• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد
(١) لوگوں میں اِنکار قراء ات کا فتنہ پرورش پارہا تھا۔
(٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمیع صحابہ کو قسم دے کر کہا کہ تمہارے پاس جو کچھ قرآن ہے لے آؤ۔ تو لوگ سب کچھ لے کر حاضر ہوگئے۔
(٣) جب وہ لوگ لے کر حاضر ہوگئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرداً فرداً ہرایک سے قسم لی کہ کیا یہ تم نے اللہ کے رسولﷺسے سنا ہے اور آپﷺنے تمہیں اس کی اِملاء کروائی ہے؟ تو وہ اِثبات میں جواب دیتے۔
(٤) آپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بہترین کاتب اور عربی دان کون ہے لوگوں نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ اور سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کا نام لیا۔
(٥) بعد اَزاں اِن مصاحف کو سرکاری سطح پر بلاد اِسلامیہ میں پھیلا دیا گیا۔
(٦) دیگر صحابہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کام کی تحسین فرمائی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) عن کثیر بن أفلح قال: لما أراد عثمان أن یکتب المصاحف جمع لہ اثني عشر رجلاً من القریش والأنصار، فیھم أبي بن کعب و زید بن ثابت، قال: فبعثو إلی الربعۃ التي في بیت عمر فجيء بہا۔ قال: وکان عثمان یتعاھدہم، فکانوا إذا تدارئوا في شيء أخروہ۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱؍۳۲)
’’کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابت مصاحف کا اِرادہ کیا تو قریش اور اَنصار میں سے بارہ اَفراد جمع کیے، جن میں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ راوی کہتے ہیں، وہ سب(افراد) اُن صحائف کی طرف بھیجے گئے جو حضرت عمررضی اللہ عنہ کے گھر پڑے ہوئے تھے۔ ان کو لایا گیا، کثیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان پرنگرانی کررہے تھے اور کاتبین جب کسی مسئلہ میں فیصلہ نہ کرپاتے تو اُسے مؤخر کردیتے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد
(١) قریش اور انصار کے بارہ لوگوں کو کتابت کے لیے منتخب کیا گیا تھا جن میں حضرت زیدرضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔
(٢) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کام کی باقاعدگی نگرانی فرما رہے تھے۔
(٣) بعض دفعہ کسی آیت میں اِختلاف ہوجاتا تھا جس پر مزید تصدیق کے لیے اس کی کتابت مؤخر کردی جاتی۔
(٤) جمع و تدوین کا یہ کام اِنتہائی جانچ پڑتال کے ساتھ پوری نگرانی میں ہورہا تھا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) عن خارجۃ بن زید بن ثابت، عن أبیہ زید، قال: لما قتل أصحاب رسول اﷲ ! بالیمامۃ، دخل عمر بن الخطاب علی أبی بکر فقال: إن أصحاب رسول ! بالیمامۃ تھافتوا تھافت الفراش في النار، وإني أخشی أن لا یشھدوا موطنا إلا فعلوا ذلک حتی یقتلوا۔ وھم حملۃ القرآن۔ فیضیع القرآن و ینسی، فلو جمعتہ و کتبتہ! فنفر منھا أبوبکر وقال: أفعل ما لم یفعل رسول اﷲ !! فتراجعا في ذلک۔ ثم أرسل أبوبکر إلی زید بن ثابت، قال زید: فدخلت علیہ و عمر محزئل(۱) فقال أبوبکر: إن ھذا قد دعاني إلی أمر فأبیت علیہ، وأنت کاتب الوحي۔ فإن تکن معہ اتبعتکما، وإن توافقني لا أفعل۔ قال: فاقتص أبوبکر قول عمر، وعمر ساکت، فنفرت من ذلک، وقلت: نفعل ما لم یفعل رسول اﷲ !! إلی أن قال عمر کلمۃ: ’’وما علیکما لو فعلتما ذلک؟‘‘ قال: فذھبنا ننظر، فقلنا: لا شيء واﷲ! ما علینا في ذلک شيئ! قال زید: فأمرني أبوبکر فکتبتہ في قطع الأدم وکسر الأکتاف والعسب۔ فلما ھلک أبوبکر وکان عمر، کتب ذلک في صحیفۃ واحدۃ، فکانت عندہ۔ فلما ھلک، کانت الصحیفۃ عند حفصۃ زوج النبي !۔ ثم إن حذیفۃ بن الیمان قدم من غزوۃ کان غزاھا بمرج أرمینیۃ، فلم یدخل بیتہ حتی أتی عثمان بن عفان فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس! فقال عثمان: ’’وما ذلک؟‘‘ قال غزوت مرج أرمینیۃ، فحضرھا أھل العراق وأھل الشام، فإذا أھل الشام یقرؤون بقرائۃ أبي بن کعب، فیأتون بما لم یسمع أھل العراق، فتکفرھم أھل العراق۔ وإذا أھل العراق یقرؤون بقرائۃ ابن مسعود، فیأتون بما لم یسمع بہ أھل الشام، فتکفرھم أھل الشام۔ قال زید: فأمرني عثمان بن عفان أکتب لہ مصحفاً، وقال: إني مدخل معک رجلا لبیباً فصیحاً، فما اجتمعتما علیہ فاکتباہ، وما اختلفتما فیہ فارفعاہ إلي۔ فجعل معہ أبان بن سعید بن العاص، قال: فلما بلغنا ’’إِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ‘‘ (البقرۃ:۲۴۸) قال: زید فقلت: ’’التابوہ‘‘ وقال أبان بن سعید: ’’التابوت‘‘ فرفعنا ذلک إلی عثمان فکتب: ’’التابوت‘‘ قال: فلما فرغت عرضتہ عرضۃ،فلم أجد فیہ ھذہ الأیۃ: ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوْا اﷲَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِر وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً‘‘ (الاحزاب:۲۳) قال: فاستعرضت المہاجرین أسألھم عنھا، فلم أجدھا عند أحد منھم، ثم استعرضت الأنصار أسألھم عنھا، فلم أجدھا عند أحد منھم، حتی وجدتھا عند خزیمۃ بن ثابت، فکتبتھا، ثم عرضتہ عرضۃ أخری، فلم أجد فیہ ھاتین الأیتین: ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ٭ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اﷲُ لَآ إِلٰــہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ (التوبۃ:۱۲۸،۱۲۹) فاستعرضت المہاجرین، فلم أجدھا عند أحد منھم، ثم استعرضت الأنصار أسألھم عنھا فلم أجدھا عند أحد منھم، حتی وجدتھا مع رجل آخر یدعی خزیمۃ أیضاً، فأثبتھا في آخر ’’برائۃ‘‘ ولو تمت ثلاث آیات لجعلتھا سورۃ علی حدۃ۔ ثم عرضتہ عرضۃ أخری، فلم أجد فیہ شیئا، ثم أرسل عثمان إلی حفصۃ یسألھا أن تعطیہ الصحیفۃ، وحلف لھا لیردنھا إلیھا فأعطتہ إیاھا، فعرض المصحف علیھا، فلم یختلفا فی شيئ۔ فردھا إلیھا، وطابت نفسہ، وأمر الناس أن یکتبوا مصاحف۔ فلما ماتت حفصۃ أرسل إلی عبداﷲ بن عمر في الصحیفۃ بعزمۃ، فأعطاھم إیاھافغسلت غسلاً۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، جب شمع نبوتﷺ کے پروانے یمامہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے تھے تو سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جناب ابوبکررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ اَصحاب محمدﷺنے ناموس رسالتﷺپراس طرح جانیں نچھاور کی ہیں، جس طرح شمع پر پروانے قربان ہوتے ہیں اورمجھے یہ ڈر ہے کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹنے کی بجائے اس وقت تک گستاخانِ نبوت کے خلاف برسرپیکار رہیں گے جب تک جام شہادت نوش نہیں کرلیتے اور وہ سارے کے سارے وہ لوگ ہیں جو حاملین قرآن ہیں ان کی شہادت سے قرآن کے ضیاع کاخطرہ ہے، کیوں نہ ہو کہ ہم قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرلیں اور لکھ لیں۔ابوبکررضی اللہ عنہ اس کام کو کرنے سے ہچکچائے اور کہاکہ میں وہ کام کیسے کروں جو آنجنابﷺنے نہیں کیا، شیخین کے مابین اس موضوع پر گفتگو جاری رہی۔ پھر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ سیدنا زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں ان کے ہاں پہنچاتو میں نے دیکھا کہ جناب عمررضی اللہ عنہ پریشان حال بیٹھے ہیں تو سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا:کہ یہ مجھے ایک کام کے بارے میں اِصرار کرتے ہیں جبکہ میں نے اِنکارکردیا ہے۔ آپ کاتب وحی ہیں اگر آپ ان کے ساتھ متفق ہیں تو میں آپ کا ساتھ دوں گا لیکن اگر آپ میری رائے سے اتفاق کریں تو تب میں یہ کام نہیں کروں گا۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا ہم وہ کام کیسے کریں جو رسول اللہﷺنے نہیں کیا؟ تب سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک کلمہ کہا: ’اگر تم یہ کرلو تو تم پرکیا بوجھ آپڑے گا‘ زیدرضی اللہ عنہ کہتے، کہ ہم نے غوروخوض کی غرض سے مجلس برخاست کردی۔ جب ہم نے اس کے جملہ پہلوؤں پرنظر دوڑائی تو پتہ چلا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ تب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے مجھے جمع کرنے کاحکم دیا جسے میں نے کھجور کے پتوں، ہڈیوں، چمڑے اورکاغذ کے ٹکڑوں میں سے جمع کرلیا۔جب سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ راہی آخرت ہوئے اور خلافت سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو اُنہوں نے دوبارہ اُسے ایک صحیفہ میں لکھوایا اور اپنے پاس محفوظ رکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں منتقل ہوگیا۔ پھر ایک روز سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اچانک آرمینیہ کی جنگ سے لوٹے اور اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھے اَمیرالمؤمنین سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا۔ اے امیر المؤمنین،لوگوں کی خبر لیجئے، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پوچھا ماجرا کیا ہے تو انہوں نے عرض کیا میں ابھی ابھی مرج آرمینیہ سے لوٹا ہوں جہاں اہل شام اور اہل عراق جہاد میں مشغول ہیں۔ اہل عراق سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ات پڑھتے ہیں اور اہل شام جناب ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت پر ہیں جبکہ دونوں نے ایک دوسرے کی قراء ات کو سنا تو اس کا اِنکار کردیا اور بات اس قدر بڑھی کہ دونوں ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے۔ سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے بلا کر اپنے لیے ایک مصحف لکھنے کاکہا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم بطور معاون آپ کو ایک فصیح اللسان اور ذہین شخص فراہم کریں گے، جس پر تم دونوں متفق ہوجاؤ اُسے لکھ لو اور جس پرتمہارا اختلاف ہوجائے تو میری طرف رجوع کرو۔لہٰذا انہوں نے اَبان بن سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو میرا معاون مقرر کیا، جب ہم ’’إِنَّ ئَایَۃَ مُلْکِہٖ أَنْ یَّأْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ‘‘ (البقرہ: ۲۴۸) پر پہنچے تو میں نے کہا: ’’التابوہ‘‘ جبکہ ابان رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’التابوت‘‘ ہے۔ ہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے التابوت تائے طویلہ کے ساتھ لکھا۔کہتے ہیں کہ جب میں کتابت سے فارغ ہوا تو میں نے پورے مصحف کی مراجعت کی تو میں نے ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ…‘‘ آیت نہ پائی۔ تو میں نے مہاجرین سے کہا کہ کسی کے پاس یہ آیت موجود ہے؟ تو ان کے پاس نہ پایا پھر میں نے انصار سے سوال کیاتو خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مل گئی جسے میں نے لکھ لیا اور دوسری بار پھر مراجعت کی تو سورۃ توبہ کی دو آخری آیات نہیں تھیں۔مہاجرین اور انصار سے اس بارے میں دریافت کیاتو ان کے پاس نہ پائیں با لآخر خزیمہ نامی صحابی کے پاس مل گئیں جسے میں نے درج کرلیا۔ زیدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ایسی تین آیات مجھے مل جاتیں تو میں ایک علیحدہ سورۃ بنا دیتا۔ اس کے بعد میں نے مزید ایک دفعہ مراجعت کی تو میں نے ہر طرح سے مکمل پایا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے مصحف منگوایا اور وعدہ کیا کہ یہ واپس لوٹایا جائے گا۔ پھر ان دونوں مصاحف کا موازنہ کیاگیا ۔ اور دونوں کو متفق پایا تو مطمئن ہوگئے اور لوگوں کو اس کے مطابق سیکھنے کاحکم دے دیا۔جب سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا وفات پاگئی تو انہوں نے یہ مصحف سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے سپرد کردیا تو اُنہوں نے حکام کے حوالے کردیا جسے بعد میں دھو دیاگیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فوائد: جمع عثمان کے سلسلہ میں سب سے تفصیلی روایت یہی ہے۔ ہم جمع ابوبکرکی تفصیلات کو قصداً حذف کررہے ہیں:
(١) جمع کا سبب آرمینیہ اور آذربیجان کے موقع پر صحابہ کا اختلاف ہوا۔
(٢) زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ابان بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہما کو جمع کے لیے مقرر کیا گیا۔ ثانی الذکر انتہائی فصیح اللسان شخص تھے۔
(٣) التابوت کی تاء کے رسم میں اختلاف ہوا زید گول اور ابن عاص لمبی لکھنے کے قائل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش کے موافق تائے طویلہ کے ساتھ لکھوایا۔
(٤) حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے تکمیل مصحف کے بعد دوبارہ مراجعت کی تو سورۃ احزاب کی آیت (نمبر۲۳)’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا ‘‘ گم پائی۔ تلاش کے بعد خزیمہ بن ثابت اَنصاری رضی اللہ عنہ سے مل گئی۔ دوسری مرتبہ پھر مراجعت کی تو سورۃ توبہ کی آخری دو آیات گم پائیں جو دوسرے صحابی اَبو خزیمہ نامی شخص سے ملیں۔ تیسری مرتبہ مراجعت کی تو مکمل پایا۔
(٥) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے مصحف منگوا کر اس سے موازنہ کیا گیا تو دونوں کویکساں پایا۔
(٦) اس مصحف کو آئندہ تعلیم و تعلم کے لیے مقرر کردیا گیا۔
(٧) سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد اُس مصحف ابوبکر کو حکام کے حوالے کردیا گیا، جنہوں نے اُسے دھوڈالا۔
رِوایات مذکورہ کے علاوہ ہمیں کوئی بھی ایسی رِوایت نہیں مل سکی جس میں جمع عثمانی کی نوعیت کے بارے میں کچھ مزید بحث موجود ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رِوایات کی روشنی میں جمع عثمانی کی حقیقت

جمع عثمانی کے اَسباب و محرکات
جمع عثمانی کے اَسباب و محرکات میں دو چیزیں گذشتہ رِوایات میں مذکورہیں۔
پہلا سبب تو یہ سامنے آتاہے کہ آرمینیہ اور آذربیجان کے محاذ پر عراق اور شام کے مسلمان جمع تھے۔ اہل عراق چونکہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت پڑھتے تھے جبکہ اہل شام نے قرآن کریم کی تعلیم سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے لے تھی، اس لیے وہ ان کی قراء ت کے موافق پڑھا کرتے تھے۔ اور مذکورہ دونوں حضرات کے اختیارات مختلف تھے، جس وجہ سے لوگ دو طرح سے تلاوت کرتے۔ یہی چیز ان کے اختلاف کا سبب بنی کہ اُنہوں نے اپنی قراء ت کو دوسری پرترجیح دینا شروع کردی، حالانکہ کسی بھی متواترہ قراء ت کو دوسری پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔ شامی کہنا شروع ہوگئے کہ ہماری قراء ت بہتر ہے اور عراقی سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت پر اظہار فخر کرنے لگے۔ حتیٰ کہ ان کا یہ اختلاف اس قدر شدید ہوگیا کہ ایک دوسرے کی تکفیر پر اُتر آئے۔ اللہ کے رسولﷺکے جلیل القدر صحابی حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ، جنہیں صاحب السّر ہونے کا بھی اِعزاز حاصل ہے،ان کے درمیان موجود تھے۔ اُنہوں نے جب یہ معاملہ دیکھا تو فوراً دربار خلافت کا قصد کیا اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اس معاملہ کی حساسیت سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس اُمت کا کچھ کیجئے ورنہ یہ بھی کلام اللہ کے بارے میں یہود و نصاریٰ کی طرح اختلاف کرنے لگے گی۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع قرآن کا اِرادہ فرمایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا سبب یہ ہے کہ مدینہ میں مختلف معلمین بچوں کو قرآن کریم سکھانے کے لیے مقرر کیے گئے تھے، جو مختلف صحابہ کے شاگرد ہونے کی وجہ سے ان کی قراء ات (اختیارات) کے موافق قراء ت کرتے تھے۔ بعد اَزاں جب بچے اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کو قرآن سناتے تو ان کی قراء ت میں فرق ہوتا جس پر ہر ایک اپنی قراء ت کے بہتر ہونے پر اِصرار کرتا۔ یہ بات جب معلمین تک پہنچی تو وہ بھی اس فتنہ کا شکار ہوگئے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اِطلاع ہوئی تو اُنہوں نے خطبہ دیا اور لوگوں کو تنبیہ کی کہ یہ غلط کام ہورہا ہے۔اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ صحابہ کی جماعت: تم اکٹھے ہوکر لوگوں کے لیے ایک مصحف امام لکھ دو، تاکہ مسلمان اس فتنہ سے بچ سکیں۔
بہرحال اَندرونی سطح پرمدینہ میں بھی اختلاف موجود تھا اور دیگر اَمصار میں بھی، جہاں ایک سے زیادہ اختیارات کے موافق تلاوت ہورہی تھی، یہ بات سامنے آئی۔ یہ بات ہم نے اس لیے نقل کی ہے کہ عراق اور شام میں تلاوتِ قرآن مجید میں کوئی اختلاف رونما نہ ہوا تھا، کیونکہ عراق میں عوام الناس ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ت پر تھے۔ اور شام میں بھی اس لیے رونما نہ ہوا، کیونکہ وہاں تو صرف اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت کے مطابق تلاوت ہورہی تھی۔ اختلاف اس وقت ہوا جب اہل شام اور اہل عراق آذربیجان میں جمع ہوئے۔ اور مدینہ میں بھی اختلاف کا سبب کئی ایک صاحب اختیار قراء کی موجودگی تھی۔
یہاں ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ اختلاف اِنکارِ قرآن کا نہیں بلکہ اَولاً ترجیح قراء ت کا تھا، اگرچہ تھا یہ بھی غلط، پھر جب اختلاف شدت اختیار کرنے لگا تو اِنکار کی شکل پیدا ہوئی اور یہ عموماً کم علمی کی بنیاد پر ہوتا رہتا ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں بیسیوں ایسے اختلافات موجود ہوتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَمیرالمؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عملی اَقدام
آپ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حالت دیکھی تو جمیع صحابہ کو جمع کیا اور خطبہ اِرشاد فرمایا۔ سب سے پہلے یہ پوچھا کہ آیا قرآن سبعہ اَحرف پر نازل ہوا ہے تواتنے لوگوں نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ (کنزالعمال )
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے رسول اللہﷺ کے صحابہ جمع ہوجاؤ اور لوگوں کے لیے ایک اَیسا مصحف تیار کردو جو امام کی حیثیت اِختیار کرلے۔ جب سارے صحابہ نے ان کی جمع مصاحف کی رائے کی تائید کی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے ہر ایک شخص کو قسم دیتا ہوں کہ تمہارے پاس جو کچھ بھی بطور قرآن موجود ہے وہ لے آؤ۔ لوگ واپس گھروں کو گئے اور اُنہوں نے قرآن کی صورت میں جو کچھ تھا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لاکر جمع کردیا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر شخص کو قسم دے کر گواہی لی کہ کیا تونے اللہ کے رسولﷺ سے پڑھا ہے اور آپﷺنے اس کی اِملاء کروائی۔ آپ نے اِس طرح جمع کیے ہوئے پورے قرآن کی چھان پھٹک کی۔
کتابتِ قرآن
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے سلسلہ میسر جمیع مواد کو ایک جگہ پوری تصدیق کرکے اکٹھا کر لیا تو پھر لوگوں سے سوال کیا کہ تم میں سے بہترین کاتب کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا نبی کریمﷺکے کاتب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ۔ پھر دریافت کیا کہ بہترین عربی دان کون ہے؟ تو جواب دیا گیا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اِملاء کروائے اور زیدرضی اللہ عنہ لکھیں اور بخاری کی رِوایت کے مطابق مزید دو حضرات عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ کو بھی مقرر کیا اور ان تینوں قریشی صحابہ یعنی ابن عاص رضی اللہ عنہ، ابن زبیررضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ کو کہا کہ جب تمہارے اور زیدرضی اللہ عنہ کے مابین کسی چیز کا اِختلاف ہو تو مجھے اِطلاع دو۔ یعنی رئیس اللجنۃ کی ذِمہ داری خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبھا رہے تھے۔ جیسا کہ ایک موقع پر سیدنا زیدرضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ میں اختلاف ہوا جس کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا فاکتبوا بلغۃ قریش فإنما نزل بلسانھم۔
 
Top