• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع عثمانی رِوایات کے آئینے میں

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
السلام علیکم
جب میں صحیح بخاری کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمع قرآن کا کام عہد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے چار انصاری صحابہ نے کیا تھا
صحیح بخاری اور مسلم میں حدیث بیان ہوئی جس کا مفہوم یہ کہ
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ بن اکوع ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 502
یعنی مسجد نبوی کا ایک ستون خاص قرآن مجید رکھا ہونے کی وجہ سے مشہور تھا قرآن کو جمع دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا تھا اور اس ستون کے پاس رکھا گیا تھا صحیح بخاری میں بیان ہوا جس کا مفہوم یہ کہ
قتادہ نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا، انہوں نے بتلایا کہ چار صحابیوں نے، یہ چاروں قبیلہ انصار سے ہیں۔ ابی بن کعب، معاذبن جبل، زید بن ثابت اور ابوزید۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر:5003
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن مجید کو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع کرکے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا تو پھر دور ابوبکر میں بھی قرآن کو دوبارہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟؟؟؟
کیونکہ صحیح بخاری میں بیان ہوا کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ
حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ عہد ابوبکر میں جنگ یمامہ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ قرآن کو جمع کیا جائے حضرت ابو بکر کے حکم سے حضرت عمر مجھے بلانے کے لئے آئے اور کہا کہ " یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قراء قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیں" میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اللہ کی قسم یہ تو ایک کارخیر ہے۔پھر ہم حضرت ابو بکر کے پاس آئے اور ابو بکر نے بھی وہی کہا جو عمر نے کہا تھا اور میں نے جواب میں یہی کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی میں) نہیں کیا؟حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ برابر دہراتے رہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا بھی ان کی اور عمر کی طرح سینہ کھول دیا۔ چنانچہ میں نے قرآن مجید کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا اور قرآن مجید کو مختلف لوگوں سے جمع کرکے حضرت ابوبکر کو دئے قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکرکے پاس محفوظ تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمر نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رہے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 4986
مفہوم حدیث ختم ہوا
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صحیح بخاری کی انس بن مالک والی روایت میں عہد نبوی میں قرآن جمع کرنے والے جن چار انصاری صحابہ کا ذکر ہے ان میں ایک حضرت زید بن ثابت بھی ہیں لیکن حضرت زید بن ثابت والی روایت میں حضرت زید کا حضرت ابوبکر و عمر سے یہ کہنا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟" بہت ہی عجیب لگتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں جن چار لوگوں نے قرآن مجید کو جمع کیا ان میں خود زید بن ثابت بھی شامل تھے تو کیا وہ یہ بات بھول گئے تھے ؟ کہ انھوں نے قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا تھا یا یہ کوئی اور مسئلہ ہے
اور پھر آپ نے بیان کیا کہ عہد عثمانی میں بھی قرآن کو تیسری بار جمع کیا گیا جبکہ آپ ہی نے بیان کیا کہ عہد ابوبکر میں جمع کیا گیا قرآن امی حفصہ کے پاس تھا جن سے منگواکر اس نسخے کی کئی نقل تیار کی گئی اور اسلامی سلطنت میں بھجوائی گئی اور آخر میں امی حفصہ کی وفات کے اس عہد ابو بکر میں جمع کئے گئے اوریجنل نسخے کو مروان نے جلا دیا
اب پر چند سوالات میرے ذہین میں پیدا ہوئے ہیں جن کے جوابات کی اہل علم حضرات سے توقع ہے
1: جب قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے تو حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان قرآن جمع کرنے کےلئے اتنے فکر مند کیوں ہوئے؟؟
2 : قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرکے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھ دیا گیا تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عہد ابو بکر میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیا عہد نبوی میں جمع کیا گیا قرآن نعوذباللہ ناقص تھا یا یہ نسخہ کہیں گم ہوگیا تھا ؟؟

3 : عہد ابو بکر میں جمع کیا گیا قرآن امی حفصہ کے پاس تھا حضرت عثمان نے اپنے عہد میں ایسی قرآن کی نقول تیار کرکے اسلامی سلطنت میں بھجوائی گئی پھر کیوں مروان نے اس نسخے کو نذر آتش کیا ، کیا اس نسخے اور مروان کے دور والے قرآن کے نسخوں میں کوئی فرق تھا نعوذباللہ

یہ چند سوالات ہیں جن کے جوابات کی اہل علم سے درخواست ہے شکریہ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ بن اکوع ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ
علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 502


حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس قرآن شریف صندوق میں رکھا رہتا تھا۔ اس کو ستون مصحف کہاکرتے تھے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے








۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کتاب سنن ابن ماجہ جلد 1
یعقوب بن حمید بن کاسب، مغیرۃ بن عبدالرحمن مخزومی، یزید بن ابی عبید، حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ وہ چاشت کی نماز کے لئے آتے تو اس ستون کے پاس جاتے جہاں مصحف رکھا رہتا ہے اس کے قریب ہی نماز پڑھتے۔ یزید بن ابی عبید کہتے ہیں میں نے مسجد کے ایک کونے کی طرف اشارہ کر کے حضرت سلمہ بن اکوع سے کہا آپ یہاں نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ تو فرمانے لگے میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام کا قصد کرتے دیکھا ۔
یزید بن ابی عبید تابعی ہیں۔​
وہ سلمہ بن اکوع سے حدیث کو روایت کر رھے ہیں اور اس ستون کا ذکر کر رھے ہیں جہاں مصحف رکھا رہتا تھا
اب تو بہرام بھائی کو جواب مل گیا ھو گا
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔
یہ جس مصحف کی بات ھو رہی ہے وہ یزید بن ابی عبید کے دور کا ہے - اور اس وقت یہی قرآن تھا جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے​
شاہد آپ کو حدیث کے سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوئی​
۔​
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اب تو بہرام بھائی کو جواب مل گیا ھو گا
یزید بن ابی عبید نے بیان کیا کہ میں سلمہ بن اکوع کے ساتھ (مسجدنبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔
یہ جس مصحف کی بات ھو رہی ہے وہ یزید بن ابی عبید کے دور کا ہے - اور اس وقت یہی قرآن تھا جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے​
شاہد آپ کو حدیث کے سمجھنے میں کچھ غلط فہمی ہوئی​
چلیں یہ مسئلہ تو حل ہواکہ مسجد نبوی میں جو ستون کے پاس قرآن مجید رکھا رہتا تھا وہ مصف عثمانی ہی تھا ۔

لیکن انس بن مالک والی راویت میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کو چار انصار صحابہ نے عہد نبوی میں جمع کیا تھا جن میں زید بن ثابت بھی شامل تھے لیکن جب حضرت ابو بکر نے اپنے عہد میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت ابوبکر سے یہ نہیں کہا کہ میں تو پہلے ہی عہد نبوی میں قرآن مجید کو جمع کرچکا ہوں پھر مجھ سے دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا کیوں کہا جارہا ہے کیا وہ قرآن کہیں گم ہوگیا ہے ؟؟؟ بلکہ زید بن ثابت نے یہ کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟" بہت ہی عجیب لگتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں جن چار لوگوں نے قرآن مجید کو جمع کیا ان میں خود زید بن ثابت بھی شامل تھے تو کیا وہ یہ بات بھول گئے تھے ؟ کہ انھوں نے قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا تھا یا یہ کوئی اور مسئلہ ہے
دوسری بات یہ کہ جب عہد ابوبکر میں قرآن کو جمع کرلیا گیا جو حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمر کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد امی حفصہ کے پاس تو پھر عہد عثمانی میں دوبارہ کیوں جمع کیا گیا اور امی حفصہ والے قرآنی نسخہ کو مروان نے کیوں جلایا تھا ۔
یہ اشکال اب بھی باقی ہیں امید ہے کوئی اہل علم ان کو دور کرے گا
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
چلیں یہ مسئلہ تو حل ہواکہ مسجد نبوی میں جو ستون کے پاس قرآن مجید رکھا رہتا تھا وہ مصف عثمانی ہی تھا ۔

لیکن انس بن مالک والی راویت میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کو چار انصار صحابہ نے عہد نبوی میں جمع کیا تھا جن میں زید بن ثابت بھی شامل تھے لیکن جب حضرت ابو بکر نے اپنے عہد میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت ابوبکر سے یہ نہیں کہا کہ میں تو پہلے ہی عہد نبوی میں قرآن مجید کو جمع کرچکا ہوں پھر مجھ سے دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا کیوں کہا جارہا ہے کیا وہ قرآن کہیں گم ہوگیا ہے ؟؟؟ بلکہ زید بن ثابت نے یہ کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟" بہت ہی عجیب لگتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں جن چار لوگوں نے قرآن مجید کو جمع کیا ان میں خود زید بن ثابت بھی شامل تھے تو کیا وہ یہ بات بھول گئے تھے ؟ کہ انھوں نے قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا تھا یا یہ کوئی اور مسئلہ ہے
دوسری بات یہ کہ جب عہد ابوبکر میں قرآن کو جمع کرلیا گیا جو حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمر کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد امی حفصہ کے پاس تو پھر عہد عثمانی میں دوبارہ کیوں جمع کیا گیا اور امی حفصہ والے قرآنی نسخہ کو مروان نے کیوں جلایا تھا ۔
یہ اشکال اب بھی باقی ہیں امید ہے کوئی اہل علم ان کو دور کرے گا


quran ki tashreeh.jpg
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ اشکال اب بھی باقی ہیں ۔۔۔۔

1: جب قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے تو حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان قرآن جمع کرنے کےلئے اتنے فکر مند کیوں ہوئے؟؟
2 : قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا گیا تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عہد ابو بکر میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیا عہد نبوی میں جمع کیا گیا قرآن نعوذباللہ ناقص تھا یا یہ نسخہ کہیں گم ہوگیا تھا ؟؟
3 : عہد ابو بکر میں جمع کیا گیا قرآن امی حفصہ کے پاس تھا حضرت عثمان نے اپنے عہد میں ایسی قرآن کی نقول تیار کرکے اسلامی سلطنت میں بھجوائی گئی پھر کیوں مروان نے اس نسخے کو نذر آتش کیا ، کیا اس نسخے اور مروان کے دور والے قرآن کے نسخوں میں کوئی فرق تھا نعوذباللہ
یہ چند سوالات ہیں جن کے جوابات کی اہل علم سے درخواست ہے شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
1: جب قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے تو حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان قرآن جمع کرنے کےلئے اتنے فکر مند کیوں ہوئے؟؟
یہ سوال اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ بہرام صاحب صرف سوال کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔ سوال کس قسم کا ہے اس پر توجہ کرنے کا ذوق نہیں رکھتے ۔
اگر اسی طرز پر سوال کی بنیاد رکھی جائے تو پھر یہ سوالیہ انداز تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے بارے میں بھی اپنایا جاسکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل کے ساتھ بار بار دور کرتے تھے ۔ اسی طرح صحابہ کرام کو لکھواتے تھے ، یاد کرواتے تھے یہ سارا کچھ کس لیے ؟ اس کی بڑی وجہ یہی تھی تاکہ قرآن مجید بعد والوں کے لیے محفوظ رہ سکے ۔
اللہ نےحفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ اب اس کام کو اللہ تعالی نے کس طرح کرنا ہے اس کے اسباب و ذرائع بھی اللہ نے پیدا کرنے ہیں ۔ انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے ذریعے اس کی حفاظت کروائے گا ۔ ابو بکر و عمر و عثمان اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں حفاظت دین کی فکر کس نے ڈالی ؟ ان کو اس عظیم ذمہ داری کو سر انجام دینے کی ہمت کس نے دی ؟ اللہ تعالی نے دی ۔
بہرام صاحب اپنے رزق کا ذمہ دار آپ خود کو سمجھتے ہیں یا اللہ تعالی کو ؟
ایسا کریں اللہ پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں دیکھتے ہیں بھلا کب روٹی خود بخود آکر آپ کے منہ میں داخل ہوتی ہے ۔
شیعہ حضرات کے دین کی حفاظت کی ذمہ داری بھی یقینا آپ کے ہاں اللہ تعالی نے لے رکھی ہوگی ۔ لہذا اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے آپ حضرات خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں ۔ تاکہ امت مسلمہ کے اندر موجود فتنوں میں سے ایک کم ہو جائے ۔
2 : قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا گیا تھا تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد عہد ابو بکر میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیا عہد نبوی میں جمع کیا گیا قرآن نعوذباللہ ناقص تھا یا یہ نسخہ کہیں گم ہوگیا تھا ؟؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید کتابی صورت میں ایک جگہ پر جمع نہیں تھا ۔ البتہ بعض صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا ( اس سے مراد مکمل قرآن مجید ہے ۔ ورنہ چند اجزاء یا سورتیں تو بہت سارےصحابہ کرام کی نوک زبان پر تھیں ) ۔ عہد صدیقی میں یہی کام ہوا کہ مختلف جگہوں پر موجود قرآنی آیات و سور پر مبنی لوحات کو اکٹھا کرکے مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ اکٹھا کردیا گیا ۔ اور یہ کام تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اتفاق کے ساتھ ہوا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں کوئی مکمل نسخہ قرآن تھا ہی نہیں بلکہ سینوں میں محفوظ تھا۔ لہذا آپ اس کے نقص یا گم ہونے کے اعتقاد کا الزام نہیں لگاسکتے ۔
جن احادیث میں عہد نبوی میں ’’ جمع ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ کتابی شکل میں جمع تھا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان صحابہ کرام نے قرآن مجید کو حفظ کیا ہوا تھا ۔او رعربی میں یہ اسلوب موجود ہے کہ ’’ جمع ‘‘ کا اطلاق ’’ حفظ الصدر ‘‘ پر ہوتا ہے ۔ عربی کے اس اسلوب سے جہالت کے سبب یا تجاہل کی آڑ لے کر آپ نے درج ذیل پیرائے میں جو تعجب کا اظہار کیا ہے وہ بذات خود عجیب ہے آپ نے کہا :
لیکن انس بن مالک والی راویت میں یہ کہا گیا ہے کہ قرآن مجید کو چار انصار صحابہ نے عہد نبوی میں جمع کیا تھا جن میں زید بن ثابت بھی شامل تھے لیکن جب حضرت ابو بکر نے اپنے عہد میں دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت ابوبکر سے یہ نہیں کہا کہ میں تو پہلے ہی عہد نبوی میں قرآن مجید کو جمع کرچکا ہوں پھر مجھ سے دوبارہ قرآن کو جمع کرنے کا کیوں کہا جارہا ہے کیا وہ قرآن کہیں گم ہوگیا ہے ؟؟؟ بلکہ زید بن ثابت نے یہ کہا کہ " آپ ایک ایسا کام کس طرح کریں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟" بہت ہی عجیب لگتا ہے کیونکہ عہد نبوی میں جن چار لوگوں نے قرآن مجید کو جمع کیا ان میں خود زید بن ثابت بھی شامل تھے تو کیا وہ یہ بات بھول گئے تھے ؟ کہ انھوں نے قرآن کو عہد نبوی میں جمع کرلیا تھا یا یہ کوئی اور مسئلہ ہے
حضرت زید کا عہد نبوی میں قرآن جمع کرنے کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق کے جمع کےحکم پر یہ نہ کہنا یہ تو ہم پہلے ہی کرچکے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد نبوی میں جمع سے مراد ’’ حفظ فی الصدور ‘‘ ہے نہ کہ وہ کتابی شکل میں جمع جس کا حکم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔
اگر آپ لفظ ’’ جمع ‘‘ کے اطلاقات سے واقفیت حاصل کرلیں گے تو پھر آپ کو طرح طرح کی بدگمانیوں اور تعجب کرنے کی محنت نہیں کرنا پڑے گی ۔
3 : عہد ابو بکر میں جمع کیا گیا قرآن امی حفصہ کے پاس تھا حضرت عثمان نے اپنے عہد میں ایسی قرآن کی نقول تیار کرکے اسلامی سلطنت میں بھجوائی گئی پھر کیوں مروان نے اس نسخے کو نذر آتش کیا ، کیا اس نسخے اور مروان کے دور والے قرآن کے نسخوں میں کوئی فرق تھا نعوذباللہ
غیر مصدقہ نسخے جلانے کا کام مروان سے پہلے حضرت عثمان باتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم انجام دے چکےتھے ۔ جس کی تفصیل اسی ’’ لڑی ‘‘ میں گزر چکی ہے ۔
مروان کے دور میں بلکہ آج تک وہی قرآن مجید ہے جس کی نقول حضرات عثمان نے باتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مختلف شہروں کی طرف بھیجی تھیں ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود مصاحف کو جلانے کی وجہ ان کا غیر مصدقہ ہونا نہیں بلکہ وہ تو مصاحف عثمانی کے لیے بھی اصل کی حیثیت رکھتے تھے ۔
ہاں ان کو تلف کرنے کی یہ وجہ سمجھ آتی ہے کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں تمام صحابہ کرام کا اتفاق ان مصاحف پر ہوگیاتھا جو انہوں نے نئے سرے سے کتابت کروا کر مختلف شہروں کی طرف مع قراء کرام بھیجیے تھے ۔ لہذا اب اس کے علاوہ کسی اور مصحف کو باقی رکھنا کسی فتنہ کا باعث بن سکتا تھا ۔ کیونکہ
1۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی کتابت کرواتے ہوئے جس قدر اہتمام کیا تھا ۔ حضرت حفصہ کے مصاحف میں وہ اضافی خصوصیت بہر صورت نہیں تھی ۔
2۔ عین ممکن ہے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نسخے پر تفسیری حواشی لکھ رکھے ہوں ۔ لہذا اس کو ختم کردیا گیا تاکہ کوئی اس کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لے ۔
اس کے علاوہ اور بہت سی توجیہات سمجھ میں آسکتی ہیں اگر ’’ جمع صدیقی ‘‘ اور ’’ جمع عثمانی ‘‘ کے اسباب و محرکات پر غور و فکر کیا جائے ۔
ابھی وقت کافی ہوگیا شاید بعد میں ذرا تفصیل سے کچھ لکھ سکوں گا ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ سوال اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ بہرام صاحب صرف سوال کرنے کا شوق رکھتے ہیں ۔ سوال کس قسم کا ہے اس پر توجہ کرنے کا ذوق نہیں رکھتے ۔
اگر اسی طرز پر سوال کی بنیاد رکھی جائے تو پھر یہ سوالیہ انداز تو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کے بارے میں بھی اپنایا جاسکتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبریل کے ساتھ بار بار دور کرتے تھے ۔ اسی طرح صحابہ کرام کو لکھواتے تھے ، یاد کرواتے تھے یہ سارا کچھ کس لیے ؟ اس کی بڑی وجہ یہی تھی تاکہ قرآن مجید بعد والوں کے لیے محفوظ رہ سکے ۔
اللہ نےحفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ اب اس کام کو اللہ تعالی نے کس طرح کرنا ہے اس کے اسباب و ذرائع بھی اللہ نے پیدا کرنے ہیں ۔ انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کے ذریعے اس کی حفاظت کروائے گا ۔ ابو بکر و عمر و عثمان اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں حفاظت دین کی فکر کس نے ڈالی ؟ ان کو اس عظیم ذمہ داری کو سر انجام دینے کی ہمت کس نے دی ؟ اللہ تعالی نے دی ۔
بہرام صاحب اپنے رزق کا ذمہ دار آپ خود کو سمجھتے ہیں یا اللہ تعالی کو ؟
ایسا کریں اللہ پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں دیکھتے ہیں بھلا کب روٹی خود بخود آکر آپ کے منہ میں داخل ہوتی ہے ۔
شیعہ حضرات کے دین کی حفاظت کی ذمہ داری بھی یقینا آپ کے ہاں اللہ تعالی نے لے رکھی ہوگی ۔ لہذا اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے آپ حضرات خاموشی کے ساتھ بیٹھ جائیں ۔ تاکہ امت مسلمہ کے اندر موجود فتنوں میں سے ایک کم ہو جائے ۔
کیا دین حضرت ابوبکر کے عہد میں آکر مکمل ہوا ؟؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید کتابی صورت میں ایک جگہ پر جمع نہیں تھا ۔ البتہ بعض صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ تھا ( اس سے مراد مکمل قرآن مجید ہے ۔ ورنہ چند اجزاء یا سورتیں تو بہت سارےصحابہ کرام کی نوک زبان پر تھیں ) ۔ عہد صدیقی میں یہی کام ہوا کہ مختلف جگہوں پر موجود قرآنی آیات و سور پر مبنی لوحات کو اکٹھا کرکے مکمل قرآن مجید کو ایک جگہ اکٹھا کردیا گیا ۔ اور یہ کام تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اتفاق کے ساتھ ہوا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں کوئی مکمل نسخہ قرآن تھا ہی نہیں بلکہ سینوں میں محفوظ تھا۔ لہذا آپ اس کے نقص یا گم ہونے کے اعتقاد کا الزام نہیں لگاسکتے ۔
جن احادیث میں عہد نبوی میں ’’ جمع ‘‘ کے الفاظ ملتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ کتابی شکل میں جمع تھا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان صحابہ کرام نے قرآن مجید کو حفظ کیا ہوا تھا ۔او رعربی میں یہ اسلوب موجود ہے کہ ’’ جمع ‘‘ کا اطلاق ’’ حفظ الصدر ‘‘ پر ہوتا ہے ۔ عربی کے اس اسلوب سے جہالت کے سبب یا تجاہل کی آڑ لے کر آپ نے درج ذیل پیرائے میں جو تعجب کا اظہار کیا ہے وہ بذات خود عجیب ہے آپ نے کہا :


حضرت زید کا عہد نبوی میں قرآن جمع کرنے کے باوجود حضرت ابو بکر صدیق کے جمع کےحکم پر یہ نہ کہنا یہ تو ہم پہلے ہی کرچکے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عہد نبوی میں جمع سے مراد ’’ حفظ فی الصدور ‘‘ ہے نہ کہ وہ کتابی شکل میں جمع جس کا حکم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔
اگر آپ لفظ ’’ جمع ‘‘ کے اطلاقات سے واقفیت حاصل کرلیں گے تو پھر آپ کو طرح طرح کی بدگمانیوں اور تعجب کرنے کی محنت نہیں کرنا پڑے گی ۔
جمع القرآن
پہلےمذکورہ احادیث کے عربی متن کا وہ حصہ جو زیر بحث ہے
أن تأمر بجمع القرآن‏.
آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں
حدیث نمبر : 4986
قال سألت أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ من جمع القرآن على عهد النبي صلى الله عليه وسلم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کو کن لوگوں نے جمع کیا تھا،
حدیث نمبر :5003
ان دونوں احادیث میں عربی متن میں جمع القرآن کے الفاظ آئے ہیں لیکن آپ کے حکم کے مطابق میں ان کے الگ الگ معنی ہی مانوں گا کہ حدیث نمبر 4986 میں جمع القرآن کا معنی کتابی شکل میں جمع کرنا اور حدیث نمبر 5003 میں جمع القرآن کا مطلب حفظ فی الصدور اپنے سینے میں یاد کرنا
اب میں بھی لیکن کا تڑکا لگا دوں
لیکن اب جو نسخہ قرآن عہد ابو بکر میں ابو بکر کے حکم سے جمع کیا گیا جس کے بارے میں آپ کا یہ فرمان ہے کہ اس نسخے پر صحابہ کا اتفاق تھا اور جو مصاحف عثمانی کی بھی اصل تھا لیکن بد قسمتی سے ایسے جلادیا گیا آخر کیوں جو وجوھات آپ نے بیان فرمائی ہیں یہ آپ کا قیاس ہے یا اس پر آپ کے پاس کوئی دلیل بھی ہے
قرآن جمع کرنے (یہاں کتابی صورت میں قرآن کو جمع کرنا مراد ہے ) میں حضرت ابو بکر نے جس مصاحف کی کتابت کروائی تھی اور جس پر صحابہ کا اتفاق تھا اس مصاحف میں وہ اضافی خوبیا ں نہیں تھی جو حضرت عثمان کے کتابت کروائے ہوئے مصاحف میں تھیں
کیا اس کا معنی یہ ہوا کہ مصاحف عثمانی اضافی خوبیوں کا حامل ہے جن خوبیوں کااضافہ ابوبکر سے بھی نہ ہوسکا ؟

غیر مصدقہ نسخے جلانے کا کام مروان سے پہلے حضرت عثمان باتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم انجام دے چکےتھے ۔ جس کی تفصیل اسی ’’ لڑی ‘‘ میں گزر چکی ہے ۔
مروان کے دور میں بلکہ آج تک وہی قرآن مجید ہے جس کی نقول حضرات عثمان نے باتفاق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین مختلف شہروں کی طرف بھیجی تھیں ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس موجود مصاحف کو جلانے کی وجہ ان کا غیر مصدقہ ہونا نہیں بلکہ وہ تو مصاحف عثمانی کے لیے بھی اصل کی حیثیت رکھتے تھے ۔
ہاں ان کو تلف کرنے کی یہ وجہ سمجھ آتی ہے کہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں تمام صحابہ کرام کا اتفاق ان مصاحف پر ہوگیاتھا جو انہوں نے نئے سرے سے کتابت کروا کر مختلف شہروں کی طرف مع قراء کرام بھیجیے تھے ۔ لہذا اب اس کے علاوہ کسی اور مصحف کو باقی رکھنا کسی فتنہ کا باعث بن سکتا تھا ۔ کیونکہ
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی کتابت کرواتے ہوئے جس قدر اہتمام کیا تھا ۔ حضرت حفصہ کے مصاحف میں وہ اضافی خصوصیت بہر صورت نہیں تھی ۔
عین ممکن ہے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے نسخے پر تفسیری حواشی لکھ رکھے ہوں ۔ لہذا اس کو ختم کردیا گیا تاکہ کوئی اس کو قرآن کا حصہ نہ سمجھ لے ۔
اس کے علاوہ اور بہت سی توجیہات سمجھ میں آسکتی ہیں اگر ’’ جمع صدیقی ‘‘ اور ’’ جمع عثمانی ‘‘ کے اسباب و محرکات پر غور و فکر کیا جائے ۔
ابھی وقت کافی ہوگیا شاید بعد میں ذرا تفصیل سے کچھ لکھ سکوں گا ۔[/quote]
جو وجوھات آپ نے بیان فرمائی ہیں یہ آپ کا قیاس ہے یا اس پر آپ کے پاس کوئی دلیل بھی ہے
 
Top