• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لیکن محمد ابن سیرین نے اپنی کئی ایک روایات میں کہا ہے کہ کاتبین جمع عثمانی کی تعدادبارہ تھی۔جیساکہ کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ’’لما أراد عثمان أن یکتب المصاحف جمع لہ اثني عشر رجلا من قریش والأنصار فیھم أبي بن کعب وزید بن ثابت…‘‘
’’ کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابت مصاحف کا ارِادہ کیا تو اس کے لیے بارہ اَفراد کو جمع کیا جن میں اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔‘‘
ان میں سے کچھ کے نام تو روایات میں موجود ہیں۔جیساکہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’حدثني کثیر بن أفلح أنہ کان یکتب لھم‘ ’یعنی کثیر بن افلح بھی کاتبین میں سے تھے۔‘ (کتاب المصاحف:۱؍۳۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کان جدي مالک بن أبي عامر ممن قرأ في زمان عثمان و کان یکتب المصاحف۔‘‘(کتاب المصاحف:۱؍۲۱۵)
’’میرے دادا مالک بن ابی عامررحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قرآن پڑھا اور وہ مصاحف کی کتابت بھی کیا کرتے تھے۔‘‘
٭ محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أن عثمان جمع اثنتي عشر رجلاً من قریش والأنصار فیہم: أبي بن کعب، وأبو عامر جد مالک بن أنس، وکثیر بن أفلح وأنس بن مالک وعبداﷲ بن عباس وعبداﷲ بن عمر وعبداﷲ ابن عمرو بن العاص‘‘ (نکت الانتصار للباقلاني: ۳۵۸ ، لطائف الإشارات للقسطلاني: ۱/۶۱)
’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے قریش اور انصار میں سے بارہ اَفراد کو کتابتِ قرآن کے لیے جمع فرمایا۔ جن میں اُبی بن کعب، ابوعامر مالک بن انس کے جدامجد، کثیر بن افلح، انس بن مالک، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن سیرین رحمہ اللہ کی مذکورہ روایت کے مطابق کاتبین مصاحف عثمانیہ کی کل تعداد گیارہ بنتی ہے، جو درج ذیل ہیں:
(١) زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (٢) ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (٣) سعید بن العاص رضی اللہ عنہ
(٤) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (٥) عبدالرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ
 
Last edited by a moderator:

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (٧) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (٨) عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ
(٩) کثیر بن افلح رضی اللہ عنہ (١٠) مالک بن انس رضی اللہ عنہ (١١) مالک بن ابو عامررضی اللہ عنہ
مصر کے مشہور محقق قاری شیخ علی محمد الضباع نے اپنی کتاب سمیر الطالبین في رسم وضبط کتاب المبین میں بارہ اَفراد کے نام ذکر کیے ہیں جن میں مذکورہ گیارہ کے ساتھ ایک بارہویں شخص ابان بن سعیدرضی اللہ عنہ کو شامل کیاہے۔ (سمیرالطالبین:۱۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے علم کے مطابق شیخ الضباع نے ابان بن سعیدرضی اللہ عنہ کانام عمارۃ بن غزیہ کی روایت، جسے ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے تخریج کیاہے ، کی بنیادپر شامل کیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسے عمارۃ بن غزیہ کا وہم قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
’’ووقع في روایۃ عمارۃ بن غزیۃ ’أبان بن سعید بن العاص بدل سعید‘ قال الخطیب: ووہم عمارۃ في ذلک لأن أبان قتل بالشام في خلافۃ عمر ولا مدخل لہ في ھذہ القصۃ والذي أقامہ عثمان في ذلک ھو سعید بن العاص ابن أخي أبان المذکور۔‘‘ (فتح الباری:۱۱ ؍۲۳)
’’عمارۃ بن غزیہ رحمہ اللہ کی روایت میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی جگہ ابان بن سعیدرضی اللہ عنہ ہے۔ جس کے بارے میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ عمارۃ کواس بارے میں وہم ہوا ہے، کیونکہ اَبان بن سعیدرضی اللہ عنہ تو حضرت عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں شام کے محاذ پر شہید ہوگئے تھے مذکورہ واقعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جمع مصاحف کے لیے مقرر فرمایا تھا وہ اَبان کے بھتیجے سعید ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہماری نظر میں اگر بارہ اَفراد کی اس کمیٹی میں کاتبین اور ان کے معاونین تمام شامل ہیں تو ایک ایسے شخص کو شامل کیا جاسکتاہے جو باقاعدہ کاتب تو نہیں البتہ ان کی بھرپور معاونت کرتا رہا ہے۔ وہ شخص ھانی ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ ان کے بارے میں ایک رِوایت امام ابوعبید فضائل القرآن میں لائے ہیں:
’’عن ھانئ مولی عثمان قال: کنت الرسول بین عثمان وزید بن ثابت، فقال زید: سلہ عن قولہ: ’لم یتسن‘ أو ’لم یتسنّہ‘، فقال عثمان: اجعلوھا في الھاء۔‘‘(فضائل القرآن لابی عبید:۲؍۱۰۲ )
’’ھانی مولیٰ عثمان فرماتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان (جمع کے دوران) قاصد تھا مجھے حضرت زیدرضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے دریافت کرو کہ لم یتسن کو ھاء کے ساتھ لکھناہے یا بدون ھاء؟ تو اُنہوں نے فرمایا ھاء کے ساتھ لم یتسنہ لکھو۔ ‘‘
لہٰذا اگر اس کمیٹی میں کوئی بطور معاون بارہواں فرد شامل ہوسکتا ہے تو یہ ھانی مولیٰ عثمان ہیں، ورنہ بارہویں فرد کے بارے میں رِوایات خاموش ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اور جمع عثمانی
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ جمع عثمانی میں شریک نہیں تھے، کیونکہ اُن کی وفات کے بارے میں روایات مضطرب ہیں جیسا کہ دکتور غانم قدوری نے رسم المصاحف میں لکھا ہے ۔ اِمام ذھبی رحمہ اللہ نے سیر أعلام النبلاء میں ان روایات کو جمع کردیا ہے، فرماتے ہیں:
محمد بن عمر الواقدی نے کہا ہے کہ روایات اس پر دال ہیں کہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ خلافتِ عمررضی اللہ عنہ میں فوت ہوئے۔ میں نے ان کے اَہل اور دیگر لوگوں کوکہتے سنا ہے کہ آپ ۲۲ھ میں فوت ہوئے ہیں۔ ان کی وفات پر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج سید المسلمین دنیا سے چلے گئے ہیں۔
واقدی آگے ذکر کرتے ہیں:
’’قد سمعنا من یقول: مات في خلافۃ عثمان سنۃ ثلاثین۔‘‘
’’ہم نے ایک شخص کو سنا وہ کہہ رہا تھاکہ آپ رضی اللہ عنہ ۳۰ہجری خلافتِ عثمان میں فوت ہوئے ہیں۔‘‘
اس کے بعد واقدی اس رِوایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’وھو أثبت الأقوال عندنا وذلک أن عثمان أمرہ أن یجمع القرآن۔‘‘
’’ (۳۰ ہجری) والی روایت تمام اَقوال میں مضبوط قول ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اُنہیں جمع قرآن کا حکم دیا تھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
واقدی کے اس تبصرے کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو لائے ہیں جس کی طرف واقدی نے اِشارہ کیا ہے اور بعد میں کہا ہے کہ یہ روایت سنداً قوی ہے لیکن مرسل ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہیں ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ میرا گمان یہی ہے کہ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ اس واقعہ میں شامل نہیں تھے اگر ہوتے تو بجائے زید کے ان کی شہرت ہوتی۔ لہٰذا ظاہر یہ ہی ہے کہ ان کی وفات خلافتِ عمررضی اللہ عنہ میں ہوئی ہے۔حتیٰ کہ ہیثم بن عدی وغیرہ نے تو ان کی وفات ۱۹؍ ہجری قرار دی ہے۔ محمد بن عبداللہ بن نمیررحمہ اللہ، ابوعبیدرحمہ اللہ اور ابوعمرو الضریررحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ۲۲ ہجری میں وفات پائی ہے۔ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ طبیعت اسی کی طرف مائل ہے۔ (سیر أعلام النبلاء:۱؍ ۴۰۰)
اِمام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا میلان اس طرف ظاہر کیا ہے کہ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ ۲۲؍ ہجری میں ہی وفات پاچکے ہیں جس کی سب سے اَہم دلیل اُنہوں نے یہ دی ہے کہ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے جمع عثمانی میں موجودگی کے بارے میں جو روایت محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے نقل کی ہے وہ مرسل ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔
دیگر اَقوال میں سے واقدی کی رائے کے مطابق سب سے ثابت ترین قول یہی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ۳۰ ؍ہجری میں وفات پائی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وصحح أبونعیم أنہ مات في خلافۃ عثمان۔ سنۃ ثلاثین واحتج لہ بأن زر بن حبیش، لقیہ في خلافۃ عثمان۔‘‘ (الإصابہ:۱؍۱۸۲)
’’ابونعیم نے یہ صحیح قرار دیا ہے کہ آپ کی وفات خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں ۳۰ھ کو ہوئی ہے، کیونکہ زِر بن حبیش رحمہ اللہ نے آپ سے خلافتِ عثمان رضی اللہ عنہ میں ملاقات کی ہے۔‘‘
بغوی حسن بصری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے قبل جمعہ کے روز فوت ہوئے۔ (الإصابہ:۱ ؍۱۸۲)
ابن حجررحمہ اللہ نے بھی آپ کی وفات خلافتِ عثمان میں ہی قرار دی ہے۔
ہماری نظر میں یہی بات درست ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی فوت ہوئے ہیں۔اور امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی رِوایت مرسل ہے، درست نہیں۔ کیونکہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے محمد بن سیرین رحمہ اللہ کی اسی روایت کو سیدنا کثیر بن اَفلح رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بھی نقل کیا ہے۔
’’عن محمد بن سیرین عن کثیر بن أفلح قال: لما أراد عثمان أن یکتب المصاحف جمع لہ اثني عشر رجلاً من قریش والأنصار، فیھم أبي بن کعب وزید بن ثابت…‘‘(کتاب المصاحف:۱ ؍۲۱۳)
مذکورہ رِوایت اس پر دال ہے کہ ُابی بن کعب رضی اللہ عنہ جمع عثمانی میں موجود تھے بلکہ آپ اس کمیٹی کے ایک اَہم رُکن تھے۔ باقی جمیع اَقاویل کی صحیح اور متصل روایت کی موجودگی میں کوئی حیثیت نہیں۔ رہا یہ مسئلہ کہ اِمام ذہبی رضی اللہ عنہ ان کی وفات کو خلافت عمر بابت ۲۲ ہجری کیوں قرار دیتے ہیں تو اس کی واصح دلیل موجود ہے کہ ان کی اس مرفوع روایت تک رسائی نہیں ہوپائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فقدِ آیات کا مسئلہ
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جب مسلمانوں کے مجمع عام سے خطاب فرمایا اور اختلاف قرآن کے متعلق لوگوں کی صورت حال سے آگاہ کیا تو جمیع صحابہ نے جمع قرآن پر آپ کی موافقت فرمائی اور اپنے پاس لکھا ہوا جمیع قرآنی مواد لے کر بارگاہ خلافت میں حاضر ہوگئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قسم دے کر اُن سے شہادت لیتے اور بطور قرآن اُسے محفوظ کرلیا جاتا جب سارا مواد جمع ہوگیا تو صحابہ کی رائے کے موافق کاتبین کے حوالے کردیا اور انہوں نے اُسے ترتیب دے دیا۔ تکمیل قرآن کے بعد جب سیدنا زیدرضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کی دوبارہ مراجعت کی تو آپ نے بعض آیات کو نہ پایا۔ اَب مختلف فیہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ آیات کون سی تھیں۔ اس بارے میں کئی ایک روایات ذخیرہ اَحادیث میں موجود ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’فقدت آیۃ من سورۃ الأحزاب حین نسخنا المصحف کنت أسمع رسول اﷲ ! یقرأ بھا ما التمسناھا فوجدناھا مع خزیمۃ بن ثابت الأنصاری ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ‘‘ فألحقناھا في سورتھا في المصحف۔‘‘ (صحیح البخاري: ۳۷۴۳)
’’میں نے سورۃ احزاب کی آیت (نمبر۲۳) ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عٰھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی‘‘ کو گم پایا جسے ہم نے تلاش کیا تو خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے مل گئی تو ہم نے اُسے مصحف میں شامل کر دیا۔ ‘‘
 
Top