسائی نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایک جگہ کہا کہ ضعیعف ہے۔
دارقطنی نے کہا کہ مصری صالح ہے۔
ابن حبان نے اس کا ذکر الثقات میں کیا ہے اور کہا ہےکہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔
ابن یونس نے کہا کہ اس کی حدیث میں منکر روایات ہیں۔
حافظ عبدالحق ازدی نے اسے اس روایت کے حوالے سے ضعیف قرار دیا ہے جو اس نے نقل کی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
"اے فاطمہ ! کیا تم ان لوگوں کے ساتھ کداء (قبرستان ) تک گئی تھیں؟ تو انہوں نے عرض کی : جی نہیں ! نبیﷺ نے فرمایا اگر تم ان لوگوں کے ساتھ کداء تک گئی ہوتیں ، تو اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوتیں ، جب تک تمہارے باپ کا دادا اس میں داخل نہ ہوتا"۔
عبدالحق ازدی نے کہا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے اور اس سے منکر روایات منقول ہیں۔
ابن حبان نے کہا کہ اس روایات میں ربیعہ کی متابعت نہیں کی گئی اور اس کی نقل کردہ روایات میں منکر ہونا پایا جاتا ہے، جہاں تک امام نسائی ؓکا تعلق ہے تو انہوں نے کتاب التمییز میں اس کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
ذہبی نے کہا کہ عجیب و غریب، منکر روایات والا ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ چوتھے طبقہ کا صدوق ہے جو کچھ منکر روایات بھی کرتا ہے۔

مصادر
(تاریخ الکبیر 3/290ح987،ثقات العجلی1/357ح463 ،جامع ترمذی ح 1074 ، المعرفہ والتاریخ 2/520،الجرح والتعدیل 3/477ح2143،الثقات 6/301،مشاہیر علماء الامصار ص 221ح 1512،سؤالات البرقانی ص ح153، تہذیب الکمال 9/113ح1876،المغنی 1/349ح2103، دیوان الضعفاء ص 135ح 1399، الکاشف1/393ح1545،میزان الاعتدال3/67ح2754 (اردو3/82ح2754)، تذہیب التذہیب3/223ح1903،المراسیل للعلائی ح 184، تہذیب التہذیب2/416ح2245، تقریب التہذیب2/98ح1916 )





عکرمہ بن خالد المخزومی
روی عن​
ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص، اسید بن ظہیر، جعفر بن المطلب بن ابی وداعہ، خالد بن العاص المخزومی (والد)، سعید بن جبیر، عامر بن واصلہ ، عبداللہ بن شداد بن الہاد، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر بن الخطاب، عبدالرحمان بن عبداللہ بن ابی عمار، مالک بن اوس بن الحدثان، محمد بن مسلم بن شہاب الزہری، مطلب بن ابی وداعہ، یحییٰ بن سعد بن ابی وقاص، ابی بکر بن عبدالرحمان بن الحارث بن ہشام المخزومی، ابی ہریرہ۔

روی عنہ​
ابراہیم بن مہاجر البجلی، اسحاق بن سعید السعدی، ایوب بن موسیٰ، ایوب السختیانی، توبہ العنبری، حسن بن کثیر، حماد بن سلمہ، حنظلہ بن ابی سفیان، سلیم بن حیان، عامر الاحول، عباد بن منصور، عبدالرحمان بن عمرو الاوزاعی، عبدالملک بن جریج، عبدالملک بن الحارث بن ابی ربیعہ، عطاء بن عجلان، عمرو بن دینار، قتادہ بن دعامہ، محمد بن اسحاق بن یسار، محمد بن شریک المکی، مطر الوراق، معقل بن عبیداللہ الجرزری، یونس بن القاسم الحنفی۔

جرح و تعدیل
ابن سعد نے کہا کہ ثقہ ہے۔
ابن حنبل نے کہا کہ اس نے ابن عباس سے نہیں سنا۔
ابو زرعہ رازی نے کہا کہ اس کی عثمان سے روایت مرسل ہے۔
ابو حاتم رازی نے کہا کہ اس نے عمر ؓ سے کچھ نہیں سنا البتہ عبداللہ بن عمر سے سماع کیا ہے۔
اسحاق بن منصور نے یحییٰ بن معین، ابو زرعہ اور نسائی کے حوالے سے کہا کہ ثقہ ہے۔
ابن حبان نے اس کا ذکر الثقات میں کیا ہے۔
ذہبی کہتے ہیں کہ یہ مکہ کا رہنے والا معروف ثقہ شخص ہے اور ابن جریج کے مشائخ میں سے ہے، ابن حزم نے یہ غلطی کی ہے کہ اسے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ابو محمد ، جیساکہ ابن قطان نے بیان کیا ہے ،ان کے پاس رجال کے بارے میں الساجی کی تحریر آئی تھی، انہوں نے اسے مختصر کیا اور حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کر دای تو یہ روایات اس شخص سے غلطی کے ساتھ صادر ہوئی جو اس سے پہلے تھا، لیکن انہیں اس کی سمجھ نہیں آسکی۔
ابن حجر نے کہا کہ تیسرے طبقہ کا ثقہ راوی ہے۔
مصادر
(طبقات ابن سعد8/35ح2381،تاريخ دارمی ح ص 163ح580اور 581، علل احمد 1 / 131، 393،تاريخ الكبير 7 / 49ح 221، الجرح والتعديل 7 /9 ح 34، المراسيل ص ح298158، الثقات 5 / 231،ثقات ابن شاهين ص 178 ح 1075، تہذیب الکمال 20/249ح4004، الكاشف 2 /32 ح 3863، المغني 2 / 66ح 4166،ميزان الاعتدال5/112ح5717(اردو5/134ح5717)،تذہیب التہذیب6/400ح4698، تحفہ التحصیل ص 232،جامع التحصيل ح 531، تہذہیب التہذیب4/543ح5479،تقریب التہذیب 3/536ح4702)



معاویہ بن سعید التجیبی


روی عن
عبداللہ بن مسلم بن مخراق، یزید بن ابی حبیب، ابی قبیل المعافری، ابی ہانی الخولانی۔
روی عنہ
بقیہ بن الولید، حیوۃ بن شریح المصری، خالد بن حمید المہری، رشدین بن سعد، صفوان بن رستم، معاویہ بن یحییٰ الاطرابلسی، موسیٰ بن سلمہ المصری، نافع بن یزید، یحییٰ بن ایوب۔
جرح و تعدیل
ابن حبان نے اس کا ذکر الثقات میں کیا ہے۔
ذہبی نے کہا کہ اس کی توثیق کی گئی ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ ساتویں طبقہ کا مقبول راوی ہے۔

مصادر​
(تاريخ الكبير 7 /334ح 1441،الجرح والتعديل 8 /384ح1755، الثقات 9 / 166،تہذیب الکمال 28/174ح6053،توضیح المشتبہ 1/354،الكاشف2/275ح5521،تذہیب التہذٰب9/33ح6803، تہذیب التہذیب6/328ح7980،تقریب التہذیب5/105ح6805)


ہشام بن سعد المدنی


روی عن
حاتم بن ابی نصر، زیاد، زید بن اسلم، سعید بن ابی سعید المقبری، سعید بن ابی ہلال، سلمہ بن دینار، سلیمان بن حفص القرشی، عبیداللہ بن علی بن ابی رافع، عثمان بن حیان الدمشقی، عطاء الخراسانی، عمر بن اسید بن جاریہ الثقفی، عمرو بن شعیب، محمد بن زید بن المہاجر بن قنرذ، محمد بن مسلم بن شہاب الزہری، نافع مولیٰ ابن عمر، نعیم المجمر، یزید بن نعیم بن ہزال، ابی زبیر المکی۔
روی عنہ
اسباط بن محمد القرشی، بشر بن عمر الزہرانی، جعفر بن عون، حسن بن سوار، حماد بن خالد الخیاط، زید بن ابی الزرقاء، سفیان بن سعید الثوری، عبداللہ بن عمرو الواقعی، عبداللہ بن مسلمہ القعنبی، عبداللہ بن نافع الصائغ، عبداللہ بن وہب، عبدالرحمان بن مہدی، علی بن الحسین بن واقد، فضل بن دکین، لیث بن سعد، محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک، معافی بن عمران الموصلی، معاویہ بن ہشام، معن بن عیسیٰ، مفضل بن فضالہ، موسیٰ بن ابی علقمہ الفروی، وکیع بن الجراح، یزید بن مغلس الباہلی، ابو عامر العقدی۔
جرح و تعدیل
یہ بنو مخزوم کا آزاد کردہ غلام ہے، اسے زید بن اسلم کا زیر پرورش یتیم بھی کہا جاتا ہے، یہ ان کے ساتھ رہا اور اس نے ان سے بکثر ت روایات نقل کی ہیں۔
ابن ابی شیبہ نےعلی بن مدینی کے حوالے سے کہا کہ صالح ہے مگر قوی نہیں۔
ابن سعد نے کہا کہ آل ابی طالب کا شیعہ تھا۔ کثیر الحدیث تھا ضعیف تھا۔
ابن حنبل نے کہا کہ ہشام بن سعد حافظ نہیں تھا، یحییٰ بن سعید اس سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے۔ محکم الحدیث نہیں تھا۔
عباس دور ی نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے کہا کہ ضعیف ہے۔ ابن ابی خیثمہ نے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا کہ صالح ہے، متروک الحدیث نہیں۔ معاویہ بن صالح نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے کہا کہ اتنا قوی نہیں ہے۔ احمد بن سعد بن ابی مریم نے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا کہ یحییٰ بن سعد اس سے روایت نہیں لیتے تھے۔
عجلی نے کہا کہ جائز الحدیث، حسن الحدیث ہے۔
ابو زرعہ رازی نے کہا کہ شیخ ہے اس کا محل صدق ہے۔ ایک جگہ کہا کہ واہی الحدیث ہے۔
ابو حاتم رازی نے کہا کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی مگر اس سے دلیل نہیں لی جائے گی۔
ابو داود نے کہا کہ یہ زید بن اسلم کے بارے میں سب سے زیادہ ثبت ہے۔
نسائی نے کہا کہ ضعیف ہے۔ ایک جگہ کہا کہ قوی نہیں ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ اس کی حدیث ضعف کے ساتھ ہے لکھی جائے گی۔
امام حاکم نے کہا کہ امام مسلم نے اس کے حوالے سے شواہد کے طور پر روایات نقل کی ہیں۔
ذہبی لکھتے ہیں کہ اس کی نقل کردہ منکر روایات میں سے ایک وہ روایت ہے جو امام ترمذی نے اس کے حوالے سے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کے حوالے سے مرفوع حدیث کے طور پر نقل کی ہے:
"جو شخص جمعہ کے دن یا شب جمعہ میں فوت ہو جائے، اس کی مغفرت ہو جاتی ہے"۔
اس راوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو ہریرہؓ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے:
"ایک شخص آیا، اس نے رمضان میں روزہ توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد راوی نے پوری حدیث ذکر کی ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں: نبی ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا ، آپﷺ نے فرمایا : اس سے تم اور تمہارے اہل خانہ کھالیں ، تم ایک دن روزہ رکھ لینا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا"۔
ذہبی نے کہا کہ حسن الحدیث ہے۔
ابن حجر نے کہا کہ ساتویں طبقہ کا صدوق اوہام والا راوی ہے ، جس پر تشیع کا الزام ہے۔

مصادر
(طبقات ابن سعد7/576ح 2195، تاريخ یحییٰ بن عین بروایت الدوري 2 / 617، علل احمد 2/507ح3343، تاريخ الكبير 8 / 200ح 2706،ثقات العجلی 2/329ح1901 ، ابو زرعہ الرازی ص 391 ، ضعفاء النسائی ص 245ح 611، ضعفاء العقیلی 4/341ح1947،الجرح والتعديل 9 / 241ح ، المجروحين 2/437ح1152،الكامل لابن عدی 8/409ح2025 ،تہذیب الکمال 30/204ح6577، سير اعلام النبلاء 7 / 344،میزان الاعتدال7/80ح9232 (اردو 7/105ح9232)، الكاشف2 / 336ح 5964،ديوان الضعفاء ص 419ح 4467،المغنی 2 / 478ح 6749،العبر 1 / 237، من تكلم فيہ وہو موثق ص 519ح357، تذہيب التہذيب9/287ح7334 ، تہذيب التہذيب6/640ح8564 ،تقریب التہذیب5/266ح7344)

واللہ اعلم بالصواب
 
Top