• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نقطے اور اعراب(Vocalization):

نقطے اور اعراب(Vocalization): مصاحف عثمانی، نقاط اور اعراب سے خالی تھے کیونکہ نبی اکرم ﷺ کے مدون (Recorded) قرآن میں بھی نقاط تھے نہ اعراب۔شہادت عثمانؓ کے عرصہ بعد تک بھی لوگ ان مصاحف سے صحیح تلاوت لیتے اور سنتے رہے۔ عرب اہل زبان تھے اور ماہر قراء سے تلاوت سیکھتے بھی ، اس لئے انہیں کوئی ایسی مشکل پیش نہ آئی کہ وہ اعرابی غلطیاں کرتے۔ مشکل عجمی مسلمانوں کی تھی جوصحیح عربی الفاظ سے ناآشنا (Unfamiliar)ہونے اور نقطے واعراب کی غیر موجودگی کی وجہ سے بڑی بڑی غلطیاں کرتے۔ان حالات میں یہ ضرورت شدت سے محسوس کی گئی کہ قرآن میں اعراب لگائے جائیں۔ اعراب تو لگ گئے مگر کس نے لگائے؟علماء میں یہ اختلاف ہے کہ یہ کارنامہ کس نے سر انجام دیا۔ علماء تین حضرات کے نام لیتے ہیں جو ابو الاسود دؤلی، یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم اللیثی کے ہیں۔ زیادہ مشہور یہی ہے کہ ابو الاسود الدؤلی نے یہ کار خیر سرانجام دیا۔امام زرکشیؒ لکھتے ہیں:
مصحف پر سب سے پہلے اعراب ابو الاسود الدؤلی نے لگائے۔ بعض علماء کے خیال میںانہوں نے یہ کام عبد الملک بن مروان کے حکم سے کیا۔ جس کا سبب یہ واقعہ بنا کہ ایک بار ابو الاسود الدؤلی نے قاری قرآن سے سنا کہ وہ یہ آیت {۔۔۔إنَّ اللہ بَرِیْٓءٌ مّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہٗ۔۔۔} )التوبۃ:۳) میں لفظ رسولُہ کو رسولِہ یعنی لام کو بجائے پیش کے زیر سے پڑھ رہا ہے ۔جس سے معنی ہی بدل گیا۔ابو الاسود کو بہت تکلیف ہوئی اور کہا ’’خدا کی ذات اس سے پاک ہے کہ وہ اپنے رسول ﷺ سے بیزار ہو۔‘‘ بصرہ کے والی زیاد بن ابیہ نے انہیں پہلے ہی فرمائش کی ہوئی تھی کہ آپ قرآن مجید کے اعراب لگائیں۔ چنانچہ وہ اس کام میں لگ گئے اور کاتب سے کہا: جب تم مجھے دیکھو کہ میں اپنے ہونٹ کسی حرف کے لئے اوپر کی جانب کھولتا ہوں تو اس حرف کے اوپر ایک نقطہ لگا دو اور اگر میںنے دونوں ہونٹوں کو باہم ملا دیا ہے تو پھر حرف کے آگے نقطہ لگادو۔ اگر میں نے نیچے کی طرف اسے موڑا ہے تو اس کے نیچے نقطہ لگا دو۔ اس طرح وہ اس کام کو مکمل کرنے کے بعد زیاد کے پاس گئے اورکہا کہ’’میں نے حکم کی تعمیل کر دی۔‘‘ (کتاب النقط: ۱۲۴)
بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ ابو الاسود نے خلیفہ عبد الملک کے حکم سے قرآن پر حرکات لگائیں۔ ابتداء میں وہ حرکات جو ابولاسود الدؤلی نے وضع کیں وہ اس طرح کی نہ تھیں جیسی آج کل معروف ہیں ۔ بلکہ زبر کے لئے حرف کے اوپر، زیر کے لئے نیچے اورپیش کے لئے حرف کے سامنے ایک نقطہ مقرر کیا گیا۔ جبکہ سکون کی علامت دو نقطے تھی۔
(مناہل العرفان از زرقانی ۱؍۴۰۱)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تحسین حروف کی کوشش:

تحسین حروف کی کوشش: عجمی مسلمانوں کوقرآن سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی قراءت میں جہاں اعرابی غلطیاںہوئیں وہاں حروف کی پہچان میں زبردست غلطیاں ہونے لگیں۔ صاد کو ضاد، اور عین کو غین یا دال کو ذال کی جگہ پڑھا جانے لگا ۔اسی طرح فتحہ، ضمہ اور کسرہ بھی اپنی مقداریکساں نہ رکھ سکا۔ مسلمان علماء نے ان غلطیوں کے ازالے کے لئے یہ قدم اٹھایا کہ اب رسم قرآنی میں حروف کی تحسین کا کام کریں یہ کام اس کام سے مختلف تھا جو ابوالاسود دؤلی نے سرانجام دیا تھا۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کے حکم سے ابوالاسود کے شاگرد نصر بن عاصم نے اس کی ابتداء کی۔ انہوں نے کچھ ایسی علامات وضع کیں جن سے مشابہ حروف ایک دوسرے سے ممتاز ہوجائیں۔ چنانچہ جو علامات، حرف پر نقطوں کی تھیں انہیں دوسری علامات کے ذریعے بدل دیا تاکہ ایک ہی لفظ یا حرف پر بہت سے نقطے قراءت کو مشکل نہ بنادیں۔ یعنی اعراب کی علامات کو انہوں نے فتحہ، ضمہ اور کسرہ میں بدل دیا اور حروف کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے نقطوں کا استعمال کرکے انہیں ایک دوسرے سے نکھار دیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ابو الأسود الدؤلی کے ساتھ ان کے شاگرد یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم اللیثی بھی اس میں شریک تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ابوالاسود الدؤلی نے نقطوں سے حرکات وضع کیں۔ بعد میں حجاج بن یوسف نے یحییٰ بن یعمر، نصر بن عاصم اور حسن بصری سے بیک وقت قرآن پر نقاط اور اعراب لگانے کی فرمائش کی۔ چنانچہ ان علماء نے نقطوں سمیت ان حرکات کو متعارف کرایا جو آج ضمہ، فتحہ اور کسرہ کہلاتے ہیں۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی ۱؍۱۱۳)
کتابت میں آیات کی تقسیم کے لئے صحابہ کرامؓ نے ہر آیت کی علامت مقرر کی جو آیت کے سروں پر لگائی جاتی تھی۔ یہ علامت تین نقطے(.کی تھی۔(الاتقان ۱؍۱۱۶)کتابت میں جب نکھارآیا تو ابو الاسود الدؤلی نے آیت کا نشان گول دائرہ (¡)مقرر کردیا۔تھوڑا عرصہ بعد امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی نے ہمزہ، شد، روم اور اشمام کی علامات قرآنی کتابت میں ڈال کر اس میں مزید خوبصورتی اور آسانی پیدا کردی۔رسم قرآنی کے ضبط کو مزید بہتر بنانے کے لئے یہ کوششیں ہمارے زمانے تک ہوئی ہیں جن میں آیات کی تعداد سمیت ہرسورت کا نام کتاب اللہ میں لکھا گیا،آیات میں رموز کا استعمال ،قراءت میں مزید یکسوئی اور بامقصد بنانے کے لئے کیا گیا، معانی کو نکھارنے اور اجاگر کرنے کے لئے علامات وقف بنائی گئیں، مختلف رنگوں والا مجود مصحف وجود میں آیا تاکہ تجوید کوبآسانی سمجھا جاسکے اور الفاظ کی ادائیگی صحیح مخارج کے ساتھ ہوسکے۔
الحمد للہ آپ ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد یہ قرآن، کتابت واداء کے محاسن کے ساتھ اور دوسری مرتبہ آپ ﷺ کی وفات کے صرف پینتالیس سال بعد یہ اپنے تمام تر محاسن کو لئے امت کے ہاتھ میں تھا۔ جس میں اعرابی اور حرفی وضاحت تھی اور دیگر بے شمار محاسن بھی۔ اس کوشش میں مسلمان حتی الامکان کامیاب ہوئے ۔ نحو وصرف کے تمام تر قواعد بھی قرآن سے سچی لگن اور محبت کے سبب لکھے گئے۔ نیز تفاسیر، قرآنی لغات ومترادفات اورمختلف زبانوں میںا س کے لفظی ترجمے پر مشتمل سینکڑوں کتب اس میں غور وتدبر کا معمولی حق ہیں جو فرض سمجھ کر لکھی گئیں۔ سینکڑوں قراء حضرات کی مسحور کن آوازوں میںC.D's ہینڈی پن مین ، IPOD نیز انٹر نیٹ پر موجود ان کی تجوید واحکام تلاوت (قلقلہ، إشمام، إخفاء، ادغام، إقلاب اور اظہار وغیرہ)کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو مختلف قرائتیں دستیاب ہیں جو بچوں ، بچیوں ، نوجوانوں اور بوڑھوں تک کو قرآن مجید کی اس نغماتی کیفیت کو اپنانے پر ابھارتی ہیں اور حفظ قرآن میں مدد دیتی ہیں۔ یونیورسٹیوں، اداروں اور معاہد میں قرآنی علوم پر ہونے والی ریسرچ اورکتب حدیث و فقہ جیسے اسلامی علوم وغیرہ دیکھ کر اورپڑھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن مجید کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی اور سچی عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم:

معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم: معنوی اعتبار سے قرآن ،آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے۔اور تلاوت کے اعتبار سے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مثلًااحزاب ،رکوع،سیپارے،اخماس،اعشار وغیرہ۔ یہ تقسیم ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کی کوئی اور کتاب اس کے ہم پلہ نہیں۔جاحظ کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا ایسا نام رکھا ہے جو عربوں کے کلام سے مختلف ہے۔اپنے سارے کلام کو اس نے قرآن کہا جیسے انہوں نے دیوان کہا۔اس کی سورتیں قصیدہ کی مانند ہیں اور آیت بیت کی طرح اور اس کا آخر قافیہ سے ملتا جلتا ہے۔
قرآن پاک کی اکائی آیت ہے۔ جس کا مطلب ہے نشانی۔ آیتوں سے مل کر سورتیں بنتی ہیں۔ سورت کے معنی فصیل (Boundry Wall) کے ہیں۔ آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اورتقسیم کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ترتیب و تقسیم توقیفی ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ترتیب اجتہادی ہے۔ ان میں سے پہلی رائے زیادہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس کے دلائل بھی زیادہ قوی ہیںجو درج ذیل ہیں۔
l وہ احادیث جو سورتوں کے فضائل سے متعلق ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سورتیں عہد نبوی ﷺ میں مرتب ہو چکی تھیں۔ مثلًا ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’جو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۸۸۱، حسن، صحیح)
l وہ احادیث جو کتابت قرآن سے متعلق ہیں وہ بھی آیات و سورتوں کی ترتیب توقیفی کی دلیل ہیں۔ مثلًا سیدنا عثمان ؓ فرماتے ہیں: آپﷺ وحی نازل ہونے کے بعد کاتبین وحی کو بلواتے اور فرماتے کہ ان آیتوں کو اس سورت میں اس جگہ پر رکھو جہاں اِن باتوں کا ذکر ہے۔(سنن ترمذی)
l احادیث میں اگر کہیں سورتوں کی تلاوت کا غیر مرتب ذکر ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سورتوں کی تلاوت میں ترتیب واجب نہیں بلکہ آگے پیچھے کی جا سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے۔ ان دلائل کے علاوہ ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ موجودہ ترتیب میں لفظ حم ایسی سورتوں کے شروع میں ہے جو یکے بعد دیگرے آتی ہیں۔لیکن ’’مسبحات‘‘(سبح سے شروع ہونے والی سورتیں)میں ایسی ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ سورتیں الگ الگ مقامات پر آتی ہیں۔ اگر ترتیب آیات و سور اجتہادی ہوتیں تو حمکی طرح ’’مسبحات‘‘ کو بھی ایک دوسرے کے بعدجمع کر دیا جاتا۔
l علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کو بین دفتین ( دو گتوں کے درمیان) عہد صدیقی میں جمع کیا۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی نہیں کی ۔ اس کو بالکل ویسا ہی لکھا جیسا انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا یعنی ترتیب میں بھی کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں کی۔ ان کے بعد تابعین نے بھی اس ترتیب کو یاد کیا، لکھا اورنسلًا بعد نسل آج بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے۔(الاتقان:۷۱)
l یہ ترتیب حفظ قرآن کے لئے آسان اور شوق دلانے والی ہے۔ ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور مقاصد ہیں۔ لمبی سورت ہونا اس کے معجزانہ ہونے کی شرط نہیں۔ سورۃ الکوثر بھی تو معجز ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
احزاب یا منازل :

احزاب یا منازل : صحابہؓ کا معمول تھا کہ تہجدمیں قرآن کی تلاوت کیا کرتے اور ہفتہ میں ایک بارقرآن ختم کیا کرتے ۔ اس مقصد کے لئے ان کی روزمرہ تلاوت کی ایک مقدار مقرر تھی۔ جسے’’حزب ‘‘یا ’’منزل‘‘کہا جاتا تھا۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قرآن پاک میں احزاب کی تقسیم خود نبی اکرم ﷺ نے کی تھی۔(تاریخ القرآن از پروفیسر عبد الصمدؒ صارم: ۱۰۳) سیدنا اوس بن حذیفہ ؓ فرماتے ہیں: میں نے صحابہؓ سے پوچھا کہ آپ نے قرآن کے کتنے حزب بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ایک حزب تین سورتوں کا، دوسرا پانچ کا، تیسرا سات کا ، چوتھا نو کا، پانچواں گیارہ کا ، چھٹا تیرہ کا ، اور آخری حزب مفصل سورہ ق سے لے کر آخر تک کا۔(البرہان ۱؍۲۳۷) زرکشیؒ لکھتے ہیں اگر ہم ۳، ۵، ۷، ۹، ۱۱، ۱۳ کو جمع کریں تو کل ۴۸ بنتے ہیں۔ اور اڑتالیس سورتوں کے بعد سورہ ق شروع ہوتی ہے۔ امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں: اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب عہد نبوی میں بھی وہی تھی جو آج ہے۔(فتح الباری ۹؍۴۲)
نیز یہی تقسیم سیدناعثمان ذو النورینؓ کے مصحف میں ان کی ہفتہ وار تلاوت کے نشانات سے بھی ملتی ہے۔ جناب ذوالنورین رضی اللہ عنہ ہفتہ میں ایک بار سارے قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ان سات احزاب کی تقسیم اس طرح کی تھی۔
پہلی منزل سورہ الفاتحہ سے سورہ النساء تک
دوسری منزل سورہ المائدہ سے سورہ التوبہ تک
تیسری منزل سورہ یونس سے سورہ النحل تک
چوتھی منزل سورہ بنواسرائیل سے سورہ الفرقان تک
پانچویں منزل سورہ الشعرآء سے سورہ یٰسٓ تک
چھٹی منزل سورہ الصٰافآت سے سورہ الحجرات تک
ساتویں منزل سورہ ق سے سورہ الناس تک
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تحسین حروف کی کوشش:

تحسین حروف کی کوشش: عجمی مسلمانوں کوقرآن سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی قراءت میں جہاں اعرابی غلطیاںہوئیں وہاں حروف کی پہچان میں زبردست غلطیاں ہونے لگیں۔ صاد کو ضاد، اور عین کو غین یا دال کو ذال کی جگہ پڑھا جانے لگا ۔اسی طرح فتحہ، ضمہ اور کسرہ بھی اپنی مقداریکساں نہ رکھ سکا۔ مسلمان علماء نے ان غلطیوں کے ازالے کے لئے یہ قدم اٹھایا کہ اب رسم قرآنی میں حروف کی تحسین کا کام کریں یہ کام اس کام سے مختلف تھا جو ابوالاسود دؤلی نے سرانجام دیا تھا۔ چنانچہ حجاج بن یوسف کے حکم سے ابوالاسود کے شاگرد نصر بن عاصم نے اس کی ابتداء کی۔ انہوں نے کچھ ایسی علامات وضع کیں جن سے مشابہ حروف ایک دوسرے سے ممتاز ہوجائیں۔ چنانچہ جو علامات، حرف پر نقطوں کی تھیں انہیں دوسری علامات کے ذریعے بدل دیا تاکہ ایک ہی لفظ یا حرف پر بہت سے نقطے قراءت کو مشکل نہ بنادیں۔ یعنی اعراب کی علامات کو انہوں نے فتحہ، ضمہ اور کسرہ میں بدل دیا اور حروف کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے نقطوں کا استعمال کرکے انہیں ایک دوسرے سے نکھار دیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ابو الأسود الدؤلی کے ساتھ ان کے شاگرد یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم اللیثی بھی اس میں شریک تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ابتداء میں ابوالاسود الدؤلی نے نقطوں سے حرکات وضع کیں۔ بعد میں حجاج بن یوسف نے یحییٰ بن یعمر، نصر بن عاصم اور حسن بصری سے بیک وقت قرآن پر نقاط اور اعراب لگانے کی فرمائش کی۔ چنانچہ ان علماء نے نقطوں سمیت ان حرکات کو متعارف کرایا جو آج ضمہ، فتحہ اور کسرہ کہلاتے ہیں۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی ۱؍۱۱۳)
کتابت میں آیات کی تقسیم کے لئے صحابہ کرامؓ نے ہر آیت کی علامت مقرر کی جو آیت کے سروں پر لگائی جاتی تھی۔ یہ علامت تین نقطے(.کی تھی۔(الاتقان ۱؍۱۱۶)کتابت میں جب نکھارآیا تو ابو الاسود الدؤلی نے آیت کا نشان گول دائرہ (¡)مقرر کردیا۔تھوڑا عرصہ بعد امام لغت خلیل بن احمد فراہیدی نے ہمزہ، شد، روم اور اشمام کی علامات قرآنی کتابت میں ڈال کر اس میں مزید خوبصورتی اور آسانی پیدا کردی۔رسم قرآنی کے ضبط کو مزید بہتر بنانے کے لئے یہ کوششیں ہمارے زمانے تک ہوئی ہیں جن میں آیات کی تعداد سمیت ہرسورت کا نام کتاب اللہ میں لکھا گیا،آیات میں رموز کا استعمال ،قراءت میں مزید یکسوئی اور بامقصد بنانے کے لئے کیا گیا، معانی کو نکھارنے اور اجاگر کرنے کے لئے علامات وقف بنائی گئیں، مختلف رنگوں والا مجود مصحف وجود میں آیا تاکہ تجوید کوبآسانی سمجھا جاسکے اور الفاظ کی ادائیگی صحیح مخارج کے ساتھ ہوسکے۔
الحمد للہ آپ ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد یہ قرآن، کتابت واداء کے محاسن کے ساتھ اور دوسری مرتبہ آپ ﷺ کی وفات کے صرف پینتالیس سال بعد یہ اپنے تمام تر محاسن کو لئے امت کے ہاتھ میں تھا۔ جس میں اعرابی اور حرفی وضاحت تھی اور دیگر بے شمار محاسن بھی۔ اس کوشش میں مسلمان حتی الامکان کامیاب ہوئے ۔ نحو وصرف کے تمام تر قواعد بھی قرآن سے سچی لگن اور محبت کے سبب لکھے گئے۔نیز تفاسیر، قرآنی لغات ومترادفات اورمختلف زبانوں میںا س کے لفظی ترجمے پر مشتمل سینکڑوں کتب اس میں غور وتدبر کا معمولی حق ہیں جو فرض سمجھ کر لکھی گئیں۔ سینکڑوں قراء حضرات کی مسحور کن آوازوں میںC.D's ہینڈی پن مین ، IPOD نیز انٹر نیٹ پر موجود ان کی تجوید واحکام تلاوت (قلقلہ، إشمام، إخفاء، ادغام، إقلاب اور اظہار وغیرہ)کے ساتھ آڈیو اور ویڈیو مختلف قرائتیں دستیاب ہیں جو بچوں ، بچیوں ، نوجوانوں اور بوڑھوں تک کو قرآن مجید کی اس نغماتی کیفیت کو اپنانے پر ابھارتی ہیں اور حفظ قرآن میں مدد دیتی ہیں۔ یونیورسٹیوں، اداروں اور معاہد میں قرآنی علوم پر ہونے والی ریسرچ اورکتب حدیث و فقہ جیسے اسلامی علوم وغیرہ دیکھ کر اورپڑھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن مجید کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی اور سچی عقیدت کا ثبوت دیا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم:

معنی اور تلاوت کے اعتبار سے تقسیم: معنوی اعتبار سے قرآن ،آیات اور سورتوں پر مشتمل ہے۔اور تلاوت کے اعتبار سے اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مثلًااحزاب ،رکوع،سیپارے،اخماس،اعشار وغیرہ۔ یہ تقسیم ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کی کوئی اور کتاب اس کے ہم پلہ نہیں۔جاحظ کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا ایسا نام رکھا ہے جو عربوں کے کلام سے مختلف ہے۔اپنے سارے کلام کو اس نے قرآن کہا جیسے انہوں نے دیوان کہا۔اس کی سورتیں قصیدہ کی مانند ہیں اور آیت بیت کی طرح اور اس کا آخر قافیہ سے ملتا جلتا ہے۔
قرآن پاک کی اکائی آیت ہے۔ جس کا مطلب ہے نشانی۔ آیتوں سے مل کر سورتیں بنتی ہیں۔ سورت کے معنی فصیل (Boundry Wall) کے ہیں۔ آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اورتقسیم کے بارے میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ترتیب و تقسیم توقیفی ہے اور دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ترتیب اجتہادی ہے۔ ان میں سے پہلی رائے زیادہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس کے دلائل بھی زیادہ قوی ہیںجو درج ذیل ہیں۔
l وہ احادیث جو سورتوں کے فضائل سے متعلق ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ سورتیں عہد نبوی ﷺ میں مرتب ہو چکی تھیں۔ مثلًا ارشاد نبویﷺ ہے کہ ’’جو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات رات کو پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔‘‘ (سنن ترمذی: ۲۸۸۱، حسن، صحیح)
l وہ احادیث جو کتابت قرآن سے متعلق ہیں وہ بھی آیات و سورتوں کی ترتیب توقیفی کی دلیل ہیں۔ مثلًا سیدنا عثمان ؓ فرماتے ہیں: آپﷺ وحی نازل ہونے کے بعد کاتبین وحی کو بلواتے اور فرماتے کہ ان آیتوں کو اس سورت میں اس جگہ پر رکھو جہاں اِن باتوں کا ذکر ہے۔(سنن ترمذی)
l احادیث میں اگر کہیں سورتوں کی تلاوت کا غیر مرتب ذکر ہے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سورتوں کی تلاوت میں ترتیب واجب نہیں بلکہ آگے پیچھے کی جا سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادی ہے۔ ان دلائل کے علاوہ ایک عقلی دلیل یہ ہے کہ موجودہ ترتیب میں لفظ حم ایسی سورتوں کے شروع میں ہے جو یکے بعد دیگرے آتی ہیں۔لیکن ’’مسبحات‘‘(سبح سے شروع ہونے والی سورتیں)میں ایسی ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ سورتیں الگ الگ مقامات پر آتی ہیں۔ اگر ترتیب آیات و سور اجتہادی ہوتیں تو حمکی طرح ’’مسبحات‘‘ کو بھی ایک دوسرے کے بعدجمع کر دیا جاتا۔
l علامہ سیوطیؒ نے لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ نے قرآن کو بین دفتین ( دو گتوں کے درمیان) عہد صدیقی میں جمع کیا۔ اس میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی نہیں کی ۔ اس کو بالکل ویسا ہی لکھا جیسا انہوں نے نبی اکرمﷺ سے سنا یعنی ترتیب میں بھی کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہیں کی۔ ان کے بعد تابعین نے بھی اس ترتیب کو یاد کیا، لکھا اورنسلًا بعد نسل آج بھی اسی طرح ہمارے پاس محفوظ ہے۔(الاتقان:۷۱)
l یہ ترتیب حفظ قرآن کے لئے آسان اور شوق دلانے والی ہے۔ ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور مقاصد ہیں۔ لمبی سورت ہونا اس کے معجزانہ ہونے کی شرط نہیں۔ سورۃ الکوثر بھی تو معجز ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اخماس اور اعشار:

اخماس اور اعشار: ابتداء میں قرآن میں اخماس اور اعشار کی علامات بھی لگائی جاتیں۔ اخماس سے مراد یہ تھی کہ ہر پانچ آیات کے بعد حاشیہ پر لفظ ’’خماس‘‘یا ’’خ‘‘لکھ دیتے تھے جبکہ ہر دس آیتوں کے بعد ’’عشر‘‘یا ’’ع‘‘لکھ دیتے تھے۔ جو رمز (Abbreviation) تھے۔(مناہل العرفان ۱؍۳ ۴۰) ایک قول کے مطابق حجاج بن یوسف ان کا اولین موجد ہے جبکہ دوسرا قول یہ ہے کہ خلیفہ مامون ان کا موجدتھا۔(البرہان ۱؍۲۵۱) ایک اور قول یہ ہے کہ صحابہؓ کے دور میں ان علامات کا وجود ملتا ہے۔مثلاً مسروقؒکہتے ہیں ’’ عبد اللہؓ بن مسعود مصحف میں اعشار کے نشان کو مکروہ سمجھتے تھے۔‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ۲؍۲۱۱) جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے موجد صحابہ رسول تھے۔اب یہ سب علامات عنقا ہوگئی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سورت:

سورت: اسے عربی میں تاء مربوطہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ جس کی جمع سُوَر آتی ہے۔ اس لفظ کو دو حیثیتوں سے بولا جاتا ہے:
۱۔ السُّؤْرَۃ: ہمزہ کے ساتھ۔ جو أَسْأَرَ سے مشتق ہے۔ جس کا معنی ہے: أَبْقٰی۔ باقی رہنے والا۔ السُّؤْرُ: باقی ماندہ۔ پانی جو پی کر برتن یا گلاس میں چھوڑ دیا جائے۔ اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے گویا کہ سؤرۃ بھی سارے قرآن کا بقیہ حصہ ہے اور اس کا ایک ٹکڑا ہے۔
۲۔ السُّوْرَۃ: بغیر ہمزہ کے۔اس کا معنی مقام ومرتبہ ہے یا لمبی و خوبصورت عمارت ہو جو ایک علامت ہو۔ اس اعتبار سے سورت نام پھر اس لئے ہے کہ یہ اپنے مرتبے اور مقام کے اعتبار سے اس سچائی کی علامت ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے۔اور ایک دلیل بھی ہے کہ یہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کا کلام ہے۔قلعے کی اونچٖی دیوار کو سُوْر کہتے ہیں۔ دو وجہ سے لفظ سورت اس لفظ کے مشابہ ہے:
۱۔ دیوار اونچی محسوس ہوتی ہے۔ سورت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے بھی بلند وبالا محسوس ہوتی ہے۔
۲۔دیوار کی اٹھان ایک دوسرے پر رکھی گئی اینٹوں پر ہوتی ہے۔ آیات جویکے بعد دیگرے آتی ہیں سورت کی اٹھان بھی ان پر ہوتی ہے۔
علماء قرآن کے نزدیک سورت قرآن کریم کی آیات کے اس مجموعے کو کہتے ہیں جس کا ایک مطلع یعنی آغاز ہوتا ہے اور اس کا ایک مقطع یعنی اختتام ہوتا ہے۔یہ سب ایک سو چودہ سورتیںہیں جس کا آغاز الفاتحہ سے اور اختتام الناس سے ہوتا ہے۔اکثر سورتیں ایسی ہیں جن کا ایک ہی نام ہے جیسے النسائ، الاعراف، الأنعام، مریم وغیرہ۔ مگر کچھ ایسی بھی ہیں جن کے متعدد نام ہیں۔ان میں کسی کے دو نام ہیں: جیسے: محمد، اس کا ایک نام القتال بھی ہے۔ اور الجاثیۃ اس کا دوسرا نام الشریعہ بھی ہے۔ سورۃ النحل کا دوسرا نام النِّعَم ہے اس لئے کہ اس میں متعدد نعمتوں کا ذکر ہے۔
اسی طرح سورہ المائدۃ کے دو اور نام ہیں: العُقُود، اورالمُنْقِذَۃ، سورۃ غافر کے بھی اسی طرح دو اور نام ہیں: الطَّوْل اور المُؤمِن۔
بعض سورتیں ایسی ہیں جن کے تین سے زیادہ نام ہیں: مثلاً: سورۃ التوبۃ کے یہ نام بھی ہیں: بَرَاءَۃ، الفاضِحَۃ اور الحَافِرَۃ، سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں یہ سورۃ العذاب ہے۔ ابن عمرؓ فرمایا کرتے: ہم اسے المُشَقْشِقَۃ کہا کرتے۔ اور الحارث بن یزید کہتے ہیں: اسے المُبَعْثَرَۃ ، المُسَوَّرۃ اور البَحُوث بھی کہا جاتا۔(البرہان ۱؍۵۲۱) اسی طرح سورۃ فاتحہ کے امام سیوطی ؒنے پچیس نام لکھے ہیں۔
کچھ سورتوں کا ایک ہی نام ہے: جیسے البقرۃ اور آل عمران کو الزہراوَین کہا جاتا ہے۔ اور الفلق اور الناس کو المُعَوَّذَتَیْن اور وہ پانچ سورتیں جن کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے انہیں آل حامیم یا حوامیم کہتے ہیں۔
آیت: عربی زبان میں لفظ آیت کے متعدد معانی ہیں۔معجزہ، علامت اور عبرت کے معنی میں بھی آیت کا لفظ قرآن کریم میں مستعمل ہوا ہے۔برہان اور دلیل کے معنی بھی یہ لفظ دیتا ہے۔ اسی طرح لفظ آیت حیران کن معاملے کے لئے بھی ہے جیسے: فُلانٌ آیَۃٌ فِی الْعِلْمِ وَفِی الْجَمَالِ۔ فلان شخص علم میں یا جمال میں ایک آیت ہے مراد یہ کہ اس کا علم یا جمال حیران کن ہے۔ اسی طرح لفظ آیت: جماعت کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے عرب کہا کرتے ہیں: خَرَجَ الْقَوْمُ بِآیَتِہِمْ۔ لوگ اپنی آیت یعنی جماعت سمیت نکل آئے۔
اصطلاح میں الفاظ وحروف کا وہ مجموعہ جس کا مطلع یعنی آغاز اور مقطع یعنی اختتام قرآن کریم کی کسی سورت میں درج ہو۔یعنی قرآن کریم کی سورت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جس کا اپنا آغاز ہے اور اپنی انتہاء بھی۔اور ہر آیت، اگلی وپچھلی آیت سے گہرا تعلق بھی رکھتی ہے۔قرآن مجید میں کل چھ ہزار دو سو آیات ہیں ۔ علماء کا ان کی تعداد میں اختلاف وقف کا ہے یعنی محض دو آیتوں کو ایک سمجھنے یا ہر آیت کو الگ الگ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔آیات قرآنیہ کی ترتیب توقیفی ہے۔جبریل امین نے جس طرح آپ ﷺ کے قلب اطہر پر اتاریں اسی ترتیب سے آپ ﷺ نے انہیں اپنی نمازوں اور خطبوں میں پڑھا۔یہی ترتیب ملحوظ رکھنا فرض ہے۔ آیت کی ابتداء اور انتہاء کے بارے میں آگاہی بھی آپ ﷺ ہی نے دی ہے۔مثلًا سورہ فاتحہ کو آپ نے سبع مثانی فرمایا۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تحدید بھی آپ نے فرمائی چنانچہ آپ نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ بِالْآیَتَیْنِ مِنْ آخِرِسُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ فِیْ لَیْلَۃٍ کَفَتَاہُ۔ جس نے رات کو سورہ بقرہ کی آخری دو آیتوں کی تلاوت کی وہ اسے کافی ہوں گی۔ (متفق علیہ)اوریہ بھی فرمایا: تَکْفِیْکَ آیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِیْ فِیْ آخِرِ سُوْرَۃِ النِّسَائِ۔تمہیں آیت صیف ہی کا فی ہوگی جو سورہ نساء کے آخر میں ہے۔(مسند احمد۱؍۲۶) اسی طرح بعض علماء نے ہرسورہ کے شروع میں حروف مقطعات کو بھی آیت شمار کیا ہے۔ سوائے حم عسق کے اسے کوفی علماء نے دو آیتیں قرار دیا ہے اور طس، یس، الر اور المر کو بھی آیت شمار کیا ہے مگر صرف ایک حرف یعنی ق، ن، ص کو آیت شمار نہیں کیا۔ علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر آیت پر وقف سنت ہے جس کی اتباع ضروری ہے۔ آیات کے اعتبار سے قرآن کریم کی عین درمیانی آیت سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۴۵ ہے جو {یأفکون}پر ختم ہوتی ہے۔ کلمات کے اعتبار سے نصف سورہ الحج کی آیت نمبر ۲۰ میں {والجلود} اور اس کے بعد باقی نصف آخر تک۔ حروف کے اعتبار سے سورہ الکہف میں لفظ {نکراً} میں نون اور اس کا کاف اگلے نصف ثانی کے لئے شروع ہوتا ہے۔یہ بھی ایک رائے ہے کہ {تستطیع}کی عین نصف ہے اور دوسری یہ بھی {ولیتلطف} میں دوسری لام بھی عین نصف ہے۔اسی طرح آیت دلیل، برہان اور معجزہ کو بھی کہتے ہیں اس لئے اس میں حیران کن احکام، عقائد اور تنبیہ ودروس ہوتے ہیں۔ اور اپنی بلاغت وفصاحت میں بھی منفرد ہوتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
رکوع

رکوع: رکوع کی علامت ’’ع‘‘ ہے جو حاشیہ پر لکھی جاتی ہے۔ رکوع کی علامت کا آغاز دور صحابہؓ کے بعد ہوا۔ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم حجاج بن یوسف نے کی۔ یہ علامت اس جگہ لگائی گئی جہاں سلسلہ کلام ختم ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ معنی کو بھی مدنظر رکھاگیا۔ لہٰذایہ تقسیم بہت حد تک صحیح ہے۔ اس علامت کا مقصد آیات کی ایسی مقدار کا تعین تھا جو نماز کی ایک رکعت میں پڑھی جاسکے۔ اسی لئے اس کو رکوع کانام دیا گیا کہ وہ مقام جہاں نماز میں قراء ت ختم کر کے رکوع کیا جائے۔اس کا تعلق نماز تراویح سے نہ تھا بلکہ بعد میں یہ بات مشایخ کے اپنے اجتہاد و فعل کی طرف منسوب کی گئی۔ فتاوٰی عالمگیریہ میں یہ تحریر ملتی ہے : مشایخ احناف نے قرآن کو پانچ سو چالیس رکوع میں تقسیم کیا ہے اور مصاحف میں اس کی علامات بنادی ہیں تاکہ تراویح میں ستائیسویں شب کو قرآن ختم ہو سکے۔ (فتاویٰ عالم گیری : فصل التراویح: ۹۴) بعدمیں بعض خوش نویسوں نے طویل رکوعوں کی مزید تقسیم کر دی اور ۵۴۰ کی بجائے ۵۵۸ رکوع کے نشان بنا دیے اور طلبہ کی آسانی کے لئے پاک وہند میں شائع ہونے والے قرآن کریم میں ہر رکوع پر مخصوص نمبر لگادئے۔ ع، رکوع کا مخفف ہے اس کے اوپر لکھے ہوئے عدد کا مطلب ہے کہ یہ اس سورہ کا رکوع نمبرہے اور درمیان میں لکھے گئے عدد سے مراد اس رکوع کی کل آیات ہیں اور سب سے نیچے لکھے ہوئے عدد سے مراد اس پارے کے رکوع کا نمبر ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سپارے

سپارے: قرآن کی ایک اور تقسیم پاروں کے اعتبار سے بھی کی گئی۔ یہ تقسیم کس نے کی، نام متعین نہیں ہوسکا۔ لیکن یہ تقسیم ایسی عجیب سی ہے جس میں معنی او رسلسلہ کلام کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارہ بالکل ادھوری بات پر ختم ہو جاتا ہے۔اس لئے یہ تقسیم پسند نہیں کی گئی۔ ایک رائے کے مطابق یہ تقسیم بچوں کو قرآن پڑھانے میں آسانی کے لئے کی گئی۔ علامہ بدرالدین زرکشیؒ کا کہنا ہے: قرآن پاک کے تیس پارے جو مشہور چلے آرہے ہیں مدارس کے نسخوں میں انہی کارواج ہے۔(البرہان ۱؍۲۵۰) جبکہ ایک اور رائے کے مطابق یہ تقسیم اس لئے کی گئی کہ قرآن، مہینہ میں ختم کیا جا سکے۔ اس رائے کی بنیاد ایک حدیث پر ہے کہ نبی ﷺ نے سیدناعبداللہ بن عمرؓ وسے فرمایا:
"قرآن ایک مہینے میں ختم کیا کر و اور جب انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا کہ اچھا تو پھر ایک ہفتہ میں قرآن ختم کیا کرو"۔
بہر حال یہ تقسیم بھی تعداد میں آیتوں کی گنتی کر کے بنائی گئی ہے جو غیر منطقی ہے اس میں پھرمناسب تبدیلی کی گئی۔ ہر پارہ کو تقریباً دوبرابر حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اور پھر چار حصوںمیں -جو ربع اور نصف سے معروف ہیں۔ مجمع الملک فہد سے شائع ہونے والے قرآن مجید میں یہی ترتیب سیپارہ بہتر کردی گئی ہے ۔ ہر آدھے پارے کو حزب قرار دیا گیا ہے۔ ابتداء سے انتہاء قرآن کریم تک ان احزاب کو مسلسل اور ترتیب وار شمار کیا گیا ہے اور پھر ہر حزب کو چار حصوں میں تقسیم کرکے آسانی کردی گئی ہے۔
 
Top