• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی﷜ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بخاری شریف میں روایت ہے کہ:
لما نزلت ’’ لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ أُولی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ قال النبي ﷺ: ’’اُدْعُ لِيْ زَیْدًا وَیَجِيْئُ بِاللَّوْحِ وَالْقَلَمِ وَالْکَتِفِ -أَوْ الْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ-‘‘۔ ثُمَّ قَالَ: اُکْتُبْ ’لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ…‘‘‘۔
’’جب آیت ’’لَایسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ……‘‘ (النساء: ۹۵) نازل ہوئی رسول اﷲﷺنے فرمایا کہ زید کو میری طرف بلایا جائے اور وہ تختی اور قلم اور کتف اور دوات لے کر آئیں پھر فرمایا ’’ لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْن…‘‘ لکھو‘‘
ان روایات میں غور کریں تو دو اہم باتیں سامنے آتی ہیں کہ
(١) نزول وحی کی کیفیت جوں ہی ختم ہوتی ۔ حضورﷺ فوراً نازل شدہ وحی کو لکھوالیتے۔
(٢) یہ کتابت اس انداز سے ہوتی تھی کہ ایک مکمل نسخہ معرض وجود میں آرہاتھا۔ اوّل الذکر کے متعلق مجمع الزوائد کی روایت پیش کی جا سکتی ہے کہ حضرت زیدبن ثابت﷜فرماتے ہیں کہ جب کیفیت وحی ختم ہوجاتی ہے تو فکنت أدخل علیہ بقطعۃ الکتف … کہ میں لکھنے کا سامان قلم، دوات اور سلیٹ وغیرہ لے کر حاضر ہوجاتا۔
محققین نے بہت سی ایسی روایات کا ذکر کیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ حضورﷺ نزولِ وحی کے بعد جس کام کے لئے سب سے زیادہ مستعد و بے قرار رہتے تھے وہ کتابتِ وحی کا فریضہ ہی ہوتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ قرآن کے کسی حصے کا ضائع ہو جانا محال تھا اس قسم کے شواہد یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ جو ہستی اس سلسلے میں اس قدر محتاط ہو کیا اس نے قرآن غیر مربوط اور نامکمل شکل میں ہی امت کو دیے دیا ہو گا؟ حفاظتِ قرآن کی ذمہ داری اگرچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے تاہم عالمِ اسباب میں بھی حضورﷺکے ذریعے اس کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا ۔ عرضہ اخیرہ میں حضورﷺنے حضرت جبریل﷤ کو دو مرتبہ قرآن سنایا اس کے بعد چھ ماہ کے عرصے میں کیا حضورﷺ کی توجہ اس طرف مبذول ہی نہ ہوئی کہ جو کتاب میں دے کر جارہا ہوں کیا وہ مکمل شکل میں موجود بھی ہے یا نہیں؟ جبکہ آپﷺ کو حضرِ اجل کا خیال ذہن میں ڈال دیا گیا ہو۔ اس قسم کی فروگذاشت تو ایک معمولی ذمہ دار شخص بھی نہیں کر سکتا۔
نزولِ قرآن کی کیفیت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ قرآن مجید کو حضورﷺنے ترتیب بھی دیدی تھی۔ مثلاً سورۃ البقرۃ کی کچھ آیات ایک ہی دن نازل ہوئیں اور حضورﷺنے یہ آیات ایک کاتب مثلاً زیدبن ثابت﷜ کو لکھوا دیں۔ انہیں لکھوانے کے بعدآپﷺنے معمول کے مطابق پڑھوا کر سن بھی لیا۔ اس کے بعد باقی صحابہ﷢ نے بھی ان آیات کو لکھ لیا۔ پھر اس کے بعد کچھ اور آیات نازل ہوئیں۔ جن میں کچھ سورۃ بقرہ اور کچھ سورۃ آل عمران کی تھیں۔ آپﷺ کو وحی کے ذریعے ان کا مقام بتا دیا گیا اور آپﷺ نے اس کے مطابق ان آیات کو لکھوا دیا۔ پڑھوا کر سنا اور پھر ان کی اشاعت فرما دی۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ جب سورۃ البقرۃ کی گیارھویں آیت لکھی گئی تو حضورﷺنے اسے سنا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپﷺنے صرف اسی ایک آیت کو سنا۔ یا اس سے پہلے کی دس آیات بھی سنیں یا کم از کم وہ آیت سنی جو گیارھویں آیت کے متصل واقع ہے۔ اس کو بھی سنا۔ ظاہر ہے کہ صرف گیارھویں آیت سننے سے یہ توواضح ہو جائے گا کہ یہ آیت گیارھویں یعنی اپنے نمبر پر لکھی گئی ہے یا نہیں؟ جب تک کہ کاتب کے پاس پہلے کی نازل شدہ اس سورت کی تمام کی تمام دس آیات لکھی ہوئی موجود نہ ہوں اور ان کا ربط ان آیات کے ساتھ نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس کے ساتھ اس روایت کو ذہن میں رکھیں جس میں سورۃ النساء کی آیت
’’ لَایَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ أُولی الضَّرَرِ وَالْمُجٰھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ‘‘ کے نزول کاذکر کیا گیا ہے۔
اس بات کا اطلاق اگر ہم تمام کاتب صحابہ﷢ پر کریں تو یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت باقی نہیں رہ جاتی کہ ان تمام صحابہ کرام﷢ کے پاس قرآن مجید کے مکمل (Up to date) نسخے تیار ہو رہے تھے۔
حضرت زید بن ثابت﷜ فرماتے ہیں:
کنا نؤلف القراٰن من الرقاع۔
اس بیان کی تشریح امام بیہقی﷫ یوں کرتے ہیں۔
’’ المراد بالتألیف ما نزل من الاٰیات المفردۃ في سورھا وجمعھا۔‘‘
یعنی جن سورتوں کی جو جو آیات اس وقت تک نازل ہوچکی ہوتی تھیں ہم حضورﷺکے حکم سے ان کو سورتوں کے ان ان مقامات پر ترتیب دے کر لکھا کرتے تھے جہاں جہاں انہیں ہونا چاہئے تھا۔ مختلف سورتوں میں جو جدید اضافے وحی کے ذریعے ہوتے رہتے تھے انہیں ہم حضورﷺکے سامنے بیٹھ کر جوڑتے تھے اور یوں قرآن کی ان سورتوں کے وہ نسخے جو صحابہ کرام﷢ کے پاس جمع ہوتے جاتے تھے تدریجاً مکمل ہوتے رہے۔
اس روایت کے بارے میں امام حاکم﷫ فرماتے ہیں:
’’ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین۔‘‘
’’یہ شیخین کی شرط پر صحیح حدیث ہے‘‘
امام بیہقی﷫ نے بھی لکھا ہے کہ تالیف سے مراد یہ ہے کہ ہم آیات کو ان کے اصل مقام پر رکھ رکھ کر جوڑا کرتے تھے جہاں جہاں ہمیں حضورﷺ رکھنے کا حکم فرماتے تھے۔
عہدِ صدیق اکبر﷜ میں قرآن جمع کرتے وقت حضرت زیدبن ثابت﷜ کا یہ کہنا کہ’سورۃ برأۃ کی آخری آیات کسی سے نہ مل سکیں‘بھی اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام﷢ جانتے تھے کہ یہ آیات کس سورت کی ہیں اور انہیں کس جگہ لکھنا ہے۔ ورنہ تو یہ عبارت یوں ہونی چاہئے تھی۔
’’دو آیات مل نہیں رہی تھیں جب وہ مل گئیں تو ہم نے انہیں سورۃ برأۃ کے آخر میں لکھ دیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہد صدیق﷜ میں جمع قرآن … مقصد اور نوعیت
عہدِ نبویﷺ اور عہدصدیقی﷜ میں قرآن کی کتابت اور جمع قرآن کی کاروائی میں مقصد اور نوعیت کے اعتبار سے نمایاں فرق ہے ۔ اس دور میں جمع قرآن کے اقدام کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ عہدِ نبویﷺمیں قرآن لکھا ہوا موجود ہی نہ تھا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن عہدِ نبویﷺ میں لکھا ہوا موجود تھا۔ اس کے لاتعداد نسخے مکمل شکل میں موجود تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عہدِ نبویﷺ میں قرآن لکھا ہوا مرتب شکل میں موجود تھا تو پھر عہدِ صدیقی﷜ میں دوبارہ اس کاروائی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس بات کو ہم روایات کی روشنی میں واضح کریں گے۔
الاتقان میں خطابی کا قول نقل کیا گیا ہے ۔وہ کہتے ہیں:
’’إنما لم یجمع ﷺ القرآن في المصحف … وقد کان القرآن کتب کلہ في عھد رسول اﷲ ﷺ لکن غیر مجموع في موضع واحد۔‘‘
’’نبی کریمﷺنے قرآن مجید کو ایک مصحف کی شکل میں جمع نہیں فرمایا تھا۔ نبی کریمﷺکے عہد میں قرآن مجید مکمل طور پر لکھا تو جا چکا تھا۔ لیکن وہ یکجا نہیں تھا‘‘
اسی طرح ایک اور روایت بھی الاتقان میں ہے:
وقال الحارث المحاسبي في کتاب فھم السنن کتابۃ القرآن لیست بمحدثۃ فإنہ ﷺ کان یأمر بکتابتہٖ ولکنہ کان مفرقا في الرقاع والأکتاف والعسب فإنما أمر الصدیق بنسخھا من مکان إلٰی مکان مجتمعا وکان ذلک بمنزلۃ أوراق وجدت في بیت رسول اﷲ ﷺ فیھا القرآن منتشر فجمعھا جامع وربطھا بخیط حتٰی لا یضیع منھا شيئٌ۔
’’حارث محاسبی فہم السنن میں لکھتے ہیں کہ قرآن کی کتابت کوئی نئی بات نہ تھی اس لئے کہ نبی کریمﷺنے اس کے لکھنے کا حکم فرمایا تھا۔ لیکن اس وقت یہ رقاع، اکتاف اور عسیب میں متفرق و منتشر حالت میں تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق﷜نے اسے مرتب طریقے سے یکجا کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ ان اوراق کی طرح تھا جو حضورﷺکے گھر سے پائے گئے تھے ان میں قرآن منتشر طور پر لکھا ہوا تھا۔ اسی کو جامع نے جمع کر دیا۔ اور ایک دھاگے کے ساتھ اس طرح پرو دیا کہ اس میں سے کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام حاکم﷫ نے مستدرک میں روایت بیان کی ہے:
جمع القرآن ثلاث مرات إحداھا بحضرۃ النبي ﷺ ثم أخرج بسند علی شرط الشیخین عن زید ابن ثابت قال: کنا عند رسول اﷲ ﷺ نؤلف القراٰن من الرقاع … الثانیۃ بحضرۃ أبوبکر۔‘‘
’’قرآن تین مرتبہ جمع کیا گیا ہے ۔ پہلی مرتبہ رسول اﷲﷺ ہی کے عہد میں جمع ہوا تھا۔ پھر انہوں نے ایک سند پر جو شیخین کی شرط کے مطابق ہے ،بیان کیا ہے کہ زید بن ثابت﷜ نے کہا ہم رسول اﷲﷺکے پاس بیٹھ کر قرآن کو مختلف پرچوں سے مرتب کیا کرتے تھے۔ دوسری مرتبہ قرآن جمع کرنے کا کام عہد ابو بکر صدیق﷜ میں ہوا۔ تیسری مرتبہ یہ کام عہدِ عثمانی﷜ میں ہوا۔
نبی کریمﷺنے قرآن کو کتابی شکل میں اس لئے نہیں دیا تھا کہ آپﷺ کی زندگی میں قرآن ابھی نازل ہورہا تھا۔ ظاہر ہے کتابی شکل تو اسی وقت دی جاسکتی تھی جب یہ یقین ہوجاتا کہ اب مزید وحی نازل نہیں ہونی اور آئندہ جو وحی نازل ہونی تھی اسے کس جگہ رکھنا تھا۔ یہ اسی وقت ممکن تھا جب کہ قرآن مکمل نازل ہوچکا ہوتا۔
ان تمام حقائق وشواہد کی موجودگی میں یہ سوال خود بخود حل ہوجاتا ہے کہ عہدِ نبویﷺ میں قرآن مجید لکھا ہوا ہونے کے باوجود عہدِ صدیقی﷜ میں دوبارہ اس کام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ عہدِ نبویﷺ میں جونہی کوئی آیت نازل ہوتی فوراً اسے لکھوا لیا جاتا۔ لیکن چونکہ وحی کے نزول کا سلسلہ جاری تھا۔ اس لئے حضورﷺنے قرآن کو بین الدفتین یاایک کتاب کی شکل نہیں دی کہ اسے سرکاری نسخہ کہا جاتا۔ لیکن یہ بین الدفتین شکل عہدِ صدیقی﷜ میں دی گئی۔ عہدِ نبویﷺاور عہدِ صدیقی﷜ کے مصحف میں فرق صرف اسی قدر تھا کہ حضورﷺباقاعدہ ایک معیاری نسخہ ، جسے سرکاری حیثیت حاصل ہو ، امت کو دے کر نہیں گئے۔ لیکن ایک سرکاری نسخے کے نہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مرتب نسخہ نہیں تھا۔ بلکہ اس وقت تو لاتعداد نسخے معرض وجود میں آچکے تھے۔
حضرت ابو بکر صدیق﷜نے ایک سرکاری نسخہ تیار کروا دیا۔چونکہ مصحفِ عثمانی﷜ کو مشکوک بنانے کے لیے مستشرقین مصحف صدیق﷜ کو بھی غلط انداز سے پیش کرتے ہیں اس لئے مصحف صدیق﷜ کی تیاری کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہدِ صدیق﷜ میں جمع قرآن مجید کا طریقِ کار اور شرائط
اس وقت یہ طریق کار اختیار کیا گیا کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے حضرت عمر﷜ اورحضرت زید﷜ سے کہا:
’’اقعدا علی باب المسجد، فمن جاء کما بشاھدین علی شيئٍ من کتاب اﷲ فاکتباہ۔‘‘
’’مسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور جو شخص کتاب اﷲ کا کوئی حصہ لے کر آئے اور اس پر دو گواہ پیش کرے تو وہ حصہ لکھ لیا کرو۔‘‘
حافظ ابن حجر﷫ فرماتے ہیں کہ دو گواہوں سے مراد حفظ اور کتابت ہے۔
لیکن جمہور کہتے ہیں کہ دو عادل گواہ حفظ کے لیے اور دو عادل گواہ کتابت کیلئے۔ یعنی کل چار گواہ پیش کئے جائیں تو قرآنی آیت کا ٹکڑا قبول کیا جائے ورنہ قبول نہ کیا جائے۔
جمہور علماء اس کی دلیل میں ابن ابی داؤد کی وہ روایت پیش کرتے ہیں۔ جو انہوں نے یحیٰی بن عبدالرحمٰن بن حاطب کے طریق سے روایت کی ہے۔
قدم عمر ، فقال: من کان تلقی من رسول اﷲ ﷺ شیئًا من القرآن فلیأت بہ، وکانوا یکتبون ذلک في الصحف والألواح والعسبِ وکان لا یقبل من أحد شیئًا حتٰی یشھد شھیدان۔
’’حضرت عمر﷜ تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے قرآن کا کچھ حصہ حضورﷺسے سن کر یاد کیا ہو وہ پیش کرے ۔ لوگ ان دنوں قرآن کریم کی آیات کو صحیفوں تختیوں اور کھجور کی چھوٹی ٹہنیوں پر لکھا کرتے تھے۔ جب تک دو گواہ شہادت نہ دیتے تب تک آپ کسی کی پیش کردہ آیات کو قبول نہیں کرتے تھے‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ سخاوی﷫ اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔
المراد أنھما یشھدان علی أن ذلک المکتوب کتب بین یدي رسول اﷲ ﷺ۔
مقصد یہ ہے کہ دو گواہ اس بات کی شہادت دیں کہ یہ آیات حضورﷺکے سامنے لکھی گئی تھیں۔
عہد صدیقی﷜ میں کس قدر احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتاہے کہ
٭ اس کے باوجود کہ حضرت ابوبکر صدیق﷜ اور حضرت عمر﷜ کے علاوہ حضرت زید بن ثابت﷜ تینوں حفاظِ قرآن تھے۔ وہ چاہتے تو اپنی یاداشت اور حفظ کی بنیاد پرایک نسخہ لکھ دیتے اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے حکم صادر فرما دیتے کہ آئندہ سے یہ نسخہ سرکاری نسخہ کہلائے گا۔ لیکن انہوں نے امت کا اجماع منعقد کرنے کی خاطر ایک باضابطہ اور باقاعدہ طریقہ اختیار کیا ۔کسی کو اس طریق پر نہ اعتراض ہو سکتا تھا اور نہ کسی نے اعتراض کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ احتیاط کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت عمر﷜ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ ایک آیت لے کر آئے۔ لیکن یہ آیت آپ نے اکیلے ہی پیش کی ۔ کسی اور نے ان کی تائید نہیں کی ۔ تو حضرت عمر﷜ کی پیش کردہ یہ آیت قرآن میں شامل نہیں کی گئی۔
٭ احتیاط کی تیسری مثال سورۃ التوبۃ کی آخری آیت ہے۔ حضرت زید بن ثابت﷜ اوران کی کمیٹی کے دیگر ارکان کی طرح یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق﷜ کو بھی یادتھی لیکن انہوں نے اسی معیار پر عمل کیا۔ اور یہ آیت چونکہ اسی معیار پر پورانہیں اتر رہی تھی۔ اس لئے اسے قبول نہیں کیا گیا۔ اسی وقت انہیں شامل قرآن کیا گیا جب وہ معیار پر پورا اتری۔
حضرت زیدبن ثابت﷜ کا یہ قول کہ
’’میں نے ان آیات کو صرف ابو خزیمہ﷜ کے پاس پایا‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں کہ خبر واحد کے ساتھ قرآن کا اثبات کیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ حضرت زید بن ثابت﷜ نے بذات خود یہ آیات حضورﷺ سے سنی تھیں۔ اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہاں اور کس سورۃ سے متعلق ہیں۔ اس ضمن میں صحابہ کرام﷢ کی تلاش تائید و تقویت کے لئے تھی۔ اس لئے نہیں کہ آپ قبل ازیں ان آیات سے آگاہ نہ تھے۔حضرت ابو بکرصدیق﷜ کے اہتمام سے جمع و تدوین قرآن کا کام ایک سال کی مدت میں تکمیل کو پہنچا اس کام کو صحابہ کرام﷢ نے بنظر استحسان دیکھا۔حضرت علی﷜ نے اس کام کے بارے میں فرمایا۔
’’رحم اﷲ أبا بکر، ھو أوّل من جمع کتاب اﷲ بین اللوحین۔‘‘
’’اﷲ تعالیٰ ، ابو بکر﷜ پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اﷲ کی کتاب کو بین اللوحین جمع کیا‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان تما م تفصیلات سے ایک انصاف پسند انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ کیا مسلمان طویل عرصہ تک قرآن مجید کے متن کو محفوظ کرنے کے بارے میں لاپرواہ رہے اور کیا عہد نبویﷺو عہد صدیق اکبر﷜ میں کوئی نسخہ مرتب نہیں ہوا تھا۔ ایک طرف اس قدر اہتمام و احتیاط سے تیار ہونے والا نسخہ ہے اور دوسری طرف مستشرقین کی یہ رَٹ کہ قرآن کا کوئی نسخہ عہدِ عثمان﷜ تک تیار نہ ہوسکا،کسی طرح بھی قرین حقیقت اور قرین عقل و انصاف نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عہدِ عثمانی﷜ میں جمع قرآن
حضرت عثمان غنی﷜ کے عہدِ حکومت تک اسلامی مملکت وسیع علاقے تک پھیل چکی تھی۔ اور عرب کے علاوہ عجم کے علاقے اسلامی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔ قرآن مجیدلوگوں کا مرکزو محور تھا ۔ لوگوں کی سہولت کے لیے بعض مقامات پر ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنے کی اجازت بھی موجود تھی۔ دوسری طرف ’سبعہ احرف‘ بھی موجود تھے۔ صحابہ﷢ ان سات حروف کے ساتھ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ صحابہ﷢نے اپنے شاگردوں کو بھی انہی کے مطابق پڑھایا۔ جب اسلامی مملکت کی حدود عجم تک وسیع ہوئیں تو صحابہ﷢ ان علاقوں میں بھی پھیل گئے۔ ہر مفتوحہ علاقے میں سرکاری طور پر معلمین متعین کئے جاتے تھے۔ اس طرح معلم صحابہ﷢ کے ذریعے سبعہ احرف کے مطابق قرآن پڑھنے والے صحابہ﷢ عرب و عجم کے وسیع علاقے میں پھیل گئے۔ جب تک لوگ سبعہ احرف کی حقیقت سے آگاہ تھے اس وقت تک مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ لیکن جب یہ اختلاف دوردراز علاقوں تک پھیل گیا اور جن لوگوں پر یہ بات واضح نہ تھی کہ سبعہ احرف کی سہولت کا اصل مقصد کیا تھا۔ اور یہ بات ان میں پوری طرح مشہور نہ ہوسکی کہ قرآن کریم سات حروف میں نازل ہواہے تو اس وقت لوگوں میں جھگڑے کھڑے ہونے لگے۔ بعض لوگ اپنی قراء ت کو صحیح اور دوسرے کی قراء ت کو غلط قرار دینے لگے۔ ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر اور جائز قراء تو ں کو غلط قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتلا ہوجائیں گے دوسری طرف یہ مسئلہ بھی تھا کہ حضرت زید بن ثابت﷜ کے لکھے ہوئے ایک نسخہ ،جو مدینہ طیبہ میں موجود تھا، کے علاوہ پورے عالم اسلام میں کوئی معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لیے معیار اور حجت بن سکے۔ کیونکہ اس نسخے کے علاوہ دوسرے نسخے انفرادی طور پر لکھے ہوئے تھے اور ان میں ساتوں حروف کو جمع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ اس لئے جھگڑوں کے حل کی کوئی قابل اعتماد صورت یہی تھی کہ ایسے نسخے پورے عالم اسلام میں پھیلا دئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اور انہیں دیکھ کر یہ فیصلہ کیا جاسکے کہ کونسی قراء ت درست اور کونسی غلط ہے؟ متن قرآن پر کسی اختلاف سے بچنے کے سلسلے میں یہ عظیم الشان کارنامہ حضرت عثمان غنی﷜ کے ہاتھوں رونما ہوا۔ ان کے اس کارنامے کی تفصیلات ، روایات میں موجود ہیں۔ حضرت خذیفہ بن الیمان﷜ آرمینیا کے محاذ پر جہاد میں مصروف تھے وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگوں میں قرآن کریم کی قرائتوں کے بارے میں اختلاف ہورہا ہے۔ چنانچہ مدینہ منورہ واپس آتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی﷜ کے پاس حاضر ہوئے۔ اور پوری صورت حال واضح کی ۔ انہوں نے خلیفہ سے کہا کہ قبل اس کے کہ یہ امت کتاب اﷲ کے بارے میں یہود ونصاری کی طرح اختلاف کا شکار ہو جائے ۔ آپ اس اختلاف کا علاج فرمالیں۔ میں آرمینیہ کے محاذ پر مصروفِ جہاد تھا کہ میں نے دیکھا کہ شام کے رہنے والے لوگ حضرت اُبیّ بن کعب﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جو اہل عراق نے نہیں سنی ہوتی ۔ اور اہل عراق ، حضرت ابن مسعود﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جو اہل شام نے نہیں سنی ہوتی ۔ اس بناء وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔
 
Top