• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں چار مقامات پر نقل کیا ہے:
(١) کتاب الجہاد والسیر باب قول اﷲ عزوجل: ’’ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا …‘‘
(٢) کتاب المغازي باب غزوۃ اُحد
(٣) کتاب تفسیر القرآن باب ’’ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ …‘‘
(٤) کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن
مذکورہ چاروں مقامات پر جو رِوایات نقل ہوئی ہیں ان میں چند ایک باتیں مشترک ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ یہ واقعہ جمع عثمانی کا ہے نہ کہ جمع صدیقی کا کیونکہ اس میں نسخ مصاحف کے وقت کا ذکر ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نسخ مصاحف (یعنی فوٹو کاپی) کا کام حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کیاہے کیونکہ باب جمع القرآن میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو جمع صدیقی کے متعلق حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے الفاظ نقل کیے ہیں وہ ’فتتبع القرآن فأجمعہ‘ کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تلاش و بسیار سے قرآن کو جمع کردو اور پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں۔ فتتبعت القرآن فأجمعہ کہ میں نے پوری طرح تلاش کیا اور اس کو جمع کردیا جبکہ جمع عثمانی میں جو کام ہوا اس کے متعلق حضرت زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’حین نسخنا المصاحف‘ ’کہ جب ہم مصاحف کو نقل کررہے تھے‘ لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان چاروں روایات میں واقعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع کابیان ہورہا ہے نہ کہ جمع صدیقی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری بات یہ ہے کہ سب میں یہ بھی موجود ہے کہ آیت مفقود سورۃ الاحزاب کی آیت تھی۔
تیسری بات یہ ہے کہ اس آیت کو لانے والے سیدنا خزیمۃ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ بخاری کی جمیع رِوایات میں مکمل نام خزیمہ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ مذکورہے سوائے ایک روایت کے جو کتاب تفسیر القرآن کی ہے اس میں صرف خزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہے یعنی صرف صحابی کا نام ہے والد کا نام نہیں ہے۔ جبکہ جو شخص سورۃ التوبہ کی آیات لایا تھا اس کا نام ابوخزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہے یعنی خزیمہ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ ذوالشہادتین ہیں جو کہ جمع عثمانی میں آیت احزاب کو لے کر آئے تھے اور جمع صدیقی میں جو شخص سورۃ التوبہ کی آیت لے کر آئے تھے وہ ابوخزیمہ حارث بن خزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ ابن داؤد نے کتاب المصاحف میں اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی صراحت کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے عباد بن عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے:
’’أتی الحارث بن خزیمۃ بھاتین الآیتین: ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ إلی قولہ: ’’ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ إلی عمر، فقال: من معکم علی ھذا؟ فقال: لا أدري واﷲ! إلا أني أشھد أني سمعتھا من رسول اﷲ ! ووعیتہا وحفظتہا، فقال عمر: وأنا أشہد لسمعتہا من رسول اﷲ ﷺ۔‘‘ (کتاب المصاحف:۱؍۹۷)
’’کہ حارث بن خزیمۃ رضی اللہ عنہ دو آیات ’’ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ …‘‘ (التوبۃ: ۱۲۸) الی قولہ ’’ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ‘‘ تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تمہارے ساتھ دوسرا گواہ کون ہے تو اُنہوں نے کہا میں نہیں جانتا مگر میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ نبی کریمﷺسے سنی ہیں اور یاد کی ہیں۔ تو عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ آیت میں نے رسول اللہ ﷺسے سُنی ہے۔‘‘
مذکورہ روایت سے واضح ہوتا ہے کہ ابوخزیمہ جو آیات سورۃ توبہ لے کر آئے تھے وہ حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ تھے جن کے نام کی صراحت اس روایت میں آگئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس بارے میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی سورۃ الاحزاب کی آیات لانے والے جناب خزیمہ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ ہیں اس کے علاوہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے یہ بھی وضاحت فرما دی ہے کہ جمع صدیقی میں سورۃ التوبہ کی آیات کا مسئلہ تھا اور جمع عثمانی میں سورۃ الاحزاب کی آیت مفقود تھی۔ (فتح الباری:۱۰؍۴۳۹)
البتہ بخاری میں مذکور وہ روایات جو جمع صدیقی کے متعلق ہیں ان میں یہ اختلاف موجود ہے کہ سورۃ توبہ کی آیات لانے والے خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے یا ابو خزیمہ تھے۔کتاب التفسیر میں موجود روایت میں ہے کہ یہ خزیمۃ الانصاری رضی اللہ عنہ تھے جبکہ کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن میں سورۃ التوبۃ کی آیات لانے والے ابوخزیمہ تھے اس کے علاوہ بخاری میں دوسرے مقامات پر ان دونوں رِوایات کے متابعات اور شواہد بھی موجود ہیں۔
یعنی بخاری میں جمع صدیقی کی رِوایات دونوں ناموں خزیمہ اور ابوخزیمہ سے موجود ہیں اورترمذی کی روایت صیغہ شک کے ساتھ ہے جس میں خزیمہ أو أبوخزیمہ کے الفاظ ہیں۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے راجح اس بات کو قرار دیا ہے کہ جمع صدیقی میں آیت توبہ لانے والے اکیلے صحابی سیدنا ابوخزیمہ حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ہیں اور جمع عثمانی کے موقع پر سورۃ الاحزاب کی آیت لانے والے صحابی سیدنا خزیمہ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ (فتح الباری:۱۱؍۱۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مذکورہ بالا مؤقف کو ترجیح تو دی ہے لیکن اس کا سبب ذکرنہیں کیا یعنی وجہ ترجیح موجود نہیں ہے۔ ہماری نظر میں اس کی دو توجیہات ہوسکتی ہیں:
(١) اِمام بخاری رحمہ اللہ نے بخاری میں جس جگہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جمع عثمانی کے متعلق اَحزاب والی آیت کا تذکرہ کیا ہے ان جمیع روایت میں صیغہ جزم کے ساتھ یہ منقول ہے کہ اس آیت کے لانے والے سیدنا خزیمہ بن ثابت الانصاری رضی اللہ عنہ ہے۔ البتہ شک کا اظہار سورۃ التوبہ والی آیت میں ہے لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں یہ بات تو طے ہے کہ سورۃ الاحزاب والی آیات لانے والے صحابی سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے جس سے دوسری رِوایات کا مفہوم بھی اَز خود متعین ہوجاتا ہے کہ وہ سیدنا ابوخزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) دوسری وجہ یہ ہے کہ سورۃ التوبہ کی آیات کے بارے میں جو رِوایت ابن ابی داؤد کتاب المصاحف میں لائے ہیں اس میں خزیمہ یا ابوخزیمہ کے بجائے ایک صحابی کا نام مذکور ہے الفاظ یوں ہیں ’أتی الحارث ابن خزیمۃ بھاتین الآیتین‘ یعنی سورۃ التوبہ کی آیات لانے والے صحابی حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ تھے اور یہی وہ حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ہیں جس کی کنیت ابوخزیمہ ہے اور وہ کنیت سے معروف تھے۔ واﷲ أعلم بالصواب۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عمارۃ بن غزیہ کی روایت کا مسئلہ
جمع عثمانی کے سلسلہ میں اگر کوئی مفصل ترین رِوایت ہے تو وہ تفسیر طبری میں مذکور عمارۃبن غزیہ کی روایت ہے جسے ہم نے نمبر ۷ پر ذکر کیا ہے۔ لیکن اُس روایت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں راوی کو بعض مقامات پر شدید وہم ہوا ہے اور حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے مطابق ویسے بھی اس نے کئی ایک طرق کو جمع کردیا ہے جس میں ایک بات تو ہم پیچھے واضح کرچکے ہیں کہ اُنہوں نے جمع عثمانی کے کاتبین میں اَبان بن سعید کو شمار کیا ہے جو کہ راوی کا وہم ہے دوسری بات جو یہاں ذکر کرنا مطلوب ہے وہ یہ کہ اس روایت میں فقد آیات کے مسئلہ کو صرف اور صرف جمع عثمانی کا مسئلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں جمع عثمانی میں نہیں ملی تھیں جبکہ یہ بات درست نہیں جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ آیت توبہ جمع صدیقی میں اور آیت اَحزاب جمع عثمانی میں مفقود تھی مزیدایک بات یہ بھی قابل بحث ہے کہ انہوں نے لانے والے دونوں صحابہ کو خزیمہ ہی کہا ہے کسی کی کنیت ذکر نہیں کی بلکہ دوسری آیت کے موقع پر کہہ دیا ہے وھو یدعی خزیمہ حالانکہ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ آیات توبہ لانے والے ابوخزیمہ تھے جبکہ آیت احزاب خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے ملی تھی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعدادِ مصاحف کا مسئلہ
تعداد مصاحف کے بارے میں بھی کئی ایک اَقوال پائے جاتے ہیں جن میں چار، پانچ، چھ، سات تک کے اَقوال موجود ہیں۔کتاب المصاحف میں ابن ابی داؤد اس بارے میں دو روایات لائے ہیں۔
(١) فرماتے ہیں:
’’حمزۃ الزیات یقول: کتب عثمان أربعۃ مصاحف، فبعث بمصحف منھا إلی الکوفۃ فوضع عند رجل من مراد، فبقي حتی کتبت مصحفي علیہ۔‘‘ (کتاب المصاحف: ۱؍۱۱۵)
’’امام حمزہ الزیات رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چار مصاحف لکھوائے جن میں سے ایک مصحف کوفہ روانہ کیا جسے آل مراد کے ایک شخص کے پاس پر رکھا گیا۔ (امام حمزہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں) میں نے اپنا مصحف بھی اُسی سے لکھا۔‘‘
(٢) امام اَبوحاتم سجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لما کتب عثمان المصاحف حین جمع القرآن کتب سبعۃ مصاحف فبعث واحداً إلی مکۃ وآخر إلی الشام وآخر إلی الیمن، وآخر إلی البحرین وآخر إلی البصرۃ وآخر إلی الکوفۃ وعین بالمدینۃ واحداً۔‘‘ (تاریخ دمشق: ۱؍۱۹۸)
’’جمع قرآن کے وقت جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف لکھوائے اُن کی تعداد سات تھی۔ ان میں سے ایک مکہ، ایک شام، ایک یمن، ایک بحرین ، ایک کوفہ اور ایک اہل مدینہ کے لیے رکھ لیا۔‘‘
اِس روایت کے مطابق مصاحف کی تعداد سات بنتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام ابن کثیررحمہ اللہ نے مذکورہ دونوں روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے :
’’وصحح القرطبي أنہ إنما نفذ إلی الآفاق أربعۃ مصاحف وھذا غریب۔‘‘ (ابن کثیر: ۱/۳۰)
’’امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس بات کو صحیح قرار دیا ہے کہ مصاحف جن کا نفاذ ہوا ہے وہ چار ہیں لیکن یہ بات غریب ہے۔‘‘
٭ امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ نے بھی چار والے قول کو ہی صحیح قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
’’أکثر العلماء علی أن عثمان بن عفان ÷ لما کتب المصحف جعلہ علی أربع نسخ وبعث إلی کل ناحیۃ من النواحي بواحدۃ منھن، فوجہ إلی الکوفۃ إحداھن وإلی البصرۃ أخری، وإلی الشام الثالثۃ، وأمسک عند نفسہ واحدۃ۔ وقد قیل: أنہ جعلہ سبع نسخ ووجہ من ذلک أیضاً نسخۃ إلی مکۃ ونسخۃ إلی الیمن ونسخۃ إلی البحرین۔ والأوّل أصح وعلیہ الأئمۃ۔‘‘ (المقنع في رسم المصاحف الأمصار: ۳)
’’اکثر علماء اسی طرح ہیں کہ حضرت عثمان رحمہ اللہ نے چار نسخے تیار کروائے تھے جن میں ایک کوفہ، ایک شام، ایک بصرہ اور ایک اپنے پاس رکھ لیا یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ سات نسخے تھے جو مذکورہ چار شہروں کے علاوہ باقی مکہ، یمن اور بحرین بھیجے گئے تھے۔ (امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں) پہلی بات درست ہے اور اسی پر اَئمہ ہیں۔‘‘
یعنی اِمام دانی رحمہ اللہ کی رائے امام ابن کثیررحمہ اللہ کی رائے کے خلاف ہے، اِمام دانی رحمہ اللہ چار مصاحف کے قائل ہیں، جبکہ ابن کثیررحمہ اللہ سات مصاحف کی ترسیل کو درست قرار دیتے ہیں۔ ہماری نظر میں دونوں کی دلیل مذکورہ بالا اِمام حمزہ رحمہ اللہ اور امام سجستانی رحمہ اللہ کے اَقوال ہیں۔ ان کے علاوہ شاید ان آراء کے رجوح کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہماری نظر میں مصاحف کی تعداد جو حضرت عثمانt آفاق اَرض کی طرف ارسال فرمائے تھے، پانچ ہے اور کل مصاحف کی تعداد چھ ہے۔ وہ اس لیے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مصاحف روانہ فرمائے تھے تو ہر مصحف کے ساتھ باقاعدہ ایک قاری روانہ کیا تھا اور جن قراء کے نام روایات میں موجود ہیں وہ پانچ ہیں جیسا کہ مناہل العرفان میں ہے:
’’روي أن عثمان رضی اللہ عنہ أمر زید بن ثابت أن یقرء بالمدني، وبعث عبداﷲ بن السائب مع المکي، والمغیرۃ بن أبي شھاب مع الشامي وأبا عبدالرحمن السلمي مع الکوفي وعامر بن عبدالقیس مع البصري۔‘‘ (مناہل العرفان: ۴۰۱)
’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مصحف مدنی پڑھائے، عبدالرحمن بن سائب رضی اللہ عنہ کو مکی ، مغیرۃ بن شہاب رضی اللہ عنہ کو شامی، ابوعبدالرحمن السلمی رضی اللہ عنہ کو کوفی اور عامر بن قیس رضی اللہ عنہ کو بصری مصحف کے ساتھ روانہ کیا۔‘‘
لہٰذا وہ مصاحف جو عوام الناس کے لیے مختص کیے گئے وہ پانچ تھے، جیساکہ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے ، فرماتے ہیں:
’’واختلفوا في عدۃ المصاحف التي أرسل بھا عثمان إلی الآفاق فالمشھور أنھا خمسۃ۔‘‘
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو آفاق ارض کی طرف مصاحف ارسال فرمائے ان کی تعداد میں اختلاف ہے اور مشہو ریہ ہے کہ وہ پانچ ہیں۔‘‘
یعنی جو مصاحف عامۃ المسلمین کے لیے تھے وہ پانچ ہی تھے اور چھٹا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے لیے خاص فرمایا تھا جسے مدنی خاص کہا جاتا ہے۔
 
Top