• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جمع قرآن اور اس کی تدوین

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
طباعت قرآن:

طباعت قرآن: ابتداء میں جب تک پریس ایجاد نہ ہوا تھا۔ قرآن کریم کے تمام نسخے قلم سے لکھے جاتے تھے۔ پریس ایجاد ہونے کے بعد سب سے پہلے سن ۱۵۳۰ء میں اٹلی کے شہر’’البندقیة‘‘ میںقرآن طبع ہو امگر کلیسا اسے برداشت نہ کر سکا اور اسے ضائع کرنے کا حکم دیا۔ پھر ۱۶۹۷ء اور۱۶۹۸ء میں جرمنی اور اٹلی کے مستشرقین نے قرآن چھپوائے لیکن انہیں مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ صحیح مصدقہ قرآنی طباعت سب سے پہلے مولائی عثمان نے روس کے شہر سینٹ پٹیرس برگ میں ۱۷۸۷ء میں کی۔ اسی طرح قازان میں بھی قرآن کو طبع کیا گیا۔ ۱۸۲۸ ء میں ایران کے شہر تہران میں پتھر پر قرآن چھاپا گیا۔ اس کے بعد ہندوستان میں کئی بار قرآن مجید شائع ہوا۔ ۱۸۷۷ء میں ترکی کے شہر آستانہ (استنبول) میں طباعت قرآن ہوئی۔ ۱۹۲۳ء میں شیخ الازہر کی زیر سرپرستی قرآن کا ایک حسین و جمیل نسخہ شائع کیا گیا۔ جسے تمام اسلامی دنیا میں بہت شہر ت او رقبولیت حاصل ہوئی۔ اور لاکھوں نسخے ہر سال شائع کر کے اطراف عالم میں بھیجے جاتے رہے۔ مشرق و مغرب کے تمام علماء اس بات پر متفق تھے کہ اس نسخے کی طباعت و کتابت ہر لحاظ سے مکمل اور معیاری ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مصحف مرتل:

مصحف مرتل: قرآن کریم کو ترتیل سے تلاوت کرکے ریکارڈنگ کرنے کا یہ منصوبہ ،استاذ لبیب سعید کی سربراہی میں ۱۴؍ رمضان ۱۳۷۹ھ کو قاہرہ میں پہلے اجلاس میں طے ہوا۔تاکہ لوگوں کو قراءت قرآن کے صحیح نطق کی تعلیم ہو اور صحیح تلفظ کان میں پڑے۔اور شاذ قرائتوں سے چھٹکارا ملے۔ چنانچہ محرم ۱۳۸۱ھ میں شیخ محمود الحصری کی آواز میںقرآن کریم کی قراءت بروایت حفص عن عاصم مکمل ہوئی اور ۱۳۸۲ ھ میں ابوعمرو کی قراءت بروایت دوری مکمل ہوئی۔چند دیگرقراء حضرات کی مختلف روایتوں سے بھی ریکارڈنگ ہوئی تھی مگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے بغیر توقف کا شکار ہوگیا۔اس ریکارڈنگ کو مصحف مرتل کہتے ہیں۔
مصاحف مرتلہ ترتیل صحیح کی ایک ممتاز صوتی صورت ہے اس لئے جہاں معلم قرآن نہ ہو یا علاقے دور دراز کے ہوں وہاں تحفیظ قرآن کریم کے لئے اور اس کی تعلیم کے لئے یہ ریکارڈنگ بہت ہی مفید ہے۔ہمارے دور میں سعودی عرب میں مدینہ منورہ کا مجمع الملک فہد صفر سن ۱۴۰۵ھ سے طباعت قرآن کا ایک تاریخی کردار اد ا کررہا ہے۔ تیس ملین قرآنی نسخوں کی سالانہ خوبصورت طباعت، عمدہ کاغذ وتجلید او رپھر دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے تراجم نیز قراء حضرات کی مرتل ریکارڈنگ او ر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ پھراس کی مفت تقسیم واقعی ایک قابل قدر کارنامہ ہے جو دنیائے اسلام میں اور پوری دنیا میں اللہ کے اس پیغام کو عام کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ سب قرآن مجید کی حفاظت کے الٰہی سامان ہیں جو تاابد رکھنے کے کئے جارہے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
متفقہ رائے:

متفقہ رائے: ہر دور کے علماء کی یہ متفقہ رائے رہی ہے کہ مرتب مصحف کے مطابق ہی تلاوت ہونی چاہئے یعنی ایک آیت کے بعد دوسری آیت یا ایک سورت کے بعد دوسری سورت تلاوت کرنی چاہئے۔یادبھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔نیز کتابت بھی اسی ترتیب سے ہونی چاہئے۔ مستقبل کی ضروریات مد نظر رکھتے ہوئے قرآن مجید کی توقیفی ترتیب تین اقسام میں مقررکی گئی۔
۱۔ ہر آیت کا ہر کلمہ تقدیم وتاخیر کے بغیر اپنے مقام پر ہو۔ اسی نص پر اجماع ہے۔ کوئی ایسا عالم یا گروہ نہیں جو للہ الحمد رب العالمین پڑھتا ہو بلکہ سبھی{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ } پڑھنے کے ہی قائل ہیں۔
۲۔ آیت کی ایسی ترتیب کہ ہر آیت سورۃ میں اپنے ہی مقام پر ہو۔ یہ بھی نص اور اجماع سے ثابت ہے راجح قول یہی ہے کہ ایسا کرنا واجب ہے۔ اس سے اختلاف کرنا حرام ہیں ایسی تلاوت بھی غلط ہوگی:{الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ} کی بجائے مالک یوم الدین الرحمن الرحیم پڑھا جائے۔
عبد اللہ بن زبیرؓ نے امیر المومنین عثمان ؓسے عرض کی کہ آیت {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًاج صلے وَّصِیَّۃً لِّاَزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍج }کو اس آیت نے منسوخ کیا ہے {وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ} اور یہ آیت وصیت والی آیت سے تلاوت میں پہلے ہے تو آپ اسے بعد میں کیوں لکھ رہے ہیں؟ سیدنا عثمانؓ نے فرمایا: میرے بھتیجے! میں اس قرآن کی کسی آیت کو اس کی جگہ سے بدل نہیں سکتا۔
(صحیح بخاری : ۴۵۳۰)
اسی طرح مسند احمد(حدیث نمبر۳۹۹) ، سنن ابی داؤد(۷۸۶)، سنن نسائی(۸۰۰۷) وسنن ترمذی(۳۰۸۶) میںسیدناعثمان ؓ سے ایک روایت ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ پرجب مختلف سورتیں نازل ہوتیں تو آپ ﷺ نزول کے بعد کسی کاتب کو بلوا بھیجتے پھر آپ ﷺ اسے فرماتے کہ ضَعُوْا ہٰذِہِ الْآیاتِ فِی السُّورَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا۔ ان آیات کو اس سورۃ میں وہاں رکھو جس میں یہ یہ بات ذکر کی گئی ہے۔
۳۔ قراء ت میںسورتوں کی ایسی ترتیب کہ مصحف میں ہر سورۃ اپنے مقام پر ہو۔ غالب اجتہاد یہی ہے ۔ بعض علماء کی رائے یہ بھی ہے کہ قراء ت یا کتابت میں یہ ترتیب واجب نہیں۔ ان کا استدلال سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ کی ( صحیح مسلم: ۷۷۲)روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔ آپ ﷺ نے سورۃ البقرۃ تلاوت فرمائی ، پھر سورۃ النساء، اور پھر آل عمران۔ نیز امام بخاریؒ احنف سے تعلیقاً بیان فرماتے ہیں:
انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ کہف پڑھی، اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس اور پھر بیان کیا کہ انہوں نے سیدنا عمر ؓبن خطا ب کے ساتھ انہی دو سورتوں کے ساتھ نماز فجر پڑھی تھی۔( باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں: ایک سورۃ کو دوسری سورۃ کے آگے پیچھے پڑھا جا سکتا ہے اور کتابت بھی کی جاسکتی ہے۔ اسی لئے تو صحابہ رسول کے مصاحف، کتابت میں ایک دوسرے سے مختلف تھے مگر جب انہوں نے خلافت عثمانی میں ایک ہی مصحف پر اتفاق کرلیا تو یہ خلفاء راشدین کی سنت قرار پائی اور حدیث رسول میں ہے کہ(جب سنت رسول نہ ہو تو) ان کی سنت کی اتباع واجب ہے۔
توقیفی ترتیب میں مکی ومدنی سورتیں باہم جڑکر سات گروپ میں منقسم ہوگئی ہیں۔ بعض علماء کے ہاں یہی سبع من المثانی کا مفہوم ہے ان میں ہر گروپ مکی دور سے شروع ہو کر مدنی دور پر اختتام پذیر ہوتا ہے اس طرح کار رسالت کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔ جس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروپ میں سورتوں کی ترتیب نزولی ہے یعنی ہر گروپ کے اندر سورتیں اسی ترتیب سے رکھی گئی ہیں جس ترتیب سے وہ نازل ہوئی تھیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
علوم قرآن

علوم قرآن
تعریف علوم قرآن : قرآن مجید میں واقع مختلف مباحث، مثلاً:نزول قرآن، وحی کا بیان، جمع اور تدوین، محکم ومتشابہ آیات، مکی و مدنی سورتیں، اسباب نزول، قرآن کے الفاظ کی تفسیروترجمہ، ان کی اغراض و خصوصیات ،وغیرہ سے متعلق تفصیلی گفتگو کو’’علوم القرآن‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا مقصد قرآن مجید میں بیان کردہ ایمانیات، عقائد اور اعمال کی تمام جزئیات، کلیات اور عقائد کو واضح کرنا اور سمجھنا ہے۔
امام زرکشیؒ نے اپنی معروف کتاب البرھان میں علوم القرآن کے تینتالیس موضوعات شمار کرکے ان پر تفصیلی گفتگو چار ضخیم اجزاء میں کردی ہے۔علامہ جلال الدین عبد الرحمن سیوطیؒ نے ان کی تعداد اسی (۸۰)شمار کی ہے اور ان پر تفصیلی گفتگو کی ہے جبکہکلام اللہ میں اور بھی بے شمار علوم ہیں جن کی تعداد تین سو سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ان علوم میں سے چند کے نام یہ ہیں:
۱۔ علم تجوید
۲۔ علم محکم ومتشابہ
۳۔ علم قراء ت
۴۔ علم أسباب نزول
۵۔ علم رسم قرآنی
۶۔ علم إعجاز قرآن
۷۔ علم إعراب قرآن
۸۔ علم ناسخ ومنسوخ
۹۔ علم مکی ومدنی
۱۰۔ علم غریب قرآن
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
فوائد علوم قرآن

فوائد علوم قرآن: علوم القرآن کے بے شمار فوائد ہیں۔ مثلاً:
رسم قرآن کا علم بتاتا ہے کہ قرآن کی تحریر بتدریج اپنے کمال تک کن کن مراحل سے ہوکر پہنچی۔اس کی تشکیل کب او رکیسے ہوئی؟ اسی طرح احزاب، منازل ، اجزاء اور ہر سورۃ کے نام وغیرہ کب ، کیوں او رکیسے متعین ہوئے ۔ مصحف قرآنی کے مختلف خطوط کا تعین اور پھر کتابت جیسی دلچسپ باتیں یہی علم کرتا ہے۔
علم تجوید ، قرآن کریم کے طالب علم کو حروف کے صحیح مخارج ونطق کی معرفت دیتاہے۔ اس کی مشق تلاوت قرآن یا سماع قرآن کی لذت کو دوبالا کردیتی ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ تجوید کے بغیرقرآن کی تلاوت غیر مؤثر رہتی ہے۔
علم قرأت پر دسترس اسی تلاوت کا خوگر بناتی ہے جوہادی برحق نے ترتیل سے کی تھی۔اور جس کے مختلف طرز ادا تھے۔
اسبابِ نزول آیات و سور کے پس منظر سے آگاہ کرتا اور ان کی تشریح و توضیح میں بھرپور معاونت کرتا ہے۔
ناسخ و منسوخ کا علم، قرآنی آیات میںبیان کردہ مخصوص حکم کی پہلی او رآخری نزولی ترتیب کا تعین کرتا ہے۔ وہ ذات اپنی حکیمانہ تدبیر سے جو حکم چاہے ، ابتداء ً نازل کر دے اور بعد میں اس حکم کو اٹھالے اور اس کی جگہ زیادہ بہتر حکم نازل کر دے یا ویسا ہی حکم لاکر ہمارے ایمان کا امتحان لے۔عقل انسانی کو شاہد بناتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی آیات و الفاظ میں سے جتنا چاہے باقی رکھے اور جو چاہے محو کر دے۔
مکی و مدنی آیات وسور کے علم سے اس تقسیم کی حکمتیں اور فوائد ظاہر ہوتے ہیں، قرآن مجید کیوں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا؟ عقائد اوراحکام کے نزول میں تدریجی پہلو کیوں پیش نظر رکھے گئے؟ یہ علم روایات مختلفہ کو چھانٹنے اور ان کے بارے میں بہتر فیصلہ کرنے میں بڑا ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ خاص طور پر دعوت اسلامی کے مراحل کو سمجھنے میں، تاکہ ہر علاقے او رہر زمانے میں دعوت دین کے دوران داعی حضرات کو ان سے استفادہ کا موقع ملے۔یہ علم سیرت نبوی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔نیز آیات اور الفاظ کے معنی و مفہوم میںامکانی تحریف کو یہی علم ہی کھنگالتا ہے۔
قرآن فہمی کے لئے عربی زبان کا علم بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔وہ عربی زبان جو قرآن فہمی میں مدد دے۔ اس کی مددگار قرآن مجید واحادیث کی لغات، گرامرصرف ونحو اور احادیث نبویہ ہیں ۔
تفسیر قرآن کے لئے یہ علوم کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ علوم طالب ِ علم کو قرآن کے افہام وتفہیم میںاعتماد دیتے اور درست منہج عطا کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان سے عملًا مستفید ہوتا ہے بلکہ تعلیم وتعلّم کا جذبہ بھی بیدار کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ میری ہمت وقوت میں اضافہ کا سبب نہ صرف یہ پاک کلام ہے بلکہ فہم وعقل کو جلا بخشنے والی یہ مقدس کتاب ہے۔ اسی معنی میں قرآن کو آسان کتاب کہا گیا ہے۔ طالب علم کو یہی علوم ، قرآن پر کئے گئے اعتراضات، تحریفات اور شبہات کا مدلل جواب دینے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے اسرار و رموز، عقائد و احکام کا علم اور ان کی حکمتیں انہی علوم کی مرہون منت ہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ماشاء اللہ۔ بڑا علمی مضمون ہے
میرے خیال میں اسے میں نے ابو ہشام کی کتاب میں پڑھا ہو گا۔
 
Top