• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جمع قرآن اور اس کی تدوین

جمع قرآن سے مراد قرآن کریم کا جمع کرنا۔ خواہ حفظ سے ہو یا کتابت سے یا تلاوت کی ریکارڈنگ سے۔ اور تدوین سے مراد اس کو کتابی صورت میں ترتیب دینا ہے۔ان سب مراحل کی ایک دل چسپ معلوماتی تاریخ ہے جسے ایک طالب علم کے لئے جاننا بہت اہم ہے۔تاکہ وہ آگاہ رہے کہ یہ مقدس کتاب کس طرح کن کن ادوار سے گذر کر محفوظ ترین صورت میں ہم تک پہنچی؟
مقصد جمع قرآن: جمع قرآن کا مقصد یہی تھا کہ جس طرح قرآن مجید آپ ﷺ پر اترا ہے اور جس طرح آپ نے اسے پڑھا یا سکھایا ہے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا جائے۔ یہ اللہ کا حکم تھا تاکہ مستقبل میں ممکنہ اختلاف جو قراءت یا اس کے الفاظ ، ترتیب اور لغت میں پیدا ہوسکتا ہے وہ نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی مگر اس حفاظت کا کام صحابہ رسول اور امت کے قراء وحفاظ سے بھی لیا۔
جمع قرآن کی دلیل: آپ ﷺ قرآن کی تنزیل میں سخت شدت محسوس کیا کرتے۔ اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ہی یہ فرمادیا :
{لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ} آپ قرآن پاک کو حاصل کرنے میں جلدی مت کیا کیجئے یقیناً اس قرآن کو جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔
جمع کرنے سے مراد یہاں اس دور کی اور مستقبل کی قرآنی جمع ہے۔جو سینوں میں بھی ہوا اور سفینوں میں بھی۔قرآنہ سے مراد آپ ﷺ سے اسے ویسے ہی ترتیل سے پڑھوانا جس طرح آپ پر تازہ بتازہ اترتا تھا اور مستقبل میں مختلف قراء کی آوازوں سے بھی۔چنانچہ جبریل امین آپ ﷺ کے پاس جب آتے تو آپ غور سے سنا کرتے۔ پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ اسے ویسا ہی پڑھ لیتے جیسا انہوں نے اسے پڑھا ہوتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جمع قرآن کے چار ادوار:

اس کے کل چار ادوار ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے قرآن کریم کے اپنی کسی اور کتاب کے ساتھ حفاظت کا یہ معاملہ نہیں کیا۔یہ ادوار درج ذیل ہیں:
پہلا دور: عہد نبوی میں جمع قرآن: سرور عالم ﷺ نے حفاظت قرآن کے لئے دو ہدایات دیں:
۱۔ اسے حفظ کیا جائے۔ ۲۔ اس کو لکھا جائے۔
حفظ: وحی کے آغاز سے ہی آپ ﷺ کو یہ تسلی دی گئی {سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى۝۶ۙ} (الاعلیٰ:۶) ’’ہم آپ کو پڑھوا دیں گے کہ آپ نہیں بھولیں گے‘‘ اسے آپﷺ کے قلب اطہر پر اتار کر محفوظ کردیا گیا۔ {اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ} (القیامۃ:۱۷) ’’یقیناً اسے جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ ہر سال جبریل امین کے ساتھ آپﷺ نازل شدہ حصے کا باقاعدہ دور بھی کرتے ۔ حدیث میں ہے:
أَنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ۔کَانَ یُعَارِضُ النَّبِیَّ ﷺ بِالْقُرآنِ فِی کُلِّ عَامِ مَرَّۃً، فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الَّذِیْ قُبِضَ فِیْہِ عَارَضَہٗ مَرَّتَیْنِ(صحیح بخاری: ۴۹۹۸) جبریل امین ہر سال آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا ایک مرتبہ دور کیا کرتے ۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا ، جبریل امین نے آپ ﷺ کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا۔
آپ ﷺ نے اس دو مرتبہ دور کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ جِبْرِیْلَ کَانَ یُعَارِضُنِی الْقُرْآنَ فِی کُلِّ سَنَۃٍ مَّرَّۃً، وَإِنَّہٗ عَارَضَنِی الْعَامَ مَرَّتَیْنِ، وَلَا أُرَاہُ إِلَّا حَضَرَ أَجَلِیْ۔ جبریل میرے ساتھ ہر سال قرآن کریم کا ایک مرتبہ دور فرمایاکرتے اس سال انہوں نے مجھ سے دو مرتبہ دور کیا ۔میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ میری موت آنے والی ہے۔(مسند احمد ۶/۲۸۲، صحیح بخاری: ۳۴۲۶)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مکہ میں حفظ:

مکی مسلمان بھی حیرت انگیز قوت حافظہ کے مالک تھے جنہوں نے تیرہ برس کے عرصے میں مکہ میں نازل ہونے والے قرآنی حصے کو سرعت سے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔ صحابہ کرام وصحابیات کی بڑی تعداد نے نہ صرف اسے یاد کیا بلکہ لکھا بھی اور غورو تدبر کرنا بھی سیکھا۔ وہ اپنی پیاری نیند اور نرم وگرم بستر کو چھوڑ کر قیام اللیل کرتے اور تہجد میں اسے پڑھا کرتے۔ان کے گھروں سے راہگیروں کو قرآن پڑھنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر ابن الدغنہ کی امان واپس کردی کہ میں اس قرآن کو پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مدینہ میں حفظ:

ہجرت کرکے آپﷺ مدینہ منتقل ہوگئے۔ قرآن یہاں بھی دس سال نازل ہوتا رہا۔ یہاں بھی آپ ﷺ قرآن مجید کو مجالس میں ،نمازمیں، خطبات میں پڑھتے ، سنتے اورسناتے تھے۔آپ ﷺ نے مسجد نبوی میں قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام فرمایا۔مسلمان اسے شوق سے گھروں میں اور نمازتہجد میںبالخصوص پڑھتے ۔ نوجوانوں کوآپ ﷺ ابھارتے کہ قرآن یاد کرو اسے سیکھو۔ بہترین قراء پر آپ ﷺ فخر کرتے ۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعریؓ کی تلاوت سن کر آپ ﷺ نے فرمایا:
لَوْ رَأَیْتَنِیْ وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَائَتِکَ الْبَارِحَۃَ! لَقَدْ أُوْتِیْتَ مِزْمَاراً مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوٗدَ۔ اگر تم دیکھتے، توآج رات میں نے تمہاری تلاوت سنی، تم توآل داوٗد کی نغمگی عطا کئے گئے ہو۔( صحیح مسلم ۱؍ ۵۴۶)
آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا:
میں اشعری ساتھیوں کو ان کی آوازوں سے پہچان لیتا ہوجب وہ رات میں داخل ہوکر قرآن پڑھتے ہیںاور میں رات ہی میں ان کی قرآنی آوازوں سے ان کے گھروں کو پہچانتا ہوںاگرچہ میں نے ان کے گھروں کو نہیں دیکھا جب وہ دن کے وقت نکلتے ہیں۔(صحیح مسلم ۴؍۱۹۴۴)
سالم مولیٰ آل حذیفہ ؓ کی تلاوت سنی توآپ ﷺ نے فرمایا:
اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِیْ جَعَلَ فِیْ أُمَّتِیْ مِثْلَکَ۔ اللہ کی حمد وثنا جس نے میری امت میں تجھ جیسے لوگ پیدا کئے۔
(مسند احمد۶؍۱۶۵)
سیدناابن مسعود ؓسے آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے قرآن سناؤ۔ انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! قرآن آپ پر اتارا گیا اور سناؤں میں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں دوسروں سے قرآن سنوں۔ تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء پڑھنا شروع کی جب وہ اس آیت پرپہنچے {فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚبِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝۴۱ۭ۬} (النساء:۴۱) آپ ﷺ نے فرمایا: حسبک الآن۔ بس بس کافی ہے۔ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: جب میں نے رک کر آپ ﷺ کی طرف دیکھا تو فإذا عیناہ تذرفان۔ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے تھے۔(صحیح بخاری ۶؍۱۱۳)
آپﷺ صحابہ کو قرآن کے معنی وعمل ہی نہیں بلکہ حفظ بھی کراتے۔ کوئی شخص ہجرت کر کے جب مدینہ آتا آپﷺ اسے انصارومہاجرین کے سپرد کر دیتے کہ اسے قرآن سکھائیں۔ اس طرح مسجد نبویؐ میں قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کی آوازوں کا شور ہوتااور نبی اکرم ﷺ کو تاکید کرنا پڑتی کہ اپنی آواز کو پست رکھا کرو تاکہ مغالطہ پیش نہ آئے۔(مناہل العرفان ۱؍۲۳۴)
نیزصحابہ کی بڑی تعدادجن میں خلفاء اربعہ، عبد اللہ بن مسعودؓ، حذیفہؓ، سالم ؓمولی ابی حذیفہ، ابی ؓبن کعب، معاذ ؓ بن جبل، زیدؓ بن ثابت ، ابو الدرداءؓ ، طلحہؓ، سعدؓ، ابو ہریرہؓ، عبد اللہ بن عمر وابن عباسؓ، عبادہ بن صامتؓ، عبداللہ وعمرو بن العاصؓ، انس بن مالکؓ، امیرمعاویہؓ، فضالۃ بن عبید، مسلمۃ بن مخلد، ابو زید بن السکن اور عبد اللہ بن السائب جبکہ خواتین میں عائشہؓ، حفصہؓ، ام سلمہؓ، اور ام درقہ ؓ ، شامل ہیں۔ اطراف مدینہ میں جا کر قریہ قریہ اور بستی بستی قرآن سکھاتی رہیں۔ اس طرح ان نوجوانوں کی قوت حافظہ بہت کام آئی اور سینکڑوں حفاظ تیار ہو گئے ۔ ان کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ غزوہ بئرمعونہ کے موقع پر جن ستر صحابہ کو شہید کیا گیاوہ قراء کہلاتے تھے اور حفاظ قرآن تھے۔(صحیح بخاری: ۳۰۶۴، الاتقان۱؍۷۳) سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کے موقع پر ستر قراء صحابہ شہید ہوئے تھے۔(عمدۃ القاری۲۰؍۱۶)
خلافت راشدہ کے تیس سالہ عرصہ میں اسلام کی دعوت مشرق ومغرب تک پھیلی ۔ ہر مجاہد کے گھر میں قرآن ہوتا اور تلوار لٹکی ہوتی۔ شب وروز کی مسافت اور غریب الدیاری نے انہیں قرآن سے بھی چمٹائے رکھا۔ گھروں ، محلوں اور مساجد میں یہ حفظ بھی ہوتارہا اور تلاوت بھی۔آج بھی مسلمانوں کے سینوں میں یہ قرآن محفوظ ہے۔اس امت کی یہ صفت ہے: أَنَاجِیْلُہُمْ فِیْ صُدُوْرِہِمْ۔ ان کے سینوں میں ان کی اناجیل ہوںگی۔ اہل کتاب اپنی کتاب کو حفظ نہ کرسکے اس لئے وہ ضائع ہوگئی۔بس انہوں نے ترجمہ لکھا ہے اور لکھے کو پڑھتے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن کی اصل عبارت ہی لکھی گئی۔ اگر خدانخوستہ قرآن کی ساری کاپیاں بھی کسی حادثے میں تلف ہوجائیں تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مسلمان اپنے حفظ کے ذریعے اسے دوبارہ لکھوا سکتے ہیں۔ آپ ﷺکے دور میں بھی قرآن ایک کتابی شکل میں محفوظ نہیں تھا بلکہ پھیلا ہوا تھا لیکن سب کویہ معلوم تھا کہ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے سورہ فاتحہ ہے پھر سورہ بقرہ و آل عمران اور آخر میں سورہ الناس ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کتابت:

کتابت: حفاظت قرآن کا اصل دارومدار تو حفظ تھا مگر نبی اکرم ﷺ نے قرآن کی کتابت کا بھی اہتمام کرڈالا۔ یہ بھی قرآن مجید کا جمع کرنا ہے۔نزول کے بعد آپ ﷺ کاتبان وحی کو جبریل امین کی ہدایت کے مطابق فرماتے کہ یہ آیات نازل ہوئی ہیں جنہیں فلاں سورہ کی فلاں آیت کے سرے پر رکھو اور لکھو۔اس طرح قرآن کریم کے ایک ایک حرف، آیت، سورۃ کو کتابت کے ذریعے آپ ﷺ نے صحیفوں اور سطور میں ترتیب دے کرمحفوظ کردیا۔اس کتابت کے بارے میں سیدنا زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
قرآن کی جو آیات نازل ہوتیں آپ ﷺ مجھے لکھوا دیتے۔اس کے بعد میں آپ ﷺکو سناتا، اگر اصلاح کی ضرورت ہوتی تو آپﷺ اصلاح فرما دیتے ۔ پھر اس کے بعد اس لکھے ہوئے کو میں لوگوں کے سامنے لاتا۔جو کچھ بھی لکھا جاتا وہ آپﷺ کے گھر میں رکھ دیا جاتا تھا۔ اس دور میں قرآن کاغذوں پر لکھا جاتا نہ ہی باقاعدہ مصحف کی صورت میں تھا بلکہ متفرق طور پر پتھر کی تختیوں ، چمڑے کے ٹکڑوں ، درخت کی چھا لوں اور چوڑی ہڈیوں وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔(مناہل العرفان اززرقانی:۲۳۹) اسی لئے تو سیدنا زید ؓ کا یہ کہنا ہے: قبض النبی ﷺ ولم یکن القرآن جمع فی شیء۔ آپﷺ کا انتقال ہوا اور قرآن کریم کسی بھی شے میں جمع نہ تھا۔(فتح الباری ۹؍۹)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کاتبین وحی:

کتابت وحی کا کام دیگر صحابہ بھی کرتے۔ کاتبین وحی میں حضرات ابوبکر ؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، عبد اللہ بن ابی سرحؓ، زبیر بن عوامؓ، خالد بن سعید بن العاصؓ، ابان بن سعید بن العاصؓ، خالد بن الولیدؓ، معاویہؓ، مغیرہ بن شعبہؓ، عمرو بن العاصؓ، عامر بن فہیرہؓ اور عبداللہؓ بن رواحہؓ بھی شامل ہیں۔(زاد المعاد لابن القیم۱؍۳۰)
عہد رسالت ﷺ میں ایک نسخہ تو وہ تھا جونبی اکرم ﷺ کے پاس تھا اس کے علاوہ صحابہ ؓ نے خود اپنے نسخے بھی تیار کر رکھے تھے۔ جن صحابہؓ کے پاس اپنے لکھے ہوئے مصاحف تھے ان میں حضرات عبد اللہ بن مسعودؓ، علیؓ، عائشہؓ، ابی بن کعبؓ، عثمان بن عفانؓ، تمیم الداریؓ، ابوالدرداءؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبد اللہ بن عمرؓ، عبادہ بن صامتؓ، اور زید بن ثابت ؓ شامل ہیں۔ سیدنا ابن عمر ؓ سے مروی ہے آپ ﷺ نے انہی صحابہ سے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ نے قرآن کریم کو دشمن کی زمین میں لے جانے سے منع فرمایا۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱؍۴۰۹)۔ نیز قرآن کریم کے علاوہ ان اوراق پر کچھ اور لکھنے سے بھی آپﷺ صحابہ کرام کو منع فرماتے:
مَنْ کَتَبَ عَنِّی غَیْرَ الْقُرآنِ فَلْیَمْحُہٗ وَحَدِّثُوْا عَنِّیْ وَلَا حَرَجَ۔ مجھ سے قرآن کے علاوہ جس کسی نے کچھ لکھا ہے تو وہ اسے مٹادے ہاں مجھ سے حدیث بیان کرسکتے ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔
آپ ﷺ کی زیر نگرانی جو کتابت قرآن ہوئی وہ سبعہ حروف پر مشتمل تھی۔ اس کی آیات کی ترتیب توقیفی تھی ۔آپﷺ جہری نماز کی قراءت میں عموماً اسی ترتیب کو ہی اختیار فرماتے۔ اس کی دلیل امام نسائی ؒکی سنن کبرٰی میں یہ روایت ہے:
قال ابنُ عباسٍ رضی اللہ عنہما لَمَّا نَزَلَتْ آخِرُ آیَۃٍ عَلَی النَّبِیّ ﷺ {وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ إِلَی اللّہِ۔۔۔} (البقرۃ: ۲۸۱) توجناب جبریل ؑ نے آپﷺ سے فرمایا: یا محمد! ضَعْہَا عَلٰی رَأْسِ ثَمَانِیْنَ وَمِئَتَیْ آیَۃٍ مِنْ سورۃ البقرۃ۔ اللہ کے رسولﷺ ! آپ اسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۸۰ کے بعد رکھئے۔
اسی لئے علماء کہتے کہ قرآنی سورتوں میں آیات کی تقدیم وتاخیر جائز نہیں۔ سیدنا عثمان بن ابی العاص ؓکہتے ہیں:
کنتُ جالساً عند النبیِّ ﷺ إذْ شَخَصَ بِبَصَرِہٖ ثُمَّ صَوّبَہٗ ، ثم قال: أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ فَأَمَرَنِیْ أَنْ أَضَعَ ہٰذِہِ الآیَۃَ ہَذَا الْمَوْضِعِ مِنَ السُّورَۃِ {إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی ۔۔۔}(النحل: ۹۰)میں رسول اکرم ﷺ کے خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک آپ ﷺ نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں پھر انہیں آہستگی سے نیچے لائے۔ پھر فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آیت کو سورۃ کے اس مقام پر رکھوں ۔(مسند احمد)
عبد اللہ بن زبیرؓ نے امیر المومنین عثمان ؓسے عرض کی کہ آیت {وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِيَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ}کو اس آیت نے منسوخ کیا ہے {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ} اور یہ آیت وصیت والی آیت سے تلاوت میں پہلے ہے تو آپ اسے بعد میں کیوں لکھ رہے ہیں؟سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: میرے بھتیجے! میں اس قرآن کی کسی آیت کو اس کی جگہ سے بدل نہیں سکتا۔(صحیح بخاری : ۴۵۳۰)
حتی کہ سورتوں سے قبل بسم اللہ کی تحریر بھی آنحضرتﷺ کے حکم سے کی گئی۔سیدنا زیدؓ نے بھی جمع قرآن میں آیات کی وہی ترتیب ملحوظ رکھی جورسول اکرمﷺ نے بتائی تھی جس پر تمام صحابہ کرامؓ نے اتفاق بھی کیا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تین بار جمع:

امام حاکم ؒمستدرک میں فرماتے ہیں:
جُمِعَ الْقُرْآنُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، أَحَدُہَا بِحَضْرَۃِ النَّبِیِّﷺ، وَالثَّاِنیَۃُ: بِحَضْرَۃِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، وَالْجَمْعُ الثَّالِثُ فِی زَمَنِ عُثْمَانَ۔ قرآن کریم تین بار جمع کیا گیا، پہلی بار آپ ﷺ کی موجودگی میں، دوسری بار سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی موجودگی میں اور تیسری بار سیدنا عثمان ؓکے عہد میں۔
تین بار جمع کرنے سے مراد یہ ہے کہ :
٭…پہلی بار عہد نبوی میں اس کی کتابت اور تدوین ہوئی۔یہ جمع صرف کتابت آیات اور ان کی ترتیب تک رہی جو سورتوں میں مخصوص مقام پر آگئیں، یہ توقیفی ترتیب تھی۔
٭…دوسری مرتبہ عہد صدیقی میں اسے ایک ہی مصحف میں لکھا گیا۔یہ جمع صرف کتابت تک ہی محصور رہی۔وہ اس طرح کہ ہر سورۃ کی آیات کو ایک ہی صحیفہ میں مرتب کردیا گیا۔ پھریہ تمام صحائف ایک دوسرے کے ساتھ ضم کردئے گئے اگرچہ ان میں سورتوں کی ترتیب نہ تھی۔
٭…تیسری مرتبہ عہد عثمانی میں متعدد مصاحف سے اسے ایک ہی خط عثمانی میں لکھا گیا۔ یہ کوشش مکمل قرآن کریم کو ایک ہی صحیفہ میں جمع کرنے کی تھی تاکہ آیات وسورتیں سبھی مرتب ہوجائیں۔ان ادوار میں ہراگلی کو شش ترجیحی طور پر کتابت کی تحسین تھی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عہد نبوی میں قرآن کریم کو جمع کرنے سے کیا مراد ہے؟ امام بخاری ؒنے اپنی صحیح میں تین احادیث روایت کی ہیں۔
۱۔ قتادۃؓ نے سیدنا انسؓ بن مالک سے پوچھا کہ دور نبوی ؐ میں قرآن کس نے جمع کیا؟ انہوں نے کہا : چار آدمیوں نے جو انصاری تھے؛ ابی بن کعبؓ، زید بن ثابتؓ ، معاذ بن جبل ؓ اورابوزیدؓ ۔(صحیح بخاری۲؍۴۷۸)
۲۔ انسؓ بن مالک ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب فوت ہوئے تو ان چار کے علاوہ کسی نے قرآن کریم کو جمع نہیں کیا تھا۔ ابوالدرداء، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید۔ انس کہتے ہیں: اور ہم اس کے وارث بنے ہیں۔
۳۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ۔آپ نے فرمایا: قرآن کریم کو چار افراد سے لو۔ عبد اللہ بن مسعود، سالم ، معاذ اور أبی بن کعب۔
ان احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنہوں نے قرآن کریم کو عہد نبوی میں یاد کیا تھا وہ صرف : عبد اللہ بن مسعود، سالم، معاذ بن جبل، أبی بن کعب ، زید بن ثابت ، ابوزید بن السکن اور ابو الدرداء ہیں۔مگر دوسری طرف ہم جانتے ہیں کہ صحابہ کی کثیر تعداد حفاظ کرام کی تھی۔یہ معمولی تعداد تو ان کی نہیں تھی؟۔اس کا جواب علماء نے متعدد صورتوں میں دیا ہے:
۱۔ ان احادیث سے مراد صحابہ کی گنتی کرنا نہیںبلکہ یہ نام بطور مثال کے ہیں۔ جس کے شاہد سیدنا انسؓ ہیںکہ انہوں نے حدیث میں سیدنا ابی ؓبن کعب کو اور دوسری میں ابو الدردائؓ کو ذکر کیا ہے۔اگر نام ہی شمار کرنا ہوتے تودونوں احادیث میں وہ سب کے متفقہ نام بتاتے۔
۲۔ جمع سے مراد کتابت ہے نہ کہ حفظ۔
۳۔ جمع سے مراد قرآن کریم کی تمام وجوہ قرا ء ات کا حفظ کرنا ہے۔
۴۔ جمع سے مراد پورے قرآن کریم کا رسول اکرم ﷺ سے سیکھ کرحاصل کرنا ہے۔
۵۔ یا یہ وہ صحابہ ہیں جنہوں نے خود اپنے یاد شدہ قرآن کریم کو رسول اکرم ﷺ کو سنایا اس طرح ان کی اسانید ہم تک پہنچ گئیں رہے وہ جنہوں نے حفظ تو کیا اور ان کی سند ہم تک نہ پہنچ سکی بکثرت ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
زمانہ نبوی میں قرآن کریم ایک ہی مصحف میں جمع کیوں نہ ہوسکا؟

زمانہ نبوی میں قرآن کریم ایک ہی مصحف میں جمع کیوں نہ ہوسکا؟ اس کے کئی جواب علماء نے دئیے ہیں۔
۱۔ قرآن کریم یکبارگی نہیں بلکہ تیئس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔ اس لئے بھی ایک مصحف میں جمع کرنا ممکن نہ تھا۔
۲۔آپ ﷺ نے اسے اس لئے بھی ایک ہی مصحف میںجمع نہیں فرمایا کیونکہ قرآن میں نسخ واقع ہورہا تھا اگر آپﷺ اسے جمع کردیتے پھر کچھ حصے کی تلاوت منسوخ ہوجاتی تو یہ اختلاف اور دین میںاختلاط کا سبب بنتا۔ آپ ﷺ بھی قرآن کریم کے بعض احکام یا تلاوت کے بارے میں منتظر رہتے کہ شاید کچھ منسوخ ہوجائے اس لئے بھی آپ ﷺ نے جمع نہیں کروایا۔ جب اس کا نزول مکمل ہوگیا اور زمانہ نسخ کے اختتام تک یہ قرآن سینوں میں محفوظ بھی رہا اورآپ ﷺ کی وفات ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کو اس کے جمع کرنے کا الہام کردیا۔(البرہان از زرکشی ۱؍۲۳۵)
۳۔ قرآن کریم میںآیات وسور کی ترتیب نزولی نہیں۔ اگراس وقت قرآن ایک مصحف میں جمع کردیا جاتا تو یہ ترتیب ہر نزول کے وقت ہی تبدیلی کا سامنا کرتی۔اس لئے صحابہ کرام کے مابین جب کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو وہ مکتوب قرآن کی بجائے رسول اکرم ﷺ سے ہی رجوع کرتے۔ وفات رسول اور بعض قراء صحابہ کرام کی شہادت کے بعد یہ ضرورت شدت سے محسوس کی گئی کہ ایک ہی مصحف میں قرآن جمع کرلیا جائے اور یہ سعادت سیدناابوبکر ؓ کے حصے میں آئی۔
۴۔ عہد رسول میںجو کچھ لکھا گیا اس کی کچھ تلاوت منسوخ ہوگئی تھی۔ مگر وہ آپ ﷺ کی وفات تک مکتوب صورت میں موجود رہی۔
۵۔آپ ﷺ کے عہد میں قرآن کریم مختلف پارچات پر مکتوب اور الگ الگ تھا۔ آپ ﷺ کو بھولنا بھی نہیں تھا ہاں یہ امکان آپ کی وفات کے بعد دوسروں سے تھا۔ اس لئے آپ ﷺ کی وفات کے بعد اسے ایک ہی مصحف میں لکھنے کی صحابہ کرام نے جلد از جلد کوشش کی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اہم نکتہ:

اہم نکتہ: عراقی یہودی مسٹر داؤد نے انگریزی زبان کا ترجمہ قرآن شائع کر کے مقدمہ میں لکھا : یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ بڑی او رلمبی سورتیں پہلے اور چھوٹی سورتیں بعد میں ہیں۔ حالانکہ ترتیب اس کے برعکس ہونی چاہیے تھی تاکہ قاری کے لئے آسانی ہوتی۔چنانچہ اس نے قاری قرآن کو الجھن میں ڈالنے کے لئے اپنے ترجمے میں قرآنی سورتوں کی ترتیب الٹ دی ہے۔ ایسے دانشوروں کاایک مشورہ یہ بھی ہے کہ قرآن مجید میں جہاں ایک ہی واقعہ کو بارہا بیان کیا گیا ہے اس سے یہ تکرار نکال دی جائے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے کتاب اللہ کو کلام اللہ کہنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کی تصنیف ہی سمجھنے کی ٹھانی ہوئی ہوتو وہ اپنے حسداوربغض بھری عداوت کا اظہار کسی طرح تو کریں گے؟ ۔حالانکہ قرآن کی یہ توقیفی ترتیب جو اللہ کے حکم سے رسول اکرم ﷺ نے فرمائی اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جن کا اظہار وقتاً فوقتاً شائع ہونے والی ہر نئی تفسیر میں ہوتا آیا ہے۔ اس میں ایک حسن ہے یہ باہم گتھی ہوئی مرتب سورتیں ہیں۔ واقعات ومدعا کا تکرار اپنے مقام پر خاص اہمیت رکھتا ہے۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں ۔ کیا اس کوشش سے قرآن کے حسن ، ترتیب اور اس میں پوشیدہ بے شمار حکمتوں کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ {وَ اللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ} (الصف:۸) اور اللہ تعالیٰ پورا کرنے والے ہیں اپنے نور کو خواہ مشرک اسے کتنا ہی ناپسند کریں۔
 
Top