• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی﷜ اور مستشرقین

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سلسلے میں علامہ بدرالدین عینی﷫ لکھتے ہیں۔
إن حذیفۃ قدم من غزوۃ فلم یدخل بیتہ حتّٰی اتٰی عثمان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أھل الشام یقرؤون بقرائۃ أبيّ بن کعب فیأتون بما لم یسمع أھل العراق وإذا أھل العراق یقرؤون بقرائۃ عبداﷲ ابن مسعود فیأتون بما لم یسمع أھل الشام، فیکفر بعضھم بعضا …
’’حضرت حذیفہ﷜ کی ایک غزوۃ سے واپسی ہوئی تو واپسی پر وہ اپنے گھر میں داخل نہیں ہوئے تاآنکہ حضرت عثمان﷜ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے امیر المؤمنین لوگوں کی خبر لیجئے ۔ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا میں لڑائی کے سلسلے میں آرمینیہ گیا تو معلوم ہوا کہ اہل شام اُبیّ بن کعب﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جو اہل عراق نے نہیں سنی ہوتی اور اہل عراق عبداﷲ بن مسعود﷜ کی قراء ت میں پڑھتے ہیں جسے اہل شام نے نہیں سنا ہوتا ۔ اس اختلاف کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت حذیفہ﷜ بن الیمان کا واقعہ بخاری شریف میں یوں بیان ہوا ہے :
عن ابنِ شھاب أن أنس بن مالک حدثہ أن حذیفۃ بن الیمان قدم علٰی عثمان وکان یغازي أھل الشام في فتح أرمینیۃ وآذربیجان مع أھل العراق، فأفزع حذیفۃ اختلافھم في القرائۃ، فقال حذیفۃ لعثمان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا في الکتاب اختلاف الیھود والنصارٰی۔ فأرسل عثمان إلٰی حفصۃ أن أرسلي إلینا بالصحف ننسحنھا في المصاحف، ثم نردھا إلیک۔ فأرسلت بہ حفصۃ إلیٰ عثمان، فأمر زید بن ثابت وعبداﷲ ابن زبیر وسعید بن العاص وعبدالرحمٰن بن الحارث بن ھشام فنسخوھا في المصاحف، وقال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسانِ قریش، فإنما أنزل بلسانھم۔ ففعلوا، حتّٰی إذا نسخوا الصحف في المصاحف، فردّ عثمان الصحف إلیٰ حفصۃ، وأرسل إلیٰ کل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواہ من القرآن في محل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق۔
’’حضرت خذیفہ بن الیمان﷜، حضرت عثمان غنی﷜ کے پاس آذر بائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے انہیں قراء اتِ قرآن میں باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا۔ حضر ت حذیفہ﷜ نے حضرت عثمان غنی﷜ سے کہا اے امیر المؤمنین! اس امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود و نصارٰی کی طرح اختلاف کرنے لگے۔ اس پر حضرت عثمان غنی﷜ نے حضر ت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن حکیم کے نوشتہ صحیفے اور اجزاء بھیج دیں ہم انہیں نقل کر لیں گے اور ایک مصحف کی شکل میں جمع کر لیں گے پھر انہیں آ پ کی طرف لوٹا دیں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان غنی﷜ کے پاس بھیج دئیے۔ حضرت عثمان غنی﷜ نے حضرت زید بن ثابت﷜ ، عبداﷲ بن زبیر﷜ ، سعید بن العاص﷜ اور عبدا لرحمٰن بن حارث بن ہشام﷜ کو متعین فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کر یں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت عثمان غنی﷜ نے جماعت قریش کے تینوں افراد (عبداﷲ بن زبیر﷜، سعید بن العاص﷜ اور حضرت عبدالرحمن بن حارث﷜) کو فرمایا کہ جب تم اور حضرت زید بن ثابت﷜ میں قرآن کریم کی کسی آیت کے لکھنے میں اختلاف ہو تو پھر اسے لغتِ قریش میں لکھنا کیونکہ قرآن لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے۔ چنانچہ ان حضرات نے اسی پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ جب یہ حضرات ان صحائف کو نقل کر چکے تو حضرت عثمان غنی﷜ نے ان اصل صحائف کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف واپس لوٹا دیا۔ اور ہر علاقے میں ایک ایک مصحف ارسال کر دیا اور یہ حکم صادر فرما دیا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیاجائے۔
حضرت عثمان غنی﷜کے عہد میں پیدا ہونے والے ان اختلافات کے بارے میں ابن اشتہ نے حضرت انس ﷜ سے نقل کیا ہے :
اختلفوا في القرآن علی عھد عثمان رضی اﷲ عنہ حتّٰی اقتتل الغلمان والمعلمون، فبلغ ذلک عثمان ابن عفان فقال: عندي تکذبون وتلحنون فیہ، فمن نأی عني کان أشد تکذیباً وأکثر لحناً، یا أصحاب محمّد اجتمعو فاکتبوا للناس إماما۔
حضرت عثمان غنی﷜ خود بھی شاید اس خطرے سے آگاہ تھے ۔ انہیں اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ خود مدینہ منورہ کے اندر ایسے واقعات پیش آئے کہ مختلف صحابہ﷢ کے شاگرد اکٹھے ہونے سے اختلاف کی ایک کیفیت پیدا ہورہی تھی۔ جب حضرت عثمان غنی﷜ نے جلیل القدر صحابہ﷢ کو جمع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ۔ اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ میری قراء ت تمھاری قراء ت سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہنچ سکتی ہے ۔ لہٰذا آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ صحابہ﷢ نے حضرت عثمان غنی﷜ ہی سے پوچھا کہ آپ﷜ نے کیا سوچا ہے؟ حضرت عثمان غنی﷜ نے فرمایا کہ ’’میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کوایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق باقی نہ رہے۔ صحابہ﷢ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت عثمان غنی﷜ کی رائے کی تائید کی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ حضرت عثمان غنی﷜ نے اسی وقت لوگوں کو جمع کر کے ایک خطبہ ارشاد فرمایا کہ
’’أنتم عندي تختلفون فیہ وتلحنون فمن نأی عني من أھل الأعصار أشد فیہ اختلافاً وأشد لحناً، اجتمعوا یا أصحاب محمد (ﷺ)! فاکتبوا للناس إماماً۔‘‘
تم لوگ مدینہ منورہ میں میرے قریب ہوتے ہوئے قرآن کریم کی قراء توں کے بارے میں ایک دوسرے کی تکذیب اور ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہو ۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکذیب و اختلاف کرتے ہوں گے ۔ لہٰذا تم لوگ مل کر قرآن کریم کاایک ایسا نسخہ تیار کرو جو سب کے لیے واجب الاقتداء ہو۔
مصحف عثمان غنی﷜ کے بارے میں اس وضاحت سے صاف طور پر واضح ہورہا ہے کہ قرآن مجید کا ایک مصحف تیار کروانے کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے اپنی سیاسی پالیسی یا ذاتی مقاصد کے لئے یہ سب کچھ کیا ۔ آذر بائیجان سے واپسی کے فوراً بعد حضرت حذیفہ بن الیمان﷜ کا امیر المؤمنین کے پاس آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اس اختلاف سے بڑے پریشان تھے۔ پھر انہوں نے حضرت عثمان غنی﷜ کے سامنے یہ مسئلہ اس انداز سے پیش کیا کہ وہ بھی اس کی سنگینی کو فوراً سمجھ گئے۔ اس صورتحال میں حضرت عثمان غنی﷜ نے یہ محسوس کیا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی اور انفرادی مصاحف ختم کر کے قرآن کریم کے معیاری نسخے عالم اسلام میں نہ پھیلائے گئے تو زبردست فتنہ رونما ہو جائے گا۔ اس لئے انہوں نے مندرجہ ذیل کام کئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قرآن کریم کے سات معیاری نسخے تیار کروائے اور انہیں مختلف اطراف میں روانہ کیا۔
(٢) یہ سات نسخے درحقیقت حضرت ابوبکر صدیق﷜ والے نسخے کی نقل تھے۔ متن کے اعتبار سے ان دونوں مصاحف میں کوئی فرق نہ تھا۔ صرف رسم الخط کا فرق تھا۔ اس میں قریش کی لغت کو بنیاد بنایاگیا۔ان مصاحف کا رسم الخط ایسا رکھا کہ اس میں ’ ساتوں حروف‘ سما سکیں۔ چنانچہ یہ مصاحف نقاط اور حرکات سے خالی تھے اور انہیں ہر حرف کے مطابق پڑھا جاسکتا تھا۔(جمع عثمانی کی حقیقی نوعیت صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں نسخ ہوا تھابلکہ وہ بھی ایک باقاعدہ جمع تھی۔ تفصیل کے لئے مذکورہ شمارہ میں مضمون ’جمع عثمانی روایات کے تناظر میں‘ ملاحظہ فرمائیں ،نیز رسم مصحف خود حضرت عثمان tکا تیار کردہ ہے یا توقیفی ہے اس بارہ میں قراء ات نمبر حصہ اول اور دوم میں مضمون ’رسم عثمانی کی شرعی حیثیت ‘ دیکھ سکتے ہیں۔) (اِدارہ)
(٣) جتنے انفرادی نسخے لوگوں نے تیار کر رکھے تھے ان سب کو نذر آتش کر دیا گیا۔ اگر لوگوں کے انفرادی نسخے باقی رہتے تو اختلاف کی بنیاد باقی رہتی۔ لوگ پھر بھی الگ الگ نسخوں کو بنیاد بنائے رکھتے۔ اس لئے انہیں ختم کرنا ہی قرین مصلحت تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) یہ پابندی عائد کر دی کہ آئندہ جو نسخے لکھے جائیں وہ اسی کے مطابق تیار کئے جائیں۔
(٥) حضرت ابو بکر صدیق﷜ کے تیار کردہ نسخے میں الگ الگ سورتیں تھیں۔ حضرت عثمان غنی﷜ نے ان سورتوں کو مرتب کر کے ایک مصحف کی شکل دے د ی۔
ان اقدامات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ تمام عالم اسلام میں رسم الخط اور ترتیب سؤر کے اعتبار سے تمام مصاحف میں یکسانیت ہو۔ اس بات کی وضاحت حضرت علی﷜ کے ایک قول سے ہوجاتی ہے۔ جو ابن داؤد نے کتاب المصاحف میں نقل کی ہے۔
قال علي: لا تقولوا في عثمان إلّا خیراً، فواﷲ! ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملإ منا۔ قال: ما تقولون في ھٰذہِ القرائۃ فقد بلغني أن بعضھم یقول: إن قرائتي خیر من قرائتک وھذا یکاد أن یکون کفراً۔ قلنا: فما ترٰی؟ قال: أریٰ أن نجمع الناس علیٰ مصحف واحد فلا تکون فرقۃ ولا اختلاف۔ قلنا: فنعم ما رأیت۔
’’حضرت علی﷜ نے فرمایا حضرت عثمان غنی﷜ کے بارے میں کوئی بات ان کی بھلائی کے علاوہ نہ کہو کیونکہ انہوں نے اﷲ کی قسم مصاحف کے بارے میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا ۔ انہوں نے ہم سب سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ان قراء توں کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراء ت سے بہتر ہے حالانکہ یہ ایسی بات ہے کہ جو کفر کے قریب تر پہنچتی ہے۔ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس پر ہم نے حضرت عثمان غنی﷜ سے کہا کہ پھر آپ﷜ کی رائے کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی افتراق و اختلاف باقی نہ رہے ۔ ہم سب نے کہا کہ آپ نے بڑی اچھی رائے قائم کی۔ ‘‘
اس روایت میں حضرت عثمان غنی﷜کے الفاظ ’أن نجمع الناس علی مصحف واحد‘ ہمارے موضوع کے اعتبار سے خاص توجہ کے حامل ہیں کہ آپ نے یہ ارادہ ظاہر فرمایا کہ ہم ایک مصحف تیار کرنا چاہتے ہیں جو پورے عالم اسلام کے لیے یکساں اور معیاری ہو اور اس کے بعد کسی صحیح قراء ت کے انکار یا منسوخ یا کسی شاذ قراء ت پر اصرار کی کسی کے پاس گنجائش باقی نہ رہے۔
علامہ مقری اپنی کتاب نفخ الطیب میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی﷜ کے تیار کروائے ہوئے مصحف پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔
ھٰذَا مَا جَمَعَ عَلَیہِ جَمَاعَۃ ِمّن أَصحَابِ رَسُولِ اﷲِ ﷺ مِنْھُم زَید بنُ ثَابَتٍ وَ عَبدُاﷲ ابنُ زبَیر وَسعَید بنُ العَاصِ
اس کے بعد دیگر صحابہ﷢ کے نام بھی درج ہیں جنہوں نے حضرت عثمان غنی﷜ کے ا س کام پر اجماع کیا تھا۔
حضرت شاہ ولی اﷲ دہلوی﷫کو امت مسلمہ میں عظیم محقق اور بلند پایہ عالم کی حیثیت حاصل ہے ہمارے اس موضوع زیرنظر کے بارے میں آپ﷫ فرماتے ہیں:
’’قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے لیا۔ مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ حفاظت خداوندی کا ظہور اس طرح ہوا کہ چند صالح بندوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی گئی کہ وہ اس کی جمع و تدوین کی خدمت سر انجام دیں اور تمام دنیا کے مسلمان ایک نسخہ قرآنی پر متفق ہوجائیں اور عظیم جماعتیں اس کی تعلیم و تلاوت میں مشغول رہیں تاکہ سلسلہ تواتر ٹوٹ نہ جائے ۔ اس کی تکمیل اس طرح ظہور میں آئی کہ عہدِ عثمان غنی﷜ میں صحابہ کرام﷢ کے مشورہ اور اجماع سے تمام مصاحف میں سے ایک مصحف (جو عثمان﷜ نے مصحف صدیق﷜ سے نقل کر کے تیار کروایا تھا) پر اتفاق کیا گیا۔ جس میں شاذقراء تیں نہیں لی گئیں بلکہ متواتر قراء تیں ہی لی گئیں اور قبائل عرب کی سات زبانوں (سبعہ احرف) میں سے جن پر قرآن مجیدنازل ہواتھا۔ (اور اس کے پڑھنے کی اجازت دے دی گئی تھی ان لوگوں کو جو لغت قریش کے پڑھنے سے عاجز ہوں) ایک لغت قریش کو لے لیا گیا اور باقی لغات کے مصحف متروک کر دیئے گئے‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاہ ولی ا ﷲ﷜ کے الفاظ کہ صحابہ﷢ کے ’مشورہ اور اجماع‘ سے ایک نسخہ تیار کیا گیا ، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سے یہی بات ثابت ہوئی کہ یہ کاروائی حضرت عثمان غنی﷜ کا ذاتی کام نہ تھا بلکہ صحابہ﷢ ان کے ساتھ شامل تھے۔
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے جمع قرآن کا کام بلاوجہ نہیں کیا تھا نہ ہی اس میں آپ﷜ کا کوئی خصوصی مخفی مقصد تھا۔مصحفِ عثمان غنی﷜ کوئی نئی چیز نہ تھا بلکہ یہ حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے نسخہ کی نقل تھا۔
ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ جب حضرت ابو بکرصدیق﷜ نے پورے اہتمام سے تمام مسلمانوں کی شمولیت اور اجماع سے ایک متفقہ سرکاری نسخہ قرآن تیار کروایا تھا تو حضرت عثمان غنی﷜ کو ’جمع قرآن‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس سوال کا جواب ایک تو اب تک پیش کی گئی تفصیلات سے مل جاتا ہے کہ تلاوتِ قرآن میں ’سبعہ احرف‘ کی وجہ سے اختلاف پید ا ہوگیا تھا ا س اختلاف کودفع کرنا مقصود تھا۔ اس کے علاوہ اس سوال کا جواب مندرجہ ذیل تفصیل سے بھی مل جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جمع صدیق﷜ اور جمع عثمانی﷜ میں فرق بیان کرتے ہوئے علامہ ابن التین کہتے ہیں۔
’’حضرت ابو بکر صدیق﷜ اور حضرت عثمان غنی﷜ کے جمع کرنے میں یہ فرق تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے اس خوف سے جمع کیا تھا کہ قرآن کہیں ضائع نہ ہوجائے۔ کیونکہ وہ اس وقت متفرق و منتشر صحیفوں میں تھا۔ انہوں نے ان سب اوراق کو لے کر آیات اور سورتوں کی اسی ترتیب کے ساتھ جس ترتیب کے مطابق حضورﷺنے لکھایا تھا اور پڑھایا تھا ایک شیرازہ میں جمع کردیا۔ اور حضرت عثمان غنی﷜ نے جب وجوہ قراء ت میں لوگوں کو اختلاف کرتے ہوئے دیکھا تو اس وقت قرآن کو صحیح قراء ت کے ساتھ جو عرضہ اخیرئہ کے مطابق تھی اور جس کی صحت میں مطلق شبہ نہ تھا نقل کرادیا تاکہ اختلافاتِ قراء ت رفع ہوجائیں۔ انہوں نے ترتیب میں نہ تقدیم کی نہ تاخیر ۔ نہ اس میں کسی تاویل کو دخل دیا۔ صرف قراء ت میں لوگوں کے شبہ یا فساد کرنے سے قرآن کو محفوظ کر دیا ‘‘
علامہ سیوطی﷫ نے ابن التین کے علاوہ بھی کچھ علماء کا یہی نقطہ نگاہ نقل کیا ہے ۔
وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی﷜ کے قرآن جمع کرنے کی یہ شکل ہوئی کہ جس وقت وجوہِ قراء ت میں بکثرت اختلاف پھیل گیا اور یہاں تک نوبت آگئی کہ لوگوں نے قرآن مجید کو اپنی اپنی قراء توں میں پڑھنا شروع کردیا۔ اور ظاہر ہے کہ عرب کی زبانیں بڑی وسیع ہیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں سے ہر ایک زبان کے لوگ دوسری زبانوں والوں کو برسرعامِ غلط قرار دینے لگے او ر اس معاملے میں سخت مشکلات پیش آنے لگیں او ر بات بڑھ جانے کا خوف پیدا ہوگیا اس لئے حضرت عثمان غنی﷜نے قرآن کے صحف کو ایک مصحف میں سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع کردیا اور تمام عرب کی زبانوں کو چھوڑ کر محض قبیلہ قریش کی زبان پر اکتفا کر لیا۔ اس بات کے لیے عثمان غنی﷜ نے دلیل یہ دی کہ قرآن مجید کا نزول دراصل قریش کی زبان میں ہوا تھا۔ اگرچہ دقت اور مشقت دور کرنے کے لیے اس کی قراء ت غیرزبانوں میں بھی کر لینے کی گنجائش دے دی گئی تھی۔ لیکن اب حضرت عثمان غنی﷜ کی رائے میں وہ ضرورت مٹ چکی تھی ۔ لہٰذا انہوں نے قرآن کی قراء ت کا انحصار محض ایک ہی زبان یعنی زبانِ قریش میں کر دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قاضی ابو بکر ’الانتصار‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی﷜ نے ان اختلافات کو مٹایا جو اس وقت موجود تھے اور آپ نے آئندہ نسلوں کو فساد سے بچایا۔
علامہ حارث محاسبی لکھتے ہیں کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن کریم ، حضرت عثمان غنی﷜ نے جمع کروایا۔ لیکن درحقیقت یہ بات درست نہیں۔ حضرت عثمان غنی﷜ نے تو صرف یہ کیا کہ اپنے اور اپنے پاس موجود ہونے والے مہاجرین و انصار کے باہمی اتفاق رائے سے عام لوگوں کو ایک ہی وجہ قراء ت پر آمادہ بنایا۔
٭ علامہ بدرالدین عینی﷫ نے عمدۃ القاری میں اس سلسلے میں لکھا ہے:
إنما فعل عثمان ھذا ولم یفعلہ الصدیق لأن غرض أبی بکر کان جمع القرآن بجمیع حروفہ ووجوھہ التي نزل بھا وھي لغۃ قریش وغیرھا وکان غرض عثمان تجرید لغۃ قریش من تلک القرآن و قد جاء ذلک مصرحا في قول عثمان لھٰؤلاء الکتاب فجمع أبوبکر غیر جمع عثمان۔‘‘
’’یہ جو کچھ حضرت عثمان غنی﷜ نے کیا کہ لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات قرآن مجید کے رسم الخط سے حذف کر دیئے۔ یہ حضرت عثمان غنی﷜کے زمانے کا جمع کرنا تھا۔ یہ کام حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے نہیں کیاتھا کیونکہ ان کی غرض تو قرآن کا جمع کر نا تھا ان تمام وجوہ و لغات کے ساتھ جن پر قرآن نازل ہوا او ر وہ لغت قریش اور اس کے علاوہ دیگر لغات بھی تھے اور حضرت عثمان غنی﷜ کی غرض یہ تھی کہ لغت قریش کوبقیہ لغات سے جدا کر دیا جائے ۔ چنانچہ اس بات کی تصریح حضرت عثمان غنی﷜ کے قول میں موجود ہے جو انہوں نے کاتبین قرآن کو فرمایا تھا۔ اس طرح حضرت ابو بکر صدیق﷜ کا جمع کرنا اور تھا اور حضرت عثمان غنی﷜ کا جمع کرنا اور تھا۔‘‘
 
Top