• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع غیر عاقل

Abu Saifullah

رکن
شمولیت
جولائی 26، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
160
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،،، وبعد
امید ہے کہ فورم ممبران اور ایڈمنز خیرو عافیت سے ہوں گے بندہ دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام احباب کو بحسن وخوبی دین حنیف اسلام کی خدمت میں کوشاں رکھے اور صحت وعافیت عنایت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
گزارش ہے کہ بندہ جمع غیر عاقل کے حوالے سے تھوڑی معلومات چاہییں۔۔۔۔۔
ایک۔۔۔۔۔ جمع غیر عاقل کے لیے کیا اصول قائم کیا ہے نحویین نے
دوسرا۔۔۔۔ قرآن میں جمع غیر عاقل کے لیے جمع اور واحد مؤنث کا صیغہ استعمال ہونے کی چند ایک مثالیں عنایت فرما دی جائیں۔

بصد شکریہ۔
ابوسیف اللہ
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
{تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا} [البقرة: 229]

{تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا } [الأعراف: 101]

{مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ} [الأنبياء: 52]

{ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي} [الزخرف: 51]

{تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ} [الجاثية: 6]

{ إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ} [النجم: 23]
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
کبھی کبھی غیر عاقل کی جمع مذکر کے ساتھ بھی آتی ہے جب اس سے کسی ایسے فعل کی نسبت کی جائے جو صرف عاقل سے ہی سرزد ہوتے ہیں۔
{إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ} [يوسف: 4]

یہاں رایتہا کے بجائے رایتھم کہا گیا ہے کیونکہ سجدہ یہ عاقلین کا فعل ہے۔
 

Abu Saifullah

رکن
شمولیت
جولائی 26، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
160
پوائنٹ
31
کبھی کبھی غیر عاقل کی جمع مذکر کے ساتھ بھی آتی ہے جب اس سے کسی ایسے فعل کی نسبت کی جائے جو صرف عاقل سے ہی سرزد ہوتے ہیں۔
{إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ} [يوسف: 4]

یہاں رایتہا کے بجائے رایتھم کہا گیا ہے کیونکہ سجدہ یہ عاقلین کا فعل ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،،

جزاکم اللہ خیرا سرفراز بھائی

کیا میں جان سکتا ہوں کہ نحو کی کس کتاب میں جمع غیر عاقل کا قاعدہ مل جائے گا۔
 

Abu Saifullah

رکن
شمولیت
جولائی 26، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
160
پوائنٹ
31
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،، وبعد

بندہ فورم کے ممبران کا مشکور ہے جنہوں نے دعاؤں میں خادم کو یاد کیا اور بالخصوص میں بھائی سرفراز فیضی صاحب کا بہت بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے میری معاونت فرمائی،،،، پھر سسٹر نسرین فاطمہ کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے رہنمائی فرمائی ہے،،، فجزاکم اللہ خیرا خیرا

آپ ساتھیوں کے تعاون سے ایک چھوٹا سا مضمون لکھنے میں معاونت ملی ہے۔۔۔ آپ سب کا بہت بہت ممنون احسان ہوں۔

مضمون فیس بک پر اس لنک پر ہے:

‫ترجمہ قرآن میں قادیانی من مانیاں | Facebook‬
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
آپ ساتھیوں کے تعاون سے ایک چھوٹا سا مضمون لکھنے میں معاونت ملی ہے۔۔۔ آپ سب کا بہت بہت ممنون احسان ہوں۔

مضمون فیس بک پر اس لنک پر ہے:

‫ترجمہ قرآن میں قادیانی من مانیاں | Facebook‬
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
ابو سیف اللہ بھائی،
ازراہ کرم ممکن ہو تو یہ مضمون یونیکوڈ میں محدث فورم پر بھی قادیانیت سیکشن میں پیسٹ کر دیں۔ شکریہ!
 

Abu Saifullah

رکن
شمولیت
جولائی 26، 2012
پیغامات
27
ری ایکشن اسکور
160
پوائنٹ
31
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
ابو سیف اللہ بھائی،
ازراہ کرم ممکن ہو تو یہ مضمون یونیکوڈ میں محدث فورم پر بھی قادیانیت سیکشن میں پیسٹ کر دیں۔ شکریہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

برادرم ممکن کیوں نہیں،،،، حکم ہونا چاہیے تھا،،،،، ویسے یہ کوئی بہت بڑا کمپلی کیٹڈ مضمون نہیں ہے،،،، ایک قادیانی کے چھوٹے سے چیلنج کے جواب میں چند ایک سطریں لکھی ہیں وہ بھی آپ بھائیوں کے تعاون سے حاضر خدمت ہیں:

﴿ وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَؕ۰۰۲۰ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ١ۚ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ١ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۰۰۲۱ ﴾

اور وہ جنہیں یہ اللہ کے سوائے پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مردے ہیں نہ زندہ اور وہ نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
(ترجمہ مولوی محمد علی قادیانی مدیر رسالہ ریویو آف اسلام۔ قادیان۔ نظر ثانی شدہ حکیم نور الدین قادیانی)

اللہ تعالیٰ کی نازہ کردہ کتاب قرآن کریم اس دور میں نازل ہوئی جب ادب وشعر کا دور دورا تھا اور خطۂ عرب کے باسی شعر وادب میں خود کو اتنا طاق جانتے کہ خود کو ’’عربی‘‘ کلام کرنے والا کہتے اور دوسروں کو ’’عجمی‘‘ گونگا کہتے۔
جب اللہ تعالیٰ نے زمین کے باشندوں میں اپنی کلام مقدس نازل کی تو اس کتاب کے جہاں اور بہت سے معجزات ظہور میں آئے ان میں سے ایک بہت بڑا اعجاز یہ بھی تھا کہ خود کو ’’عربی‘‘ کہنے والے اس کلام کی فصاحت وبلاغت نظم وضبط پر ایسے عاجز آئے کہ ان سے کچھ بن نہ پڑا کہ اس کے مقابلے میں کچھ لا سکیں۔۔۔۔ دعوے تو ہزار کرتے کہ اس جیسی چاہیں تو ہم بھی کلام کہہ سکتے ہیں مگر بارہا کاوشوں کے باوجود کچھ نہ کر سکے۔۔۔ یہاں تک کوشش کی گئی کہ عرب کے ایک بہت بڑے معروف شاعر کو باقاعدہ ہائر کر کے مکہ لایا گیا اور اس کو کلام الٰہی کے مقابلے میں کچھ کہنے پرمنہ مانگی قیمت کی پیش کش کی گئی۔
مگر یہ کیا تھا؟؟؟؟ مکہ کے سردار جب طے شدہ پروگرام کے تحت وقت مکررہ پر اس شاعر کی رہائش پر گئے اور دیکھا کہ اس کے ارد گرد ڈھیروں تحریریں لکھ کر ان کی ردی بنا کر پھینکی ہوئی ہے۔
دریافت کرنے پر کہتا ہے کہ میں خود ایک تحریر لکھتا ہوں۔۔۔ پھر اس کا قرآن سے موازنہ کرتا ہوں تو میرا خود اپنا دل کہتا ہے کہ میری کلام اس کلام کے مقابلے میں بہت ہیچ ہے تو پھر میں خود ہی اپنی کلام کو پھاڑ کر، ٹکڑے کر کے پھینک دیتا ہوں۔
قارئین!.... یہ مختصر تمہید باندھنے کا مقصد صرف اتنا واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے جتنی بھی شعر وادب کی کتب تھیں قرآن کی فصاحت وبلاغت کے سامنے ذرۂ خاک ہو گئیں۔۔۔۔ اور پھر قرآن ہی ایک ایسی کتاب ٹھہری جو عربی زبان وادب کے لیے ایک اعلیٰ ترین معیار ٹھہرا اور زبان وعلوم کی ترقی کے ساتھ علماء نحو نے اسی کلام الٰہی کو معیار ٹھہرا کر عربی زبان کے قواعد وضوابط مقرر کیے۔
یہاں ناچیز عربی زبان کے ایک قاعدہ جمع غیر عاقل کے لیے استعمال ہونے والی ضمیروں کے حوالے سے چند حروف تحریر کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور دین اسلام کو اس کے اصل سورسز قرآن اور صحیح حدیث سے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور لا یعنی اندھی تقلید (بھلے وہ کسی کی بھی ہو) سے بچائے۔ آمین!

جمع غیر عاقل کیا ہے؟؟
کوئی بھی اسم جو کسی جمادات یا غیر انسان پر بولا جائے اس کو غیر عاقل کہتے ہیں اور پھر جب ایسے اسم کی جمع آتی ہے تو اس کو جمع غیر عاقل کہتے ہیں ۔۔۔۔ مثلاً
کتاب۔ قلم۔ باب۔ سماء۔ ملک۔ جن ۔۔۔۔
یہ سب واحد ہیں اور ہر ایک اسم ایک غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اور جب ہم ان واحد کلمات کے لیے جمع کا صیغہ لائیں گے۔
کِتَابٌ ج کُتُبٌ ۔ قَلَمٌ ج اَقْلَامٌ ۔ بَابٌ ج اَبْوَابٌ
سَمَآءٌ ج سَمٰوَاتٌ ۔ مَلَکٌ ج مَلَآئِکَۃٌ ۔ جِنٌّ ج جِنَّۃٌ


جمع غیر عاقل کے لیے ضمائر یا اسم اشارہ کا استعمال:
اب یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب ہم جملہ میں غیر عاقل کی جمع کو استعمال کرتے ہیں ہے تو پھر اس کے لیے جو ضمیر (pronoun) یا پھر اسم اشارہ استعمال کرتے ہیں اس کا قاعدہ کلیہ کیا ہے؟؟؟؟
جب غیر عاقل کے لیے استعمال ہونے والا لفظ واحد ہو۔۔۔۔تو اس کے لیے استعمال ہونی والی ضمیر یا اسم اشارہ اس لفظ سے تذکیر، وتانیث میں مطابق کرے گا۔۔۔۔۔ یعنی اگر لفظ مذکر ہے تو ضمیر یا اسم اشارہ بھی مذکر ہی استعمال ہو گا اور اگر مؤنث ہے تو ضمیر یا اسم اشارہ بھی مؤنث استعمال ہو گا۔ مثلاً
ہٰذَا کِتَابٌ ۔ ہٰذِہٖ دَرَّاجَۃٌ وغیرہ
اور جب کوئی بھی ایسا اسم جو کسی غیر عاقل کے لیے استعمال ہوا ہے اس کا جمع کا کلمہ استعمال ہوتا ہے تو غالب طور پر تو غیر عاقل کی جمع کے لیے ضمیر یا اسم اشارہ واحد مؤنث کا صیغہ استعمال کریں گے۔ مگر قرآن میں چند ایک مقامات پر غیر عاقل کی جمع کے لیے حسب ضرورت جمع کا صیغہ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ غیر عاقل کی جمع اور اس کے ساتھ استعمال ہونے والی ضمائر اور اسم اشارہ کے استعمال کی مثال:
ہٰذَہٖ کُتُبٌ ۔ قَرْیَۃٌ ج قُرٰی تِلْکَ الْقُرٰی اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَا وغیرہ
میں نے ابھی اوپر عرض کیا ہے کہ جمع غیر عاقل کے لیے ضمیر یا اسم اشارہ کے استعمال کا عمومی قاعدہ یہی ہے کہ جمع غیر عاقل کے لیے واحد مؤنث کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جیسے کُتُبٌ کے لیے اسم اشارہ ہٰذَہٖ ۔۔۔۔۔ الْقُرٰی کے لیے اسم اشارہ تِلْکَ ۔۔۔۔ اَسْمَآءٌ کے لیے ضمیر هَا ۔۔۔۔
قرآن کریم سے غیر عاقل کی جمع کے لیے واحد مؤنث کی مثال:
{تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا} [البقرة: 229]
{ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِيْ} [الزخرف: 51]
{ اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ ...} [النجم: 23]


قرآن کریم میں غیر عاقل کے لیے جمع کے صیغہ کا استعمال:
کبھی غیر عاقل کی جمع مذکر کے ساتھ بھی آتی ہے جب اس سے کسی ایسے فعل کی نسبت کی جائے جو صرف عاقل سے ہی سرزد ہوتے ہیں۔ جیسے:
{اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰۤاَبَتِ اِنِّيْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ} [يوسف: 4]
قارئین کرام!....... یہاں غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ سورج، چاند اور پھر گیارہ ستارے۔۔۔۔۔۔ تمام کو رَأَیْتُہَا کہنے کی بجائے رَاَيْتُهُمْ کہا گیا ہے،،،، یعنی جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔۔۔۔ اور یہ قاعدہ یہ ہے کہ جب اس غیر عاقل کے ساتھ کسی فعل کے ارتکاب کرنے والا عاقل ہو تو اس کے لیے ضمیر یا اسم اشارہ جمع کا استعمال کریں گے۔
دوسری مثال:
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ (20) اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ وَّمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (21)
قارئین کرام!... یہاں بھی پچھلی مثال کی طرح واضح موجود ہے۔۔۔۔۔ قاعدہ وہی ہے کہ جب ’’کبھی غیر عاقل کی جمع مذکر کے ساتھ بھی آتی ہے جب اس سے کسی ایسے فعل کی نسبت کی جائے جو صرف عاقل سے ہی سرزد ہوتے ہیں۔‘‘
اور اس آیت میں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ معبودان باطلہ،،،، جن کی بھی پوجا کی جا رہی تھی،،،،،، ان کو کسی عاقل کے فعل کی نسبت سے ضمیر بھی جمع استعمال کی ہے اور اس کے لیے التی واحد مؤنث کا صیغہ استعمال کرنے کی بجائے الذین کا صیغہ جمع کا استعمال کیا گیا ہے۔۔۔۔ پھر یشعرون جمع استعمال کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ یبعثون جمع استعمال کیا گیا ہے۔

ایک مغالطے کا ازالہ:
یہاں کچھ بد باطنوں نے اپنے مطلب اور ہوائے نفسانی کے تحت کچھ تاویلات کی ہیں اور یقینا قرآ ن نے ایسے ہی افراد کے بارے میں کہا ہے:
فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ
جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتا ہے تو وہ مشتبہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں،،، فتنہ پردازی کے لیے اور (حق سے بچنے کے لیے) اس کی تاویلات کرکے۔
ایسے ہی اس چودھوی صدی کا ایک نام نہاد مدعی نبوت اٹھا اور اس نے ابتغاء تاویلات کرتے ہوئے مذکورہ بالا آیت
وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْئًا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ (20) اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ وَّمَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ (21)
سے بہت لمبی چوڑی ہانک کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے چونکہ لوگ سیدنا عیسٰیu کی بھی عبادت کرتے تھے اور انہیں بھی معبود بنا رکھا تھا لہٰذا اس آیت قرآن کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عیسٰیu فوت ہو چکے ہیں اور وہ اب دوبارہ نزول نہیں فرمائیں گے۔
قارئین کرام!... ان قادیانیوں کی ہر گنگا الٹی بہتی ہے،،، آج سے پہلے پوری امت کے بڑے بڑے علماء، ائمہ حدیث اور ائمہ فقہاء کو،،، خصوصا عربی جاننے اور عربی دان ہونے کے دعویداروں کو بھی جو چیز سمجھ نہ آ سکی وہ ایک نیم خواندہ بر صغیر کے شخص کو سمجھ میں کیسے آگئی جس کو ٹھیک سے عربی تک نہ آتی تھی۔

فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ


﴿فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ﴾

مذکورہ بالا آیت کے زیر عنوان اب ہم دیکھیں گے کہ اپنی ہوائے نفس کے لیے کبھی ایک ایسے لفظ کے معنی جو ان کی مرضی کے مطابق نہ بنتے ہو ان معانی کو زبردستی اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لیے الٹی سیدھی ہانکیں گے اور کبھی ایک جگہ کسی لفظ کے اصلی معنی کے خلاف کیسے تگ ودو کرتے ہیں اور اس اصلی معنی کی تکذیب میں کہیں کے ڈانڈے کہیں جا کر ملاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم دیکھیں گے کہ کہ جہاں ان کو مطلب کی ضرورت ہوتی ہے وہاں اس لفظ کے اصطلاحی معنی نکالنے کی بجائے اصلی معنی پر اتر آتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی شرم وحیا کا پاس نہیں ہوتا کہ ایک دوسری جگہ اس لفظ کے کیا معنی کر آئے ہیں اور اس جگہ کیا کر رہے ہیں۔

پہلی آیت:
﴿اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسٰۤى اِنِّيْ مُتَوَفِّيْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَيَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى يَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِْ تَخْتَلِفُوْنَ۰۰۵۵﴾
یہاں قادیانی حضرات تمام تر شواہد ودلائل کے باوجود ایک ہی بات پر سر دیا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ مُتَوَفِّيْكَ کا معنی ’’ممیتک‘‘ ہے۔ اور دنیا کی کوئی دلیل ان کی عقل ناپید کو یہ بات سمجھا نہیں سکتی کہ یہاں لفظ متوفیک کا مادہ وفی ہے اور وفی مادہ سے اور مادہ ’’وفی‘‘ کا معنی کسی قیمت پر ’’موت‘‘ نہیں بنتا۔۔۔۔۔۔
بد قسمتی تو یہ ہے کہ یہ کسی عربی لغت۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی معانی قرآن کی تفسیر سے یا دیگر کسی اتھنٹک کتاب سے نہیں دکھا سکے آج تک کہ اس مُتَوَفِّيْكَ کا معنی ممیتک ہے۔۔۔۔۔ ہاں ایک چیز ان کو بار بار دکھائی دیتی ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
’’بخاری میں سیدنا ابن عباس نے فرمایا ہے۔‘‘
اور یہی جملہ پوری قادیانی ذریت نے رٹا ہوا اور ایک کے بعد دوسرے کے سامنے اسی رٹے رٹائے جملہ کو دہراتے چلے جاتے ہیں اور علمیت سے اتنی دور ہیں یہ لوگ کہ ان کو یہی نہیں معلوم یہ کہ الفاظ بخاری شریف کی حدیث نہیں ہیں۔۔۔۔ یہ صرف ایک باب کی ہیڈنگ ہے۔۔۔۔۔ اگر یہ حدیث ہوتی تو سر آنکھوں پر۔۔۔۔۔ پھر بخاری شریف کے باب کی اس ہیڈنگ کے حوالے سے جب بحث کرتے ہیں تو عجیب وغریب لطیفے چھوڑتے ہیں اور یہ بھی ان کو احساس نہیں ہوتا کہ ہم کتنی جہالت سے بھری باتیں کر رہے ہیں علم حدیث سے کوسوں دور یہ رٹو طوطے سمجھتے ہیں کہ دین ان کے جھوٹے نبی کی جاگیر ہے جس طرف چاہو اسی طرف موڑ لو۔
چلیں ان سے یہ گزارش ہے کہ دنیا کی کسی حدیث کی کتاب میں سے سیدنا ابن عباس کے اس قول کی سند کے ساتھ روایت دکھا دیں،،،، مگر افسوس،،،، آج تک ممکن نہیں ہو سکا کہ کسی بھی حدیث کی کتاب سے سیدنا ابن عباس کے اس قول کو سند کے ساتھ ثابت کر سکیں۔
دوسری آیت:
﴿وَ الَّذِیْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَؕ۰۰۲۰ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ﴾
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ کچھ نام نہاد جھوٹے دعویداروں اور اس کے پیروکاروں نے مذکورہ بالا آیت سے سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو زبردستی مارنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے۔۔۔۔ اور یہ بڑے شد ومد سے اس آیت کے الفاظ ’’اموات غیر احیاء‘‘ کو اصلی معنی میں استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ مر چکے ہیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسٰی کا ذکر بارہا کیا ہے اور ان کے آئندہ مرنے کا ذکر تو ہوا ہے مگر زمانہ ماضی میں ان کے مرنے کا کوئی ذکر کہیں بھی نہیں کیا گیا۔۔۔۔۔۔ اس لیے ان کی موت کے دعویدار اپنے موقف کو کبھی ثابت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کی جھوٹی نبوت کی دکانداری سج سکتی ہے۔
تیسری آیت:
﴿فَاَنْفُخُ فِیْهِِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْيِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ١ۙ فِيْ بُیُوْتِكُمْ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ﴾
اس آیت کے ترجمہ میں قادیانی حضرات ایک طرفہ تماشا کرتے ہیں۔۔۔۔ کیونکہ یہاں ’’موتی‘‘ کا لفظ ان کے عقیدہ کو شدید نقصان پہنچاتا ہے لہٰذا یہاں ان کو ’’موتی‘‘ کے لفظ میں تاویل کرنا پڑتی ہے اور بہت بھاگ دوڑ کر کے کچھ دائیں کی چھوڑی اور کچھ بائیں کی تک جا کر ان کے اپنے مطلب کی بات بنتی ہے اور اس پر کہنا پڑتا ہے کہ...
فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِيْلِهٖ

قادیانی ذریت سے سوال!
کیا کوئی قادیانی بتلائے گا کہ عربی زبان وادب کے کونسے قواعد کی رو سے اس آیت میں ’’موتی‘‘ کے معنی کو معنوی اعتبار سے لیا گیا ہے اور پھر وہ کونسا قاعدہ کلیہ ہے کہ اس سے پچھلی آیت میں ’’اموات‘‘ کا معنی معنوی مردے نہیں لیا جا سکتا؟؟؟؟؟؟؟
ہے کوئی جواب دینے والا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 
Top